قرآن مجید میں خداوند عالم کے "حیله "سے کیا مراد هے ؟
ایک مختصر
کسی اچھے یا برے کام کے لیئے چاره جوئی یا تدبیر کو "حیله" کهتے هیں ۔اسی لیئے قرآن میں بھی حیله دوهرے معنی میں استعمال هوا هے ۔
بهت سے آیتوں میں "مکر" (حیله) کی نسبت خدا کی طرف دی گئی هے جس سے مراد خداوند عالم کی مجموعی تدبیر هے ۔چونکه وه تمام تدبیروں کا مالک هے ۔ کوئی بھی تدبیر اس کی تدبیر کے دائره سے باهر نهیں هے لهذا خداوند عالم هر مدبّرسے بالا و برتر هے کیونکه "وَالله خَیرالماکرین"۔ اور خداوند عالم ارشاد فرماتاهے :اس سے پهلے بھی لوگوں نے تدبیریں کی ،منصوبے بنائے لیکن تمام تدبیریں ،تمام منصوبے خدا کے هیں ،وه هر کس کے افعال سے آگاه هے اور جلد هی کفار کو پته چل جائے گا که اس دنیا کا نیک انجام کس کے هاﺘﻬ میں هے۔ اس آیت میں صراحت کے ساﺘﻬ بیان هوا هے که تمام تدبیریں خداوند عالم کے قبضه قدرت میں هے خداوند عالم کی تدبیر کے مقابلے میں دوسروں کی تدبیریں کسی کام کی نهیں هے۔
تفصیلی جوابات
لغت میں "مکر"اور "حیله" کا مطلب ،تدبیر اور چاره جوئی هے ،چاهے وه تدبیر نیک کام کے لیئے هو یا برے کام کے لیئے[1]؛چاهے خود وه تدبیر نیک هو یا شر ۔اگر چه بعض لوگ مکر کو" فریب "دینے کے معنی میں استعمال کرتے هیں لیکن جب خدا کی طرف نسبت دی جاتے تو یه لفظ فریب و مکاری کے توڑ اورعذاب دینے کے معنی میں استعمال هوتا هے۔[2]
ان تمام آیتوں کو دیکھنے کے بعد جس میں لفظ "مکر"آیا هے[3] یهی ﺴﻤﺟﻬ میں آتا هے که "مکر الهی" (خدائی حیله ) سے مراد وهی تدبیرو چاره جوئی هے ،البته کبھی رحمت کی صورت میں هے تو کبھی عذاب کی شکل میں ؛مثال کے طور پر "یَمکُرونَ و یَمکُر الله والله خیرُ الماکرین[4] سے مراد ،کفار اور مشرکوں کی سازشیں هیں جو پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کو قتل کرنا یا اسیر بنانا چاهتے تھے ؛اور" یَمکُرُالله "
سے مراد ،خداوند عالم کی وه تدبیر هے جس میں اس نے رسول کو هجرت کا حکم دیا۔ اور یه جو هم دیکھتے هیں که لفظ مکر"السیئی"کی صفت کے ساﺗﮭ قرآن مجید میں آیا هے[5] هے کے یه لفظ اچھے اور برے دونوں معنی میں استعمال هوا هے ۔ اس بنا پر بهت سی آیتوں میں جو لفظ "مکر" خدا کے لیئے استعمال هوا هے اس سے مراد یه هے تمام تدبیروں کا مالک خداوند عالم هے ۔اور کوئی تدبیر خداوند عالم کی تدبیر کے دائره سے باهر نهیں جا سکتی اسی بنا پر خداوند عالم هر مدبر سے بالا اوربرتر هے۔[6]
سوره رعد[7] کی آیت صاف صاف اعلان کر رهی هے که تمام مجموعی تدبیروں کا مالک خدا هے اور خداوند عالم کی تدبیر کے آگے دوسروں کی تدبیریں کسی کام کی نهیں هیں۔[8]
[1] قرشی،سید علی اکبر،قاموس قرآن،ج6،ص265۔
[2] المنجد،ترجمه محمد بندر ریکی،ج2،ص1820۔
[3] اعراف،99،123،فاطر،10و43۔سباء،33۔یونس،21۔آل عمران،54۔النحل،26،45۔النمل،50و51۔نوح،22۔ابراهیم،46۔ یوسف،13۔غافر،45۔
[4] انفال، 30.
[5] فاطر، 43.
[6] آل عمران، 45.
[7] رعد، 42.
[8] علامه طباطبائی ،المیزان،ترجمه موسوی ھمدانی ،20جلدی،ناشر انتشارات اسلامی ،ج12،ص355۔
source : www.islamquest.net