اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

علاقے میں بدامنی کا اصلی عامل سعودی عرب/ مکہ و مدینہ آل سعود کی ملکیت نہیں

سعودی عرب کی وجہ سے علاقے میں پھیلی بدامنی؛ یمن پر آل سعود کی جارحیت، ایرانی زائرین کی توہین اور عمرہ پر وقتی بندش جیسے حالیہ دنوں پیش آئے واقعات کے بارے میں اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی اعلی کونسل کے رکن آیت اللہ ڈاکٹر مہدی ہادوی تہرانی کے ساتھ ابنا نے ایک پریس کانفرنس کی ہے۔
علاقے میں بدامنی کا اصلی عامل سعودی عرب/ مکہ و مدینہ آل سعود کی ملکیت نہیں

سعودی عرب کی وجہ سے علاقے میں پھیلی بدامنی؛ یمن پر آل سعود کی جارحیت، ایرانی زائرین کی توہین اور عمرہ پر وقتی بندش جیسے حالیہ دنوں پیش آئے واقعات کے بارے میں اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی اعلی کونسل کے رکن آیت اللہ ڈاکٹر مہدی ہادوی تہرانی کے ساتھ ابنا نے ایک پریس کانفرنس کی ہے۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی اعلی کونسل کے رکن نے بدھ ۔ ۱۵ اپریل ۲۰۱۵ ۔ کو اس پریس کانفرنس سے جو ابنا کے دفتر میں منعقد کی گئی علاقے کے موجودہ واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران کا انقلاب ایسے وقت میں کامیاب ہوا کہ مغربی تجزیہ نگاروں کے بقول مشرق وسطیٰ کا علاقہ پرامن تھا لیکن اس کے باوجود انقلاب کے بعد ایسا تلاطم برپا ہوا جو غیر متوقع تھا۔
آیت اللہ ہادوی تہرانی نے کہا: انقلاب اسلامی کی کامبابی کے بعد جب ایران مغربی تسلط سے باہر نکل گیا تو علاقے کے بعض دیگر ممالک کو موقع ملا کہ وہ مشرقی وسطیٰ میں مغربی مفاد کو پورا کرنے کے لیے اس کے کٹھپتلی بن جائیں۔ دوسری طرف بعض ممالک جیسے اسرائیل کہ جو ایران کے طبیعی ذرائع سے محروم ہو گیا تھا علاقے میں ایک اڈے کی تلاش میں تھا، اور نتیجۃ سعودی عرب نے اسرائیل کو گرین سگنل دیا اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو اپنا ساتھی مل گیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کا انقلاب مذہبی اور قومی تعصبات سے بالاتر
حوزہ علمیہ قم کے استاد نے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران کا انقلاب دینی اقدار اور اسلامی افکار کو زندہ کرنے کے لیے میدان عمل میں اترا۔ اگرچہ انقلاب کے رہنما اور عوام سب کے سب شیعہ تھے اہلبیت(ع) کے پیروکار تھے لیکن انقلاب کا نعرہ تمام مستضعفین عالم کے مفاد میں تھا۔ اسی وجہ سے انقلاب اسلامی کے دشمنوں نے اسلامی انقلاب کو قومی اور مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی۔
انہوں نے مزید کہا: اب تک انقلاب اسلامی نے جس چیز کو مظہر عام پر پیش کیا وہ مظلومین عالم کا دفاع ہے اسلامی جمہوریہ ایران تمام مستضعفین عالم کی مشکلات پر نگاہ رکھے ہوئے ہے اور مستضعین عالم کی حمایت کا اعلان کر رہا ہے چاہے وہ کسی بھی فکر کے مالک ہوں۔
انہوں نے انقلاب اسلامی کی دیگر قوموں پر تاثیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: انقلاب اسلامی کے افکار میں اتنی وسعت پیدا ہوتی گئی کہ علاقے کے دیگر ممالک بھی اس سے متاثر ہوئے اور علاقے میں گزشتہ چند سالوں سے اسلامی بیداری کی لہر وجود میں آئی۔

قوموں کی بیداری پر اسلامی انقلاب کی تاثیر
