خداوند منان کي ياد اور ذکرميں ہي قلوب کو سکون و اطمينان ملتا ہے اور مومنين ہميشہ، ہرقسم کي تکليف و پريشاني ميں خدا کو ياد کرتے اور دل و دماغ کو پرسکون رکھتے ہيں اس بات کي طرف متوجہ کرنے کے بعد قرآن کريم نے اس آيت ميں مومنين کي ايک خصوصيت يہ بھي بتائي ہے کہ وہ ہميشہ اچھے کام کرتے ہيں جس کے نتيجہ ميں الہي لطف و کرم ان کے شامل حال رہتا ہے، وہ دنيا ميں بھي آرام و سکون کي خوشگوار زندگي گزارتے ہيں اور آخرت ميں بھي خوش انجام رہيں گے قرآن کريم نے سورۂ نحل کي آيت ستانوے ميں بھي نيکوکار مومن کي زندگي کو حيات طيبہ سے تعبير کيا ہے اور طہ کي آيت 124 ميں کہا ہے کہ جنکو ذکر خدا سے دلي سکون حاصل نہيں ہوتا اور ياد خدا سے بھاگتے ہيں، قيامت ميں اندھے محشور ہونگے علاوہ ازيں قرآن کريم ميں عام طور پر ايمان کے ساتھ جگہ جگہ عمل صالح يعني اچھے کام کرنے کا ذکر ملتا ہے گويا ايمان اور عمل صالح ايک دوسرے سے جدا نہيں کئے جا سکتے اس کے مقابلے ميں دوسري طرف نفاق کے ساتھ فسق و فجور کا ذکر ملتا ہے يعني نفاق کے ساتھ عمل صالح کا تصور نہيں کيا جا سکتا اگرچہ ممکن ہے کوئي مومن بھي فسق و گناہ ميں مبتلا ہوجائے مگر ايمان کے سبب انسان اپني غلطي کي طرف متوجہ ہوکر توبہ ؤ استغفار سے کام ليتا اور فسق و گناہ سے نجات حاصل کرليتا ہے-اس کے برخلاف منافق ممکن ہے دکھانے کےلئے اچھے کام انجام دے مگر منافق کي نيت چونکہ صاف نہيں ہوتي وہ ايمان سے محروم رہتا ہے اور اس کے اچھے کام بھي اچھے کام شمار نہيں ہوتے-اور اب سورۂ رعد کي تيسويں آيت ارشاد ہوتا ہے : " کذلک ارسلناک في امّۃ قدخلت من قبلہا امم لّتتلوا عليہم الّذي اوحينا اليک و ہم يکفرون بالرّحمن قل ہو ربّي لا الہ الّا ہو عليہ توکّلت و اليہ متاب"(يعني) اے پيغمبر! ہم نے اس طرح، آپ کو اس امت کے درميان کہ اس سے پہلے بھي امتيں ( آچکي اور) جا چکي ہيں ( رسالت کے لئے ) بھيجا ہے، آپ جو کچھ ہم نے آپ پر وحي کي ہے ان کے سامنے تلاوت کريں اگرچہ ( يہ لوگ) خدائے رحمان کا انکار کرتے ہيں آپ کہديں: " وہي ميرا پروردگار ہے، اس کے سوا کوئي اللہ ( و معبود) نہيں ہے ميں نے صرف اسي پر توکل کيا ہے اور مجھ کو اسي کے پاس پلٹ کرجانا ہے " اس آيت ميں ايک بار پھر نبي اکرم(ص) کو مخاطب قرار دے کر پچھلي امتوں کے درميان الہي نمائندوں کي آمد و رفت اور امتوں کي جانب سے ان کي تکذيب اور کفر و شرک پر اصرار کا ذکر کرتے ہوئے پيغمبر اسلام (ص) کي مخالفت کرنے والے مشرکين مکہ کو خبردار کيا گيا ہے کہ نبي اکرم(ص) کا رسالت پر مبعوث ہونا کوئي نئي بات نہيں ہے کہ ان کي نبوت ميں شک کيا جائے سنت الہيہ کے تحت پچھلي امتوں ميں بھي انبياء (ع) آتے رہے ہيں چنانچہ اے نبي (ص)! ياد رکھئے آپ کا کام يہ ہے کہ ہماري جانب سے وحي شدہ پيغامات لوگوں تک پہنچاتے رہيں اور ہماري آيات کي تلاوت کرديں، اس کا انجام کيا ہوتا ہے اس کے آپ ذمہ دار نہيں ہيں اگر کوئي خدائے رحمان کاانکار کرتا ہے تو کيا کرے آپ تو ہماري وحي پر اعتماد و بھروسہ کرتے ہيں