اردو
Saturday 4th of May 2024
0
نفر 0

بسم اللہ سورہ حمد کا جزء ہے

جب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار خانۂ خدا کی زیارت کے لئے حجاز مقدس میں شرف حضور پاتے ہیں، اور اتحاد بین المسلمین کی خاطر ـ اپنے ائمۂ طاہرین علیہم السلام کے حکم کے مطابق ـ اہل سنت برادران کی نماز جماعت میں شرکت کرتے ہیں اور مسجد الحرام اور مسجد النبی صلی اللہ علیہ آلہ و سلم میں نماز کی فضیلت سے مستفیض ہوتے ہیں ـ تو سب سے پہلی چیز جو ان کے ذہنون کو مشغول کرتی ہے یہ ہے
بسم اللہ سورہ حمد کا جزء ہے

جب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار خانۂ خدا کی زیارت کے لئے حجاز مقدس میں شرف حضور پاتے ہیں، اور اتحاد بین المسلمین کی خاطر ـ اپنے ائمۂ طاہرین علیہم السلام کے حکم کے مطابق ـ اہل سنت برادران کی نماز جماعت میں شرکت کرتے ہیں اور مسجد الحرام اور مسجد النبی صلی اللہ علیہ آلہ و سلم میں نماز کی فضیلت سے مستفیض ہوتے ہیں ـ تو سب سے پہلی چیز جو ان کے ذہنون کو مشغول کرتی ہے یہ ہے کہ ۔۔۔

9

بسم اللہ سورہ حمد کا جزء ہے

ایک حیرت انگیز نکتہ

جب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار خانۂ خدا کی زیارت کے لئے حجاز مقدس میں شرف حضور پاتے ہیں، اور اتحاد بین المسلمین کی خاطر ـ اپنے ائمۂ طاہرین علیہم السلام کے حکم کے مطابق ـ اہل سنت برادران کی نماز جماعت میں شرکت کرتے ہیں اور مسجد الحرام اور مسجد النبی صلی اللہ علیہ آلہ و سلم میں نماز کی فضیلت سے مستفیض ہوتے ہیں ـ تو سب سے پہلی چیز جو ان کے ذہنون کو مشغول کرتی ہے یہ ہے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے محترم ائمۂ جماعت سورہ حمد کی ابتداء میں "بسم اللہ الرحمن الرحیم" مطلقاً نہیں پڑھتے یا پھر آہستہ اور اخفات کی صورت میں پڑھتے ہیں۔ حتی مغرب و عشاء کی مانند جہریہ نمازوں میں بھی یہی صورت حال رہتی ہے۔

جبکہ شیعہ زائرین مشاہدہ کرتے ہیں کہ قرآن کے تمام موجودہ نسخوں میں ـ جو غالباً مکہ میں چھپتے ہیں ـ سورہ حمد کی آیات کی تعداد سات بتائی گئی ہے جن میں ایک آیت "بسم اللہ الرحمن الرحیم" ہے (اور یہ سب کے لئے حیرت کا باعث بنتا ہے کہ قرآ کی اہم ترین آیت "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کیوں اس مسئلے کا شکار ہوئی ہے۔

مگر یہ لوگ جب ہم سے پوچھتے ہیں اور ہم انہیں "بسم اللہ ..." کے سلسلے میں اہل سنت کی روایات اور آراء کے درمیان اختلافات و تضادات کی داستان سناتے ہیں، تو ان کی حیرت دوچند ہوجاتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ابتداء میں اس مسئلے پر موجودہ فتاوی کی طرف رجوع کریں اور پھر اس بحث میں وارد ہونے والی مختلف روایات کا جائزہ پیش کریں۔

فقہاء کے تین گروہ

مجموعی طور پر اہل سنت کے فقہاء تین گروہوں میں بٹ گئے ہیں:

1۔ امام شافعی کے پیروکار

ایک گروہ کا کہنا ہے کہ سورہ حمد کی ابتداء میں "بسم اللہ ..." کی تلاوت ضروری ہے اور جہریہ نمازوں (فجر و مغرب و عشاء) میں جہر کی صورت میں ہونی چاہئے اور اور اخفائیہ نمازوں (ظہر و عصر) میں آہستہ سے (اخفات کے ساتھ) ہونی چاہئے۔ یہ امام محمد بن ادریس شافعی اور ان کے پیروکاروں کی روش ہے۔

