اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

نوروز روایات کی روشنی میں

ہر وہ دن، جس کے بارے میں کوئی خاص حکم، مثلا غسل کرنے، کوئی خاص نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے وغیرہ کے حوالے سے، بیان ہوا ہو، یقینا وہ دن دوسرے دنوں پر فضیلت اور برتری رکھتا ہے،اور نوروز ایسے ہی مخصوص دنوں میں سے ہے، جس کے بارے میں کچھ مخصوص اعمال ذکر ہوئے ہیں اور اکثر فقہی و استدلالی اور دعائوں کی کتابوں میں ان کا بیان آیا ہے اور اکثر متقدمین و متاخرین مراجع تقلید نے ان اعمال کو اعمال عید نوروز کے عنوان سے بیان فرمایا ہے۔
نوروز روایات کی روشنی میں
ہر وہ دن، جس کے بارے میں کوئی خاص حکم، مثلا غسل کرنے، کوئی خاص نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے وغیرہ کے حوالے سے، بیان ہوا ہو، یقینا وہ دن دوسرے دنوں پر فضیلت اور برتری رکھتا ہے،اور نوروز ایسے ہی مخصوص دنوں میں سے ہے، جس کے بارے میں کچھ مخصوص اعمال ذکر ہوئے ہیں اور اکثر فقہی و استدلالی اور دعائوں کی کتابوں میں ان کا بیان آیا ہے اور اکثر متقدمین و متاخرین مراجع تقلید نے ان اعمال کو اعمال عید نوروز کے عنوان سے بیان فرمایا ہے۔

عید نوروز کے سلسلے میں سب سے اہم اور تفصیلی حدیث معلی ابن خنیس کی ہے، جس کے مختلف حصوں سے فقہاء اور مجتہدین نے مختلف فقہی احکام کے لئے استنباط کیا ہے، اور تمام قدماء و متاخرین نے اس حدیث کو قابل اعتبار جانا ہے۔            معلی ابن خنیس نقل کرتے ہیں کہ میں نو روز کے دن حضرت امام جعفر صادق  کی خدمت میں پہنچا، حضرت نے فرمایا: 'کیا تم اس دن کو جانتے ہو؟' (کہ آج کیا دن ہے)۔ معلی کہتے ہیں: میں نے عرض کیا! قربان جائوں آج وہ دن ہے، جس کی اہل عجم تعظیم کرتے ہیں اور اس دن ایک دوسرے کو تحفہ و تحائف دیتے ہیں۔ حضرت  نے فرمایا: 'میں خانہ کعبہ کے حق کی قسم کھاتا ہوں کہ عجم کا اس دن کی یہ تعظیم کرنا نہیں ہے، مگر اس قدیمی امر کی خاطر جو کہ میں تمہارے لئے تفصیل سے بیان کرتا ہوں تاکہ اس کو سمجھ جائو۔'            معلی کہتے ہیں میں نے عرض کیا! اے میرے سید و سردار ! اے میرے مولیٰ! میرے لئے آپ کے وجود کی برکت سے اس بات کا جاننا زیادہ پسندیدہ ہے کہ میرے مردے زندہ ہوجائیں اور میرے دشمن مر جائیں۔            حضرت  نے فرمایا: اے معلی! حقیقت یہ ہے کہ نو روز کا دن،وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے 'روز الست' تمام ارواح سے اپنی وحدانیت کا عہد و پیمان لیا اور یہ کہ کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں گے،اور عبودیت و عبادت میں کسی کو اسکا شریک نہیں بنائیں گے، اور اسکے بھیجے ہوئے پیغمبروں اور مخلوق پر اللہ کی حجتوں، اور آئمہ معصومین  پر ایمان لائیں گے۔