اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

سورۂ رعد کي آيت نمبر 24-28 کي تفسير

  سورۂ رعد کي آيت  نمبر  24-28  کي تفسير

جيسا کہ آپ کے پيش نظر ہے اس سے قبل کي آيتوں ميں خدائے سبحان نے مومنين کے درميان صاحبان عقل و خرد کي نو خصوصيات ذکر کي تھيں جن ميں سب سے پہلي، دوسري اور تيسري خصوصيت يہ تھي کہ وہ اپنے اللہ کے وفادار ہيں عہدشکني نہيں کرتے اور صلہ رحمي سے کام ليتے ہيں اب اس آيت ہيں ان افراد کا ذکر ہے جو عاقل و فرزانہ مومنين کے بالکل برعکس الہي عہد و پيمان کو توڑ ديا کرتے ہيں اچھے اور نيکوکار افراد سے اپنے تعلقات منقطع کرليتے اور زمين پر برائياں پھيلاتے ہيں ظاہر ہے يہ لوگ کفار و مشرکين ہي ہوسکتے ہيں جنہيں اللہ سے کئے ہوئے عہد و پيمان کي کوئي فکر نہيں ہوتي اچھے لوگوں سے تعلقات کے بجائے برے افراد سے رشتے استوار کرتے اور فساد و فحشاء کو رواج ديتے ہيں رحمت الہي سے دور ہوکر اس کي لعنت و نفريں کے مستحق قرار پاتے اور اپنا انجام خراب کرليتے ہيں آيت سے يہ بات واضح ہے کہ روئے زمين پر اصلاح و آبادکاري اور بدعنواني کا خاتمہ اسي وقت ممکن ہے جب معاشرہ مومن و صالح افراد پر مشتمل ہو ورنہ عہدشکن کفار اور فاسد عناصر سے بشريت کي ترقي و فلاح کي توقع فضول ہے - يہ لوگ الہي رحمت و کرامت سے دور باطل کے دلدل ميں اس قدر دھنس چکے ہيں کہ ہلاکت و نابودي کے سوا ان کو کچھ بھي ہاتھ آنے والا نہيں ہے - اور اب سورۂ رعد کي آيت چھبيس ، ارشاد ہوتا ہے :" اللہ يبسط الرّزق لمن يّشاء و يقدرو فرحوا بالحيوۃ الدّنيا في الاخرۃ الّا متاع "يعني اللہ جس کے لئے چاہتا ہے رزق ميں وسعت يا تنگي پيدا کرديتا ہے اور وہ ( کفار) دنيوي زندگي ( کي آسائشوں) ميں مسرور ہيں جبکہ دنيوي حيات، اخروي حيات کے سامنے بہت تھوڑي سي پونجي کے سوا کچھ نہيں ہے -عزيزان محترم ! عاقل و فرزانہ مومنين کي خوش انجامي اور عہد شکن کفار کي بدانجامي يعني ايک گروہ کے نصيب ميں آنے والي بہشت جاوداں اور دوسرے گروہ کا مقدر بننے والي جہنم کي لعنتوں کا ذکر کرنے کے بعد، جو خود ايک طرح کا رزق ہے خداوند عالم نے اس آيت ميں اعلان کيا ہے کہ وہ جس کو جس طرح بھي چاہتا ہے اس ميں يا اس ميں سے روزي کي وسعت يا تنگي کرديتا ہے اور يہ کہ يہ کام، يعني رزق ميں وسعت يا تنگي ، حق و باطل کے درميان قائم ايک مستقل الہي نظام کے تحت انجام ديتا ہے اور اس ميں تسلسل پايا جاتا ہے چنانچہ حق پر اعتقاد اور اسي کے مطابق عمل ، رزق بہشت سے بہرہ مند ہونے اور ابدي سلامتي حاصل کرلينے کا باعث بنتا ہے جبکہ باطل پر اعتقاد اور باطل کاموں کي انجام دہي ہميشگي کي لعنت اور دوزخ کي آگ ميں جلتے رہنے کا سبب بنتي ہے البتہ جيسا کہ آيت ميں بعد کے جملے سے پتہ چلتا ہے اگرچہ حقيقي رزق وہي آخرت کا رزق ہے ليکن الہي عہد کو توڑدينے کي وجہ سے کفار دنيوي حيات کي ظاہري آسائشوں کو سب کچھ سمجھ کر آخرت کي آسائشوں سے غافل ہوجاتے ہيں اور اپني دنيا ميں ہي خوش حال رہتے ہيں جبکہ دنيوي متاع اور پونجي بڑي ہي مختصر اور ناپائدار