اردو
Friday 27th of December 2024
0
نفر 0

200 سالہ تاریخ کی حامل مسجد

200 سالہ تاریخ کی حامل مسجد

کی رپورٹ کے مطابق آپ کو ایک تاریخی مسجد کے بارے میں بتاتے ہیں جو ریپبلک بشکورتوستان کے جنوب میں واقع ہے۔ اس وقت اسے اس ری پبلک کی سب سے پرانی مسجد خیال کیا جاتا ہے اور یہ ریپبلک کی تاریخی اور ثقافتی یادگاروں میں سے ایک شمار کی جاتی ہے۔ اس مسجد کی درست تاریخ تعمیر کے بارے میں علم نہیں ہے۔ قدیم دستاویزات میں اس کا پہلی بار تذکرہ 1861 میں ملتا ہے لیکن سابق امام کی محفوظ ڈائری کے مطابق یہ اس سے کہیں پہلے تعمیر ہوئی تھی۔ کہیں 1800 کے عشرے میں اس بستی میں ایک متشرع مسلمان، کورائی نام کے رہا کرتے تھے۔ ان کی عمر تب پینتیس چالیس برس تھی۔ بستی میں رہنے والے سبھی لوگوں نے انہیں حج کرنے جانے میں مدد کی تھی۔ جب وہ حج سے لوٹے تو انہوں نے بستی والوں کو مسجد تعمیر کرنے کے اپنے ارادے کے بارے میں بتایا تھا۔ انہوں نے دل سے کورائی حاجی کی حمایت کی تھی۔ ہر شخص نے ان کی حسب توفیق مدد کی تھی۔ 1808 ۔ 1810 کے لگ بھگ کورائی حاجی کی ہمت سے اس بستی میں پہلی مسجد وجود میں آ گئی تھی۔

