اردو
Wednesday 4th of December 2024
0
نفر 0

حدیثِ کساء؛ تعارف و اسناد

حدیثِ کساء؛ تعارف و اسناد

آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں ایک حدیث، الکساء کے نام سے مشہور ہے، اور یہ تمام مسالک کی کتب معتبرہ میں با سند موجود ہے۔ اس سے قبل کہ ہم اس حدیث کا خاکہ پیش کریں، حدیث کی اہمیت پر چند سطریں کھینچنا مقصود ہے تا کہ مضمون کی اہمیت واضح ہو سکے۔

سید مصباح حسین جیلانی۔سڈنی

 

حدیث اصطلاحا اس روایت کو کہا جاتا ہے جو سرکار خاتم الانبیاء فخر الرسل نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قول و فعل سے ثابت ہو یا آپ کے سامنے کسی اور کے اس عمل سے سامنے آ ئے جسے آپ نے منع نہ کیا ہو۔اول الذکر کو حدیث قولی، دوسری کو فعلی اور تیسری کو تقریری کہا جاتا ہے۔ حدیث کی اہمیت خود قرآن کریم نے یہ کہ کر واضح کر دی کہ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہ وَمَا نَھاكُمْ عَنْہ فَانتَہوا اور پھر دوسری جگہ قرآن قول رسول کو ہم پلہ ءوحی اسطرح قرار دیتا ہے کہ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْھوَى٠ انْ ھوَ الَّا وَحْيٌ يُوحَى(النجم آیہ تین اور چار)۔

اس لئے دین بلا مدد حدیث سمجھ میں نہیں آ سکتا اور اگر ہم سنت و حدیث کو ترک کر دیں تو تنہا قرآن نہ ہدایت دے گا اور نہ یہ خدا کو منظور ہوگا۔

جن لوگوں نے ہدایت کو حدیث کے بناء لینے کی کوشش ہے، در اصل انہوں نے خدا کے اس نظریہء ہدایت کی تکذیب کی ہے، جس میں بشر از خود ہدایت پانے کا اہل نہیں جب تک اسکی طرف مبعوث من اللہ انبیاء یہ پیغام نہ لائیں۔ اگر قرآن تنہا ہدایت کرنے کی طاقت رکھتا ہوتا تو اسوہء حسنہ کی طرف رجوع کرنے کا حکم نہیں دیتا۔ اسوہء حسنہ اور حدیث کی بابت میں یہ کہنا از حد ضروری ہے کہ ان کو اگر ہم قبول کرتے ہیں تو کاملا اور غیر مشروط قبول کرنا ہوگا، نا کہ اپنی مرضی کی جزیات لے کر مرضی کے متصادم حصوں کو ترک کر دیا جائے۔ دین حق یہی صدا دیتا سنائی دیتا ہے کہ يَا ايُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّت وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ انَّہ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (البقرہ آیت ٢٠٨) کہ اے وہ جو اب ایمان لا چکے ہو، اب اس میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطانی راستوں کی پیروی نہ کر، کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

اسی لئے لازم ہے کہ دین کو قرآن، سنت اور حدیث کی روشنی میں پورا کا پورا تسلیم کر لیا جائے۔ سنت رسول میں جہاں احترام نظر آئے وہاں احترام کریں اور جس کو رحمت ِ دو عالم اپنی بزم سے اٹھاتے نظر آئیں، اس سے بیزارگی اختیار کی جائے۔ اگر ہم دشمنان رسول سے محبت اور محبوبان رسول سے بغض و عناد رکھیں تو ہمارا دین مشکوک ہو جاتا ہے، اور تمام عمل ہائے خیر کے ضائع ہوجانے کا ڈر ہے۔ آنحضور کی حیات مقدسہ کا تبلیغی عرصہ محض ٢٣ برس ہے، جس میں تکمیل کو پہنچائے گئے امور کو اگر بنظر غور دیکھیں تو یہ تمام از خود اک اعجاز سے کم نہیں ہے۔ عقل انسانی ان تمام معجزات کا احاطہ نہیں کر سکتی جو نبیء برحق سید المرسلین (ص) نے ظاہر فرمائے۔ کچھ کو صفحات تاریخ نے اپنے اندر محفوظ کیا تو کچھ راز رسالت کی صورت آج تک چشم عالم سے مستور ہیں۔