ہے اس پر اکڑنا اور اترانا نہيں چاہئے چنانچہ مومنين بھي رزق ميں وسعت ديکھ کر سرکشي ، يا تنگي ديکھ کر مايوسي کا شکار نہيں ہوتے وہ جانتے ہيں الہي نظام ايک حکيمانہ نظام ہے دنيا سرائے آزمائش اور آخرت سرائے آسائش ہے - اور اب سورۂ رعد کي آيت ستائيس ، خدا فرماتا ہے :" و يقول الّذين کفروا لو لا انزل عليہ ايۃ مّن رّبّہ قل انّ اللہ يضلّ من يّشاء و يہدي اليہ من ناب " اور کافروں کا کہنا ہے کہ آپ کے پروردگار کي طرف سے کوئي معجزہ ان پر کيوں نازل نہيں ہوا، آپ ان سے کہديجئے : يقينا" اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرديتا اور جو کوئي اس کي طرف پلٹ آئے اور توبہ کرلے اس کي اپني طرف ہدايت کرديتا ہے -ظاہر ہے جو شخص بھي اللہ کي طرف سے نبوت و رسالت کا دعويدار ہو خدا کے حکم سے ہي اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کوئي معجزہ پيش کرتا ہے تا کہ خدا کے ساتھ اس کا رابطہ پتہ چلے اور لوگ يقين کرليں کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے خدا کي طرف سے کہہ رہا ہے ليکن اس کا مطلب يہ نہيں ہے کہ جس کا جو دل چاہے نبي و رسول سے مطالبہ کرے اور وہ ان کے ہر مطالبے کو پورا کرديں - لوگ اعجاز آفريني کو ہي شرط ايمان قرار ديديں اور نبي کا کام صرف معجزے دکھانا رہ جائے يہ چيز نظام عالم ميں خلل کا باعث بن سکتي ہے جبکہ حقيقت طلب افراد انبياء (ع) کے معجزے ديکھکر ايمان لے آتے ہيں ضد اور ہٹ دھرمي کا مظاہرہ نہيں کرتے - نبي اکرم (ص) کو بھي اللہ نے قرآن کريم جيسے عظيم ترين معجزے سے نوازا تھا مگر کفار و مشرکين اس کو اللہ کي کتاب ماننے سے انکار کرتے اور اس کي جگہ کسي اور معجزے کا مطالبہ کيا کرتے تھے - ايسے ضدي لوگوں کے سامنے اگر ہزار معجزے پيش کئے جائيں تو بھي ماننے کو تيار نہيں ہوسکتے -ظاہر ہے قرآن، جو اللہ کا ايک جاوداں معجزہ ہے اور جس کے بلند معارف اس کے الہي کتاب ہونے کي بہترين دليل ہيں، کفار کو قانع نہ کرسکے کيونکہ جو بنکرسورہے ہوں انہيں کون جگا سکتا ہے ، ايک طرف وہ قرآن کريم کي معجز نما حقيقتوں کے منکر تھے اور دوسري طرف پيغمبر اکرم (ص) سے مطالبہ تھا کہ اگر آپ اللہ کے نبي ہيں تو اپنے ساتھ کوئي معجزہ کيوں نہيں لائے؟ ! اسي لئے اللہ نے ان کے جواب ميں نبي (ص) کي زباني کہلوايا ہے: کہ اللہ جس کي چاہتا ہے ہدايت کرتا اور جس کو چاہتا ہے گمراہي ميں چھوڑديتا ہے - جي ہاں کفار کي ضد خود ان کے ہي ضرر ميں تمام ہوئي اللہ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑديا اور وہ آسماني حقائق کو سمجھنے کي قوت و توانائي سے ہي محروم کردئے گئے اور اپني معنوي بيماري ميں گرفتار ہوکر الہي آيات کے تحمل کي حس جاتي رہي اور بد ہضمي و بدمزگي کا شکار ہوگئے ويسے ہي جيسے کسي کيچڑ ميں جب بارش ہوتي ہے تو بجائے صفائي کے گندگي پھيل جاتي ہے اور پورے ماحول ميں بو بس جاتي ہے جبکہ يہي بارش زرخيز زمينوں کو ہرا بھرا کرکے باغ و بہشت ميں تبديل کرديتي ہے -آسماني کتابيں اور انبيائے الہي کي تعليمات بھي باران