جانتے ہيں کہ يہ خدا کا کلام ہے اللہ ہي آپ کا پروردگار اور آپ کي تکيہ گاہ ہے اور سب کو اسي کي طرف پلٹ کرجانا ہے پس اس کے سوا کوئي اور اللہ و معبود کيسے ہوسکتا ہے ؟! آپ قرآني آيات کے مطابق تبليغ کا فريضہ انجام ديتے رہئے - اور اب سورۂ رعد کي آيت اکتيس خدا فرماتا ہے : "و لو انّ قرانا" سيّرت بہ الجبال او قطّعت بہ الارض اوکلّم بہ الموتي بل لّلّہ الامر جميعا" افلم يالئس الّذين امنوا ان لّو يشاء اللہ لہدالنّاس جميعا و لايزال الّذين کفروا تصيبہم بما صنعوا قارعۃ او تحلّ قريبا من دارہم حتّي ياتي وعداللہ انّ اللہ لايخلف الميعاد"اور اگر( بالفرض) قرآن کے ذريعہ پہاڑوں ميں حرکت پيدا ہوجائے يا زمين ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے يا مردے اس کے ذريعے بولنے لگيں( پھربھي يہ کفار ايمان نہيں لائيں گے) بلکہ تمام امور خدا کے ہاتھ ميں ہيں، آيا مومنين( سنگ دلوں کے ايمان لانے کي طرف سے ) مايوس نہيں ہوئے ہيں ( اور نہيں جانتے ) کہ اگرخدا چاہتا( تو جبر و قہر کے ذريعے) تمام لوگوں کي ہدايت و رہنمائي کرسکتا تھا جن لوگوں نے کفر اختيار کيا ہے، جو کچھ انہوں نے کيا ہے اس کي سزا کے طور پر ہميشہ کوئي نہ کوئي سخت مصيبت انہيں گھيرے رہے گي يا ان کے گھروں کے نزديک ڈيرہ ڈالے رہے گي يہاں تک کہ اللہ کا وعدہ پورا ہوجائے يقينا" اللہ تعالي وعدہ خلافي نہيں کرتا-عزيزان محترم! سلسلۂ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہ کفار کي جانب سے پيغمبر اسلام (ص) کي تعليمات کے خلاف محاذ آرائي ان کي تبليغ اور رسالت ميں کوئي خلل ايجاد نہيں کرسکتي اب اس آيت ميں کفار کي ضد اور ہٹ دھرمي کي حقيقت و ماہيت کي طرف اشارہ کيا گيا ہے کہ اگر بالفرض ہم قرآن کے اندر وہ تاثير پيدا کرديتے کہ وہ پہاڑوں کو ان کي بنيادوں سے اکھاڑ کر يہاں سے وہاں حرکت ميں لے آتا زمين ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر جاتي مردے قبروں سے کھڑے ہوکر بولنے لگتے تو يہ تمام آثار ديکھنے کے باوجود يہ لوگ قابل ہدايت نہيں ہيں مگر يہ کہ خدا چاہے بلکہ تمام امور خدا کے ہاتھ ميں ہيں کوئي بھي چيز اس کے دست قدرت سے دور نہيں ہے کوئي تو ہم پرست اس گمان ميں نہ رہے کہ کوئي عجيب و غريب ، عظيم و وسيع، ہوش و حواس اڑادينے والي نشاني ديکھ کر شايد يہ کفار ايمان لے آتے، جي نہيں اگر اللہ نے چاہا ہوتا تو يہ لوگ اسي قرآن کے ذريعہ ہدايت پاجاتے، عظمتوں کے لحاظ سے يہ قرآن کسي بھي عظيم ترين معجزے سے کم نہيں ہے کفار کا ايمان نہ لانا، ان کے ان اعمال کا نتيجہ ہے کہ جن کے تحت ايمان کي توفيق ان سے سلب کرلي گئي ہے تمام امور خدا کے ہاتھ ميں ہيں اور کسي کا ہدايت پانا يا نہ پانا بھي اس کي مشيت کے تابع ہے- چنانچہ سورۂ انعام کي آيت ايک سو ايک ميں بھي اسي طرف اشارہ ہے کہ " اگر ہم فرشتے ان پر نازل کريں، مردے ان سے گفتگو کريں اور تمام چيزيں گروہ در گروہ ان کے پاس جمع کرديں تو بھي يہ ايمان نہ لائيں گے مگر يہ کہ خدا چاہے" اسي لئے آيت ميں مومنين سے