«اِنّى ما خَرَجتُ اَشراً و لا بَطراً و لا مُفسداً و لا ظالماً، اِنّما خرجتُ لِطلَبِ الاِصلاح فى اُمَّهِ جدّى، اُريدُ اَن آمُرَ بالمعروفِ و اَنهى عن المنكر و اُسير بسيرهِ جدّى و اَبى علىّ بن اَبيطالب »؛میں سرکشی اور مقام طلبی کی خاطر یا ظلم و فساد پھیلانے کی خاطر نہیں چلا ہوں بلکہ میرا مقصد صرف نانا کی امت کی اصلاح کرنا، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور بابا کی سیرت پر عمل پیرا ہونا ہے۔
بقلم: افتخار علی جعفری
کربلا ایک ایسی عظیم درسگاہ ہے جس نے بشریت کو زندگی کے ہر گوشہ میں درس انسانیت دیا ہے اور ہر صاحب فکر کو اپنی عظمت کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا ہے۔ روز عاشورکی تعلیمات ہر انسان کے لیے ابدی زندگی کا سرمایا ہیں کہ جن میں سے چند ایک کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:
۱: حریت اور آزادی
تحریک کربلاکا سب سے اہم درس آزادی، حریت اور ظلم و استبداد کے آگے نہ جھکنا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: موت فی عز خیر من حیاۃ فی ذل۔ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔ اور ظالم کی بیعت قبول نہ کرتے ہوئے فرمایا: لا و اللہ ، لا اعطیھم یدی اعطاہ الذلیل و لا اقر اقرار العبید۔خدا کی قسم، اپنا ہاتھ ذلت کے ہاتھوں میں نہیں دوں گا اور غلاموں کی طرح تمہارے آگے نہیں جھکوں گا۔
اسی طرح کربلا میں جب آپ(ع) کو جنگ اور بیعت کے درمیان محصورکر دیا تو آپ نے فرمایا: الا و انّ الدعی بن الدعی قد رکزنی بین اثنین ،بین السلۃ و الذ لۃ، ھیھات منا الذلۃ۔۔۔ ناپاک کے بیٹے ناپاک نے مجھے دوچیزوں کے درمیان ،شمشیر اور ذلت کے درمیان مجبورکر دیا ہے تو یاد رکھنا ذلت ہم سے کوسوں دور ہے۔
نہضت عاشورا نے تمام مظلومان عالم کو مقاومت اور ظالموں کا مقابلہ کرنے والوں کو ثابت قدمی کا درس دیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے مصلح اعظم جناب گاندھی جی یہ تاریخی جملہ کہنے پر مجبور ہو گئے: میں ہندوستان کے لوگوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں لے کر آیا۔ میں صرف اس نتیجہ کو جومیں نے کربلا کے بہادروں کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد اخذ کیا ہے تمہارے لیے تحفہ کے طور پر لایا ہوں ۔ اگر تم لوگ ہندوستان کو ظلم سے نجات دلاتا چاہتے ہوتو حسین بن علی علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرو۔
۲: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
تاریخ عاشورا میں یزید کی حکومت سب سے بڑا منکر اور برائی ہے اور حق و صداقت کو حاکم بنانے کے لیے اور ظلم کی بیخ کنی کرنے کے لیے جنگ کرنا سب سے بڑا معروف اور نیکی ہے۔ لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واقعہ کربلا کا سب سے اہم فلسفہ ہے۔ حضرت سید الشہداء (ع) اپنے وصیت نامہ میں جو اپنے بھائی محمد حنفیہ کو لکھتے ہیں یہ بیان کرتے ہیں: «اِنّى ما خَرَجتُ اَشراً و لا بَطراً و لا مُفسداً و لا ظالماً، اِنّما خرجتُ لِطلَبِ الاِصلاح فى اُمَّهِ جدّى، اُريدُ اَن آمُرَ بالمعروفِ و اَنهى عن المنكر و اُسير بسيرهِ جدّى و اَبى علىّ بن اَبيطالب »؛میں سرکشی اور مقام طلبی کی خاطر یا ظلم و فساد پھیلانے کی خاطر نہیں چلا ہوں بلکہ میرا مقصد صرف نانا کی امت کی اصلاح کرنا، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور بابا کی سیرت پر عمل پیرا ہونا ہے۔
