امام زمانہ(عج) امام حسین(ع) کے فرزند ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ امام مہدی(عج) امام حسین(ع) کے حقیقی منتقم اور خون خواہ ہیں۔ ظہور کے بعد امام زمانہ(عج) کا سب سے پہلا کلام امام حسین(ع) کی یاد ہے۔
بقلم: میرصادق سیدنژاد۔ ترجمہ وترتیب: زیدی
امام حسین علیہ السلام اور امام زمانہ علیہ السلام دونوں "ثاراللہ" (1) ہیں؛ دونوں "طرید" (2) اور "شرید" (3) اور "وتر الموتور" (4) ہیں۔ (5)
دونوں اماموں کے اہداف مشترکہ ہیں۔ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: جب ہمارا قائم قیام کرے تو وہ باطل کو حتمی طور پر نیست و نابود کریں گے۔ (6)
اور امام حسین(ع) کا ہدف بھی زیارت اربعین میں مذکور ہے: امام حسین(ع) اپنا خون تیری (یعنی اللہ کی) راہ میں قربان کیا تاکہ انسانون کو نادانی اور گمراہی سے نجات دلائیں۔ (7)
6۔ شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، زیارت اربعین۔
ان دونوں کی عصری صورت حال ایک جیسی ہے اور دونوں کا زمانہ فساد اور گناہ و بے دینی اور بدعتوں کی عالمی ترویج کے لحاظ سے ایک جیسا ہے اور دونوں کے اصحاب خاص ایک جیسی معرفت و محبت و اطاعت کے مدارج پر فائز ہیں۔ (8)
عاشورا اور انتظار
عاشورائی تعلیم و تہذیب تہذیبِ انتظار کا سرچشمہ ہے۔ انتظار عاشورا کا تسلسل ہے اور ایک دنیا جتنی وسیع کربلا میں دوسرے حسین(ع) کا چشم براہ ہونا۔
زیارت عاشورا کے دو حصوں میں حضرت مہدی(عج) کے رکاب میں امام حسین(ع) کی خونخواہی اور انتقام کی خبر دی جارہی ہے۔
چنانچہ انتظار در حقیقت، انتقام عاشورا کا انتظار ہے اور حضرت مہدی(عج) کے اصحاب سب عاشورائی ہیں۔ صرف وہ لوگ امام مہدی(عج) کے رکاب میں لڑ کر امام حق کی مدد کرسکتے ہیں جو مکتب عاشورا میں صیقل ہوئے ہوں اور حق و باطل کے معیار کو صحیح طریقے سے پہچان چکے ہوں اور بصیرت کی چوٹیوں تک پہنچے ہوں کیونکہ حسین(ع) خود حق و باطل کا معیار و میزان ہیں اور تولا اور تبرا اور سلم و حرب کا پیمانہ ہیں۔
قیام مہدی(عج) عاشورا کے اہداف کا حصول
امام حسین(ع) قرآن اور سنت نبوی کے احکام اور سنتوں کے احیاء اور بنوامیہ کی حاکمیت کی وجہ سے پھیلنے والی بدعتوں اور دین میں رائج ہونے والی تحریفات کے خاتمے کے لئے اٹھے اور مکہ معظمہ سے کربلائے معلی کی طرف سفر کے دوران راستے میں اپنے قیام کے محرکات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
میں اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت میں اصلاح کے لئے اٹھا ہوں؛ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ اور اپنے والد امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام کی سیرت پر کاربند رہنا اور عمل کرنا چاہتا ہوں۔ (9)
امام حسین(ع) کے کلام کے مجموعے سے تحریک عاشورا کے اعلی و اہداف و اغراض کا بخوبی اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ(ع) قرآن، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور سیرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب(ع) کے احیاء اور انجرافات اور گمراہیوں اور بدعتوں کے ختم، حق کو حاکم بنانے اور حق پرستوں کو حاکمیت بخشنے، ستمگروں کی حکومت کی استبدادیت و آمریت کو نابود کرنے اور سماجی و معاشی شعبوں میں عدل و قسط کے فروغ کے لئے کربلا تشریف فرما ہوئے تھے اور یہی قیام عاشورا کے اہداف و مقاصد تھے۔
