17 ربیع الاول وہ مبارک دن ہے جس دن خاتم الانبیاء اور سردار انبیاء رحمۃ اللعالمین دنیا میں تشریف لائے ہیں ۔ قصر کسری کے چودہ کنگروں نے گر کر اور آتش کدہ فارس نےگل ہو کر پیغمبر اسلام کے آنے کا استقبال کیا ۔ حضرت عبدللہ کے گہر اور حضرت آمنہ کی آغوش میں آنے والا فرزند امن و سلامتی کا پیغمبر بہی تھا اور عبدیت کا آینہ دار بہی ۔ ابتداء ہی سے پیغمبر اسلام (ص) کی رسالت عالمی تھی خداوند عالم نے انھیں پوری دنیا کے لۓ نبی بنا کر بھیجا تھا آپ کا یہ عزم تھا کہ پوری دنیا کے کفر وشرک اور مادی گری سے مقابلہ کریں ، دنیا کے مظلوم ومحروم طبقے کو ظالموں کے پنجے سے نجات دلوائیں اور سبھی کو اسلام کے مقدس قانون اور خدا پرستی کی طرف دعوت دیں۔ پیغمبر اسلام (ص) ابتداء ہی سے اتنی بڑی ذمہ داری سے آگاہ تھے مشکلات ودشواریوں کی طرف پوری طرح متوجہ تھے آپ کو اچھی طرح علم تھا کہ اس قسم کا کام آسان اور معمولی نہیں ہے بہت سی مشکلات سامنے آئیں گی آپ مشکلات کا خندہ پیشانی سے استقبال کر رہے تھے اور اللہ تعالی کے فرمان بجا لانے کے لۓ آمادہ تھے ۔
پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی دعوت کو اللہ کے حکم سے بغیر عجلت پسندی کے شروع کیا اور صبر و استقامت اور عاقبت اندیشی سے پوری احتیاط کے ساتھ حالات کو دیکھتے ہوۓ تبلیغ میں مشغول ہو گۓ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اس کام میں جلد بازی مضر ثابت ہو سکتی ہے اسی لۓ آپ نے اللہ کے حکم سے اپنی تبلیغ کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا اور پہلے اس طریقہ سے ابتداء کی جو ممکن ہو سکتا تھا۔ پیغمبر اسلام (ص) نے بعثت کی ابتداء میں اپنی دعوت کو اپنی با وفا بیوی جناب خدیجہ اور فدا کار چچا زاد بھائی حضرت علی علیہ السلام سے جو آپ کے گھر میں رہتے تھے شروع کیا۔ اللہ تعالی کی طرف سے اپنی اہم ذمہ داری کو انھیں دو کے درمیان ذکر کیا۔ فداکار و باوفا خاتون جناب خدیجہ (ع) اور طاقتور و مہربان جوان حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام (ص) کی بات سنی اور اسلام کا اظہار کردیا اور وعدہ کیا کہ آپ کے اس کام میں مدد کریں گے ۔
پیغمبر اسلام (ص) اپنی پہلی دعوت میں ہی کامیاب ہو گۓ آپ انھیں دو فداکاروں اور صحیح مددگاروں سے اپنی آسمانی دعوت کی تبلیغ میں مدد طلب کرتے تھے آپ نے ایک طاقتور تبلیغی مرکز اپنے گھر میں بنا لیا تھا پیغمبر اسلام (ص) ان دو کے ساتھ کبھی گھر میں اور کبھی مسجد الحرام میں اکٹھے نماز کے لۓ کھڑے ہوتے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے تھوڑے دنوں کے بعد زید کہ جو پیغمبر اسلام (ص) کے گھر میں رہتے تھے دین مقدس اسلام پر ایمان لے آۓ اور پیغمبر اسلام (ص) کی فکر داخلی لحاظ سے کاملا مطمئن اور آرام بخش ہوگئی یہاں مناسب ہے کہ تھوڑی سی جناب زید سے واقفیت حاصل کریں۔
