اردو
Wednesday 3rd of July 2024
0
نفر 0

حدیث "لا نورث، ما ترکناہ صدقۃ" کا افسانہ ـ 3

سیدہ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں تم پر ہر نماز میں جو میں ادا کرتی ہوں، نفرین کروں گی / ابن قتیبہ: خلیفہ سیدہ (س) کے گھر سے نکلے تو کہنے لگے: اے لوگو! تم سب راتوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ اپنی خوشیوں میں مصروف ہو اور مجھے اس مصیبت سے دوچار کرچکے ہو؛ مجھے تمہاری بیعت نہیں چاہئے؛ آؤ اپنی بیعت واپس لو اور مجھے مقام خلافت سے معزول کرو...

بقلم: ف۔ح۔مہدوی

حدیث "لا نورث، ما ترکناہ صدقۃ" کا افسانہ ـ 3

حدیث "لا نورث، ما ترکناہ صدقۃ" کا افسانہ ـ 2

اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ حدیث انتی ہی تھی کہ "لا نورث ما ترکنا صدقةً" يا "لا نورث ما ترکناه صدقةً" اور "نحن معاشر الانبياء" والا حصہ بعد میں اس میں ضمیمہ کیا گیا ہے اور اس موضوع کا گذشتہ انبیاء سے کوئی تعلق نہيں تھا۔ یقیناً ہمارے قارئین بھی ہماری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ "صدقہ ارث اور ترکے کی حیثیت سے وارثین کے لئے نہیں چھوڑا جاسکتا" اور یہ معنی امر عام ہے جو صدقے کی کسی خاص قسم میں منحصر نہيں ہے بلکہ صدقات کے تمام اقسام اس میں شامل ہیں... (54)

حدیث کے متن میں غرابت

ابوبکر الجوہری نے اپنی کتاب "السقیفہ" میں ان موضوعات پر بحث کی ہے جن کا تعلق سقیفہ سے ہو یا ان امور کے بارے میں جو سقیفہ کے بعد اہل اسلام کے دامنگیر ہوا۔ وہ اس حدیث کے بارے میں صراحت سے کہتے ہیں کہ اس کے متن میں غرابت ہے اور بلاغت کے قواعد سے سازگار نہيں ہے۔ (55)

اب ثابت ہوچکا ہے کہ یہ حدیث صرف اور صرف خلیفہ اول سے نقل ہوئی ہے اور اس کا کوئی دوسرا راوی نہیں ہے بلکہ دوسرے راویوں نے بھی خلیفہ اول سے نقل کی ہے اور اہل سنت کے علماء اور فقہاء نے بھی اس حدیث کو قابل استناد نہيں سمجھا ہے اور سب اعتراف کرتے ہیں کہ یہ حدیث قرآنی نصوص سے متصادم ہے۔

دو معصومین یعنی حضرت علی اور حضرت زہراء سلام اللہ علیہما نے ابوبکر سے فدک نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ترکے کا مطالبہ کیا اور یوں اس حدیث کا اعتبار ابتدائی مرحلے میں ہی ختم ہوکر رہ گیا۔

خلیفہ اول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتی اشیاء علی علیہ السلام کے حوالے کردیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجات یعنی امہات المؤمنین سے رسول اللہ (ص) کی املاک خالی کرنے کی درخواست نہیں کی اور خود ام المؤمنین عائشہ کے گھر میں ـ جو رسول اللہ (ص) کا ترکہ تھا اور خود بھی اس کو رسول اللہ (ص) کا ترکہ سمجھ رہے تھے ـ دفن ہوئے؛ چنانچہ وہ خود تین اہم مقامات پر خود خود اس حدیث میں استثنی کے قائل ہوئے چنانچہ اس حدیث کی حیثیت جاتی رہی۔

اس حدیث میں ادبی اور نحوی لحاظ سے سقم ہے اور اس کا تعلق انبیاء علیہم السلام کے ترکے سے نہيں بنتا بلکہ اگر اس کو صحیح سمجھا جائے تو صدقات کو ارث سے مستثنی کرے گی۔

خلیفہ ثانی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ترکے کا کچھ حصہ امیرالمؤمنین (ع) اور آپ کے چچا عباس کو دے دیا؛ اور یوں حدیث مزید متنازعہ بن گئی۔