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی اعلی کونسل کے رکن نے اسلامی بیداری سے متاثر ممالک کو نمونے کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا: اسلامی بیداری سے متاثر ایک ملک تیونس کی مثال دیتا ہوں یہ ملک پہلے فرانس کے زیر تسلط تھا اور مغربیوں اور فراسویوں کی سیاحت گاہ تھا جسے وہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے تھے۔ زین العابدین بن علی کی تیونس میں ڈکٹیٹر شپ تھی۔ اس حکومت کے دور میں اسلام نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ حجاب کا وجود نہیں تھا دیہاتوں میں شاید بوڑھی عورتیں حجاب کرتی تھی، مغربی کلچر حاکم تھا اور اسلامی افکار اور احکام کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔
استاد ہادوی نے تیوس میں اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے کہا: انقلاب تیونس سے پہلے بن علی کے دور حکومت میں مجھے اس ملک میں جانا ہوا۔ اس سفر میں میں نے اس ملک کے مختلف لوگوں سے ملاقات کی اور ان کے اندر اسلامی  فکر محسوس کی مجھے یقین ہو گیا کہ یہ اسلامی تفکر ایک دن کسی نہ کسی صورت میں ضرور ظاہر ہو گا۔ انقلاب تیونس کے بعد کے سفر میں، میں نے جو کچھ پہلے دیکھا تھا وہ غیر معمولی طریقے سے لوگوں کے اندر اثر کر چکا تھا اور لوگ فوق العادہ طریقے سے اسلام اور اسلامی افکار کی طرف مائل تھے۔
انہوں نے مزید کہا: لیکن تیونس جو اسلامی بیداری کا نقطہ آغاز تھا بعض ملکوں کی سیاسی، اعتقادی اور مالی حمایتوں سے اپنے اصلی راستے سے منحرف ہو گیا اور اس ملک میں شدت پسند تحریکیں وجود میں آ گئیں۔
تکفیری ٹولوں کے ذریعے اسلامی بیداری کا رخ موڑا جانا
آیت اللہ ہادوی تہرانی نے کہا: عربی ممالک کے پیسے، مغربی ممالک کی شیطانی سیاستوں اور اسرائیل کے پروپیگنڈوں نے اسلامی ممالک جن میں اسلامی بیداری کی لہر پھیلی جیسے تیونس جہاں سے بیداری کا آغاز ہوا انہیں تکفیریت کا پلیٹ فارم بنا دیا اور اسلامی بیداری کا رخ تشدد پسندی اور اسلام فوبیا کی طرف موڑ دیا، شام میں بشار الاسد کے خلاف لڑنے کے لیے ٹیونس دھشتگرد بھیجنے لگا، جہاد النکاح کی بدعت ٹیونس سے شروع ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا: شام میں دشمنوں کی پالیسوں نے اس طرح چال چلی کہ بزعم خود مختصر مدت میں شام کا تختہ الٹنے کی سوچ رہ تھے۔ شام کو خطرناک ترین دھشتگرد ٹولوں کا گڑ بنا دیا گیا داعش کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ داعش ایک پاگل، احمق اور حیوانی صفات کا مالک ٹولہ ہے۔ لیکن دشمنوں نے اس ٹولے کی حمایت کر کے اسے شام اور عراق کے ایک وسیع علاقے پر مسلط کر دیا۔
انہوں نے علاقے میں دشمنوں کی ناکامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کی وسیع سیاستوں، عوامی کی حمایتوں اور رہبر انقلاب کی تدبیروں نے حالات کو الٹا کر کے دکھایا اور دشمنوں کو شام و عراق میں ناکوں چنے چبوا دئے۔ عراق میں داعش بغداد سے ۱۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر آ گیا تھا لیکن دینی مرجعیت، عوامی استقامت، عراقی عہدہ داروں کی مدیریت اور اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت سے داعش کو منہ کی کھانا پڑی۔
یمن کی قبائلی اور محلئ تنظیموں کا قومی اور سیاسی تحریک ’’انصار اللہ‘‘ میں تبدیل ہوجانا
آیت اللہ ہادوی تہرانی نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں یمن پر جاری جارحیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: حوثی قبیلہ یمن کے زیدی شیعوں کا ایک بڑا قبیلہ ہے۔ اس قبیلہ سے وابستہ تحریک ایک قومی اور عسکری تحریک تھی جو متعدد بار ’’علی عبد اللہ صالح‘‘ کے مد مقابل کھڑی ہوئی۔
