اہانت کی تشخیص کے لئے عرف کی طرف رجوع کرنا چاہئے بنابرایں ہر وہ کردار و گفتار جو عرف عام میں قرآن کی تذلیل یا ھتک حرمت سمجھی جائے وہ کردار و گفتار حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ حرام اور گناہ کبیرہ اس صورت میں سمجھا جائے گا اگر ہتک حرمت قرآن اور اس کی تذلیل میں مرتکب شخص کا قصد دین اسلام اور شریعت حضرت سید المرسلین (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توہین ہو بصورت دیگر اس کا یہ عمل کفر و ارتداد کا موجب ہو گا۔ کیوں کہ توہین قرآن حرام ہے اور یہ ضروریات دین میں سے ایک ہے لہٰذا اگر کوئی جان بوجھ کر قرآن مجید کو پاؤں تلے کچلے یا اسے نجس چیز میں پھینک دے تو بظاہر اس عمل سے دین کی اہانت اور حرمت قرآن سے انکار لازم آتا ہے۔ اس صورت میں ایسا شخص کافر ہے اور اس کا خون بہانا مباح ہو گا۔ مگر وہ تسلیم کرے کہ یہ عمل غصہ کی حالت میں اس سے سرزد ہوا اور یہ اقرار کرے کہ اس وقت میرے ہوش و حواس بر قرار نہ تھے۔اس موقع پر مناسب ہے کہ قرآن مجید کے احترام واجب اور اس کی اہانت حرام ہونے کے متعلق اہم نکات کی طرف توجہ مبذول کرائی جائے۔
(۱) قرآن مجید کی جلد،غلاف،اس کے اوراق(یعنی وہ مقامات جہاں قرآنی حروف وکلمات نہ ہوں جیسے حواشی)اور حروف وخطوط کی توہین حرام ہے۔اسی طرح ان کا نجس کرنا بھی حرام ہے اگر ہتک حرمت قرآن ہو رہی ہو اس صورت میں اس کا پاک کرنا واجب ہے۔
(۲) نجس سیاہی سے قرآن کا لکھنا حرام ہے اگر نجس سیاہی سے لکھا جائے یا لکھنے کے بعد نجس ہو جائے تو اس کا پاک کرنا واجب ہے اور اگر پاک نہ ہو سکے تو اسے محو کر دینا چاہیے۔
(۳) کسی کافر کے ہاتھ میں قرآن کا دینا حرام ہے بشرطیکہ اس عمل سے قرآن کی بے حرمتی یا حروف کے چھونے کا موجب بنے ۔لیکن بعض علماء فرماتے ہیں کسی حالت میں بھی جائز نہیں ہے ایسی صورت میں کافر کے ہاتھ سے قرآن کا واپس لینا واجب ہے۔
(۴) اگر قرآن مجید یا اس کا کوئی ورق یا معصوم کی روایت یا کوئی انگشتری جس پر خدا کا نام نقش ہو یا تربت سید الشہداء (علیہ السلام) یا اسی قسم کے دوسری اشیاء جو دین و مذہب کی نگاہ میں محترم ہوں ان کی توہین حرام اور احترام واجب ہے۔اگر خدانخواستہ پاخانے میں گر جائے تو فوراً نکالنا اور پاک کرنا واجب ہے۔اگرچہ اس پر کتنا ہی خرچ آئے جب تک اسے باہر نہ نکالا جائے وہاں رفع حاجت کرنا حرام ہے اگر باہرنکالنا ممکن نہ ہو تو اسے بند کر دینا چاہئے تا کہ اس میں مزید رفع حاجت کا امکان باقی نہ رہے۔دینی قابل احترام چیزوں کا نجاست سے باہر نکالنا پاک کرنا وغیرہ کے واجب ہونے کا تعلق صرف مالک یا نجس کرنے والے ہی سے نہیں بلکہ ہر اس مسلمان پر واجب ہوتا ہے جسے اس کے متعلق علم ہو۔ لیکن یہ واجب کفائی ہے۔یعنی اگر کوئی ایک فرد اس کا انجام دے دے تو دوسروں پر وجوب ساقط ہو جائے گا اور اگر سب کو معلوم ہونے کے باوجود کوئی بھی اسے انجام نہ دے تو سب کے سب قابل مواخذہ اور جوابدہ ہوں گے۔
(۵) محدث(یعنی وہ شخص جسے نماز پڑھنے کے لئے وضو یا غسل کرنا ہے کا قرآ ن کے حروف کو چھونا حرام ہے اس میں فرق نہیں کہ ہاتھ سے مس کرے یا لبوں سے بوسہ دے یا دوسرے اعضائے بدن سے بہر حالت حرام ہے۔اس حکم کے فروعات بہت زیادہ ہیں ان کو جاننے کیلئے کتاب عروة الوثقی فصل وضو مسئلہ ایک سے انیس تک کا مطالعہ فرمائیں۔
(۶) جناب شیخ انصاری مکاسب محرمہ کے اختتام پر فرماتے ہیں کہ فقہاء کی ایک جماعت نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ قرآن مجید کی خرید وفروخت حرام ہے انہوں نے اس کی دلیل میں ایک روایت نقل کی ہے جس کے بیان کرنے کی گنجائش ان صفحات میں موجود نہیں۔ بنابرایں صرف قرآن کی جلد اور اس کے صفحات و اوراق کی قیمت کی نیت سے خریدنا یا فروخت کرنا چاہیے یعنی قرآن کی قیمت قرار نہ دے اور فروخت کرنے والا ہدیہ کے طور پر خریدنے والے کو پیش کرے۔
source : www.tebyan.net