دوسری طرف سے جب ہم عالم بشریت کے نجات دہندہ حضرت امام مہدی(عج) کے قیام اور آپ(عج) کی عالمی حکومت کے مطمع نظر کا جائزہ لیتے ہیں وہاں بھی یہی اہداف و مقاصد نظر آتے ہیں اور حتی کہ عبارات اور الفاظ بھی ایک جیسے ہیں۔
امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام حضرت مہدی(عج) کی حکومتی روش کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جب دوسرے ہوائے نفس اور نفسانی خواہشات کو ہدایت پر مقدم رکھیں اور ترجیح دیں، امام مہدی(عج) نفسانی امیال و خواہشات کو ہدایت کی طرف لوٹاتے ہیں اور ایسے حالات میں ـ جب دوسرے اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کرتے ہیں ـ امام مہدی(عج) آراء و عقائد کو قرآن کی طرف لوٹائیں گے۔ وہ لوگوں کو بتا دیں گے کہ کس طرح نیک سیرت اور روش کے ساتھ عدل و قسط کے مطابق عمل کیا جاسکتا ہے اور وہ قرآن سیرت نبوی کو زندہ کریں گے۔ (10)
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
قائم آل محمد(ص) لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور ولایت علی بن ابی طالب علیہما السلام اور ان کے دشمنوں سے بیزاری و برائت کی طرف دعوت دیں گے۔ (11)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
حضرت مہدی(عج) عالمی سطح پر دین میں رائج ہونے والی بدعتوں کا خاتمہ کریں گے اور ان کے بدلے رسول اللہ(ص) کی تمام سنتوں کو یکے بعد دیگرے رائج و نافذ کریں گے۔ (12)
حضرت مہدی(عج) امام حسین(ع) کے خون کے منتقم:
امام مہدی(عج) کے القاب میں سے ایک "منتقم" ہے۔ امام(عج) کے لئے اس لقب کے انتخاب کے لئے اہل بیت(ع) کی روایات میں متعدد اسباب بیان ہوئے ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ اللہ کے آخری ولی اور حجت کو قائم کیوں کہا جاتا ہے؟
امام(ع) نے فرمایا:
کیونکہ جب دشمنوں نے میرے جد امجد امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا تو فرشتے مغموم ہوئے اور روتے اور آہ و نالہ کرتے ہوئے بارگاہ الہی میں عرض کیا: خداوندا! پروردگارا! کیا تو ان لوگوں سے درگذر کرے گا جنہوں نے تیرے برگزیدہ بندے اور تیرے برگزیدہ بندے کے فرزند کو بزدلانہ طریقے سے قتل کیا؟
تو خداوند متعال نے فرشوں کے جواب میں ارشاد فرمایا: اے میرے فرشتو! میری عزت و جلال کی قسم! میں ان سے انتقام لونگا گوکہ اس میں کافی طویل عرصہ لگے گا۔
اس کے بعد خداوند متعال نے امام حسین علیہ السلام کے فرزندوں کا سایہ دکھا دیا اور پھر ان میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا جو حالت قیام میں تھے اور فرمایا: میں اس قائم کے ذریعے امام حسین(ع) کے دشمنوں سے انتقام لونگا۔ (13)
آیت کریمہ "وَمَنْ قُتِلَ مظلوماً فقد جَعَلْنا لِوَلیّه سلطاناً..."۔ (14) (اور جو مظلومیت کے ساتھ قتل ہو، ہم نے اس کے وارث کو تسلط عطا کیا ہے) کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"اس آیت میں مظلوم سے مراد امام حسین علیہ السلام ہیں جو مظلومیت کے ساتھ قتل کئے گئے اور "جَعَلنا لِوَلیِّه سلطاناً" سے مراد حضرت امام مہدی(عج) ہیں۔ (15)
