کسی بھی قوم، معاشرہ، دین یا افراد کی ترقی و عروج و کمال اس کے اتحاد، وحدت، اخوت اور برادرانہ تعلقات میں پنہاں ہوتا ہے جبکہ اس کے مقابل زوال، سرنگونی اور پستی باہمی اختلاف، تفرقہ اور تقسیم کا مرہون منت کہا جاسکتا ہے۔ ازل سے یہ اصول واضح و روشن ہے کہ اتحاد و وحدت رشد و ترقی اور کامیابی کی ضمانت ہیں، تاریخ میں جن قوموں اور گروہوں میں اتحاد و وحدت پائی جاتی تھی، انہوں نے ہی کامیابی کے جھنڈے گاڑے، اس بات کو اس انداز میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جن قوموں نے ترقی و عروج پایا اور اپنے نام کا سکہ چلایا، ان کی کامیابیوں کے پس پردہ راز اتحاد و وحدت کی قوت ہی تھی۔
اسلام جو دین فطرت ہے، اس کی تعلیمات و احکام خداوند خالق و مالک کی حکمت و تدبیر کے عکاس ہیں، قرآن مجید جسے آفاقی و جاویدانی کتاب کا درجہ حاصل ہے، اس میں بھی اس موضوع کو بڑی صراحت کیساتھ بیان کیا گیا ہے، اتحاد کی طاقت اور تفرقہ کے نقصانات بیان کئے گئے ہیں، اسلام کے پیروکاران کو اتحاد کی تاکید کی گئی ہے اور تفرقہ سے بچنے کا کہا گیا ہے، سورہ آل عمران میں فرمان خداوندی ہے کہ؛ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو، اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لئے بیان کرتا ہے، تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔ قرآن مجید میں اسُ پہلو پر سورہ حجرات میں بیان کیا گیا ہے؛ بے شک مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کراو اور تقویٰ اختیار کرو، شائد خدا کی محبت تمہارے شامل حال ہوجائے۔
اگر ہم گذری صدی کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں ایک شخصیت ایسی نظر آتی ہے، جس نے امت کو اتحاد و وحدت کی عملی دعوت دی، ان کا کہنا تھا کہ امت کے تمام مسائل کا حل اتحاد و وحدت میں پنہاں ہے، اگر امت ایک ہوجائے تو اس کی طاقت کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکے گا اور مسلمان ایک ایسی قوم کی شکل میں سامنے آئیں گے جن کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکے گا، دنیا اس ہستی کو امام خمینی کے نام سے یاد کرتی ہے، امام خمینی جو انقلاب اسلامی ایران کے بانی ہیں، انہوں نے انقلاب سے قبل اور انقلاب کے بعد زیادہ شدت اور تاکید سے اس حوالے سے کام کیا اور امت کو ایک لڑی میں پرونے کی عملی کوششیں کیں۔ امام خمینی اگرچہ ممالک اور اسلامی ریاستوں کی سرحدوں کا احترام کرتے تھے، مگر وہ اس کیساتھ ساتھ عالم اسلام کو ایک قوت اور ایک وحدت میں دیکھنے کے خواہش مند بھی تھے، وہ ایک ایک فرد قوم کو اتحاد کی لڑی میں پرویا دیکھنا چاہتے تھے، جیسے شاعر نے کہا ہے کہ
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
امام خمینی نے انقلاب اسلامی کے بعد امت اسلامی کو ولادت باسعادت خاتم الانبیاء، معلم انسانیت، رحمۃاللعالمین حضرت محمد مصطفٰی ؐ کے عظیم موقعہ کو باہمی اختلاف سے نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے ایک ایسا پیغام دیا، جس کو امت کے مخلص و سنجیدہ طبقات نے ایک نعمت سے تعبیر کیا۔ امام خمینی نے 12 تا 17 ربیع الاول کو پورا ہفتہ بطور ہفتہ وحدت منانے کا حکم دیا اور اس پیغام کو دنیا بھر میں پہنچایا، امام خمینی کے اس پیغام کو عالمی سطح پر ناصرف سراہا گیا بلکہ مختلف ممالک میں آپ کے نمائندگان نے اس کو عملی شکل دی اور استعمار کی جانب سے امت کو فرقوں میں تقسیم کرنے اور باہم لڑانے جھگڑنے کی سازش کو ناکام بنا دیا اور ہر طرف اخوت، بھائی چارے، یکجہتی و اتحاد کے عملی مظاہر کیلئے یہ موقع فراہم کیا۔ ماہ ربیع الاول جو رسول خدا خاتم الانبیاء سے منسوب مہینہ ہے، اس میں امت کے سرکردہ علماء و دانشوران کو قرآنی پیغام وحدت کو عام کرنا چاہیئے، تاکہ باہمی لڑائیوں اور جھگڑوں سے امت کمزور نہ ہو اور دشمن اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
قرآن مجید ہمیں دعوت دیتا ہے کہ؛ اور خدا و اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، اگر ایسا کرو گے تو تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ پاکستان میں قائد شہید علامہ عارف الحسینی کو امام خمینی (رہ) کے فرمان پر عملی اقدامات کرتے دیکھا گیا، بے شک شہید قائد نے امام خمینی کی ذات میں ضم ہو کر ان کی خواہش کی تکمیل کیلئے دن رات ایک کیا اور اتحاد بین المسلمین کا شعار بلند کیا، جس کے اثرات آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ شہید نے اتحاد بین المسلمین کی جو تحریک شروع کی، اس کی بدولت تکفیری قوتیں اپنے مذموم مقاصد میں اس طرح کامیابی حاصل