انہوں نے کہا: لیکن ان آخری سالوں میں یہ تحریک ایک قومی سیاسی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔ تحریک انصار اللہ جب عوامی اور قومی تحریک میں تبدیل ہوئی تو وسیع پیمانے پر اسے قدرت حاصل ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا: انصار اللہ کے وسیع پیمانے پر طاقتور ہونے کے بعد سعودی حکام جو یمن کو اپنی خلافت کا حصہ سمجھتے تھے کو انصار اللہ سے خطرہ لاحق ہوا لہذا انہوں نے بغیر انجام کی فکر کئے یمن پر حملہ کر دیا۔
حوزہ علمیہ قم کے استاد نے ملک عبد اللہ کی موت کو سعودی عرب کی سیاستوں میں تبدیلی کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا: ملک عبد اللہ اپنی عمر کے آخری دنوں میں اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ تکفیری ٹولے حتی سعودی عرب کے لیے بھی ضرر رساں ہیں لہذا انہوں نے اپنی عمر کے آخری دنوں میں تکفیریت کے تشدد کو محدود کر دیا تھا لیکن ان کی موت سے سعودی عرب کی سیاستوں میں تبدیلی واقع ہو گئی اور دوبارہ سے تکفیری افکار غالب آگئے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یمن پر حملہ سعودی عرب کی سیاست میں موجود تکفیری افکار کا نتیجہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ سعودی حکام اس نتیجہ تک پہنچیں گے کہ یہ حملہ نہ صرف ان کے فائدہ میں نہیں بلکہ ان کے زوال کا باعث ہے۔
مکہ و مدینہ آل سعود کا نہیں ہے
آیت اللہ ہادوی تہرانی نے اپنی گفتگو کے آخر میں جدہ ایئرپورٹ پر ایرانی زائرین کے ساتھ کی گئی بدسلوکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: مکہ و مدینہ دو اسلامی شہر ہیں جو تمام مسلمانوں سے متعلق ہیں اگر چہ جغرافی اعتبار سے سعودی عرب میں واقع ہیں۔ لیکن افسوس سے سعودی حکومت نے اسلامی تعلیمات اور بین الاقوامی قوانین کے برخلاف ان دو شہروں پر ایک خاص فرقے کے نظریات کو زبردستی حاکم دیا ہے اور نہ صرف شیعوں بلکہ دیگر تمام فرقوں کے لیے بہت ساری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
انہوں نے کہا: مکہ و مدینہ میں زائرین کے لیے مشکلات تو پہلے سے ہی موجود تھیں لیکن موجودہ حالات میں اعتقادی ناامنی کے علاوہ عزت و آبرو بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔!
انہوں نے کہا: یہ تمام چیزیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ سعودی حکومت حرمین شریفین پر مینیج منٹ کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
حوزہ علمیہ قم کے استاد نے کہا: ایسے حال میں جب سعودی حکام زائرین حرمین کی حفاظت کرنے سے عائز ہیں تمام اسلامی ممالک کو مل کر ایک کمیٹی تشکیل دینا چاہیے جو حرمین شریفین کے حفاظتی انتظامات کو اپنے ہاتھ میں لے۔ علمائے اسلام اور عالمی اسلامی تنظیموں کو مل کر اس بارے میں غور و فکر کرنا چاہیے۔

سوالات و جوابات

آیت اللہ ہادوی تہرانی کی گفتگو کے بعد اس خبری نشست میں موجود نامہ نگاروں نے موصوف سے چند سوالات کئے آیت اللہ ہادوی نے جن کے جوابات دئے۔ ذیل میں ان سوالات اور جوابات کو مختصر طور پر بیان کیا جاتا ہے؛
ہفتہ نامہ گویہ سے علی شہیدی: کیا عالم اسلام میں کچھ ایسے علماء پائے جاتے ہیں جو علمی یا نظریاتی طور پر داعش کی پشت پناہی کرتے ہوں؟
