اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

امام موسیٰ کاظم ع کی ماں حضرت حمیدہ

امام موسیٰ کاظم ـکی ماں حمیدہ ایک باعظمت خاتون تھی۔ ان کی فضیلت کے بارے میں یہی کافی ہے کہ امام محمد باقر ـنے پہلی ہی ملاقات میں ان کی بڑی تعریف کی اور اپنے بیٹے امام صادق ـسے نکاح کیا۔ وہ اپنے زمانے کی نیک اور پاکدامن عورت تھی اور امام کے ساتھ شادی کے بعد ان کے فضائل وکمالات میں اور اضافہ ہوا۔ حتیٰ امام صادق ـنے عورتوں کو حکم د
امام موسیٰ کاظم ع کی ماں حضرت حمیدہ

مام موسیٰ کاظم ـکی ماں حمیدہ ایک باعظمت خاتون تھی۔ ان کی فضیلت کے بارے میں یہی کافی ہے کہ امام محمد باقر ـنے پہلی ہی ملاقات میں ان کی بڑی تعریف کی اور اپنے بیٹے امام صادق ـسے نکاح کیا۔ وہ اپنے زمانے کی نیک اور پاکدامن عورت تھی اور امام کے ساتھ شادی کے بعد ان کے فضائل وکمالات میں اور اضافہ ہوا۔ حتیٰ امام صادق ـنے عورتوں کو حکم دیا کہ وہ ان کی بیوی سے شرعی احکام سیکھیں ۔

نام لقب ونسب :سیرت کی کتابوں میں آپ کا نام اورنسب کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ روایات میں امام کاظم ـ کی ماں کے دو لقب ذکر ہوئے ہیں:(١) مصفاة: یعنی پاک اور خالص، حمیدہ کو یہ لقب اس کے شوہر امام صادق ـنے دیا:(( حمیدہ مصفاة من الادناس)) (٢) لؤ لؤة: ابن شہر آشوب، نے حمیدہ کی کنیت لولوہ ذکر کی ہے۔ جو کہ اشتباہ ہے کیونکہ کنیت(( ام)) کلمہ سے شروع ہوتی ہے۔ آپ کے باپ کا صاعد بربریتھا ۔وجناب حمیدہ کے چار بچے تھے: امام موسیٰ کاظم ـ،اسحاق ،محمد اور فاطمہ کبریٰ۔مورخین کے درمیان اختلاف ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوئیں اور کس قبیلہ سے تھیں ۔امام موسیٰ کاظم ـکی ماں کا نام حمیدہ بربریہ یا اندلسیہ ہے ،لیکن بربریہ زیادہ صحیح ہے(٢) امام موسیٰ کاظم ـکی ماں کنیز تھی اور ان کا نام حمیدہ اندلسیہ یا بربریہ تھا۔ بعض نے یہ لکھا ہے کہ ان کا تعلق روم سے تھا ۔ (٣) امام موسی کاظم ـکی ماں کا نام حمیدہ بنت سعد بربری ہے، وہ اندلس سے تھیں (٤) علی بن میسم کہتا ہے: حمیدہ اشراف عجم سے تھیں۔پس حمیدہ کا عربی نہ ہونا تمام مورخین کے نزدیک اتفاق ہے ۔

امام باقر ـکے گھر میں آنا :ابن عکاشہ کہتا ہے: میں امام باقر ـ کی خدمت میں حاضر ہوا امام صادق ـبھی ان کی خدمت میں کھڑے تھے۔امام باقر ـ نے میرا اکرام کیا اور کچھ انگور دیئے ۔میں امام باقر سے عرض کیا: مولا آپ اپنے بیٹے صادق ـکی شادی کیوں نہیں کرتے جبکہ وہ بالغ ہوچکے ہیں؟ حضرت امام صادق ـنے فرمایا: یہ ر قم ہے اس سے اس کیلئے لڑکی خریدوں گا۔چند دنوں کے بعد میں دوبارہ امام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: اب کنیز فروش موجود ہیں یہ رقم لو اور ایک کنیز خرید کر لائو ۔ جب میں نے کنیز فروش کے پاس پہنچا تو دو کنیزیں باقی رہ گئیں تھیں۔ میں نے ستر اشرفی دے کر کنیز خرید لی اور امام کی خدمت میں لے آیا امام صادق ـ بھی امام باقر ـکی خدمت میں موجود ہے۔ابن عکاشہ کہتا ہے: کہ جب میں حمیدہ کو امام کی خدمت میں لے گیا تو سب سے پہلے امام نے پوچھا کنیز نے اپنا نام حمیدہ بتایا تو امام نے فرمایا : ((حمیدة فی الدنیا ومحمودة فی الاخرة )) تو دنیا وآخرت میں حمیدہ وپسندیدہ رہو ۔امام باقر ـ حمیدہ سے سوال کیا کہ کیا تم باکرہ ہو تو اس نے کہا جی ہاں میں باکرہ ہوں ۔