امام(ع) کے یہ کلمات امام(ع) کی تحریک میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کےضروری ہونے کو روز روشن کی طرح واضح کرتے ہیں۔ امام کے زیارت نامہ میں بھی یہ موضوع بیان ہوا ہے: اشھد انک قد اقمت الصلاۃ و آتیت الزکاۃ و امرت بالمعروف و نہیت عن المنکر و جاھدت فی سبیل اللہ حتی اتاک الیقین۔
زیارت کے یہ کلمات اس فریضہ الہی کی گہرائی کو میدان جہاد میں جلوہ نما کرتے ہیں ۔ امام حسین (ع) نے عصر عاشور اس فریضہ الہی پر عمل کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ انسانی سماج قائم کرنے کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا ،واجبات کی تلقین اور محرمات سے روکنا، حتی عدل و انصاف کی خاطر قیام کرنا اور ظلم و استبداد کو سرنگوں کرنا کرہ ارض کے ہر خطہ میں بسنے والے ہر انسان پر ضروری ہے ۔سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت کا انکار کر کے ولید اور مروان کو منہ توڑ جواب دے دیا اور اس کے بعد نانا رسول خدا(ص) کی قبر پر تشریف لے گئے۔ نانا سے مناجات کرنا شروع کیا۔ اور اپنی مناجات میں معرو ف اور نیکی سے محبت کا اظہار کیا۔ اور خدا سے اس سلسلے میں طلب خیر کرتے ہوئے فرمایا: خدایا میں نیکیوں کو دوست رکھتا ہوں اور منکرات سے متنفر ہوں اے خداۓ عز و جل میں تجھے اس قبر اور صاحب قبر کا واسطہ دیتا ہوں کہ میرے لیے اس راستہ کا انتخاب کر جس میں تیری رضا ہو۔
۳: وفاداری
وفاۓ عہد، ایمان کی نشانی ہے۔ روایت میں ہے: من دلائل الایمان، الوفاء بالعھد۔ ایمان کی ایک نشانی وعدہ کا وفا کرنا ہے۔
جب ہم واقعہ عاشورا کی طرف دیکھتے ہیں تو ایک طرف وفاداری کے مجسم پیکر نظر آتے ہیں اوردوسری طرف بے وفائی اور عہد شکنی کے بت۔
کوفیوں کا ایک اہم نکتہ ضعف یہی بے وفائی تھی۔چاہے وہ مسلم بن عقیل کے ساتھ بیعت میں بے وفائی ہو چاہے وہ امام حسین (ع) کی طرف خط لکھنے اور دعدہ نصرت کرنے کے بعد بے وفائی ہو۔ اور انہوں نے نہ صرف بے وفائی کا ثبوت دیتے ہوئے امام کی مدد نہیں کی بلکہ برعکس دشمنوں کی صفوں میں آکر امام کے ساتھ معرکہ آرا ہو گئے۔ امام نے جو جناب حر کے ساتھ گفتگو کی اس میں بیان کیا: اگر تم نے میرے ساتھ وعدہ کو وفا نہیں کیا اور عہد شکنی کی، یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے اس لیے کہ تم لوگوں نے میرے باپ علی (ع)، میرے بھائی حسن(ع) اور میرے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کے ساتھ بھی یہی کیا ہے۔