2۔ امام احمد بن حنبل کے پیروکار

دوسرا گروہ ان لوگوں کا کہنا ہے جن کا کہنا ہے کہ "بسم اللہ ..." کی تلاوت ضرور ہونی چاہئے لیکن تمام نمازوں میں اخفات کے ساتھ ہونی چاہئے۔ یہ لوگ امام احمد بن حنبل اور ان کے پیروکار ہیں۔

3۔ امام مالک اور امام ابو حنیفہ

تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو "بسم اللہ ..." کی تلاوت کو مطلقاً منع کردیتے ہیں۔ یہ لوگ امام مالک بن انس اور ان کے پیروکاروں پر مشتمل ہے اور امام ابو حنیفہ کی رائے بھی امام مالک سے قریب تر ہے۔

المغنی میں اہل سنت کے مشہور فقیہ کی عبارت کچھ یوں ہے:

"إنّ قراءة بسم الله الرحمن الرحيم مشروعة فى أوّل الفاتحة و أوّل كلّ سورة فى قول أكثر أهل العلم و قال مالك و الأوزاعى لا يقرؤها فى أوّل الفاتحة... و لا تختلف الرواية عن أحمد أنّ الجهر بها غير مسنون... و يروى عن عطاء و طاووس و مجاهد و سعيد بن جبير الجهر بها و هو مذهب الشافعى..."۔ (1)

ترجمہ: سورہ حمد اور قرآن کی تمام سورتوں کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی قرائت اکثر صاحبان علم کے نزدیک جائز ہے اور مالک اور اوزاعی (جو اہل سنت کے فقہاء ہیں) نے کہا ہے کہ سورہ حمد کی ابتداء میں بسم اللہ نہ بڑھی جائے (بسم اللہ ... کو جہر کے ساتھ پڑھنے کے سلسلے میں) احمد بن حنبل سے منقولہ تمام روایات میں بسم اللہ کو جہر کے ساتھ پڑھنا مسنون نہیں ہے۔ (یعنی سنت سے ثابت نہیں ہے)۔ اور عطاء اور طاؤس اور مجاہد اور سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ بسم اللہ جہر کے ساتھ پڑھی جائے اور شافعی کی روش یہی ہے۔ (2)

اس عبارت میں ان کے تینوں کے اقوال بیان ہوئے ہیں۔

اور تفسیر "المنیر" میں وہبہ الزحیلی سے مروی ہے:

"قال المالكيّة و الحنفيّة ليست البسملة بآية من الفاتحة و لا غيرها إلاّ من سورة النمل... إلاّ أنّ الحنفيّة قالوا يقرء المنفرد بسم الله الرحمن الرحيم مع الفاتحة فى كلّ ركعة سرّاً... و قال الشافعيّة و الحنابلة البسملة آية من الفاتحة يجب قرائتها فى الصلوة إلاّ أنّ الحنابلة قالوا كالحنفيّة يقرؤ بها سرّاً و لا يجهر بها و قال الشافعيّة: يسرّ بها فى الصلاة السريّة و يجهر بها فى الصلاة الجهريّة"۔ (3)

ترجمہ: مالکیوں اور حنفیوں کا کہنا ہے کہ بسم اللہ ... سورہ فاتحہ اور قرآن کی دوسری سورتوں کا جزء نہيں ہے سوائے سورہ نمل کے؛ (جہاں بسم اللہ ۔۔۔ سورت کے ضمن میں ایک آیت کی صورت میں آئی ہے) ... مگر یہ کہ حنفیوں کا کہنا ہے کہ فرادی نماز پڑھنے والا شخص بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نماز کی تمام رکعتوں ميں سورہ فاتحہ کے ساتھ اخفات کی صورت میں پڑھتا ہے ... لیکن شافعی اور احمد بن حنبل کے پیروکار اس بات کے قائل ہیں کہ بسم اللہ... سورہ فاتحہ کی آیت میں سے ایک آیت ہے اور واجب ہے کہ نماز میں پڑھی جائے، فرق صرف یہ ہے کہ حنبلی، حنفیوں کی مانند اس بات کے قائل ہیں کہ بسم اللہ آہستگی سے پڑھی جائے بسم اللہ کو جہر کے ساتھ پڑھنا جائز نہيں ہے۔ لیکن شافعیوں کی رائے یہ ہے کہ اخفائی نمازوں (ظہر و عصر) میں آہستگی سے پڑھی جائے اور جہریہ نمازوں (فجر و مغرب و عشاء) میں جہر کے ساتھ پڑھ لینی چاہئے۔