عمر بن عبدالعزیز نے تخت حکومت سنبھالتے ہی ظلم و جبر کے ذریعے چھینے گئے امول و املاک واپس کرنے کا اعلان کیا اور فدک اولاد فاطمہ سلام اللہ علیہا کے حوالے کیا اور کہا کہ یہ ان کے پاس تھا اور ان سے چھینا گیا تھا اور اب میں اسے اس کے اصل مالکوں کو واپس کررہا ہوں اور انھوں نے کہا کہ سیدہ (س) نے فدک کی ملکیت کا دعوی دائر کیا تھا اور آپ (ص) رسول اللہ (ص) پر جھوٹ نہيں باندھ سکتیں چنانچہ آپ (س) اپنے دعوی میں حق بجانب تھیں۔

فدک کئی بار اولاد فاطمہ کو لوٹایا گیا اور تاریخ کے تمام مراحل میں متنازعہ رہا لیکن فدک اہل بیت کو لوٹائے جانے کے مخالفین تک نے اس حدیث سے استناد نہيں کیا کیونکہ اسلامی کی پہلی صدیوں میں ہی اس حدیث کی متنازعہ حیثیت عیاں ہوچکی تھی اور کوئی بھی ایسا نہ تھا جو اس کو حدیث نبوی کی حیثیت سے تسلیم کرتا۔

غالب خیال یہ ہے کہ جب خلیفہ اول نے فدک کو ارث قرار دیا اور اور پھر رسول اللہ (ص) کے ارث کو صدقہ قرار دلوانے کے لئے یہ عبارت کہہ سنائی کہ "انا لانورث ..." تو چونکہ اس سے مسلمانوں کے اموال کے بارے میں فیصلہ مشکل ہونے لگا تھا چنانچہ اس کے آغاز میں "انا معاشر الانبیاء" کا اضافہ کیا گیا تاکہ نفی ارث کا مسئلہ انبیاء تک محدود ہوجائے جبکہ قرآن کی آیات اس جملے کو رد کررہی تھیں اور مسلمانوں سے ارث کی نفی کا حکم بھی قرآن کی صریح آیات سے متصادم تھا۔

چنانچہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث بھی افسانۂ غرانیق اور گستاخان رسول (ص) کی تحریروں کا سرچشمہ بننے والے دوسرے افسانوں کی مانند ایک افسانہ تھی جو غصب فدک کی توجیہ اور اہل بیت رسول (ص) کی اقتصادی قوت چھیننے کے لئے گڑھ لی گئی تھی اور اس حدیث پر اعتماد اس ظلم و ستم کا تسلسل ہے جو رسول اللہ (ص) کی اکلوتی وارث پر روا رکھا گیا اور پروردگار کے حکم کی پامالی کا تسلسل ہے جو ارشاد فرماتا ہے:

قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَیهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَى(56)

ترجمہ: کہئے کہ میں تم سے اس (رسالت و نبوت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوا صاحبان قرابت (اہل بیت علیہم السلام) کی محبت کے۔

فدک کے نکتے:

غصب فدک کی وجہ کیا تھی؟

مذکورہ بالا سطور میں اس سوال کا جواب بھی ضمنی طور پر دیا گیا لیکن اہل سنت کے بڑے عالم ابن ابی الحدید المعتزلی نے اس کا جواب بہت خوبصورت انداز میں ایک بغدادی استاد سے نقل کرکے بیان کیا ہے جو بظاہر طنزیہ لب و لہجے میں ہے لیکن اس کے ضمن میں حقیقت کو بڑے واضح اور خوبصورت انداز سے بیان گیا ہے؛ لکھتے ہيں:

میں نے بغداد کے مغربی مدرسے کے مدرس "علی بن الفارقی" سے پوچھا:

کیا (فدک کے سلسلے میں) فاطمہ (س) سچ بول رہی تھیں؟

مدرس نے کہا: جی ہاں! وہ سچ بول رہی تھیں۔

میں نے کہا: اگر وہ سچ بول رہی تھیں تو ان لوگوں نے فدک ان کو لوٹایا کیوں نہيں؟

مدرس نے مسکرا کر جواب دیا: اگر اس روز وہ فدک سیدہ (س) کو لوٹاتے تو دوسرے روز وہ آکر اپنے شریک حیات کا حق خلافت بھی مانگتیں اور ایسی صورت میں خلیفہ اول ان کی بات کا انکار نہیں کرسکتے تھے کیونکہ وہ فدک لوٹا کر اس بات کی تصریق کرچکے ہوتے کہ "دختر رسول (ص) جو بھی کہتی ہیں سچ کہتی ہیں۔ (57)