جناب زید حضرت خدیجہ (ع) کے غلام تھے جناب خدیجہ نے انھیں پیغمبر اسلام (ص) کو بخش دیا تھا اور آنحضرت (ص) نے انھیں آزاد کردیا تھا وہ باپ کے گھر واپس جا سکتے تھے اور ماں باپ کے ساتھ زندگی بسر کرسکتے تھے لیکن وہ پیغمبر اسلام (ص) کے اخلاق وصداقت کے اتنا شیفتہ ہوچکے تھے کہ وہ پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ رہنے اور زندگی گذارنے کو ترجیح دیتے تھے اور آنحضرت (ص) کے گھر ہی رہ رہے تھے ۔ پیغمبر اسلام (ص) نے اسلام کی دعوت کو پوری طرح مخفی شروع کیا تھا جب بھی کسی سمجھدار اور روشن دل ،آگاہ اور آمادہ انسان کو دیکھتے تو اس سے اپنے مدعا کو بیان کرتے اور قرآن کی آیات اس کے سامنے پڑھتے اس کی وضاحت کرتے تھے اور اسے اسلام لانے کی دعوت دیتے تھے کبھی یہ کام مسجد الحرام کے کسی گوشہ میں، کبھی صفا و مروہ کے کنارے اور کبھی اپنے گھر میں انجام دیتے تھے۔ آپ نے تین سال تک اسی روش سے اپنی تبلیغ کی دعوت کی اس مدت میں آپ بہت استقلال اور صبر سے فرد فرد سے علیحدہ گفتگو کرتے یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلیتے اور مسلمانوں سے ملحق ہو جاتے تھے ۔ اس تین سال کے عرصے میں مسلمان اسلام کو ظاہر نہیں کرتے تھے اور اپنی نماز ادھر ادھر مخفی طور پر پڑھا کرتے تھے کافر و مشرک بھی چونکہ اسلام کے نفوذ اور وسعت سے زیادہ مطلع نہيں ہوا کرتے تھے لہذا وہ بھی اپنا رد عمل ظاہر نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت وتبلیغ بے نتیجہ و بے اثر اور پھر چونکہ پیغمبر اسلام (ص) لوگوں کو خدا پرستی و توحید کی دعوت دیا کرتے تھے اور واضح طور سے بتوں کی مذمت نہیں کیا کرتے تھے لہذا وہ اس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے تھے ۔ ان تین سالوں میں خود پیغمبر اسلام (ص) اور مسلمان مکہ میں زندگی بسر کر رہے تھے کوئی بھی ان کو پریشان نہیں کرتا تھا لیکن بعثت کے تیسرے سال کے آخر میں ایک واقعہ رونما ہوا کہ جس نے مسلمانوں کو دگرگوں کردیا اور واقعہ یہ تھا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ مکہ کے اطرف کے پہاڑ میں مخفی طور سے نماز پڑھنے اور مناجات کرنے میں مشغول تھا چند بت پرستوں کا وہاں سے گذر ہوا مسلمانوں کا منظم طور سے رکوع و سجود کرنا ان کے غصہ کا موجب ہوا غصہ میں آ کر انھوں نے مسلمانوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا اور مسلمانوں کی نماز ودعا کا مذاق اڑایا۔ مسلمان بھی ان کی بے ادبی اور گستاخی سے غصہ میں آ گۓ ان کو جواب دینا شروع کردیا اور نتیجہ ایک دوسرے کو مارنے وجھگڑا کرنے تک پہونچا مسلمانوں کی ایک فرد سعد نامی جنھیں بہت سخت غصہ آیا ہوا تھا اپنے قریب سے اونٹ کی ایک ہڈی اٹھائی اور دوڑتے ہوۓ ایک مشرک کے قریب پہونچے اور پورے غصے کے عالم میں اس کے سر پر ماری اس کا سر پھٹ گیا اور خون جاری ہوگیا ۔