۔ داعشی تفکر کی جڑیں وہابیت کے اندر پائی جاتی ہیں۔ داعش کی فکری بنیاد وہابیت پر قائم ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہابی آشکارا طور پر داعش کی حمایت کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے داعش کو جنم دیا ہے وہ اسلام کے نامور علماء نہیں ہیں اور نہ داعش علمی افکار کی بنیادوں پر وجود میں لایا گیا ہے۔ داعش کا فکری طور پر وہابیت سے تعلق ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں وہابیت کو اگر عملی جامہ پہنایا جائے تو داعش بنتا ہے۔ میرے خیال کے مطابق داعش عسکری ایجنسیوں کے ذریعے وجود میں آیا ہے نہ فکری اور عقیدتی بنیادوں پر۔ اس لیے کہ عسکری ایجنسیوں اور داعش کے درمیان ایک طرح کا تال میل نظر آتا ہے۔ مغربیوں کا کہنا ہے کہ داعش کا طرز عمل جدید علم سیاست کے مطابق ہے جبکہ داعش میں کام کرنے والے لوگ اتنی سوجھ بوجھ نہیں رکھتے، اس بات پر دلیل یہ ہے کہ بظاہر داعش سعودی عرب کے مخالف ہے اور سعودی عرب داعش کے مخالف۔ لیکن باطنی طور پر ہمارے پاس گہری اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب کے مرکزی علاقے نجد کی اکثریت داعش کی حامی ہے۔ کہا یہ جا رہا تھا کہ داعش ملک عبد اللہ کی موت کے بعد سعودی عرب پر حملہ کرے گا۔ لیکن کوئی اتفاق رونما نہیں ہوا داعش خود کو اسلام کا مجاہد کہلاتا ہے لیکن اسرائیل سے مقابلے میں خاموش ہے۔ یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ داعش کی پشت پناہی کرنے والی بیرونی ایجنسیاں ہیں۔
اہل بیت نیوز ایجنسی کے شعبہ عربی سے محمد سعدی: اخوان المسلمین کا تکفیری ٹولیوں مخصوصا داعش سے کوئی رابطہ ہے؟
۔ اخوان المسلمین سلفی تفکر کا نتیجہ ہے۔ سلفی افکار کی مختلف شاخیں ہیں۔ اور وہابی تفکر اسی سلفی تفکر کی ایک شاخ ہے۔ اخوان المسلمین فکری لحاظ سے سلفی تفکر کے مالک ہیں اور اخوان ایک پرانی تحریک ہے جو ایک خاص طرز پر مصر میں وجود پائی اور اس کے بعد حماس بھی اسی سے وجود میں آئی ترکی میں حزب عدالت کو جنم دینے والے بھی یہی اخوان المسلمین ہیں۔ یہ تفکر سیاسی خصوصیات کے اعتبار سے داعشی تفکر سے الگ ہے۔ اخوان المسلمین داعش کی طرح شدت پسند نہیں تھے اور نہ ہیں جب مصر میں اقتدار اخوان المسلمین کے ہاتھ آیا تو حکومت پر دباو ڈالنے والا ایک ٹولہ تکفیریوں کا تھا۔ لہذا اخوانی، وہابی اور داعشی تفکر کے جڑیں اسی سلفی تفکر سے  ہی جڑی ہوئی ہیں۔
ہفتہ نامہ گویہ سے علی شہیدی:  یمن کے زیدی شیعوں کا تحریک انصار اللہ سے کیا رابطہ ہے؟
۔ یمن کی اکثر آبادی زیدی شیعوں پر مشتمل ہے اور اہل سنت اقلیت میں ہیں۔ حوثی زیدی، شیعوں کا ایک قبیلہ ہے۔ یہ اپنے وقت کی حکومت کے مخالف تھے جبکہ علی عبد اللہ صالح خود زیدی تھے۔ حوثی جو حکومت کی جانب سے ظلم کا شکار تھے یہ یمن کے ایک خاص علاقے میں رہتے تھے دھیرے دھیرے ان کی تحریک یمن کے دوسرے علاقوں میں بھی پھیلتی گئی۔ اور تحریک انصار اللہ ایک عوامی اور سیاسی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔ اب حوثیوں کی تحریک کسی ایک مذہب سے مخصوص نہیں رہی بلکہ اس کے طرفدار تمام فرقوں میں پائے جاتے ہیں اور حوثیوں نے ڈیموکریٹک طریقے سے حکومت کو اپنے اختیار میں لیا۔ تحریک انصار اللہ اگر ان (سعودی عرب) کے بقول قومی تحریک نہیں ہے تو اسلامی جمہوریہ ایران کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ خود یمنیوں کا ہے جو انہیں خود اپنے طور پر حل کرنا ہے اور سعودی عرب کی طرف سے بیرونی مداخلت کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہے یہ ظلم ایسے ہی ہے جیسے اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی کے شعبہ فارسی سے احمد محبوبی: کیا آپ کی نظر میں زیدی فقہ کے اندر کوئی تبدیلی رونما ہوئی ہے جو اتنا عرصہ خاموشی کے بعد انہوں نے قیام کیا ہے اور طاقت کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں؟