نہیں کرسکیں، جس طرح انہیں امید تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں امت اسلامیہ کو ایک ہونے کی ہمیشہ ہی ضرورت رہی ہے، مگر اس کی اہمیت اور افادیت اس وقت بہت زیادہ محسوس ہوئی، جب استعمار اور اسلام دشمن طاقتوں نے کئی ایک مواقع پر تعصب و تنگ نظری نیز اپنے مفادات کو ہر حالت میں ترجیح دی، بالخصوص اقوام متحدہ میں جب بھی کوئی ایسا مسئلہ پیش ہوا، جس کا تعلق امت مسلمہ سے تھا تو غیر مسلم طاقتوں نے اسے رد کر دیا اور مسلمانوں کا کبھی بھی ساتھ نہیں دیا، اس حوالے سے مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر اور ایران و پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے رکھے جانے والے متعصبانہ رویہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ آج بھی عالمی سامراج بالخصوص غیر مسلم طاقتیں ایران کے جائز حق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور اس کے مقابل اسرائیل جو ایک ناجائز ریاست ہے، اس کے پاس ایٹمی ہتھیار کسی کو نظر بھی نہیں آتے۔
اسی طرح فلسطین، لبنان، شام، عراق اور دیگر اسلامی ریاستوں کیساتھ اسرائیل کی زیادتیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ کسی کو نظر نہیں آتا، جبکہ امت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے ممالک کو بہت ہی معمولی مسائل پر آگ و بارود کی بارش سے تہس نہس کرنے سے بھی گریزاں نہیں ہوتے، اس کی وجہ صرف اور صرف امت کا متفرق و نامنظم ہونا ہے۔ آج امت مسلمہ میں وحدت کا فقدان اسلام دشمن قوتوں کو مضبوط اور طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا کرچکا ہے، جس کے باعث وہ ہر روز مسلمانوں پر ظلم کی نئی داستان رقم کرتے ہیں اور انہیں اپنا زیر نگیں بناتے ہیں، فلسطین کے مسلمانوں کی حالت زار کسی کو نظر نہیں آرہی، غزہ کے مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمان مجبور و لاچار امت مسلمہ سے فریاد کناں ہیں کہ اتحاد و وحدت کی طاقت سے انہیں ظالمین و غاصبین کے چنگل سے نجات دلوائیں۔ امام خمینی نے اسی لئے امت کو اتحاد کا قرآنی پیغام عام کرنے اور امت کے تمام طبقات کو اس کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے کی دعوت دی تھی۔ اے کاش آج بھی امت امام خمینی کے اس پیغام وحدت کی اہمیت، افادیت اور ضرورت سے بخوبی آگاہ ہو جائے اور قرآن و رسول اعظمؐ کے اسوہ میں پنہاں پیغام وحدت امت کو سمجھ جائے۔
پاکستان میں وحدت امت کے اس پیغام کو عملی طور پر پھیلانے اور راسخ کرنے کا کام اب واجب کی حیثیت رکھتا ہے، پاکستان کے تمام مکاتیب فکر کے علماء آج ملی یکجہتی کونسل کی صورت میں متحد نظر آتے ہیں، مگر اس سے کہیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہ اتحاد ایک وقت میں اس وقت بھی ہوا تھا جب تمام مکاتیب فکر بائیس نکات پر متحد ہوئے، کوئی شک نہیں کہ شیعہ و سنی میں مشترکات بہت زیادہ ہیں، ان مشترکات کو بنیاد بنا کر ہمیں اپنے ملک و دین کو اوج پر پہنچانے کی کوششیں کرنی ہیں۔ اس مقصد کیلئے علماء کیساتھ ملکر وحدت امت اور اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے کانفرنسز و سیمینارز اور وحدت کے شعار بلند کئے جائیں، میلاد النبی ؐ کے مبارک ایام میں جہاں سرکار دو عالم ؐ کی آمد کی خوشیاں منائی جاتی ہیں، وہیں آپ ؐ کے اسوہ و سیرت پر چلتے ہوئے قرآن کے حکم کہ آپس میں تفرقہ میں نہ پڑو، یا اگر باہم جھگڑوگے تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور دشمن تم پر غالب آجائے گا، کے پیغام کو سامنے رکھتے ہوئے گھر گھر اور فرد فرد تک اس پیغام وحدت کو عام کیا جائے۔
12 تا 17 ربیع الاول کے مبارک ایام میں جشن ولادت رسول اللہ ؐ و رئیس مذہب جعفری امام جعفر صادق ؑ کو تزک و احتشام اور شایان شان طریقہ سے مناکر ہی ہم ان خرافات کا توڑ کرسکتے ہیں جو عالمی طاقتیں امت کو تقسیم کرکے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں، اہل پاکستان بالخصوص علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ کسی کو شر، فساد اور باہمی تفرقہ کا موقعہ نہ دیں، خطباء حضرات لازمی طور پر عالمی حالات و واقعات، امت مسلمہ کی صورتحال، تکفیری قوتوں کی یلغار اور استعماری سازشوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے کسی عمل سے وحدت امت پر آنچ نہ آئے، اور ایسی کسی تقریب میں شریک نہ ہوں، جس میں اتحاد بین المسلمین کے خلاف سازش نظر آرہی ہو۔ یہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وحدت کو کسی بھی طرح قائم رکھنے کی پوری کوشش کرے۔
source : www.abna.ir