ان ظاہری معجزات میں اک معجزہ حدیث کساء بھی ہے، جس کو اسکی تمام تر جزءیات سمیت آج تک زمانہ سمجھ نہیں پایا۔ یہاں ہم حدیث کساء کا مختصر تعارف، اسکے ذریعہ قائم اصول، اور اسکے معجزانہ پہلو کا ایک خاکہ بمعہ اسناد از کتب معتبرہ پیش کریں گے۔

حدیث کساء یعنی چادر والی حدیث، اس حدیث کو کہا جاتا ہے، جو حدیث فعلی و قولی کی صورت میں وقوع پذیر ہوئی۔ مجھے اسکے صحیح مہ و سال کا تعین تو نہیں ہے، لیکن اس بات کو بصد وثوق کہا جا سکتا ہے کہ یہ حدیث سورہ الاحزاب کے نزول کے عرصے میں آئی۔ یہ عرصہ ٥ تا ٦ ہجری کا ہے، جو بعض کے نزدیک ١٧ شوال ٥ ہجری سے شروع ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک ٥ ذی قعدہ ٥ ہجری۔ تاہم چونکہ غزوہ احزاب میں مشرکین نے مدینہ ء منورہ کو ایک عرصے تک محاصرے رکھا جس کی مدت ایک سے تین ماہ تک بتائی جاتی ہے، اسی لئے قرین عقل یہی ہے کہ حدیث کساء کا واقعہ جنگ احزاب کے بعد اور سورہ احزاب کے نزول کے دوران کہیں چھ ہجری کے اوائل میں وقوع پذیر ہوا۔

اجمالی خاکہ:

جابر بن عبد اللہ الانصاری راوی ہیں کہ ان سے سیدہ فاطمہ الزھراء نے روایت کیا کہ ایک دن رسول خدا (ص) ان کے گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے آج بدن میں کمزوری محسوس ہوتی ہے اس لئے مجھ یمنی چادر اوڑھا دو۔ جب رسولخدا یمینی چادر میں استراحت پذیر تھے تو شہزادہ سبز قبا سبط رسول امام حسن المجتبیٰ (ع) گھر میں آئے اور کہا کہ اماں جان آج آپ کے پاس سے ناناجان رسول اللہ کی خوشبو آتی ہے۔ جب بی بی معظمہ نے فرمایا کہ ہاں آپ کے نانا زیر کساء آرام فراما رہے ہیں تو امام حسن رسول اللہ کے پاس گئے اور اذن چاہا کہ میں بھی چادر میں آ جاؤں۔ رسول اللہ نے اجازت مرحمت کر دی تو پھر اسی طرح سے امام حسین علیہ السلام بھی آئے اور زیر کساء چلے آئے۔ پھر تھوڑی دیر بعد امام علی علیہ السلام بھی گھر آئے اور رسول اللہ کی خوشبو پاکر انکے پاس چادر میں چلے گئے۔حتٰی کہ سیدہ فرماتی ہیں کہ پھر میں بھی بابا جان کے ہمراہ زیر کساء چلی آئی۔ اس پر رسول اللہ نے چادر کا دامن اٹھایا اور آسمان کی طرف ہاتھ بلند کر کے فرمایا کہ باری تعالیٰ یہ تمام میرے اہل بیت ہیں، انکا خون میرا خون، اور انکا گوشت میرا گوشت ہے۔ یہ مجھ سے اور میں ان سے ہوں اور جو ان سے محبت کرے، اس سے محبت کرتا ہوں اور جو ان سے جنگ کرے، ان سے میری جنگ ہے۔ جس سے ان کی صلح ہے، اس سے میری صلح ہے۔ ان پر تو صلوات و سلام اور رحمت بھیج اور ان سے رجس کو ہمیشہ کے لئے دور رکھ اور ایسا پاک رکھ جیسا پاک رکھنے کا حق ہے۔