بت پرست مکہ واپس لوٹ آۓ اور مسلمانوں کے ساتھ رونما ہونے والے حادثہ کا اپنے لوگون سے تذکرہ کیا مکہ کے سرداروں سے پیغمبر اسلام (ص) اور آپکے پیروکاروں کی حالت کو بیان کیا اس وقت سے مشرکوں نے خطرے کو محسوس کرلیا۔ پیغمبر اسلام (ص) جناب ارقم کے گھر مخفی طور سے گۓ اور وہاں چھپ گۓ انھیں دنوں جناب ارقم مسلمان ہوۓ تھے مسلمان تنہائی میں پوری طرح لوگوں سے ملاقات کرتے اور اسے اسلام کی دعوت دیتے اور جب پوری طرح مطمئن ہوجاتے تو اسے مخفی طور سے پیغمبر اسلام (ص) کے گھر لے جاتے تاکہ آپ اس کے سامنے قرآن پڑھیں اور اپنی آسمانی دعوت کی وضاحت کریں اسے خدا پرستی وتوحید کی طرف بلائیں اور اسلام کی صحیح دعوت دیں۔ انھیں دنوں ایک گروہ اسلام لے آیا اور مسلمانوں کے ساتھ ملحق ہوگیا ۔ پیغمبر اسلام (ص) کو ان تین سال کی دن رات کی محنت سے کافی کامیابی مل چکی تھی آپ نے زحمتوں کا مقابلہ کرتے ہوۓ چالیس فداکار مسلمانوں کو ترتیب دیا اور اس کو اس زمانہ کے لحاظ سے اہم کامیابی کہا جاسکتا ہے۔ اس زمانہ میں اسلام نے قدرت وطاقت حاصل کرلی تھی اور کفر وبت پرستی کی دنیا میں ایک طاقتور مرکز حاصل کرلیا تھا کیونکہ جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا ان میں چالیس آدمی صحیح طور پر فداکاری اور جانبازی پر آمادہ تھے اور اپنی جان ہاتھوں پر رکھ کر اسلام سے دفاع کرتے تھے ۔ ان تین سالوں میں اسلام کے پودے نے زمین میں اپنی جگہ بنا لی تھی اور اپنی جڑیں دور دور تک پھیلا دی تھیں لہذا اب اس درخت کا کاٹنا کوئی معمولی کام نہیں تھا اب پیغمبر اسلام (ص) اپنی دعوت وتبلیغ کے دوسرے مرحلہ پر اپنا کام شروع کرسکتے تھے۔
قرآن مجید کی آیت :
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین
۔ خدا وند عالم نے مومنین پر منت کی جب کہ ان میں انھیں کا ایک رسول بھیجا تا کہ ان پر اللہ کی آیات پڑھے اور ان کا تذکیہ کرے اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے اگرچہ وہ اس سے پہلے واضح گمراہی میں غرق تھے۔ عالمی دعوت کا اعلان: مکہ میں مشہور ہو چکا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آپ کو پیغمبر کہنا شروع کردیا ہے اور ایک گروہ نے آپکی دعوت کو قبول بھی کرلیا ہے اور آپ کی مدد کرنے کا وعدہ بھی کر لیا ہے آپ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو بلایا اور ایک مجمع عمومی میں انھیں اسلام لانے کی دعوت دی اور اپنی مدد کرنے کو ان سے کہا اور تمام بزرگان قریش کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا وزیر و جانشین مقرر کیا اور تعجب اس میں ہے کہ اس مجمع میں جناب ابوطالب علیہ السلام نے آپ سے کوئی اعتراض آمیز گفتگو نہیں کی تھی کہ جس سے گویا ظاہر ہوتا تھا کہ جناب ابوطالب علیہ السلام بھی آپ کی حمایت و مدد کریں گے ۔
مکہ کے لوگ اس واقعہ کو ایک دوسرے سے تعجب سے نقل کرتے تھے اب وقت آچکا تھا کہ اب پیغمبر اسلام (ص) اپنی دعوت رسالت کو ظاہر بظاہر اور اپنے پیغمبر ہونے کا اعلان کریں اور ان کو راہ راست کی ہدایت کریں چنانچہ خداوند عالم کی طرف سے آپ کو یہ پیغام ملتا ہے کہ : اے محمد (ص) جو کچھ ہم نے تم کو حکم دیا ہے اسے علنا بیان کرو اور حق کو باطل سے جدا کردو بت پرستوں اوران کے استہزا ء سے مت گھبراؤ کہ ہم انھیں سزا دیں گے۔ پیغمبر اسلام (ص) اس پیغام کو عملی جامہ پہنانے کے لۓ کوہ صفا پر گۓ کیونکہ عام طور پر اہم اعلانات اسی پہاڑ پر ہوا کرتے تھے ۔ پیغمبر اسلام (ص) پہاڑ کے ایک پتھر کے اوپر کھڑے ہو گۓ اور بلند آواز سے کہا: اے مکہ والوں اے قریش والو اے جوانو اے لوگو ! پیغمبر اسلام (ص) کی یہ بلند وآسمانی آواز کہ جس میں خداوند عالم پر ایمان اس سے عشق اور لوگوں کی ہدایت کرنے کا جذبہ پایا جاتا تھا تمام مکہ والوں کے کان تک پہونچی ۔