پوچھا گيا ہے کہ کيا اب بھي وہ کفار کے ايمان لانے کي طرف سے مايوس نہيں ہوئے ہيں اور رسول اسلام (ص) سے توقع رکھتے ہيں کہ وہ کوئي ايسا معجزہ دکھاديں کہ يہ کفار بھي ايمان لے آئيں، کيا وہ نہيں جانتے کہ خدا کسي کے ساتھ ايمان لانے ميں قہر و جبر سے کام نہيں ليتا اگر وہ ايسا چاہتا تو دنيا کےتمام لوگ ہدايت پاچکے ہوتے چنانچہ ان کافرين پر، جو خدائے رحمان کا انکار کرتے ہيں دنيا ؤ آخرت ميں سخت عذاب ہے، الہي قہر و عذاب ان کے گھروں کے گرد ڈيرہ ڈالے رہے گا يہاں تک کہ اللہ کا وعدہ پورا ہوجائے کيونکہ اللہ کبھي وعدہ خلافي نہيں کرتا- چونکہ يہ سورہ مکي ہے اور بعثت کے بعد ہجرت سے قبل جو حادثات رونما ہوئے ہيں اور بعد ہجرت فتح مکہ سے قبل جو کچھ سامنے آيا ہے ان سب سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آيت ميں مکہ اور اس کے اطراف کے کفار و مشرکين مراد ہيں، جن پر مصيبتوں کي صورت ميں عذاب نازل ہوئے اطراف مکہ کے لوگ ہيں جو جنگوں اور خوں ريزيوں ميں گرفتار ہوئے اور وہ لوگ کہ جن کے قرب و جوار ميں عذاب نے ڈيرہ ڈال رکھا تھا مکہ والے ہيں جو گرد و پيش کے حادثات سے رنج و تعب ميں مبتلا تھے شمشير کا عذاب رات دن کي نينديں حرام کئے ہوئے تھا - اور اب زير بحث آيات سے جو سبق ملتے ہيں ان کا خلاصہ: جو لوگ بدکار ہيں اور برائياں ان کے دلوں ميں گھر کرچکي ہيں دنيا ميں بھي زندگي کي شيريني انہيں نصيب نہيں آتي، شيريني حيات کے لئے سکون و راحت لازم ہے اور وہ عيش و عشرت کي ريل پيل کے باوجود انہيں نصيب نہيں ہوتي-شيريني حيات مومنين نيکوکار کا حصہ ہے کيونکہ وہ ہروقت خدا کي ياد اور ذکر ميں رہتے اور ہرحال ميں سکون کي دولت سے مالامال رہتے ہيں - دنيا پرستوں کي کاميابياں وقتي اور چند روزہ ہوتي ہيں قيامت ميں ان کے لئے صرف ناکامياں ہي ناکامياں ہيں جبکہ مومنين دنيا ميں بھي کامراں ہيں اور آخرت ميں بھي فائز المرام ہوں گے- گزشتہ قوموں کي تاريخ کا مطالعہ الہي حقائق کي معرفت و قبوليت اور آسماني مکاتب کي تعليمات پر عمل و يقين ميں بے حد موثر ہے مگر يہ کہ آدمي کسي ضد اور مخالفت پر اتر آئے- خدا پر توکل انبياء (ع) کا شيوہ ہے رسول اسلام (ص) کفار و مشرکين کي تمام دشمنيوں اور مخالفتوں کے باوجود خدا پر توکل اور اعتماد کے ذريعہ کاميابي و کامراني سے ہمکنار رہے ہيں - خدا پر توکل کے ذريعہ راہ خدا ميں صبر و استقامت کي قوت ملتي ہے- خداوند عالم نے انسان کو اس طور پر پيدا کيا ہے کہ وہ اپنے امور ميں تمام قدرت و اختيار رکھتا ہے اور خود ہي کفر و ايمان کے درميان جو راہ چاہتا ہے اختيار کرتا ہے پھر بھي انسان خدا سے مستغني نہيں ہے اگرخدا کي طرف سے توفيق نہ ہوتو کوئي کافر ہدايت نہيں حاصل کرسکتا - البتہ خدا چاہتا ہے کہ لوگ خود اپنے ارادہ ؤ اختيار سے ايمان لائيں اور ماں باپ سے نيکي و حسن سلوک کي مانند اچھے کام الہي توفيق کے حصول ميں موثر ہوتے ہيں- بلاؤ ں اور مصيبتوں کا نزول خود انسان کے اپنے افعال و اعمال کا نتيجہ ہے -
source : www.tebyan.net