مسجد دو بستیوں کے لوگوں کے لیے تھی، جو ایک دوسرے سے کچھ زیادہ دور نہیں تھیں۔ کورائی حاجی دوسرا حج کر آئے تھے۔ وہ 1826 میں انتقال کر گئے ۔ ان کے بیٹے بھی ان کی طرح دیندار تھے۔ ان کے بیٹے یعنی کورائی حاجی کے پوتے ہدایت مدرسے میں طالب علم تھے اور بعد میں اپنے دادا کی تعمیر کردہ اسی مسجد میں 1896 سے 1956 تک امام کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ وہ اپنی روشن فکری، سچائی اور انسانیت نوازی کے لیے معروف تھے۔ ان اوصاف کی وجہ سے بستی کے تمام لوگ ان کی تعظیم کرتے تھے۔ ان کے بیٹے کا نام کستراہان تھا جنہیں مولوی ہدایت نے مشکل حالات سے قطع نظر دینی علوم سکھانے کی کوشش کی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران کستراہان محاذ پر چلے گئے تھے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔ ہدایت کے کام کو ان کے پڑپوتے یعنی کستراہان کے پوتے کستراہان صالح نے پروان چڑھایا اور آج بھی پچاس برسوں سے اس مسجد میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ایسا ہے یہ خاندان۔
یہ مسجد مختلف ادوار سے گذری ہے اور یہ کوئی ایسی ایک مسجد نہیں۔ سوویت عہد میں جب مسجدوں اور گرجا گھروں کی کثیر تعداد کو ڈھا دیا گیا تھا، مذہبی اہلکاروں کو دبایا جاتا تھا تب یہ مسجد بھی کلب بنائے جانے کے لیے منتخب کر لی گئی تھی۔ مگر چونکہ ہدایت کا وقار بہت بلند تھا، سب ان کی عزت کرتے تھے اس لیے کسی کو ان کی مخالفت کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ اس مسجد کو برقرار رکھنے میں یہاں کے مقامی پہلے کومسومول یعنی نوجوان کمیوسٹ مرتضٰی اللہ یاروو نے مدد کی تھی۔ لیکن بہر حال ہدایت کو گرفتار کر لیا گیا تھا جنہوں نے کچھ عرصہ قید میں بھی کاٹا تھا۔ بات مشہور ہے کہ جب لوگ مسجد کو ڈھانے آئے تو مسجد کے تختوں کو کلہاڑوں سے نقصان نہیں پہنچا تھا اور کلہاڑے اچھل کر ان کو ہی لگتے تھے جن کے ہاتھ میں یہ تھے۔ وہ ڈر گئے تھے اور لوٹ کر نہیں آئے تھے۔
جب 1932 میں ہدایت قید سے آزادہو کر اپنی بستی میں لوٹے تھے تو انہوں نے فورا" ہی جمعہ کا خطبہ دینا شروع کر دیا تھا۔ تاہم حکومت کی پالیسی کی وجہ سے مسجد کو جلد ہی بند کر دیا گیا تھا اور وہ ویران ہو گئی تھی۔ کچھ عرصے کے لیے تو اسے گندم کے گودام کے طور پر بھی برتا گیا تھا۔ 1990 کی دہائی شروع ہوئی تو ملک میں تعمیر نو کا آغاز ہوا۔ حکومت نے مذہب کے بارے میں رویہ بدل لیا تھا۔ اس طرح مساجد کی تعمیر نو شروع ہوئی تھی۔ 27 ستمبر 1991 کو یہ مسجد فی الواقعی پھر سے وجود میں آئی تھی۔ جب اس کی مرمت کر لی گئی تو اس کا شاندار افتتاح کیا گیا۔ اس بات کو 23 برس بیت چکے ہیں۔ ملک کی سیاست، معیشت اور سماجی زندگی میں بہت سی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی کھیت اور مشترکہ کھیت بھی ختم ہو کر رہ گئے ہیں، جن سے زرعی مزدوروں کو روزی ملتی تھی۔ سارے کسان خود کفیل کسان بننے کا موقع نہ مل سکا۔ اس تبدیلی سے بشکورتوستان کی بستی یائک بائیوو بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہی، جہاں یہ مسجد واقع ہے۔ نوجوانوں کو کام کی تلاش میں بڑے شہروں میں جا کر رہنا پڑا۔ اس وقت بستی میں تقریبا" 155 افراد ہیں جو زیادہ تر معمّر لوگ ہیں۔ بچوں کی کم تعداد کے باعث سکول بند ہو گیا، وہ ساتھ کی بستی میں پڑھنے جاتے ہیں۔ بستی کا کلب اور ڈسپنسری بھی کام نہیں کرتے۔ لوگوں کے ملنے کی واحد جگہ یہ مسجد رہ گئی ہے۔ یہاں جمعہ کی نماز باقاعدگی سے پڑھائی جاتی ہے، مسلمانوں کے تمام تہوار یہاں منائے جاتے ہیں تاحتٰی بچوں کے لیے مبادیات اسلام سے متعلق اسباق دینے کا اہتمام بھی ہے۔ مگر سردیوں میں لکڑی سے بنی اس کہنہ مسجد میں آنا بالکل بھی ممکن نہیں ۔ بنیادوں اور دیواروں میں چھید ہو چکے ہیں، جہاں سے سرد ہوا کے جھونکے اندر آتے ہیں۔ کھڑکیاں بھی تبدیل کیے جانے کی متقاضی ہیں۔ اس وقت ری پبلک بشکورتوستان میں زیادہ وسائل نئی مساجد کی تعمیر کے لیے مختص کیے جاتے ہیں۔ کہنہ تاریخی یادگاروں، جنہوں نے کئی صدیوں تک لوگوں میں یگانگت قائم رکھی، کی بحالی کا کام بدتر ہے۔ تاہم مسلمانوں کی مرکزی دینی کونسل نے وعدہ کیا ہے کہ مسجد کو پوری طرح بحال کیا جائے گا، اس کے لیے منصوبہ ٌپہلے ہی تیار کیا جا چکا ہے۔ اگرچہ اس کام کے شروع کرنے کی تاریخ طے نہیں ہوئی مگر 200 سال سے زیادہ پرانی تاریخ کی حامل بشکورتوستان کی بستی کی اس مسجد کے لیے وسائل 2015 میں مل جانے کی توقع ہے۔
اس کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اسلام کے ساتھ بستی والوں کا اتحاد اور یگانگت اللہ کے گھر کا خیال رکھے جانے میں کام آیا۔ جب سڑکیں اور سفر کے دیگر وسائل مفقود تھے تب بھی لوگ مذہب کے ارکان پورے کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ ان کے درمیان کوئی حاجی ضرور ہو۔ حج کرنے والے کی مدد کرنے سے ان میں اللہ کے کرم کی امید بڑھ جاتی ہے۔

...

پچھلے تیس سالوں میں روس میں موجود مساجد کی تعداد ستر گنا بڑھ کر سات ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے

اس بارے میں روس کے مفتیوں کی کونسل کے سربراہ شیخ رویل گین الدین نے شمالی شہر آرہانگیلسک کے دورے کے دوران بتایا۔ ان کے مطابق 1980 کے عشرے کے وسط میں روس میں ایک سو سے کم مساجد فعال تھیں لیکن آج ان کی تعداد سات ہزار سے زیادہ ہے۔ مفتیوں کی کونسل کے سربراہ نے مزید کہا کہ مساجد کی بحالی کا عمل تیزی سے جاری ہے، یوں روس میں اسلامی انفراسٹرکچر مستحکم ہوتا جا رہا ہے۔ شیخ رویل گین الدین کے مطابق روس کے مغربی اور جنوبی علاقوں میں مساجد کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔
مفتیوں کی کونسل کے مطابق روس میں تقریبا" دو کروڑ مسلمان رہتے ہیں جن میں سے بیس لاکھ ماسکو اور اس کے نواحی علاقوں میں آباد ہیں۔ دوسرے بڑے شہر سینٹ پیٹرزبرگ اور اس کے نواحی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد ساڑھے سات لاکھ ہے۔

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات
چورى چکاري
خطبه شقشقیه کیتحلیل
گناہ دعا کی قبولیت میں مانع ہے
اقوال حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
تم سب اس سے بہتر ہو
حضرت آیت اللہ بہجت (رح) کا یادنامہ شائع ہوا
نہج البلاغہ کا تعارفی جائزہ
انبیا اور صالحین کی قرآنی دعائیں
قرآن میں وقت کی اہمیت کا ذکر

 
user comment