حمیدہ کی شادی :عصر حاضر کے دانشمند، باقرشریف قرشی ،بعض معصومین کی شادی کنیزوں کے ساتھ کے بارے میں لکھتے ہیں: آئمہ کی سیرت یہ تھی کہ جب وہ کسی کنیز سے شادی کا ارادہ کرتے تو پہلے اسے اللہ کی راہ میں آزاد کردیتے۔ پھر اسلام کی تعلیم دیتے اور پھر ان سے شادی کرتے ۔امام باقر ـنے حمیدہ کو خریدنے کے بعد اس کواللہ کی راہ میں آزاد کردیا اور پھر اپنے بیٹے امام صادق ـسے نکاح کیا۔ ان کی شادی کی تاریخ معلوم نہیں جابر کہتا ہے: کہ جب امام باقر ـنے حمیدہ کو خریدا اور حضرت امام صادق ـ سے عقد پڑھا تو فرمایا: اے بیٹے یہ حمیدہ تمام مہذب کنیزوں کی سردار ہے۔ وہ با عفت اور پاکدامن ضاتون ہیں اور خداوند عالم کی طرف سے تیرے لیئے سے ایک کرامت ہے ۔

امام ـ کی ولادت :حضرت حمیدہ کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ ان سے موسیٰ کاظم ـکی ولادت ہوئی۔امام صادق ـ جب ایک سو اٹھائیس ہجری میں اپنے کچھ اصحاب کے ساتھ حج پر گئے، تو اپنی حاملہ بیوی کو بھی ساتھ لے گئے ۔مناسک حج ادا کرنے کے بعد جب ابواء کی سر زمین پہنچے، تو وہاں پر حضرت موسیٰ کاظم ـکی ولادت ہوئی ۔ ابو بصیر کہتا ہے :میں جس سال امام جعفر صادق ـکے ساتھ حج پر گیا اور جب ہم ابواء کے مقام پر پہنچے، تو امام موسیٰ کاظم ـکی ولادت ہوئی۔ امام صادق ـبہت ہی خوشحال تھے، حمیدہ کے پاس گئے اور تھوڑی دیر کے بعد خوشحالی کی حالت میں واپس لوٹے اور اپنے اصحاب سے فرمایا :میرا بیٹا پیدا ہوا ہے اور ولادت کے وقت اس نے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے اور اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کیا ۔یہ انبیاء اور اوصیاء کی ولادت کی نشانی ہے ۔منہال قصاب کہتا ہے: جب میں مکہ سے مدینہ گیا اور جب ابواء کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ خدا نے امام صادق کو فرزند عطا کیا ۔

فقہ اہل بیت : امام صادق ـنے اپنی بیوی کی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا، انہیں اسلام کے معارف بتائے۔ حضرت کی صحبت میں حمیدہ کے علم میں اضافہ ہوتا گیا ۔حتیٰ کہ ایک دن ہی حمیدہ علوم اہل بیت لوگوں تک پہنچانے کے فرائض ادا کرنے لگی ۔کئی بار امام صادق ـنے نصیحت کی کہ مسلمان عورتوں کو تعلیم دیں۔ شیخ عباس قمی لکھتے ہیں:وہ ایک عالمہ اور فقھیہ تھیں۔ تمام عورتیں مسائل اور احکام کے لیے آپ کے پاس جاتیں تھیں۔عبدالرحمن بن حجاج کہتا ہے: میں نے امام صادق ـسے سوال کیا۔ حج میں ہمارے پاس ایک بچہ بھی ہے اور اس کا حج بجالانا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا :بچے کی ماں کو کہو کہ وہ حمیدہ کے پاس جائے اور مسائل سیکھے۔ اس بچے کی ماں حمیدہ کی خدمت میں گئی اور مسائل پوچھے۔ انہوں نے کہا: جب ترویہ کا دن آئے تو بچے کے سلے ہوئے کپڑے اتاردیں۔ پھر اس کی کی طرف سے احرام کی نیت کریں۔ جب دہم ذی الحج آئے تو اس کی طرف سے شیطان کو پتھر ماریں اس کے سر کے بال کومنڈوائیں اور بیت اللہ کی زیارت کروائیں اور پھر کنیز کو حکم دو کہ اسے کعبہ کا طواف کرائے اور پھر صفا ومروہ کے درمیان.