لوگ گھروں سے باہر نکلے اور اس آسمانی آواز کی طرف دوڑے تاکہ پیغمبر اسلام (ص) کی باتیں سن سکیں لوگ گروہ در گروہ آپ کے ارد گرد جمع ہوتے گۓ اور بے صبری سے نۓ واقعہ کو جاننے کا انتظار کرنے لگے پیغمبر اسلام (ص) نے اس مجمع کی طرف نگاہ کی اور فرمایا : اے مکہ والوں اے قریش کے مرد و زن اگر میں تم سے کہوں کہ دشمن اس پہاڑ کے پیچھے ہے اور تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا میری تصدیق کرو گے اور کیا دفاع کے لۓ تیار ہو جاؤ گے ؟ سب نے کہا: اے محمد ہاں (ص) اے محمد ہاں (ص) ہم تمھیں امین، سچا اور صحیح آدمی سمجھتے ہیں اب تک تم سے کوئی جھوٹ تک نہیں سنا ۔
پیغمبر اسلام (ص) نے اس طریقے سے اپنی امانت و صداقت انھیں یاد دلائی اور ان سے اس کا اقرار کرا لیا اور اس کے بعد فرمایا: اے لوگو ں میں اللہ کا پیغمبر ہوں ، تمھارے اور ساری دنیا کے لۓ بھیجا گیا ہوں ۔ اے لوگو! جان لو کہ موت کے آجانے سے زندگی ختم نہيں ہو جاتی جیسے تم سوجاتے ہو تو مرجاتے ہو اور جب بیدار ہوتے ہو (زندہ ہوجاتے ہو) اسی طرح مرنے کے بعد بھی دوبارہ زندہ ہو گے ، قیامت کے دن حساب کتاب کے لۓ حاضر کۓ جاؤ گے اور تمھاری رفتار و گفتار کا حساب و کتاب لیا جاۓ گا ۔ نیک کاموں کی جزا اور برے کاموں کی سخت سزا پاؤ گے ۔ اے لوگو! میں تمھارے لۓ بہترین آئین وقانون لایا ہوں ۔ دنیا و آخرت کی سعادت کی خوشخبری لایا ہوں کہو لا الہ الا اللہ تا کہ نجات و فلاح پاؤ ، خدا کو ایک مان کر عبادت کرو اور ایمان کے ذریعہ تمام دنیا کو عرب اور غیر عرب کو یگانہ پرستی کے پرچم تلے لے آؤ۔ مکہ کے اشراف و بت پرست پیغمبر اسلام (ص) کے اس بیان سے حیرت زدہ ہوگۓ اور ایک دوسرے سے کہنے لگے : تعجب ہے محمد (ص) کیا کہہ رہا ہے ؟ کس طرح اس نے جرآت کی ہے ؟ کہ ہمارے سامنے ایک خدا کے ہونے کی بات کرے ؟ اسے کس طرح جرآت ہوئی کہ ہمارے سامنے ہمارے بتوں کی جو ہمارے خدا ہیں نفی کرے ؟ کیا ابوطالب (ع) نے اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے ؟ کیا طاقت ور مرید اس کے ہوگۓ ہیں کہ جس سے ہم بے خبر رہے ہیں ؟ اس وقت ابولہب نے سخت غصہ میں کہا : تم پر واۓ ہو اسی پیغام کے لۓ ہمیں اپنے گھروں سے بلایا گیا ہے ؟ لوگ اٹھ گۓ اور ہر ایک کوئی نہ کوئی بات کررہا تھا ۔
کچھ کہہ رہے تھے : سنا ہے تم نے کہ محمد (ص) نے کیا کہا ہے وہ کہہ رہا تھا کہ : میں خدا وند عالم کی طرف سے پیغام لایا ہوں کیا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک انسان اللہ کی طرف سے پیغام لے آۓ ؟ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ انسان پیغمبر ہو جاۓ ؟ پیغمبر کیا ہوتا ہے ؟ کیا اب ہم ایک خدا کی عبادت کریں ؟ کیا ہمارے باپ دادا ایک طویل مدت سے بت پرست نہ تھے ؟ کیا ہم ان بتوں کو چھوڑ دیں ؟ محمد (ص) کی دعوت وتبلیغ کو کس طرح روکیں ؟ کیا ابوطالب (ع) محمد (ص) کی حمایت و مدد کریں گے ؟ پیغمبر اسلام (ص) پہاڑ سے نیچے اترے اور اپنے گھر واپس لوٹ آۓ اس کے بعد آپ اپنی رسالت ودعوت کو علنی طور پر بیان کرتے تھے اور کسی کی پروا نہیں کیا کرتے تھے لوگو ں کو خدا کی علنی دعوت دیا کرتے تھے پیغمبر اسلام (ص) اپنی دعوت میں صرف ایک خدا کی پرستش پر زور دیا کرتے تھے اوربتوں پر بہت کم تنقید کرتے تھے بت پرست بھی اس سے مطمئن تھے اور آپ کو زیادہ نہیں چھیڑتے تھے بلکہ کہا کرتے تھے: ہم اپنے دین پر اور محمد (ص) اپنے دین پر رہیں بہتر یہی ہے کہ جناب ابوطالب (ع) کے احترام اور ان کی شخصیت کا خیال رکھتے ہوۓ محمد (ص) کو اسی حالت پر چھوڑ دیں اور دیکھیں کہ آگے کیا ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے پیغمبر اسلام (ص) کی تبلیغ کا یہ تیسرا مرحلہ بخوبی انجام پا رہا تھا اور آپ حالات کے انتظار میں تھے کہ موقع ملے اور آپ اپنی تبلیغ کا چوتھا مرحلہ شروع کریں ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام (ص) نے چوتھے مرحلہ کا آغاز کس سے کیا تھا ؟ اس مرحلہ میں آپ کا نقطئہ نظر کیا تھا اور کس چیز پر آپ اصرار کیا کرتے تھے ؟ قرآن کی آیت:
فاصدع بما تومر و اعرض عن المشرکین انا کفیناک المستھزئین۔
جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے ظاہر کردیں اور مشرکین کی پرواہ نہ کریں ہم مسخرہ کرنے والوں کے شر سے آپ کو کفایت کریں گے (سورہ حجر 95) ہر قسم کی سازش کی نفی: پیغمبر اسلام (ص) لوگو ں کو اللہ کی طرف ہدایت کرتے تھے آپ دن رات لوگوں کو آگاہ کرنے کے لۓ سخت محنت کیا کرتے تھے اسلام کی حیات بخش آئین کی ترویج میں کوشاں رہتے تھے اب جب کہ مسلمانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا اور اسلام کی طاقت پھیلتی جارہی تھی تو آپ نے حق کو باطل سے جدا کرنے اور بتوں و بت پرستی کے خلاف آواز اٹھانے کے لۓ اقدام کیا تاکہ بت پرستی کا عبث فعل سارے لوگو ں پر واضح ہوجاۓ لوگ اپنی بدبختی و ذلت کے اسباب و عوامل کو پہچانیں کیونکہ اگر لوگ بت پرستی کے رواج دینے والوں کے غلط مقصد سے آگاہ نہ ہوں گے تو کس طرح اس کا مقابلہ کرسکیں گے ؟ اگر لوگ بت پرستوں کے سرداروں کی فریب کاری سے مطلع نہ ہوں گے تو کس طرح ان سے نجات حاصل کرسکیں گے ؟ لوگوں کو آگاہ کرنا چاہۓ اور اللہ تعالی کا واضح پیغام لوگوں کے سامنے پڑھا جانا چاہیۓ اسی لۓ پیغمبر اسلام (ص) نے دعوت کے چوتھے مرحلہ کو شروع کیا اور بت پرستی کی پوری طرح مذمت اور اس پر تنقید کی بت پرستی کے رواج دینے والے سرداروں کے اندرونی اغراض کو واضح بیان کرکے ان کو ذلیل کیا اور ان کے ظلم وپلید مقاصد سے پردہ اٹھایا ۔