امام محمد باقر علیہ السلام بھی فرماتے ہیں:
"ہم امام حسین علیہ السلام کے خون کے وارث ہیں۔ جب ہمارے قائم قیام کریں گے، خون امام حسین(ع) کا معاملہ اٹھائیں گے"۔
نتیجہ:
اہداف کے مشترک ہونے کے علاوہ، امام مہدی(عج) کے قیام کے بعد عالمی حکومت کے قیام کے زمانے میں وہ تمام تر اہداف و مقاصد جامہ عمل پہنیں گے جو امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں بیان کئے تھے اور تحریک عاشورا بار آور ہوجائے گی اور تحریک حسینی اور ظہور مہدی(عج) کی برکت سے پوری دنیا میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا۔ اور آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ تک، تمام انبیاء علیہم السلام کے اہداف حاصل ہوجائیں گے اور آدم کے فرزند صلح و امن و سلامتی اور سعادت کا مزہ چکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ "ثار" کی جڑ "ثَأر" اور "ثُؤرة" بمعنی انتقام و خونخواہی نیز بمعنی خون آیا ہے۔ الطريحى، مجمع البحرين، ج 1، ص 237، فرہنگ محمد معين، ج 1، ص 1185، مفردات راغب اصفہانی، ص 81. "ثار اللہ" کے لئے کے لئے مختلف معانی ذکر کئے گئے ہیں اور ہر ایک اپنی جگہ تفسیر طلب ہے۔ مجموعی طور پر اس کے معنی یہ ہیں کہ: خداوند متعال امیر المؤمنین اور امام حسین علیہما السلام ـ جن کو ثار اللہ کہا گیا ہے زیارات میں پڑھتے ہیں "السلام علیک یا ثار اللہ وابن ثارہ" ـ کے خون کا ولی و وارث خود خدا ہے اور خدا خود ہی ان کے خون کا بدلہ ان کے قاتلوں سے لے گا۔ کیونکہ ان دو بزرگواروں کا خون بہا کر دشمنان دین اس مقدمے میں خدا کے سامنے مدعا علیہ کے طور پر فریق بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہ حریم الہی کے خلاف جارحیت و تجاوز کے مرتکب ہوئے ہیں۔
2۔ طريد، بمعنی خانہ و کاشانہ چھوڑنے پر مجبور کیا جانے والا اور برکنار کیا جانے والا۔
3۔ شريد طرید کی مانند ہے اور اس کے معنی بےوطن ہونے والا اور وطن کو چھوڑنے پر مجبور کیا جانے والا۔
4۔ وتر الموتور: 1۔ وہ فرد جو خود بھی جرم کا نشانہ بنے اور اس کے اہل خاندان پر بھی ظلم کیا جائے۔ 2۔ وہ انسان جس کو اس کے اہل خاندان کے ساتھ قتل کیا گیا ہو۔ 3۔ وہ اکیلا فرد جس کے خاندان کے افراد کو قتل کیا گیا ہو۔ 4۔ وہ تنہا انسان جس کو اہل خاندان کے ہمراہ قتل کیا گیا ہو اور اس کا انتقام نہ لیا گیا ہو۔ 5۔ یگانۂ دوران یعنی وہ جو انسانی کمالات میں بے مثل و منفرد ہو۔ ان تفسیروں اور تشریحات کی تفصی ل کے لئے کتاب "بر رسی و تحلیلی پیرامون زیارت عاشورا"، ص 82 کے بعد، سے رجوع کیا جائے۔ کتاب کے مؤلف مجید حیدری فر ہیں۔ نیز کتاب ابوالفضل تہرانی کی کتاب "مدرسه عشق" ص 137 سے رجوع کریں۔ نیز کتاب "پاسخ به پرسش های دانشجویی"، "مبحث قیام امام حسین (ع)"، سے نیز کتاب "شفاء الصدور ص 162" سے رجوع کریں۔
5۔ ابن بابویه، کمال الدین،ج1 ص318۔
6۔ کلینی، اصول کافی، ج8، ص278۔
7۔ مجلسی، بحار الانوار، ج52، ص308و 386۔
8۔ بحارالانوار، ج45، ص6۔
9۔ بحارالانوار، ج51، ص130۔
10۔ الزام الناصب، ص177۔
11۔ ینابیع الموّدة، ج3، ص62۔
12۔ دلائل الامامة، ص239۔
13۔ سورہ اسراء آیت 33۔
14۔ البرهان فى تفسیر القرآن، ج4، ص559۔
15۔ وہی ماخذ ج 4 ص 560۔