اور یہ (نوروز) وہ پہلا دن ہے، جب سورج طلوع ہوا، اور درختوں کو ثمرآور کرنے والی ہوائیں چلائی گئیں، اور زمین پر پھول اور کلیاں چٹکنے(کھلنے) لگیں، آج ہی کے دن حضرت نوح  کی کشتی (طوفان نوح  کے بعد) کوہ جودی پر ٹھہری، اور یہی وہ دن تھا جب جبرائیل پیغمبر اکرم(ص)  پر نازل ہوئے اور ان کو تبلیغ دین پر مامور کیا، یعنی آنحضرتۖ کی بعثت اسی دن واقع ہوئی تھی، آج ہی کے دن حضرت ابراہیم(ع)  نے بتوں کو توڑا، اور یہی وہ دن تھا جب پیغمبر ۖنے اپنے اصحاب کو امیر المومنین علی  کی بیعت کا حکم دیا، اور فرمایا :علی  کو امیرالمومنین کہہ کر پکاریں، یعنی اعلان عید غدیر بھی اسی دن ہوا تھا، اور اسی دن خلافت ظاہری حضرت علی(ع)  کی طرف پلٹ آئی، اور عثمان کے قتل کئے جانے کے بعد لوگوں نے دوبارہ مولا علی  کی بیعت کی، اسی دن حضرت علی(ع)  نے خوارج کے ساتھ جنگ کی، اور ان پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، اور اسی دن قائم آل محمد  امام زمانہ (ع) ظہور فرمائیں گے، اور اسلام کے دشمنوں پر غلبہ حاصل کریں گے، اور کوئی نوروز کا دن ایسا نہیں جب ہم انتظار فرج نہ کرتے ہوں، اس دن کو عجم والوں نے حفظ کیا ہے اور اسکی حرمت کی رعایت کی ہے، اور تم نے اس کو ضائع کردیا ہے۔(4)            اگرچہ اسلام میں تمام عبادات اور اعمال کا دار ومدار قمری مہینوں کی تاریخوں اور دنوں کے اعتبار سے ہے، لیکن انہی دنوں کو کسی اور لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل کہا جاسکتا ہے، جیسے: نوروز کا دن، جو ہمیشہ بارہ برجوں میں سے برج حمل کا پہلا دن اور اسی طرح شمسی ہجری سال کے پہلے مہینے فروردین کا بھی پہلا دن ہے، البتہ عیسوی سال کے لحاظ سے نوروز کبھی 20مارچ اور اکثر 21مارچ کو ہوتا ہے، یہ نو روز (یعنی نیا دن) نظام شمسی اورکائنات کے نظام کے لحاظ سے ایسا دن ہے جس میں تبدیلیاں رونما ہونے کا آغاز ہوتا ہے اور ہر شئی اس تبدیلی کے زیر اثر ہوتی ہے۔نو روز کے دن کی دوسرے دنوں پر فضیلت            ہر وہ دن، جس کے بارے میں کوئی خاص حکم، مثلا غسل کرنے، کوئی خاص نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے وغیرہ کے حوالے سے، بیان ہوا ہو، یقینا وہ دن دوسرے دنوں پر فضیلت اور برتری رکھتا ہے،اور نوروز ایسے ہی مخصوص دنوں میں سے ہے، جس کے بارے میں کچھ مخصوص اعمال ذکر ہوئے ہیں اور اکثر فقہی و استدلالی اور دعائوں کی کتابوں میں ان کا بیان آیا ہے اور اکثر متقدمین و متاخرین مراجع تقلید نے ان اعمال کو اعمال عید نوروز کے عنوان سے بیان فرمایا ہے۔اعمال عید نوروز حدیث کی روشنی میں            کسی عمل کے شرعی ہونے کیلئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت شریفہ یا معصومین (ع) کی کوئی روایت اس عمل کے شرعی ہونے پر دلالت کرے، نو روز کے سلسلے میں معلی ابن خنیس کی امام جعفرصادق (ع)  سے تفصیلی روایت ہے جس کا متن یہ ہے :            ' عَنِ الْمُعَلّیٰ بْن ِخُنَیْس عَنْ مَوْلاٰنَا الصَّادِقِ (عَلَیْہِ السَّلٰامِ) فی یَوْمِ النیرُوْزِ، قٰالَ: اِذٰا کَانَ یَوْمُ النیرُوْزِ فَاغْتَسِلْ وَأَلْبِسْ أَنْظَفَ ثِیٰابِکَ وَتَطَیَّبْ بِأَطْیَبِ طیْبِکَ وَتَکُوْنُ ذٰلِکَ الیَوْمَ صَائِماً فَاِذٰا صَلَّیْتَ النَّوٰافِلَ وَالظُّھْرَ وَالعَصْرَ فَصَلِّ بَعْدَ ذٰلِکَ اَرْبَعَ رَکَعٰاتٍ تَقْرَائُ فی اَوَّلِ رَکْعَةٍ فَاتِحَةَ الْکِتٰابِ وَعَشَرَ مَرَّاتٍ اِنَّا اَنْزَلْنٰاہ فی لَیْلَةِ القَدْرِ، وَفی الثٰانِیَةِ فَاتِحَةَ الْکِتٰابِ وَعَشَرَ مَرَّاتٍ قُلْ یٰا اَیُّھٰاالْکٰافِرُوْنَ، وَفی الثّٰالِثَةِ عَشَرَ مَرَّاتٍ التَّوْحیْدَ، وَفی الرّٰابِعَةِ عَشَرَ مَرَّاتٍ مُعَوَّذَتَیْن ِوَتَسْجُدُ بَعْدَ فَرٰاغِکَ مِنَ الرَّکَعٰاتِ سَجْدَةَ الشُّکْرِ وَتَدْعُوْا فیھَا، یُغْفَرُ لَکَ ذُنُوْبُ خَمْسینَ سَنَةً'۔            (معلی ابن خنیس، امام جعفر صادق (ع)  سے نقل کرتا ہے کہ امام  نے نوروز کے دن کے بارے میں فرمایا: جب نو روز کا دن ہو، پس تم غسل کرو اور اپنا پاکیزہ لباس زیب تن کرو، اور اپنے آپ کو بہترین خوشبو سے معطّر کرو، اور اس دن روزہ بھی رکھو،اور جب نماز فریضہ و نافلہ ظہر و عصر سے فارغ ہوجائو، تو اس کے بعد چار رکعت نماز (عید نوروز کی دو دو رکعت کرکے)پڑھو، پہلی رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ 'اِنَّا اَنْزَلْنٰاہ فی لَیْلَةِ القَدْرِ' (سورۂ قدر) اور دوسری رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ 'قُلْ یٰا اَیُّھٰاالْکٰافِرُوْنَ' (سورئہ کافرون) پڑھو، اور تیسری رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورئہ توحید ، اور چوتھی رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ معوّذتین یعنی سورئہ فلق اور سورئہ ناس پڑھو، اور دونوں نمازیں پڑھنے کے بعد سجدئہ شکر بجا لائو، اور سجدے میں اللہ رب العزت سے جو چاہو مانگو، اس عمل سے تمہارے پچاس سال کے گناہ بخش دیئے جائیں گے)۔(5)            بعض نے سجدہ شکر میں مخصوص دعا بھی ذکر فرمائی ہے، جو یہ ہے :            ' اَللَّھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ الاَوْصِیٰائِ الْمَرْضِیِیْنَ وَصَلِّ عَلٰی جَمِیْعِ أَنْبِیٰآئِکَ وَرُسُلِکَ بِأَفْضَلِ صَلَوٰاتِکَ وَبٰارِکْ عَلَیْھِمْ بِأَفْضَلِ بَرَکٰاتِکَ وَصَلِّ عَلٰی أَرْوٰاحِھِمْ وَأَجْسَادِھِمْ۔ اَللَّھُمَّ بٰارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَبٰارکْ لَنٰا فی یَوْمِنٰا ھٰذٰا الَّذی فَضَّلْتَہ وَکَرَّمْتَہ وَشَرَّفْتَہ وَعَظَّمْتَ خَطْرَہ۔ اَللَّھُمَّ بٰارِکْ لیْ فِیْمٰا اَنْعَمْتَ بِہ عَلَیَّ حَتّٰی لٰا أَشْکُرَ اَحَداً غَیْرَکَ، وَسِّعْ عَلَیَّ رِزْقی یٰا ذَالْجَلٰالِ وَالاِکْرٰامِ۔ اَللَّھُمَّ مَا غَابَ عَنِّیْ مِنْ شَیْئٍ فَلاٰ تُغَیِّرْ عَنِّی عَوْنَکَ وَحِفْظَکَ وَمَا فَقَدْتُ مِنْ شَیْئٍ فَلٰا تُفْقِدْنیْ عَوْنَکَ عَلَیْہ حَتّٰی لٰا أَتَکَلَّفَ مَا لٰاأَحْتَاجُ اِلَیْہِ یٰا ذَاالْجَلاٰلِ وَالْاِکْرٰامِ'۔            پھر (ِ یٰا ذَاالْجَلاٰلِ وَالْاِکْرٰامِ) کی زیادہ تکرار کرو۔            روایت میں ہے کہ تحویل سال کی گھڑی ساٹھ مرتبہ یہ دعا پڑھو:' یٰا مُقَلِّبَ القُلُوْبِ وَالْأَبْصٰارِ، یٰا مُدَبِّرَ الْلَّیْلِ وَالنَّھٰارِ، یٰا مُحَوِّلَ الْحَوْلِ وَالْأَحْوٰالِ، حَوِّلْ حَالَنٰا اِلٰی أَحْسَنِ الْحَالِ '۔            اور بعض روایات میں تحویل ساعت اس دعا کے پڑھنے کا کہا گیاہے:' اَللَّھُمَّ ھٰذِہ سَنَة جَدِیْدَة وَاَنْتَ مَلِک قَدِیْم أَسْئَلُکَ خَیْرَھَا وَخَیْرَمَا فیھَا، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّمَا فیھَا، وَأَسْئَلُکَ مَؤُنَتَھَا وَشُغْلَھَا یٰا ذٰاالْجَلاٰلِ وَالاِکْرٰامِ '۔