اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

افلاک و زمیں

افلاک و زمیں

إن في خلق السماوات و الأرض واختلاف الليل و النهار لآيات لأولي الألباب.

"بےشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ "

 

إن في السماوات و الأرض لآيات للمؤمنين.

(السورة 45، الجاثية، الآية 3).

بے شک آسمانوں اور زمین میں اہلِ ایمان کے لیے نشانیاں ہیں۔

هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا ثم استوى إلى السماء فسواهن سبع سماوات و هو بكل شيئ عليم.

(السورة 2، البقرة، الآية 29).

خداوند آسمانوں اور زمین کی حیرت انگیز شگفتگیوں کا خالق اور رات اور دن کا پیدا کرنے والا ہے اور آسمان اور زمین سے ہم کو رزق دیتا ہے۔"

(سورۂ نمل:۲۷، آیت۶۴)

"وہی تو ہے جس نے پیدا کیا تمھارے لیے وہ سب کچھ جو زمین میں ہے، پھر توجّہ فرمائی آسمان کی طرف، سو درست کرکے بنائے سات آسمان اور وہ تو ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔"

(سورۂ بقرہ:۲، آیت۲۹)

قرآنِ کریم بار بار آسمانوں اور زمین کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آسمانوں اور زمین سے مراد صرف کُرے، سورج اور کہکشائیں نہیں ہیں، بلکہ یہ "ہمارے وجود کے آسمانوں اور زمین" کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ زمین خلیاتی حیات اور اس کی مادّی ضروریات کا نمونہ ہے۔ انسان کے وجود کا یہ مرتبہ طبیعی پیکر، جبلّتوں، عمل اور ردِّ عمل اور فطری لین دین پر مشتمل ہوتا ہے اور یہی مرتبہ انسان، حیوان اور دوسرے موجودات میں قدرِ مشترک ہے۔ آسمان انسان کے اندر کے بلند مراتبِ لطیف اور بسیط روح کی عظمت کی نشانی ہیں۔ آسمان اور زمین ہمارے اندر پوشیدہ اور مخفی ہیں اور یہ ہمارے انتخاب پر منحصر ہےکہ اپنے وجود کے کس پہلو پر اعتدال و آگاہی سے توجّہ دے کر اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں۔

بارھویں صدی ہجری کے فلسفی اور شاعر شیخ ہادی سبزواری فرماتے ہیں: انسان حیوانات سے پست تر ہوسکتے ہیں اور فرشتوں سے بھی برتری حاصل کر سکتے ہیں ۔ فرق یہاں یہ ہے کہ حیوانات جیسے پیدا کیے گئے ہیں، اپنی جبلّت کے مطابق عمل کرتے ہیں، لیکن انسان اپنی جامعیت کے اصول کی وجہ سے تمام مراتب پر حاوی ہے، انتخاب کا حق رکھتا ہے، اس طرح فرشتوں سے بڑھ بھی سکتا ہے اور حیوانات سے پست تر بھی ہوسکتا ہے۔

ہر وہ چیز جو خداوند نے خلق فرمائی ہے: "انتہائی خوبی سے خلق فرمائی ہے۔"

(سورۂ السّجدہ:۳۲، آیت۷)

یہ نکتہ بہت ہی لطیف اور باریک ہے، اِس لیے ہمیں اس پر بڑی باریکی سے توجّہ دینی چاہیے۔ ہم میں سے ہر ایک اُس کی مخلوق اور نیکی اور بھلائی کا منشا ہے، اِس لیے ہمیں چاہیے کہ نیکی اور بھلائی کا منبِع اور منشا اپنے وجود کے اندر پائیں، اُس کی پرورش کریں، تاکہ اُس کے آثار ہم میں پھوٹ پڑیں اور ہم سلامتی اور بھلائی سے متوازن زندگی گزار سکیں۔ ہم علم الٰہی کے مظاہر ہیں اور اپنے اندر پوشیدہ الٰہی خصوصیات کی تجلّی پر قادر ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ توجّہ اور تمرکز سے اپنی باطنی صلاحیتیں دوبارہ حاصل کرکے ان کی پرورش کریں اور "اپنے وجود کی زمین اور آسمانوں" پر ایک ہمہ پہلو اعتدال سے کامیابی حاصل کرسکیں۔

هو الله الخالق البارئ المصور له الأسماء الحسنى يسبح له ما في السماوات و الأرض و هو العزيز الحكيم.

وہی خداے خالق ایجاد و اختراع کرنےوالا، صورتیں بنانے والا ہے۔ اس کے اچّھے اچّھے نام ہیں۔ سب چیزیں اس کی تسبیح کرتی ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور وہی زبردست حکمت والا ہے۔

 


source : www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلام پر موت کی دعا
ایسا قرآن کس طرح همیشه کے لئے رهنما هوسکتا هے جس ...
اولو العزم انبیاء اور ان کی کتابیں کون کونسی هیں؟ ...
سورۂ رعد کي آيت نمبر 24-28 کي تفسير
کیفیات ادائیگی حروف
تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 11 تا 15)
سورۂ فرقان؛ آيات 60۔ 63 پروگرام نمبر 676
قرآنی معلومات
اسباب نزول
تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 61 تا 65)

 
user comment