بت پرستی کے سرداروں نے اس سے زیادہ سے زیادہ خطرہ محسوس کر لیا اور اپنے پلید منافع کے خطرے میں پڑنے سے خوفناک ہوگۓ اور سوچنے لگے کہ کس طرح اسلام کی طاقت کا مقابلہ کیا جاۓ اور کس طرح لوگوں کو خدا پرستی سے دور رکھا جاۓ کیا محمد (ص) کو ان کی تبلیغ سے روکا جا سکتا ہے ؟ پہلے پہل تو انھوں نے بات چیت اور صلح وصفائی کی خواہش کی بت پرستوں کے چند سردار جناب ابوطالب (ع) کے پاس گۓ اور ان سے کہا : اے ابوطالب (ع) آپ کیوں خاموش بیٹھے ہیں؟ کیوں ہمارے کام کے متعلق نہیں سوچتے ؟ کیوں محمد (ص) کو کچھ نہیں کہتے ؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ انھوں نے شہر کے امن کو ختم کرکے اور ہمارے درمیان تفرقہ پیدا کرکے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے ؟ کیا نہیں جانتے کہ وہ ہمارے غلاموں کو دھوکہ دیتے ہیں؟ اب تک ہم آپ کے احترام کی وجہ سے ان سے کچھ نہیں کہتے تھے لیکن اب انھوں نے پاؤں پھیلانا شروع کردیا ہے اور ہمارے بتوں کے متعلق جسارت کرنی شروع کردی ہے کیا آپ نے سنا ہے کہ بت پرستی کو ایک سفیہانہ کام بتلاتے ہیں ؟ کیا جانتے ہیں کہ وہ ہمارے باپ دادا کو گمراہ و نادان بتلاتے ہیں ؟ کیا اب بھی اس کو برداشت کرسکتے ہیں ؟ آپ انھیں بلائیں اور ان سے کہیں کہ اس قسم کی باتوں سے دست بردار ہوجائیں ۔
جناب ابوطالب (ع) نے اپنے بھتیجے سے ملاقات کی اور بت پرستوں کی بات کو ان کے سامنے بیان کیا اور کہا : اے میرے بھتیجے ! انھوں نے مجھ سے کہا ہے کہ تم بتوں کے بارے میں جسارت کرتے ہو اور بت پرستی کو ایک غیر عاقلانہ کام بتلاتے ہو انھوں نے خواہش کی ہے کہ تم اس کا م سے دست بردار ہوجاؤ صرف اسلام کے آئین و قانون کی تبلیغ وترویج کرو بتوں اور بت پرستوں سے سروکار نہ رکھو۔ پیغمبر اسلام (ص) نے جناب ابوطالب (ع) کے جواب میں فرمایا : چچا جان ! لوگوں کی پوری بدبختی اسی بت پرستی میں ہے یہ سردار بت پرستی کے بہانے لوگو ں پر ظلم کرتے ہیں اور ان کے حقوق کو غصب کرتے ہیں ایک خدا کی طرف بلانا بتوں کی نفی ، اللہ تعالی کی بندگی اور ظالموں کے پنجے سے آزادی کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے ۔
چچا جان ! مجھے خدا وند عالم کی طرف سے ایسا ہی حکم ملا ہے اور میں اس کا م کو انجام دیتا رہوں گا ۔ بت پرستوں کی طرف سے صلح وصفائی اور مصالحت کی کئی دفعہ خواہش کی گئی تھی انھوں نے کئی دفعہ اس بارے میں جناب ابوطالب (ع) سے بات چیت کی لیکن اس سے کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوا اور بالآخر انھوں نے سوچا کہ محمد (ص) کو جاہ و مال کا وعدہ دے کر دھوکا دیا جاۓ یا ڈرایا اور دھمکایا جاۓ لہذا پھر جناب ابوطالب (ع) کے پاس گۓ اور ان سے یوں گفتگو کی : اے ابوطالب (ع) ! محمد (ص) سے پوچھو کہ تمھاری اس تبلیغ کا کیا مقصد ہے اور کیا چاہتے ہو ؟ کیا مال و دولت چاہتے ہو ؟ کیا طاقت وقدرت اور حکومت چاہتے ہو ؟ کیا بیوی اور اچھی زندگی چاہتے ہو؟ اگر مال و دولت چاہتے ہو تو ہم اسے اتنی دولت دیدیں گے کہ وہ قریش کا ثروت مند ترین فرد ہوجاۓ گا ۔ اگر جاہ و جلال چاہتے ہو تو حجاز کی حکومت و زمامداری اس کے اختیار میں دیدیں گے اور اگر ابھی زندگی و بیوی چاہتے ہو تو اس کے لۓ خوبصورت ترین اور بہترین عورت انتخاب کر دیتے ہیں ۔ جو بھی وہ چاہیں ہم اس کے پورا کرنے کے لۓ حاضر ہیں لیکن صرف ایک شرط ہے کہ وہ اپنی گفتگو سے دست بردار ہو جائیں اور ہمارے بتوں سے کوئی سروکا ر نہ رکھیں۔