(6)فقہاء اور مجتہدین کا اس حدیث کے مختلف حصوں سے استدلال            اس حدیث شریف کے مختلف حصوں سے تقریبا تمام متقدمین و متاخرین فقہاء نے مختلف ابواب فقہ میں استدلال کیا ہے، اور غسل عید نوروز، روزہ عید نوروز اور نماز عید نوروز کو اپنی گرانقدر علمی کتابوں میں بیان کیا ہے، اور تمام فقہاء و مجتہدین کی نظر میں اس حدیث شریف کی حیثیت مسلم رہی ہے ،اور انھوں نے استدلال کے طور پر اسی حدیث کو نقل کیا ہے۔غسل عید نوروز پر فقہاء کا استدلال            اکثر فقہی کتابوں میں مستحب غسلوں میں عید نو روز کے غسل کا بیان آیا ہے، مرحوم محمد ابن الحسن الحرّ العاملی  نے اپنی گرانقدر کتاب وسائل الشیعہ میں ایک باب (بَابُ اسْتِحْبَابِ غُسْلِ یَوْمِ النِّیْرُوْزِ )کے عنوان سے قرار دیا ہے اور اس باب میں وہی امام جعفر صادق  کی روایت معلی ابن خنیس سے نقل کی ہے، اور اس روایت کے اس جملے سے استحباب غسل کو بیان کیا ہے: ' اِذَا کٰانَ یَوْمُ النِّیْرُوْزِ فَاغْتَسِلْ وَأَلْبِسْ أَنْظَفَ ثِیَابِکَ۔'(7)            علامہ حسن ابن یوسف حلی اپنی کتاب القواعد میں فرماتے ہیں:' یُسْتَحَبُّ الْغُسْلُ لِلْجُمُعَةِ مِنْ طُلُوْعِ الْفَجْرِ اِلٰی الزَّوَالِ وَالْغَدِیْرِ وَالْمُبَاہَلَةِ وَعَرَفَةَ وَنِیْرُوْزِالْفُرْسِ وَغُسْلُ الْاِحْرَامِ ' (روز جمعہ کا غسل طلوع فجر سے لیکر زوال آفتاب تک کرنا مستحب ہے، اور غسل روز عید غدیر، عید مباہلہ،روز عرفہ، اہل فارس کی عید نوروز اور احرام کا غسل مستحب ہے)۔(8)            شہید اول  کی تینوں فقہی کتابوں (دروس، ذکریٰ اور بیان) میں نوروز کے دن کا غسل مستحب غسلوں کے ذیل میں بیان ہوا ہے، بطور نمونہ ہم کتاب دروس کی عبارت پیش کرتے ہیں:' یُسْتَحَبُّ الغُسْلُ ۔۔۔ یَوْمَ الْمَبْعَثِ وَالْمَوْلِدِ وَالْغَدِیْرِ وَالتَّرْوِیَہ وَعَرَفَةَ وَالدَّحْوِ وَالْمُبَاھَلَةِ وَالنِّیْرُوْزِ لِخَبَرِ الْمُعَلّٰی ' (غسل کرنا مستحب ہے ۔۔۔روز بعثت پیغمبر اکرم ۖ ]27رجب المرجب[، روز ولادت پیغمبر اکرم ۖ]17ربیع الاول[، روز عید غدیر، روز ترویہ ]8ذالحجہ[، روز عرفہ، روز دحو الارض ]25ذیقعدہ، زمین کے بچھائے جانے کے دن[، روز مباہلہ اور عید نوروز کے دن، معلی ابن خنیس کی روایت کی وجہ سے۔ (9)            نیز مرحوم شہید ثانی  نے شرح لمعہ میں بھی روز عید نو روز کے غسل کو مستحب غسلوں میں شمار کیا ہے۔(10)            مرحوم سید محمد کاظم طباطبائی   صاحب عروة الوثقیٰ اور مرحوم شیخ بھاء الدین العاملی صاحب جامع عباسی مستحب غسلوں میں سے گیارہواں غسل روز عید نوروز کا بیان فرماتے ہیں۔(11)            تمام مراجع عظام معاصر نے بھی اپنی فقہی و استدلالی کتابوں اور توضیح المسائل میں غسل عید نو روز کو مستحب غسلوں کے ذیل میں ب


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

میلاد النبی ؐ اور ہفتہ وحدت کی اہمیت و افادیت
عالمی پیمانے پر اسلامی تبلیغ
لیلۃ الرغائب؛ آرزؤوں کی شب اور دعا و مناجات کی رات
قرآن تمام مشکلوں کا حل
امامت کي ملوکيت ميں تبديلي
عزاداری
تمام مسلمین جہان کو عید سعید فطر مبارک ہو/ شوال کا ...
امامت پر عقلی اور منقوله دلایل
تحریک حسینی کے تناظر میں امر بالمعروف ونہی عن ...
انبیاء الہی كی حمایت اور ان كی پیروی

 
user comment