اب ثابت ہوچکا ہے کہ یہ ابتدائی مظالم میں سے دوسرا ظلم تھا جو سقیفہ کے بعد تاریخ کے ماتھے پر ثبت ہوا اور پہلا یا دوسرا اقدام تھا جس میں سورہ شوری کی آیت 23 کے مضمون و متن کو پامال کیا گیا۔ اور ثابت ہوا کہ صحبت پر فخر کرنے والوں نے کتنی جلد یعنی رسول اللہ (ص) کے وصال کے چند ہی دنوں میں، صحبت رسول اللہ (ص) کے دعؤوں کی حقیقت واضح کردی۔

سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دشمنی کا اظہار تھا جو آپ (ص) کی حیات طیبہ کے دوران ناممکن تھا؟ کیا اہل بیت (ص) سے رسول اللہ (ص) کی بت شکنی کا بدلہ لیا جارہا تھا؟

میری بیٹی آپ غضبناک ہوں تو اللہ بھی غضبناک ہوجاتا ہے

قال رسول الله صلي الله عليه و آله و سلم لفاطمة (س): "إن اللّه يغضب لغضبك و یرضى لرضاك" (58)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فاطمہ (س) سے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے اور آپ کی خوشنودی پر خوشنود ہوتا ہے۔

خلیفہ نے سیدہ کو غضبناک کیا:

بخاری کی روایت:

فلقد روی البخاري بسنده عن ابن شهاب عن عروة عن عائشة إن فاطمة بنت النبي (صلی الله عليه و آله و سلم ) ارسلت الی ابي بكر تسأله ميراثها من رسول الله (صلی الله عليه و آله و سلم ) مما افاءالله عليه بالمدينة و فدك و مابقي من خمس خيبر فقال ابوبكر: ان رسول الله (صلی الله عليه و آله و سلم ) قال: لا نورث ما تركناه صدقة، انما يأكل آل محمد في هذا المال و اني والله لا اغير شيئا من صدقة رسول الله (صلی الله عليه و آله و سلم ) عن حالها التي كان عليها في عهد رسول الله (صلی الله عليه و آله و سلم ) و لاعملن فيها بما عمل به رسول الله (صلی الله عليه و آله و سلم ). فابی ابوبكر ان يدفع الی فاطمة منها شيئا فوجدت فاطمة علی ابي بكر في ذالك فهجرته فلم تكلمه حتی توفيت و عاشت فاطمة (سلام الله عليها) بعد النبي(صلی الله عليه وآله و سلم )ستة اشهر فلما توفيت دفنها زوجهاعلي(عليه السلام) ليلا و لم يؤذن بها ابابكر و صلی عليها.(59)

ترجمہ: بخاری نے اپنی سند سے شہاب سے اور اس نے عروہ سے اور عروہ نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اپنا نمائندہ ابوبکر کے پاس بھجوایا اور ان کو کہلوا بھیجا کہ مدینہ، فدک کے فیئے سے آپ (س) کے ارث کا حصہ اور خیبر کا باقیماندہ خمس آپ (س) کو ادا کریں۔ پس ابوبکر نے کہا کہ "رسول اللہ (ص) نے فرمایا ہے کہ ہم ارث اور ترکہ اپنے پیچھے نہيں چھوڑا کرتے اور جو ہم چھوڑتے ہیں صدقہ ہوتا ہے۔ (ابوبکر نے اس حدیث سے یہی معنی اخذ کئے تھے جبکہ ہم نے اوپر ثابت کیا کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہم صدقات کو ارث کے عنوان سے نہیں چھوڑا کرتے بہرحال خلیفہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:) اور آل محمد (ص) کو بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح ایک حصہ ملتا ہے (یعنی صدقات سے جو تمام فقہی مکاتب میں آل محمد (ص) پر حرام ہے) اور خدا کی قسم کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صدقات میں کوئی تبدیلی نہيں کروں گا اور ان کو اپنے حال پر چھوڑوں گا اور ان کے سلسلے میں اسی طرح عمل کروں گا جس طرح کہ رسول اللہ (ص) عمل کرتے رہے تھے۔ پس ابوبکر نے فاطمہ (س) کے مطالبات دینے سے مکمل طور پر انکار کیا اور اسی رو سے فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ابوبکر پر غضبناک ہوئیں اور ان سے قطع تعلق کیا اور جب تک زندہ تھیں ابوبکر سے نہيں بولیں حتی کہ دنیا سے رخصت ہوئیں؛ اور فاطمہ (س) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد چھ مہینوں تک زندہ رہیں اور جب وصال فرما گئیں تو علی علیہ السلام نے آپ (س) کو رات کی تاریکی میں سپرد خاک کیا اور ابوبکر کو اطلاع نہیں دی اور خود ہی آپ (س) پر نماز پڑھی۔