۔ حوثیوں کے درمیان یہ موجودہ صورتحال ایک سیاسی تحریک کا نتیجہ ہے اور لوگوں نے اس عنوان سے اس تحریک کی حمایت کی ہے نہ کہ ان کے عقیدتی مسائل میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ فقہی اور اعتقادی افکار موجودہ صورتحال کے پیچھے بہت کم ہیں۔ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے پامال شدہ حقوق کی بازیابی کریں، در حقیقت وہ سیاسی طور پر حد بلوغ تک پہنچ گئے ہیں۔ بحرین کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے بحرین میں بھی لوگ سیاسی حق کے ذریعے جمہوریت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ جو اکثریت زیدیوں کی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ تحریک اعتقادی اصول کی بنا پر ہے بلکہ یہ تحریک سیاسی ہے اور لوگ اپنا فطری حق چاہتے ہیں۔
عالمی چینل الکوثر سے ارویلی: آج بعض شیعی تحریکیں، انصار اللہ کے زیدی تفکر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کی مخالفت کرتے ہیں ایسی صورتحال میں اس مسئلے کو کیسے پیش کیا جائے؟
۔ علما کی بزم میں علمی مبانی پر گفتگو کرتے ہوئے کسی ایک مذہب کو مورد تنقید قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس وقت ہماری گفتگو یہ نہیں ہے کہ زیدی عقیدہ صحیح ہے یا باطل؟ اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یمن میں مظلوم واقع ہوئی ہے انہوں نے قیام کیا اور اپنا سیاسی حق حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن استعماری طاقتوں نے انہیں سرکوب کرنا شروع کردیا۔ اس بات سے قطع نظر کہ وہ زیدی ہیں یا سنی۔ بحرین کے تیئیں ہماری حمایت اثنی عشری شیعوں کے عنوان سے نہیں ہے ہم فلسطین کے مزاحمتی گروہوں کی حمایت کرتے ہیں جبکہ وہ شیعہ نہیں ہیں۔ جو لوگ زیدی فرقے کی تنقید کرتے ہیں وہ جان لیں کہ ان کا یہ اقدام وہابی تفکر کے فائدے میں ہے اس لیے کہ یمن میں زیدیوں کے دشمن وہابی ہیں۔ موجودہ شرائط میں انصار اللہ کو کمزور بنانا وہابیت کی تقویت ہے اور شیعہ اثنی عشری کے نقصان میں ہے۔
ہفتہ نامہ گویہ سے علی شہیدی: یمن پر سعودی جارحیت کے نتیجے میں علاقے کی صورتحال کیا ہو گی؟
۔ یمن کے لوگ بعض دوسری قوموں کے برخلاف عقیدتی تفکر اور جذبے کے اعتبار سے شجاع اور بہادر ہیں۔ سعودی عرب پہلے بھی حوثیوں کو مٹانے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن کامیاب نہیں ہو سکا بلکہ برعکس انصار اللہ مذہبی تحریک سے باہر نکل کو قومی تحریک میں تبدیل ہو گئی ہے۔ سعودی عرب کا یمن میں کوئی مستبقل نہیں ہے۔ یمن پر حملہ محض سیاسی حماقت ہے۔ سعودی عرب اگر جنگ کو نہیں روکے گا تو اس دلدل میں دفن ہو جائے گا وہ چند بموں سے یمن کو  شکست نہیں دے سکتا۔ اگر انصار اللہ پوری جدیّت کے ساتھ مقابلے کے لیے تیار ہو جائے جو ابھی تک نہیں ہو ئی ہے تو میں سوچتا ہوں کہ سعودی عرب اس کے سامنے نہیں ٹک پائے گا اور مختصر مدت میں شکست کھا جائے گا اور یمن آل سعود کا نقطہ سرانجام ہو گا نہ اس کی ترقی کا سرآغاز۔
ایلنا نیوز سے چہرہ قانی : وزارت خارجہ کے اقدامات سے ہٹ کر کیا ’’بعثہ رہبری‘‘ یا ’’حج کمیٹی‘‘ نے بھی جدہ کے واقعہ کے خلاف کوئی اقدام انجام دیا ہے یا نہیں؟
اس حادثے کے رونما ہوتے ہی ’’حج و زیارات کمیٹی‘‘ اور ’’بعثہ رہبری‘‘ کی جانب سے بھی سخت نوٹس لیا گیا اور ساتھ ساتھ ایرانی قونصل خانے کے اقدامات کی وجہ سے عمرہ پر وقتی طور پر معطل کر دیا گیا۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی کے شعبہ عربی سے محمد سعدی: حج و عمرہ پر وقتی منسوخی، کیا ایران کے خلاف دشمنوں کی طرف سے غلط فائدہ اٹھائے جانے کا باعث نہیں بنے گی؟