ایک طرف بے وفائی کی انتہاء تھی اور دوسری طرف امام حسین (ع) وفاداری کا مکمل نمونہ ہیں اور نہ صرف امام حسین (ع) بلکہ ان کے بہتر(۷۲) جانثار بھی وفاداری کی آخری منزل پر فائز ہیں۔ جب شب عاشور امام حسین (ع) انہیں ان کے قتل ہو جانے کی خبر دے رہے ہیں تونہ صرف انہوں نے سر نہیں جھکائے اور ان پر خوف نہیں طاری ہوا بلکہ حیرت کن الفاظ میں امام کے قدموں میں اپنی جانیں قربان کرنے کی آمادگی کا اظہار کیا حالا نکہ امام (ع) نے اپنی بیعت کو ان کے کاندھوں سے اٹھا لیا تھا۔ آخر کار امام کو یہ کہنا پڑا: میں اپنے اصحاب سے زیادہ وفادار اصحاب کو نہیں جانتا۔
حضرت ابوالفضل العباس(ع) اور ان کے بھائیوں کو دشمن نے امان دی لیکن انہوں نے اس کی امان کو قبول نہیں کیا اور ایسا کردار پیش کیا کہ وفاداری کی مثال بن گئے۔ تاریخ بشریت میں عباس جیسا باوفا انسان نظر نہیں آ سکتا۔ وہ عباس(ع) جس کا دوسرا نام ہی وفا ہو گیا ۔ جناب عباس(ع) کے زیارت نامہ میں وارد ہوا ہے: «أشهدُ لکَ بِالتسليمِ و التّصديقِ و الوفاءِ و النَّصيحهِ لِخَلَفِ النّبيِّ»؛ یہ گواہی ہے عباس کی بھائی کے سامنے اطاعت ،تسلیم، تصدیق اور وفاداری پر۔
عاشورا کے پیغامات میں سے ایک پیغام ، پیغام وفا ہے جو کبھی بھی دنیا کے وفا دار اور وفا دوست افراد کے ذہنوں سے محو نہیں ہو سکتا۔
۴: رضا اور تسلیم
عرفان کے بلند ترین مراتب میں سے ایک مرتبہ رضا کا ہے۔ رضا ، خدا کی نسبت انتہائی محبت اور عشق کی علامت بھی ہے اور کمال اخلاص اور استحکام ارادہ و عمل کی دلیل بھی ہے۔
اہلبیت علیھم السلام نے بر بنائے رضا ہر بلا اور مصیبت کو خندہ پیشانی سے تحمل کر لیا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر گز شجرۂ دین استوار اور پر ثمر نہ ہو پاتا۔
واقعہ کربلا رضا اور تسلیم کا کامل نمونہ ہے۔ امام حسین (ع) کوفہ کے راستے میں فرزدق سے ملاقات کرنے کےبعد فرماتے ہیں: میں قضاۓ الٰہی کو دوست رکھتا ہوں خدا کا اس کی نعمات پر شکریہ ادا کرتا ہوں اور اگر قضائے الٰہی نے ہمارے درمیان اور ہماری امید کے درمیان فاصلہ ڈال دیا تب بھی ہم رضائے الٰہی کو مقدم رکھیں گے۔
اسی طریقے سے امام اپنے ان اشعار میں جو اس سفر کے دوران رنج و مصائب کی بنا پر ان کی زبان پر جاری ہوئے فرماتے ہیں: رضا اللہ رضا اھل البیت۔ یعنی جو اللہ کی رضا ہے وہی اہم اہلبیت کی رضا ہے۔
آپ نے زندگی کے آخری لمحوں میں پیشانی کو تپتی ہوئی ریت پر رکھ کر قضائے الٰہی پر رضا اور تسلیم کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا: «إلهي رضاً بِقضائکَ تَسليماً لِأمرِکَ لا معبودَ سِواک يا غياثَ المُستغيثينَ ۔
البتہ یہ یاد رہے کہ صبر و رضا کا دعویٰ کر لینا تو بہت آسان ہے اپنے آپ کو صابر اور تسلیم حق کہہ دینا تو بہت آسان ہے لیکن حسین بن علی (ع) کی طرح ثبوت پیش کرنا اور تسلیم و رضا کے درجۂ کمال کو پا لینا صرف حسین (ع) کا کام ہے۔
۵: اخلاص
اخلاص مکتب عاشورا کا ایک آشکارجلوہ اور گراں قیمت گوہر ہے۔
تحریک عاشورا کی بقا کاایک اہم ترین راز یہ گوہر اخلاص ہے اور خدا نے وعدہ کیا ہے کہ مخلصین کے عمل کو ضائع نہیں کرے گا۔ اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر کامل عطا کرے گا۔
