اردو
Saturday 23rd of November 2024
0
نفر 0

شب قدرمیں شب بیداری کیوں کریں ؟

شب قدرمیں شب بیداری کیوں کریں ؟

شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں کا مل تر ین کتاب ( قرآن ) نازل ہو ئی ہے اس رات کوشب بیداری میں گزارناچاہیے تا کہ اس کے فیض اورمعنوی بر کتوں سے استفادہ کریں اور ساتھ ہی ساتھ قرآن کے سایہ ائمہ سے توسل کر کے خدا وند عالم سے گناہوں کی مغفرت طلب کریں اور قرآن کی نوارنی آیات ہمیشہ ہماری فکر و اندیشہ میں ہوں اور اس مبارک رات میں خضوع و خشوع کی حالت کے ساتھ اپنے آپ سے عہد کر یں کہ ہمیشہ اس عظیم کتاب کے بلند و عالی دستوارت کو واقعی طور پر اپنی عمل زندگی میںجاری کریںتاکہ ہماری زندگی قرآنی اور خدائی بن جائے ۔

حضرت آیة اللہ حسن زادہ آملی دام ظلہ فر ماتے ہیں :
شبہائے قدر میں قرآن کو دل میں اتار و نہ یہ کہ قرآن کو فقط سر پر رکھو . پہلی صورت میں قرآن تمہاری ذات کا حصہ بن جا تا ہے اور دوسری صورت میں قرآن ذات کا حصہ نہیں بنتا ہے بلکہ تیری ذات سے جدا ہوجاتا ہے ۔ [۱]
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ اگر شب قدر بیداری میں گزاریں تو اس شب کی عبادت کی اہمیت دوسری راتوں سے زیادہ ہو جاتی ہے اور اس رات کے حسین لمحات میں ملائکہ جوق در جوق صبح تک مومنین اور مؤمنات پر دور و سلام اور رحمت بھیجتے ہیں اور ملائکہ خود اشرف المخلوقات انسان کے رکوع و سجود کے شاہد و گواہ ہوتے ہیں تا کہ یہ ملائک دوسرے ملائکوں کے سامنے انسان کے اشرف و خلیفہ خدا ہونے کی تفسیر و تشریح کریں اور حضرت آدم کے سامنے ملائکہ کے سجود کر نے کا راز کشف کریں ۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں انسان سالک سیر و سلوک کی طولانی راہ کو ایک رات میں طے کر لیتا ہے اور اس رات میں انسان بہتر طر یقے سے اپنے نفس کی تہذیب و تزکیہ کر سکتا ہے کیو نکہ اس رات میں تمام شیاطین قید میں ہوتے ہیں اور تمام انسان اس رات میں شیاطین کے وسوسوں سے امان میں ہوتے ہیں مگر یہ کہ انسان خدانخواستہ اپنے نا شائستہ فعل سے شیاطین کی رسیوں کو کھول کر انہیں اسارت سے آ زاد کر دے ۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں معنویات زندہ ہو جاتی ہیں، کثرت تلاوت قرآن کی وجہ سے ا نسان کانفس زندہ ہو جاتا ہے، تو بہ اور دعائیں قبول ہوتی ہیں ،انسان کو ایک نئی زندگی ملتی ہے بشرطیکہ انسان اس شب کی عظمت کو درک کر ے۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں انسان کے ایک سالہ امور مشخص کئے جاتے ہیں اور تمام موجودت عالم کی تقدیر اس رات میں رقم کی جاتی ہے۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں حضرت امام مہدی ہر انسان کے ایک
سالہ مقدّارت پر دستخط کرتے ہیں اور یہ رات امام عصر کی شناخت کی رات ہے اور خلاصہ یہ کہ شب قدر انسان کامل کی رات ہے۔
شب قدر ایک ایسی رات ہے کہ جس میں اہل معرفت و عرفان اپنے معشوق کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول ہو تے ہیں۔
ایک ایسی رات ہے کہ جس میں ایک انسان کا مل حضرت علی کی شہادت واقع ہوئی ہے۔
ایک ایسی رات ہے کہ جس میں عاشق اپنے معشوق سے ملاقات کرتا ہے۔
ایک ایسی رات ہے کہ جس میں مسلمانان عالم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