چنانچہ شافعی کے پیروکاروں کا قول، دوسرے اقوال کی نسبت، شیعہ فقہاء کے قول کے قریب تر ہے۔ فرق یہ ہے کہ شیعہ فقہاء کے نزدیک، تمام نمازوں میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو جہر کے ساتھ اور اونچی آواز سے پڑھنا، مستحب ہے اور تمام شیعہ فقہاء کی متفقہ رائے کے مطابق سورہ حمد میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا واجب ہے اور دیگر سورتوں میں مشہور و معروف قول بسم اللہ الرحمن الرحیم کی جزئیت پر دلالت کرتا ہے۔

٭٭٭

حقیقتاً ایک بے غرض اور غیر جانبدار محقق، حیرت زدہ ہوکر رہ جاتا ہے، کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم 23 سال کے عرصے میں اکثر نمازیں با جماعت تمام مسلمانوں کے ساتھ ادا کی ہیں اور سب نے آپ (ص) کی پوری نماز کو اپنے کانوں سے سنی ہے، مگر بہت کم عرصہ بعد اتنے خوفناک اختلافات معرض وجود میں آئے ہیں: بعض لوگ کہتے ہیں کہ بسم اللہ پڑھنا منع ہے، بعض کا کہنا ہے کہ آہستہ پڑھنی چاہئے، کچھ کہتے ہیں جہریہ نمازوں میں جہر کے ساتھ پڑھنی چاہئے!!۔

کیا یہ عجیب اور ناقابل تصور اختلاف اس بات کی علامت نہیں ہے کہ یہ ایک معمولی مسئلہ بلکہ اس منصوبے کے پیچھے ایک سیاسی جماعت یا گروہ کے عزائم کارفرما رہے ہیں جنہوں نے متضاد و متناقض حدیثیں وضع کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منسوب کی ہیں۔

(اس بات کو یہیں اسی صورت میں روک لیتے ہیں اور اس کی تشریح بعد میں آئے گی)۔

بخاری نے اپنی (صحیح) میں ایک حدیث نقل کی ہے جو بعض رازوں کو برملا کرسکتی ہے: مُطَرِّف نے "عمران بن حصین" سے روایت کی ہے جب اس (عمران) نے بصرہ میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھ نماز پڑھی تو کہنے لگا: "ذَكَّرَنا هذا الرَّجُلُ صَلاةً كُنّا نُصَلّي مَعَ رسولِ اللهِ صلّی الله عليه و آله و سلم"۔ (4)

ترجمہ: اس مرد (علی علیہ السلام) نے ہمارے لئے اس نماز کی یاد تازہ کردی جو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔

 جی ہاں! نظر تو یوں آتا ہے کہ انھوں نے تمام اعمال حتی نماز تک کو بدل ڈالا تھا!!


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیا حجر اسود کو بوسہ دینا بھی شرک ہے ؟
سوره مریم کی آیت نمبر١٧میں، خداوند متعال کے اس ...
کیا اس کلام کی سند روایت پر مبنی کوئی ضمانت ہے جس ...
روزے کی حالت میں ناک، کان یا آنکھ میں دوا ڈالنے کا ...
روز قیامت کیا ہوگا؟
کیا تمباکو نوشی شریعت کی نگاہ میں جائز ہے؟
قرآنِ مجید کی کون سی آیات علم و دانش کی اہمیت پر ...
سید زادی کی غیر سید سے شادی کے بارے میں مذہبِ آلِ ...
اگر هم خدا وند متعال سے عهد کریں که فلاں کام کو ...
علی سے والہانہ محبت کے اسباب کیا ہیں؟

 
user comment