ایک اور روایت:ابو بصیر کہتا ہے: امام صادق ـ کی وفات کے بعد حمیدہ بربریہ کی خدمت میں ہم حاضر ہوئے اور انہیں تسلیت عرض کی وہ رونے لگی اور پھر فرماتی ہیں: ((لو رأیت ابا عبداللّٰہ عند الموت لرأیت عجباً فتح عینیہ ثم قال اجمعوا لی کل من بینی وبینہ قرابة فلم نترک احداً الا جمعناہ فنظر الیھم ثم قال ان شفاعتنا لا تنال مستخفا بالصلوة))اے ابو بصیر! اگر تو ابا عبداللہ کو موت کے وقت دیکھتا تو ایک عجیب چیز مشاہدہ کرتا انہوں نے اپنی آنکھوں کو کھولا اور فرمایا میرے رشتہ داروں کو بلائو جب ہم جمع ہوگئے تو فرمایا جو شخص نماز کو اہمیت نہیں دیتا اسے ہماری شفاعت نصیب نہیں ہوگی ۔

شوہر کا وصی :ابو ایوب نحوی کہتا ہے :کہ ایک رات ابو جعفر منصور نے مجھے بلا بھیجا میں گیا اور دیکھا کہ وہ ایک خط پڑھ رہاتھا۔ اس نے وہ خط میری طرف پھینکا اور کہا کہ خط مدینہ کے حاکم محمد بن سلمان کا ہے کہ جس میں اس نے امام جعفر صادق ـ کی وفات کی خبر لکھی ہے۔ پھر تین بار کہا((انا للہ وانا الیہ رجعون)) ؛جعفر بے نظیر تھے پھر مجھ سے کہا: مدینہ کے والی کو خط لکھو کہ وہ تحقیق کرے کہ جعفر بن محمد کا وصی کون ہے تاکہ اس کا سر قلم کرے۔میں نے خلیفہ کے حکم سے مدینہ کے والی کو خط لکھا۔ چند دنوں کے بعد خط کا جواب اس طرح آیا: جعفر بن محمد نے پانچ افراد کو اپنا وصی قرار دیا ہے:(١) شخص خلیفہ،(٢) والی مدینہ،(٣) اپنا بیٹا عبداللہ، (٤) اپنا بیٹا موسی کاظم ـ (٥) اپنی بیوی حمیدہ بربریہ۔جب خلیفہ کو یہ خط ملا تو ہنسا اور کہنے لگا کہ اب میں ان پانچ افراد کو کیسے قتل کروں۔علامہ مجلسی لکھتے ہیں: امام صادق ـجانتے تھے کہ منصور ان کے وصی کو قتل کردے گا۔ لہذا خلیفہ اور مدینہ کے والی کو ظاہری طور پر اپنا وصی بنایا ۔

.......


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نقل حدیث پر پابندی کے نتائج
اسیرانِ اہلِبیت کی زندانِ شام سے رہائی جناب زینب ...
ہم فروع دین میں تقلید کیوں کریں ؟
خدا کے قہر و غضب سے غفلت
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
وحی کی اقسام
ماں کا مقام قرآن کی روشنی میں
تحفظ عقيدہ ختم نبوت اور امت مسلمہ
قرآن کی نظر میں حضرت علی(علیہ السّلام) کا مقام
حضرت زہراء (ع) کا جناب ابوبکر سے اختلاف اور اس کی ...

 
user comment