اس پر خدواند متعال نے ملائکہ و سکان سموات سے فرمایا کہ میں نے جو کچھ خلق کیا ہے، انہی پانچ زیر کساء اصحاب کی محبت میں خلق کیا ہے، جبریل امین نے پوچھا کہ یہ کون ہیں تو فرمایا کہ انکا تعارف یہ ہے کہ یہ اہل بیت النبوت اور رسالت کی کان ہیں جو کہ فاطمہ ہیں، ان کے بابا جان، ان کے شوہر اور فرزند ہیں۔ پھر جبرائیل امین (ع) امر الٰہی سے زمین کی طرف آئے اور اذن رسول مقبول پاکر زیر چادر داخل ہو گئے اور عرض کہ یا رسول اللہ، خدواند متعال آپ کو سلام بھیجتا ہے ، فرماتا ہے کہ کل کائینات اس نے آپ پانچوں کی محبت میں خلق فرمائی ہے، اور وحی فرمائی ہے کہ انَّمَا يُرِيدُ اللَّہُ لِيُذْھبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ اھْلَ الْبَيْتِ وَيُطَھرَكُمْ تَطْھيرًا (سورہ احزاب آیت ٣٣) کہ اے اہل بیت اللہ کا تو ارادہ ہی یہی کہ تم سے ہر رجس کو سدا دور رکھے اور یوں پاک رکھے جیسے پاک رکھنے کا حق ہے۔ اس پر امام علی علیھا السلام نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ہماری چادر کے نیچے اس بیٹھک کی کیا فضیلت ہے، تو فرمایا کہ اے علی(ع) اگر اہل زمین میں کوئی ہماری اس روایت کا ذکر کرے گا تو اس محفل کو اللہ تعالیٰ کے ملائکہ حصار میں لے کر اہل محفل کے لیئے دعا و استغفار کریں گے اور اگر کسی کی مراد ہوگی تو وہ پوری ہوگی اور ہر طرح کا غم و الم دور ہوگا۔

فوائد و اصول حاصل ِ حدیث:

١- اصحاب کساء جن کو پنجتن پاک کہا جاتا ہے، منزل منیت پر رسول مقبول کے قریب ہیں اور ہم گوشت و پوست رسول ہیں۔

٢- حضور کریم (ص) کو پسند نہیں کہ ان کے ان قربت داروں کو کوئی تکلیف پہنچے، اسی لئے ان کے ساتھ لڑنے والے کو اپنے سے لڑنے والا قرار دیا، اور جو رسول اللہ سے لڑے اسکا دین مردود ٹھہرتا ہے۔

٣- رسول کریم (ص) کے بطن اطہر سے ایک خوشبو آتی تھی، جسے آپ (ص) کے اصحاب با وفا اور قرابت دار خوب پہنچاتے تھے۔

٤- یہ حدیث مبارکہ دعاؤں کی قبولیت کے لئے سند رکھتی ہے کہ خود رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اس کی تلاوت استجاب دعوات کا سبب اور غم و الم سے نجات کا باعث ہے، اس لئے اسے بکثرت پڑھنا چاہیئے۔

٥- اہل بیت علیھم السلام کی تخصیص کر دی گئی اور انکا احترام از شعار اسلامی قرار پا گیا۔

معجزانہ پہلو:

ایک مختصر انداز میں مندرجہ ذیل معجزاتی پہلو ملاحظہ ہوں؛

1- جبریل امین (ع) روز اس گھر آتے جاتے تھے، لیکن پانچوں انوار مقدسہ کے یکجاء ہونے کے سبب ان کو وہ بھی نہ پہچان سکے۔

2- سیدہ سلام اللہ علیھا خدواند متعال اور جبریل امین کے مابین ہونے والی گفتگو کو من عن بیان فرماتی ہیں، جبکہ آپ تو زمین پر زیر چادر تھیں، اور یہ گفتگو کہیں ملاء الاعلیٰ ہو رہی تھی۔

۳۔ حدیث مبارکہ چند ان احدادیث نبوی میں سے ہے، جو متفق علیہ ہیں، اور ادھر حضور ﷺ نے دعا مانگی تھی ادھر وہی دعا آیت بن کر آ گئی، اس بات کی سند کے ساتھ کہ حضور ﷺ کا فرمان اور عمل منشائے الٰہی کے بغیر نہیں ہوتا۔

اسناد:

مفاتیح الجنان اور بحار الانوار سمیت کئی کتب کے علاوہ سواد اعظم کے مندرجہ ذیل کتب بطور حوالہ و سند پیش ہیں، جن میں اس حدیث کو تھوڑی بہت متن کی تبدیلی کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔ تاہم ایک محققانہ مطالعہ بات کی گرھیں بآسانی کھول دیتا ہے۔

..........

مآخذ:

1۔ الصحیح المسلم : 4 / 1883 ، حدیث : 2424 ، طبعہ : بیروت

2۔ الامام احمد بن حنبل : المسند : 6 / 292 ، طبع بیروت۔

3۔ ابن الاثیر : اسد الغابہ : 7 / 343 طبع بیروت۔

۴۔ ابن الصباغ المالكی : الفصول المھمہ : 21 ، طبع بیروت۔

۵ ۔ ابن المغازلی الشافعی : المناقب : 100 ، طبع بیروت۔

۶۔ ابن حجر : الاصابہ : 4 / 568 ، طبع بیروت۔

۷ ۔ ابن حجر المکی : الصواعق المحرقہ : 143 ، طبع القاھرہ۔

۸۔ ابن طلحہ الشافعی : مطالب السؤول : 8 ، مخطوط۔

۹۔ ابن عبد ربہ : الاستیعاب : 3 / 1100 ، طبع بیروت۔

۱۰۔ ابن عساكر : التاریخ ، ترجمہ علی ( علیہ السَّلام ) : 1 / 274 ، طبع بیروت۔

۱۱۔ ابن كثیر : تفسیر القرآن العظیم : 3 / 493 ، طبع بیروت۔

۱۲۔ ابو الطیب صدِّیق بن حسن بن علی الحسین القنوجی البخاری ، : فتح البیان : 2 / 256 ، طبع : بیروت۔