تاریخ بشری اور تاریخ اسلام میں جنگ اور جہاد کے بہت سے واقعات پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان میں سے بعض واقعات تاریخ کے صفحوں میں جاویدانی زندگی اختیار کر لیتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں مٹا نہیں سکتی یہ وہ واقعات ہیں جو اخلاص اور للٰہیت کے سمندر میں غوطہ ور ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن کریم صبغۃ اللہ یعنی رنگ خدائی سے یاد کرتاہے۔ واقعہ عاشورا اس لازوال رنگ الٰہی میں رنگین ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے اپنی ان تقاریر میں جو انہوں نے مدینہ سے نکلنے سے پہلے فرمائیں، ہرطرح کی دنیا طلبی اور حکومت خواہی کو محکوم کیا اور اپنے سفر کے خالص ارادہ کو کہ جو وہی دین اور سماج کی اصلاح ہے بیان کیا: خدایا تو جانتا ہے کہ جو کچھ میں انجام دے رہا ہوں ہر گز دنیوی حکومت اور دنیوی مال ومنال کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ میں چاہتا ہوں کہ دین اسلام کی تعلیمات سے باخبر کروں اور خدا کی نشانیوں کو دکھلاؤں اورسماج کی اصلاح کروں تاکہ مظلوم امن و آمان سے رہیں اور تیرا حکم اور تیری سنت اجرا ہو۔
یہی الٰہی تصمیم تھا جس کی وجہ سے کوئی چیز امام اور ان کے اصحاب کو اس مقصد سے روک نہ سکا۔ اس خالصانہ نہضت اور تحریک میں جو ناخالص افراد تھے دھیرے دھیرے راہ کربلا میں امام سے جدا ہو گئے۔ یہاں تک کہ عاشورا میں وہی افراد باقی تھے جو مجسمہ اخلاص تھے۔ خلوص ایسی چیز ہے جسے صرف خدا ہی پرکھ سکتا ہے۔ اور خدا کا خالص بندہ صرف خدا کے بارے میں سوچتا ہے اور اپنی جان کو اس کی راہ میں نچھاور کرنے کو آسان اور معمولی بات سمجھتا ہے۔
درس عاشورا یہ ہے کہ ہم اپنے ہر کام میں مقصد اور ہدف کو خالص کریں۔ اور یہ جان لیں کہ خدا کی بارگاہ میں وہی عملی جاودانہ ہے جو رنگ خدائی رکھتاہو اور یہی راز ہے تاریخ بشریت میں کربلا کی بقا کا۔ اس طریقے سے کہ زمانے کے گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں نہ صرف کوئی کمی واقع نہیں ہو پا رہی ہے بلکہ دن بدن اس نہضت اور تحریک کے دامن وسعت میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔
۶: ادب، نجات کا عامل
انسان کی نجات اور عاقبت کے بخیر ہونے کا ایک سبب، ادب ہے روایات میں ہے کہ سب سے بہترین چیز جسے اولاد کو اپنے والدین سے ارث میں لینا چاہیے، ادب ہے۔
تحریک عاشورا میں ادب کے بے نظیر نمونہ پائے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر جب حر کے لشکر کو حکم ملا کہ امام حسین (ع) پر راستہ بند کر دیا جائے امام نے حر کی طرف رخ کیا اور فرمایا: ثکلتک امک ما ترید؟یعنی تمہاری ماں تمہارے غم میں بیٹھے ، تو مجھ سے کیا چاہتا ہے؟۔ حر نے جواب میں کہا : اگر آپ کی ماں دختر پیغمبر (ع)کے علاوہ کوئی اور ہوتی تو میں بھی ایسا ہی جواب دیتا۔ لیکن کیا کروں کہ آپ کی ماں فاطمہ زہراء (ع) ہیں۔