رحمت کي طرح ہيں زمين شورہ زار ہو تو خس و خاشاک بھي روئيدہ نہيں ہوتے اور اگر زمين ميں قوت نمو ہو تو ايمان و يقين کے پھول کھل اٹھتے ہيں چنانچہ آيت ميں " اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرديتا ہے " اسي معني ميں ہے کہ کچھ لوگ الہي پيغام کو قبول نہيں کرتے ضد اور ہٹ دھرمي سے کام ليتے ہيں تو اللہ بھي انہيں اپني ہدايت سے محروم کرديتا ہے ورنہ ابتدائي طور پر الہي تعليمات عموميت رکھتي ہيں اگر لوگ الہي قوت و صلاحيت کا استعمال کريں تو سبھي ہدايت پا سکتے ہيں -ايسا نہيں ہے کہ شروع سے ہي اللہ ان کي ہدايت و رہنمائي نہيں چاہتا تھا يا ان کو گمراہي کے لئے اللہ نے پيدا کيا تھا -ہدايت کے وسائل مہيا تھے چونکہ ان کي مخالفت کي لہذا اللہ نے انہيں گمراہي ميں چھوڑديا ہے ليکن جن لوگوں کے دل اللہ کي طرف جھکتے ہيں حتي گناہ کے بعد توبہ ؤ استغفار کرتے ہيں خدا ان کو راستہ دکھاديتا ہے-اور اب سورۂ رعد کي اٹھائيسويں آيت خدا فرماتا ہے : " الّذين امنوا و تطمئنّ قلوبہم بذکر اللہ الا بذکر اللہ تطمئنّ القلوب " ( يعني) يہ وہ لوگ ہيں جو ايمان لے آئے اور ان کے دل ياد خدا سے سکون و آرام حاصل کرليتے ہيں يقينا" دلوں کو صرف ياد خدا سے سکون حاصل ہوتا ہے - عزيزان گرامي! جيسا کہ سلسلۂ گفتگو سے ظاہر ہے جن لوگوں کے دل خدا کي طرف جھکتے ہيں اور اللہ ان کو ہدايت و آگہي کا راستہ دکھا ديتا ہے وہي لوگ ہيں جو مومن ہيں اور ياد خدا سے ان کے دلوں کو سکون ملتا ہے کيونکہ ذکر و ياد خدا ميں ہي دلوں کا سکون ہے اگر انسان خدا کي ياد سے غافل ہوتو کبھي مطمئن اور پرسکون نہيں رہ سکتا جب بھي انسان کسي مشکل اور پريشاني ميں گھرجائے امتحان کرسکتا ہے جب تک اللہ سے لو نہ لگائے سکون نہيں ملتا يا بھولے سے بھي کوئي گناہ سرزد ہوجائے تو جب تک خدا کي بارگاہ ميں سچے دل سے توبہ و استغفار نہ کرلے سکون نہيں ملتا اندر سے ہي ضمير جھنجوڑا کرتا ہے ادھر مصلے پر بيٹھکر دعا ؤ استغفار کے ساتھ آئندہ گناہ نہ کرنے کا خدا سے عہد کيا اور ادھر دل کي بيچيني ختم ہوگئي -سکون حاصل ہوگيا کہ اللہ ضرور معاف کردے گا البتہ جو اہل معرفت ہيں وہ ہر وقت خدا کو ياد کرتے ہيں تا کہ خدا کي ياد اور خدا کا ذکر ان کو گناہوں سے محفوظ و مطمئن رکھے يہ لوگ ہر حال ميں پرسکون اور آرام سے رہتے ہيں خدا کي ياد تقوي و پرہيزگاري کا سبب ہے انسان اللہ کي نعمتوں کو ياد کرتا اور شکر ادا کرتا رہتا ہے قدرت کو ياد کرتا اور ہر مشکل پر غلبہ حاصل کرليتا ہے اس کے رحمان و رحيم ہونے کا خيال آتا ہے اور اميديں اور آرزوئيں جوان ہوجاتي ہيں اور دست دعا بلند ہوجاتے ہيں ظاہر ہے اللہ کي عظمتيں سامنے ہوں تو دنيا کي تمام چيزيں ہيچ اور بے مقدار ہوجاتي ہيں - سورۂ انفال کي دوسري آيت ميں خدا فرماتا ہے :" انّما المؤمنون الّذين اذا ذکر اللہ و جلت قلوبہم " يعني ايمان والے تو بس وہي لوگ ہيں کہ جب اللہ کا ذکر ہوتا ہے ان کے قلوب کانپ اٹھتے ہيں اور ان کو الہي آيات پڑھ کر سنائي جاتي ہيں تو ان کے ايمان ميں اضافہ ہوجاتا