۱۳۔ البدخشانی : نزل الابرار : 32 ، طبعہ : بیروت۔

۱۴۔ البغوی : معالم التنزیل : 3 / 529 ، طبعہ : بیروت۔

۱۵۔ لبلاذری : انساب الاشراف : 2 / 104 ، طبعہ : بیروت۔

۱۶۔ البیھقی : الاعتقاد على مذھب السلف : 186 ، طبعہ : بیروت۔

۱۷۔ الجصاص : احكام القرآن : 3 / 360 ، طبعہ : دمشق۔

۱۸۔ الحاكم الحسكانی : شواھد التنزیل : 2 / 13 ، طبعہ : بیروت۔

۱۹۔ الحاكم النیسابوری : المستدرك : 3 / 146 ، طبعہ : بیروت۔

۲۰۔ الخازن : تفسیر القرآن : 5 / 259 ، طبعہ : بیروت۔

۲۱۔ الخطیب البغدادی : تاریخ بغداد : 10 / 278 ، طبعہ : بیروت۔

۲۲۔ الخوارزمی : المناقب : 60 ، طبعہ : قم۔

۲۳۔ الخوارزمی : مقتل الحسین : 1 / 75 طبع ایران۔

۲۴۔ الرازی : مفاتح الغیب : 8 / 71 ، طبع : بیروت۔

۲۵۔ الزرندی : نظم درر السمطین : 131 ، طبعہ : النجف۔

۲۶۔ الزمخشری : الكشاف : 1 : 369 ، طبعہ : بیروت۔

۲۷۔ السبط بن الجوزی : تذكرت الخواص : 211 ، طبعہ : بیروت۔

۲۸۔ السمھودی : جواھر العقدین : 193 ، طبعہ : بیروت۔

۲۹۔ السیوطی : الاتقان : 2 / 563 ، طبعہ : بیروت۔

۳۰۔ السیوطی : الدر المنثور : 5 / 198 ، طبعہ : بیروت۔

۳۱۔ الشبراوی الشافعی : الاتحاف بحب الاشراف : 18 ، طبع٠: مصر۔

۳۲۔ الشبلنجی : نور الابصار : 111 ، طبع : المكتبہ الشعبیہ۔

۳۳۔ الشربینی : السراج المنیر : 3 / 245 ، طبع : بیروت۔

۳۴۔ الشوكانی : فتح القدیر : 4 / 398 ، طبعہ : بیروت۔

۳۵۔ الصبان : اسعاف الراغبین : 77 ، مخطوط۔

۳۶۔ ابو عیسى محمد بن عیسى بن سورت الترمذی : صحیح الترمذی : 5 / 351 حدیث : 3205 ، طبعہ : بیروت۔

۳۷۔ ابو الحسین مسلم بن الحجاج القشیری : صحیح مسلم : 4 / 1883 حدیث : 2424 ، طبعہ مصر۔

۳۸۔ الصفوری : نزھت المجالس : 558 ، طبعہ : القاھرہ

۳۹۔ الطبرانی : المعجم الصغیر : 1 / 135 ، طبع : بیروت۔

۴۰۔ الطبری : الریاض النضرہ : 3 / 152 ، طبع : بیروت۔

۴۱۔ الطبری : تفسیر القرآن : 12 / 6 ، طبع : بیروت۔

۴۲۔ الطبری : ذخائر العقبى : 21 ، طبع : بیروت۔

۴۳۔ الطحاوی : مشكل الآثار : 1 / 332 ، طبع : بیروت۔

۴۴۔ القرطبی : الجامع لاحكام القرآن : 4 / 178 ، طبع : القاھرہ

۴۵۔ القندوزی : ینابیع المودت : 1 / 124 ، طبعہ : النجف۔

۴۶۔ الكلبی : التسھیل ا لعلوم التنزیل : 3 / 137 ، طبعہ : مصر۔

۴۷۔ الكنجی الشافعی : كفایت الطالب : 212 ، طبعہ: بیروت۔

۴۸۔ المتقی الھندی : منتخب كنز العمال : 5 / 96 ، طبعہ : المكتب الاسلامی۔

۴۹۔ النبھانی : الشرف المؤبد : 18 ، طبعہ : القاھرہ۔

۵۰۔ النبھانی : جواھر البحار : 1 / 115 ، طبعہ : مصر۔

۵۱۔ النسائی : خصائص علی ( علیہ السَّلام ) : 46 ، طبعہ : ایران۔

۵۲۔ النیسابوری : ثمار القلوب : 2 / 865 ، طبعہ : دمشق۔

۵۳۔ الہیثمی : مجمع الزوائد : 9 / 158 ، طبعہ : بیروت۔

 


source : www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

دارالعرفان اداره
حدیثِ کساء؛ تعارف و اسناد
شیخ عباس قمی کی اکلوتی یادگار حاج شيخ محسن محدث، ...
خدا کے ساتھ بےتکلفانہ را‌‌ز و نیاز

 
user comment