ابن قتیبہ کی روایت

عمر نے ابوبکر سے کہا: چلتے ہیں فاطمہ سلام اللہ علیہا کے پاس جنہیں ہم نے غضبناک کیا۔

وہ دونوں سیدہ سلام اللہ علیہا کے گھر کے دروازے پر آئے اور گھر میں داخلے کی اجازت مانگی۔

سیدہ (س) نے انہیں اجازت نہيں دی لیکن علی علیہ السلام کی وساطت سے گھر میں داخل ہوئے لیکن سیدہ (س) نے ان دو نوں سے منہ موڑ لیا اور ان کے سلام کا جواب نہيں دیا۔

ان دونوں نے سیدہ کو تسلی دی اور فدک انہیں نہ دینے کے اسباب بتائے تو سیدہ (س) نے فرمایا:

"ارأيتكما ان حدثتكما حديثا عن رسول الله صلی الله عليه و آله و سلم تعرفانه و تعملان به؟ قالا نعم، فقالت نشدتكما الله الم تسمعا رسول الله صلی الله عليه و آله وسلم يقول: رضاء فاطمة من رضائي و سخط فاطمة من سخطي فمن احب فاطمة ابنتي فقد احبني و من ارضي فاطمة فقد ارضاني و من اسخط فاطمة فقد اسخطني؟ قالا نعم سمعناه من رسول الله صلی الله عليه و آله و سلم فقالت: اني اُشهِدُاللهَ و ملائكته انكما اسخطتماني و ما ارضيتماني لئن لقيت النبي (ص) لاشكونكما..."۔

ترجمہ: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حدیث بیان فرمائی ہو اور تم دونوں نے سن لی ہو تو کیا تصدیق کروگے کہ تم نے وہ حدیث سن لی ہے؟

دونوں نے کہا: ہاں

سیدہ (س) فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم دلاتا ہوں کیا تم نے سنا کہ رسول اللہ نے فرمايا: فاطمہ کی رضا و خوشنودی میری رضا و خوشنودی اور فاطمہ کی ناراضگی میری ناراضگی ہے؛ جو فاطمہ کا حبدار ہوگا وہ میرا حبدار ہے اور جس نے فاطمہ کو خوشنود کیا اس نے مجھے خوشنود کیا ہے اور جس نے فاطمہ کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا ہے؟

دونوں نے یک زبان ہوکر کہا: ہاں! ہم نے یہ حدیث رسول اللہ (ص) سے سنی ہے۔

پس سیدہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا: میں خدا اور فرشتوں کو گواہ بناتا ہوں کہ تم نے مجھے غضبناک کیا اور مجھے خوشنود نہيں کیا ہے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملاقات کروں گی آپ (ص) سے تمہاری شکایت کروں گی۔

ابوبکر نے کہا:

"أنا عائذ بالله تعالى من سخطه وسخطك يا فاطمة، ثم انتحب أبو بكر يبكي، حتى كادت نفسه أن تزهق"۔

ترجمہ: میں آپ کی ناراضگی اور رسول اللہ (ص) کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اور پھر شدت کے ساتھ روئے اور سیدہ (س) کی باتوں نے ان پر اتنا گہرا اثر کیا کہ قریب تھا کہ مرجاتے۔

اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا:

"واللهِ لَاَدعُوَنَّ الله عليك عند کل صلاة اُصَلّيها"۔

ترجمہ: خدا کی قسم! میں تم پر ہر نماز میں جو میں ادا کرتی ہوں، نفرین کروں گی۔ ابن قتیبہ لکھتے ہیں: ابوبکر اس کے بعد سیدہ سلام اللہ علیہا کے گھر سے باہر نکلے تو لوگوں نے ان کے ارد گرد حلقہ سا تشکیل دیا اور ان سے پریشانی کے اسباب پوچھے تو انھوں نے کہا:

"يبيت كل رجل منكم معانقا بحليلته مسرورا باهله و تركتموني في ما انا فيه، لاحاجة لي في بيعتكم أقيلوني بيعتي"۔

ترجمہ: اے لوگو! تم سب راتوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ اپنی خوشیوں میں مصروف ہو اور مجھے اس مصیبت سے دوچار کرچکے ہو؛ مجھے تمہاری بیعت نہیں چاہئے؛ آؤ اپنی بیعت واپس لو اور مجھے مقام خلافت سے معزول کرو...(60)

احمد بن حنبل اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں:

"فغضبت فاطمة عليها السلام فهجرت أبابكر فلم تزل مهاجرته حتى توفيت" (61)

ترجمہ: پس فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ابوبکر سے قطع تعلق کیا اور یہ قطع تعلق اس وقت تک جاری رہا جب آپ (س) دنیا سے رخصت ہوئیں۔

آخری نکتہ:

تمام مسلم محدثین نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

"فاطمة بضعة منی فمن أغضبها أغضبنی".(62)

ترجمہ: فاطمہ میرے بدن کا ٹکڑا اور میرے وجود کا حصہ ہے جس نے ان کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا ہے۔

فسلام الله عليها يَوْمَ وُلِدَتْ وَ يَوْمَ اسْتُشْهِدَتْ وَ يَوْمَ تُبْعَثُ حَيّاً.

اور سیدہ فاطمہ زہراء بنت رسول اللہ (ص) پر سلام ہو ان کی پیدائش کے دن اور ان کی شہادت کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائی جائیں گی۔

.........................

منابع و مستندات:

55۔ شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج 16، ص .220.

56۔ الشوری آیه 23.

57۔ شرح ابن ابی الحدید المعتزلی جلد 16 صفحه 284.

58۔ مستدرك الصحيحين جلد 3 صفحه 154.

59۔ صحیح بخاری ج3 ص252 كتاب المغازی باب 155- غزوة خیبر حدیث 704 ج 6، ص .196. الطبقات الكبری ج8 ص28. این حدیث را بخاری با اختلاف اندك در "باب فضائل اصحاب النبی (ص)"، "كتاب الخمس - باب فرض الخمس"، "كتاب الفرائض ج 5، ص 5 ". نیز یہ حدیث صحیح بخاری مطبوعہ مدینہ منورہ ج 4 ص 63 میں بھی نقل ہوئی ہے۔ صحیح بخاری، باب فرض الخمس،.

60۔ الامامة والسیاسة - ابن قتیبه - ج1 ص31۔ السنن الكبری البيهقي ج6 ص300 . اس حدیث کو بخاری نے باب الفرائض میں زہری سے عروہ سے اور عائشہ سے نقل کی ہے۔ نیز مسلم بن حجاج نے اس کو کتاب جہاد کے ضمن میں "باب كلام النبی (ص) انا لانورث کے ذیل میں نقل کیا ہے ج3 ص1380 اور بخاری نے باب وجوب خمس میں بھی نقل کی ہے۔

61. مسند الامام احمد بن حنبل ج1 صفحه 6.

صحیح بخاری ج ۵ ص ۳۶ ـ صحیح بخاری جزء12 ص 484ـ إِنَّمَافَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي يُؤْذِينِي مَا آذَاهَا فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جو اس کو اذيت پہنچائے اس مجھے اذیت پہنچائی ہے۔؛ صحیح مسلم ج 12 ص 203۔ 484۔ اس حدیث کے منابع سے آگہی حاصل کرنے کے لئے علامہ عبدالحسین امینی کی گرانقدر کاوش "الغدیر" کی جلد 7، صص 235 ـ 232 مطبوعہ نجف اشرف، سے رجوع کریں۔ اس کتاب میں الغدیر سے متعلق تمام حدیثیں اہل سنت کے منابع سے نقل ہوئی ہیں۔

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مناظرات پیامبر اعظم (ص)
ہندہ کا عجیب خواب
امام جعفر صادق علیه السلام
علی جو آئے تو دیوارِ کعبہ بھی مسکرائی تھی یا علی ...
اخلاقیات کے بارے میں امام حسین کے اقوال
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام
امام حسن عسکری(ع) کےاخلاق واوصاف
علی سے سچی وابستگی
حدیث "لا نورث، ما ترکناہ صدقۃ" کا افسانہ ـ 3
شہادت امام جعفر صادق علیہ السلام

 
user comment