پیغمبر اسلام (ص) ان کی خواہشات کے جواب میں جناب ابوطالب (ع) سے کیا کہیں گے ؟ کیا یہ وعدے انھیں فریب دے سکیں گے ؟ کیا لوگوں کی ہدایت و نجات سے دست بردار ہوجائیں گے ؟ کیا ظالموں کی خوشنودی کو اللہ تعالی کی خوشنودی اور محروم طبقے کی خوشنودی پر ترجیح دیدیں گے ؟ نہيں اور ہرگز نہیں ! وہ اپنے راستہ سے نہیں ہٹیں گے اور بقینا یہ جواب دیں گے : چچا جان ! یہ میری تبیلغ اپنی طرف سے نہیں ہے کہ میں اس سے دست بردار ہوجاؤں بلکہ یہ خدا کی طرف سے ہے خدا نے مجھے پیغمبری کے لئے چنا ہے تاکہ اس کا پیغام لوگوں تک پہونچاؤں اور انھیں ظلم وستم اور گمراہی سے نجات دلواؤں خدا پرستی اور توحید کی دعوت دوں۔ اس وقت جناب ابو طالب (ع) آپ پر محبت بھری نگاہ کۓ ہوۓ تھے اور آپ کہہ رہے تھے : چچا جان !خدا کی قسم اگر چمکتے ہوۓ سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر رکھ دیں اور روشن چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر ( یعنی تمام ثروت جہان کی زیبائی اور قدرت مجھے بخش دیں ) تب بھی میں اس فریضہ کی ادائیگی سے دست بردار نہ ہوں گا یہاں تک کہ میں اس میں کامیاب اور فتحمند ہوجاؤں یا شھید کردیا جاؤں ۔
چچا جان ! ان لوگوں سے کہہ دیں کہ ان خو اہشات کی جگہ صرف ایک کلمہ لاالہ الا اللہ کہہ دیں تاکہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جائیں ۔ جب بت پرستوں کو جاہ و جلال اور مال و دولت کی لالچ دینے سے کوئی فائدہ نہ ہوا تو پھر جناب ابوطالب (ع) کے پاس گۓ اور کہا : اۓ ابوطالب (ع) ! تم ہمارے شہر و قبیلہ کے سردار ہو اور ہماری اس مشکل کو تم ہی حل کرو ہم تمھیں ایک خوبصورت بچہ دیتے ہيں تاکہ اسے تم اپنا بیٹا بنا لو ، محمد (ص) کی حمایت سے دست بردار ہو جاؤ اور ہم اسے قتل کردیں۔ ابوطالب (ع) ان کی اس بات کو سنتے ہی غصہ میں آ گۓ اور ان سے کہا: اپنے بھتیجے کو تمھیں دیدوں تاکہ تم اسے قتل کردو یہ تمھاری کتنی شرمناک بات ہے ! قسم خدا کی ایک لحظہ کے لۓ بھی محمد (ص) کی حمایت اور مدد سے ہاتھ نہ کھینچوں گا۔ اب ہم مسلمانوں کا بھی یہی فریضہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے اس راستہ پر چلیں اور کفر و مادی گری ، طاغوت و طاغوتوں کا مقابلہ کریں اور ان کی طرح کی مدد سے پرہیز کریں تاکہ دنیا کے مظلوم اور محروم طبقے کو نجات دلا سکیں ۔
دیکھیں ہم کس حد تک اس فریضہ کی انجام دہی میں کامیاب ہوتے ہیں۔ قرآن کی آیت : فلذلک فادع واستقم کما امرت ولا تتبع وقل امنت بما انزل اللہ من کتاب وامرت لاعدل بینکم اللہ ربنا وربکم۔ آپ اسی کے لۓ دعوت دیں اور اس طرح استقامت سے کام لیں جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے اور ان کے خواہشات کا اتباع نہ کریں اور یہ کہیں کہ میرا ایمان اس کتاب پر ہے جو خدا نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمھارے درمیان انصاف کروں اللہ ہمارا اور تمھارا دونوں کا پروردگار ہے۔
source : www.tebyan.net