یہ ادب و احترام کہ جو جناب حر نے حضرت زہرا (س) کے مقابلے میں کیا ان کی نجات کا ایک سبب بن گیا۔
اسی طریقے سے حضرت ابوالفضل العباس کا بے مثال ادب و احترام امام حسین (ع) کے سلسلے میں اپنی مثال آپ ہے۔ روز عاشور آپ کی شہادت تک نہیں ملتا ہے کہ حضرت عباس نے امام حسین (ع) کو بھائی کہہ کے آواز دی ہو۔ ہمیشہ امام کو مولا کہہ کے مخاطب کرتے تھے۔ صرف اس وقت امام کو بھائی کہہ کے بلایا جب اپنے دونوں ہاتھوں کو کھو چکے تھے۔ آنکھ میں تیر پیوست تھا اور سر گرز کے وجہ سے شگافتہ ہو چکا تھا۔ جب زین فرس سے زمین پر آ رہے تھے فرمایا:یا اخاک ادرک اخاک۔ اے بھیا، اپنے بھائی کی خبر لیجئے۔
ایک سبب جو تاریخ شہداء میں حضرت عباس کے مقام کو بلند کرتا ہے یہی بے مثال ادب و احترام ہےجو انہوں اپنے زمانے کے امام کے سامنے دکھلایا ہے۔
۷: حجاب اور عفت
عورت کی کرامت اور بزرگی اس کی عفت اور پاکدامنی میں نہفتہ ہے۔ اور حجاب ، عورت کی عفت اور پاکدامنی کو محفوظ رکھنے اور سماج کو اخلاقی برائیوں سے بچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ امام حسین (ع) ، حضرت زینب (س) اور آپ کے خاندان پاک نے کربلا کی تحریک میں اپنے عمل اور اپنی زبان سے حجاب کی رعایت پر بے انتہا تاکید کی۔
شب عاشور کو امام (ع) نے اپنے اہلبیت کے ساتھ گفتگو میں انہیں حجاب اور عفت کی وصیت کی۔
روز عاشور جب امام حسین (ع) نے بچیوں کے رونے کی بلند آواز سنی جناب عباس اور جناب علی اکبر کو بھیجا تاکہ انہیں صبر و تحمل کی تاکید کریں۔
بعض لوگوں کے گمان کے برخلاف، حضرت زینب(س) روز عاشور کو بہت کم خیمہ سے باہر نکلیں تاکہ نامحرموں کی نگاہ ان کے بدن کے حجم پر نہ پڑے۔
منجملہ، جب امام حسین (ع) جناب علی اکبر کے سرہانے پہنچے تو جناب زینب کو یہ لگا کہ کبھی امام اس مصیبت کو تحمل نہ کر پائیں اور اپنی جان دے دیں، لہٰذا خیمہ سے نکل کر بھائی کو سہارا دینے پہنچیں۔
امام سجاد (ع) کربلا کے اسیروں کے قافلہ میں مخدرات عصمت و طہارت کے عفت و حجاب کے محافظ تھے اور کوفہ میں ابن زیاد سے کہا: اگر تمہارے اندر کوئی خوف خدا باقی رہ گیا ہے تو کسی نیک پاکدامن مسلمان کو ان خواتین کے ساتھ مدینہ بھیجو۔
اسی طریقہ سے جب عمر سعد کا اس کاروان کے پاس سے گذر ہوتا تھا تو اہل حرم فریاد بلند کرتے تھے اور اپنی لٹی ہوئی چادریں اس سے طلب کرتے تھے تاکہ ان کے ذریعے اپنے حجاب کے حفاظت کر سکیں۔
یہ تاریخ عاشورا میں عفت اور پاکدامنی کے چند نمونہ تھے لیکن افسوس سے جب ہم اپنے سماج کی طرف نگاہ کرتے ہیں تو جو حجاب اور پردہ ہمیں اپنی خواتین میں نظر آتا ہے وہ کربلا کی خواتین سے کوسوں دور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو درس ہمیں کربلا کی انسانیت ساز تاریخ سے لینا چاہیے اور ان کے ذریعے اپنی زندگی کو سعادتمند بنانا چاہیے نہیں لے پا رہے ہیں۔
امام حسین(ع) کے قیام کا مقصد صحیح زندگی کی راہ دکھلانا ہے اور اگر یہ راہ و روش میدان عمل میں نظر نہ آئے تو کل قیامت کے دن امام حسین (ع) کو کیا جواب دیں گے۔ ذراغور کیجئے۔