ایک ایسی رات ہے کہ اگر نہ ہوتی تو انسان کی بد بختی انتہا تک نہ پہنچتی اور اس کی نیک بختی کبھی بھی طلوع نہ کر تی، استعماری طاقتوں کی اسارت سے کبھی بھی آ زاد نہ ہو تا۔
شب قدر بشر کی آزادی، انسانی حقوق اور حکومت عدل کے اعلان کی رات ہے ۔
شب قدر محروم اور غفلت میں پڑی ہوئی اور فساد و گمراہی میں آلودہ ہوئی ملتوں کی ہدایت،کا میابی اور بیداری کی رات ہے۔
شب قدر ایسی رات ہے کہ جس میں ایک ایسی کتاب نازل ہوئی ہے کہ جو رہتی دنیا تک باقی رہے گی اور اس کتاب کی عظمت کے لئے اتنا ہی کا فی ہے کہ انسان کی سعادت و ہدایت کی ضامن ہے انسان کو ظلمتوں سے نکال کر نوارنی راتوں میں پہنچاتی ہے۔
اگر یہ رات نہ ہوتی، نہ اسلام ہو تا اور نہ ہی مسلمان ، نہ مسجدہوتی اور نہ ہی نمازی ، نہ آزادی ہوتی اور نہ ہی معارف واخلاق اور نہ ہی مکتب اسلام میں عظیم شخصیات ہو تیں اور نہ ہی اخلاق ،حقوق، فقہ، فلسفہ و عرفان کی گرانقدر کتابیں ہوتیں اور نہ ہی جدید ٹیکنالوجی ہو تی بالاخرہ نہ ہی آج کے دور میں انسان کی یہ بلند پر واز یں ہوتیں ... یہ تمام چیزیں اسی رات کی بر کتوں سے ہیں انسان نے قرآن کے نزول کے بعد جو مراحل طے کئے ہیں یا وہ مراحل جو ابھی طے نہیں کئے ہیں تمام اسی شب کی برکتوں سے ہیں ۔
یہاں جو کتاب اس مبارک شب میں نازل ہوئی ، اس نے اندیشہ و افکارکو بدل دیا، انسان کی شخصیت کو احترام بخشا ، انسانی حقوق کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ، انسانوں کی پر ستش کی مذمت کی ، مطلق العنان حکومتوں کی ربوبیت توڑ دی ، اسراف و تبذیر،نسلی امتیازات، لوگوں کو اذیت و آزار وغیر ہ تمام کی کھل کر مذمت کی۔ بالاخر ہ حاکم و محکوم ، امیرو مامور ، غلام و آقا تمام کے حقوق کو یکسان قراد دیاہے۔
شب قدر ایک عظیم اور قیمتی فرصت کا نام ہے پس ہمیں چاہیے کہ اس رات کو قرآنی تعلیمات کی طرف توجہ دینے میں گزار یں اور یہ دیکھیں کہ ہم نے قرآنی تعلیمات کے ساتھ کتنا ارتباط بر قرار کیا ہے ہم نے اپنی عملی زندگیوں کو قرآن کے مطابق کتنا چلایا ہے ؟ اگرہماری زندگیاں قرآنی تعلیمات کے مطابق ہیں تو خداوند عالم سے مزید توفیقات کا تقاضا کریںاور اگر یہ دیکھ نظر آئے کہ ہماری زندگیاں قرآن کی تعلیمات کے بجائے کسی اور سمت میں جارہی ہیں تو ہمیں چاہیے کہ خداوند عالم سے عہد و پیمان کریں کہ آج کے بعد ہم قرآنی تعلیمات سے اپنی زندگیوں کو منورو مزیّن کر یں گے۔
ان تمام تفاصیل کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں کہ آیا شائستہ ہے کہ ایک مسلمان انسان اس شب کی عظیم برکات وفیوضات سے اپنے آپ کو محروم کرے ۔(۲
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ہزار ویک نکتہ،آیت اللہ حسن زادہ آملی،نکتہ ٤٩٠
۲۔ تلخیص ازمکتب عالی تربیت واخلاق،آیت اللہ صافی، ص ٢٠٧

التماس دعا

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

انسانیت بنیاد یا عمارت
اخلاق ،قرآن کی روشنی میں
نقل حدیث پر پابندی کے نتائج
اسیرانِ اہلِبیت کی زندانِ شام سے رہائی جناب زینب ...
ہم فروع دین میں تقلید کیوں کریں ؟
خدا کے قہر و غضب سے غفلت
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
وحی کی اقسام
ماں کا مقام قرآن کی روشنی میں
تحفظ عقيدہ ختم نبوت اور امت مسلمہ

 
user comment