ہے ماہ رمضان المبارک کي دعا ميں فرزند رسول امام سجاد (ع) فرماتے ہيں : خدايا جب بھي تيرے لطف و کرم کي ياد آئي ہے اميديں پيدا ہوجاتي ہيں اور دل کو سکون مل جاتا ہے - اور اب زير بحث آيات سے جو سبق ملتے ہيں ان کا ايک خلاصہ : دنيا و آخرت ميں مومنين کے کاموں کا انجام اور کفار و مشرکين کے کرتوتوں کا نتيجہ ديکھ کر اور پڑھ کر صاحبان عقل و فکر حق و باطل کي راہيں آساني سے شناخت کرليتے ہيں - خدا کے ساتھ عہدشکني ، اور اللہ کے بنائے ہوئے خوني يا روحاني رشتوں کو توڑنا اللہ کي نگاہ ميں روئے زمين پر فساد اور بدعنواني پھيلانے کے مترادف قرار دي گئي ہے اور ان تينوں کاموں کا انجام ، خدا کي لعنت و نفريں اور عاقبت خراب ہوجانے کي صورت ميں ظاہر ہوتا ہے - برائيوں اور بداعماليوں کا نقطۂ آغاز خدا سے دوري اور الہي اديان کي مخالفت اور سرکشي ہے اور اس کے مناظر دنيا ميں ہر سطح پر قابل مشاہدہ ہيں - روزي روٹي خدا کے ہاتھ ميں ہے، عہد شکني ، فريب ، چالاکي اور لالچ يا کنجوسي سے روزي ميں اضافہ نہيں ہوتا البتہ يہ چيزيں روزي ميں کمي کا باعث بن سکتي ہيں - يہ دنيا فاني اور چند روزہ ہے البتہ اس کے ظواہر اور تڑک بھڑک پر کچھ لوگ فريفتہ ہوکر خدا کو بھول جاتے ہيں - صاحبان ايمان کو ہوشيار رہنا چاہئے کہ دنيا پرستي انہيں خدا پرستي سے دور نہ کردے - انسانوں کي ہدايت و رہنمائي ميں عقل و بصيرت اور فطري تقاضوں پر لبيک کہتے ہوئے خدائے يگانہ کي طرف ميلان و رجحان بڑي اہميت رکھتا ہے- خدا کي طرف جھکاؤ، حق کو قبول کرنے کي زمين تيار کرتا ہے اور الہي توفيق شامل حال ہوجاتي ہے جس کے سبب اللہ ہدايت و آگہي کي راہ پر لگاديتا ہے ورنہ- جو لوگ اپني فطرت کے خلاف الہي اديان کو قبول نہيں کرتے اور خدا کے نمائندوں کي مخالفت اور تکذيب سے کام ليتے ہيں اللہ انہيں گمراہي کي راہ پر آزاد چھوڑ ديتا ہے - انبياء (ع) سے بار بار معجزات کا مطالبہ کفار کي ضد اور ہٹ دھرمي کي دليل ہے جن کے دل پاک ہوتے ہيں ايک معجزہ ديکھ کر خداؤ رسول پر ايمان لاتے اور نجات حاصل کرتے ہيں - اللہ نے تمام لوگوں کي ہدايت کا سامان فراہم کرديا ہے جو عقل سے کام ليتے ہيں ہدايت پاتے ہيں ورنہ گمراہي ميں پڑکر اپني عاقبت خراب کرليتے ہيں- خدا کي ياد قلب کو سکون عطا کرتي ہے- عصر حاضر ميں عالم انسانيت کي بے چيني اور اضطراب کا اصل سبب يہي ہے کہ لوگوں نے خدا کو بھلا ديا ہے اور دولت و ثروت اور حکومت و اقتدار اور شہرت و عزت کو ہي اپنا خدا سمجھ ليا ہے -


source : www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن مجید کے کتنے سورے حیوانوں کے نام پر هیں؟
قرآن مجید ذریعہ نجات
امام عصر كی معرفت قرآن مجید كی روشنی میں
کیا شیطان (ابلیس) جنّات میں سے هے یا فرشتوں میں سے؟
قرآن مجید میں سورج کے طلوع اور غروب سے کیا مراد ...
اسلامی اتحاد قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآنی لفظِ "سمآء"کے مفاہیم
قرآن و اھل بیت علیھم السلام
امامت قرآن اورسنت کی رو سے
اسلام پر موت کی دعا

 
user comment