۔ سعودی عرب میں وہابیت کے مختلف رنگ و روپ ہیں اور افراطی وہابی ایرانیوں کے یا کلی طور پر شیعوں کے حرمین شریفین میں داخل ہونے کے مخالف ہیں۔ اس طرح کے بعض افراطی ٹولیوں کے ساتھ خود ہمارا ٹکراو رہا ہے ہم ان سے کہتے تھے کہ تمہاری حکومت نے ہمیں ویزا دیا ہے اور ہم قانونی طور پر یہاں ہیں تو وہ اپنی حکومت کو لعنت بھیجتے اور گالیاں نکالتے تھے کہ کیوں وہ شیعوں کو ویزہ دے کر یہاں بلاتے ہیں۔ افراطی وہابی شیعوں کے حرمین میں جانے کے مخالف ہیں اور اگر یہ مسئلہ جلدی حل نہ ہوا اور حج پر پابندی لگ گئی تو وہ شیعوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہوئے کہیں گے کہ شیعہ مسلمان نہیں ہیں وہ حج اور عمرہ پر عقیدہ نہیں رکھتے۔
حوزہ نیوز سے سعادت: کیا اس سلسلے میں حرمین شریفین کے ادارے کے پاس کوئی بین الاقوامی راہ حل ہے؟
۔ گزشتہ سال سب سے زیادہ عمرہ میں جانے والے لوگ ایرانی تھے۔ حج و عمرہ کے لیے جتنی توانائی ایرانیوں کے پاس ہے اتنی کسی کے پاس نہیں۔ البتہ ہم سعودی عرب کی سیاسی حدود میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے اور سعودی حکومت کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتے ہمارا کہنا یہ ہے کہ مکہ و مدینہ عالم اسلام سے متعلق ہے اب اگر مکہ و مدینہ سعودی عرب میں واقع ہے تو اس حکومت کا فرض اولیں یہ ہے کہ وہ تمام زائرین کے لیے سہولیات فراہم کرے۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ امریکہ میں پائی جاتی ہے امریکی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ وہاں کی سکیورٹی فراہم کرے  اسی طرح سعودی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ امریکی حکومت کی طرح مکہ  و مدینہ کے زائرین کی سکیورٹی فراہم کرے  ہر اعتبار سے جانی، عقیدتی، فکری۔  بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ قابل قبول نہیں ہے کہ مسجد النبی میں ایک شخص دوسرے کو سلام کرے تو اسے گرفتار کر لیا جائے اور گرفتار کرنے کی وجہ یہ بتائی جائے کہ مسجد النبی میں دو افراد کا آپس میں گفتگو کرنا ممنوع ہے۔
موج نیوز ایجنسی سے شابرم: حرمین شریفین کی مدیریت کے لیے ایک عالمی تنظیم یا کمیٹی کی جو آپ نے بات کی اور تجویز پیش کی یہ کمیٹی اسلامی حکومتوں کی جانب سے معین ہونا چاہیے یا علمائے اسلام اور حوزہ ہائے علمیہ کی جانب سے؟
۔ یہ علمائے اسلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس موضوع پر گفتگو کریں کہ کیوں مکہ و مدینہ اس قدر مشکلات سے دوچار ہے۔ عثمانی دور حکومت میں اہل سنت کے چاروں مذاہب حرمین میں موجود تھے اور ہر کوئی اپنے مذہب کے مطابق امن و سلامتی کے لیے اپنی اپنی فعالیتیں انجام دیتا تھا لیکن آج پورے مکہ و مدینہ میں صرف ایک فرقہ تبلیغ کر رہا ہے اور باقی کسی کا نام و نشان تک نہیں ہے اور یہ فرقہ بھی وہ فرقہ ہے جو عقیدہ کے لحاظ سے ان چاروں میں سے الگ ہے اور باقی والوں کی گردنیں کاٹ رہا ہے۔


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسوہ حسینی
امام جعفر صادق علیہ السلام کی نصیحتیں
دعاء کمیل اردو ترجمہ کے ساته
اہمیت شہادت؛ قرآن وحدیث کی روشنی میں
امانت اور امانت داری
واقعہ کربلا سے حاصل ہونے والي عبرتيں (حصّہ دوّم )
اہلبیت علیہم السلام کی احادیث میں حصول علم
امام حسین علیہ السلام کا وصیت نامہ
نہج البلاغہ کی عظمت
حدیث معراج میں خواتین کے عذاب کا ذکر

 
user comment