اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

قرآن کریم میں ائمہ (ع) کے نام

قرآن کریم کی آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ہرچیز کا ذکر موجود ہے اور خداوند عالم نے اس میں ہر چیز کو بیان کر دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے ” وَ نَزَّلْنا عَلَیْکَ الْکِتابَ تِبْیاناً لِکُلِّ شَیْءٍ“ ۔ اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے(۱) ۔ ”ما فَرَّطْنا فِی الْکِتابِ مِنْ شَیْءٍ“ ہم نے کتاب میں کسی شے کے بیان میں کوئی کمی نہیں کی ہے (۲) ۔ نہج البلاغہ میں بھی ذکر ہوا ہے : ”وفی القرآن نباٴ ما قبلکم وخبر ما بعدکم و حکم ما بینکم “ ۔ کتاب
قرآن کریم میں ائمہ (ع) کے نام

قرآن کریم کی آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ہرچیز کا ذکر موجود ہے اور خداوند عالم نے اس میں ہر چیز کو بیان کر دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے ” وَ نَزَّلْنا عَلَیْکَ الْکِتابَ تِبْیاناً لِکُلِّ شَیْءٍ“ ۔ اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے(۱) ۔ ”ما فَرَّطْنا فِی الْکِتابِ مِنْ شَیْءٍ“ ہم نے کتاب میں کسی شے کے بیان میں کوئی کمی نہیں کی ہے (۲) ۔ نہج البلاغہ میں بھی ذکر ہوا ہے : ”وفی القرآن نباٴ ما قبلکم وخبر ما بعدکم و حکم ما بینکم “ ۔ کتاب خدا میں گذشتہ خبریں اور آئندہ کی خبریں اور ضرورت کے احکام موجود ہیں (۳) ۔
اہل سنت نے بھی مشہور صحابی ابن مسعود سے نقل کیا ہے : ”ان فیہ علم الاولین و الآخرین “ ۔ قرآن کریم میں اولین اور آخرین کا علم ہے (۴) ۔
اس کے باوجود ہم مختلف جزئی احکام کو دیکھتے ہیں جو قرآن کریم میں نہیں ہں مثلا نماز کی رکعتوں کی تعداد ،زکات کی جنس اور نصاب، بہت سے مناسک حج، صفا و مروہ میں سعی کی تعداد ، طواف کی تعداد اور حدود و دیات ،قضاوت، معاملات کے شرایط اورائمہ (علیہم السلام) کے نام وغیرہ۔
بعض اہل سنت یا وہابی ان مسائل کی طرف توجہ کئے بغیر جو قرآن کریم میں بیان نہیں ہوئے ہیں ،اس مسئلہ کو پیش کرتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) کا نام قرآن کریم میں کیوں بیان نہیں ہوا ؟ اور اس طرح وہ کوشش کرتے ہیں کہ اس مسئلہ سے شیعوں کے ولایت کے دعوی کے خلاف استفادہ کریں ، اس مقالہ میں ہماری کوشش ہے کہ ہم اس دعوے کا جواب دیں اور ان مسائل کی وضاحت کریں ۔


قرآن کریم میں رسول اللہ (ص) کے جانشینوں کا تعارف
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے جانشین کی بحث میں سب سے اہم جو بحث ہے وہ مسلمانوں کے لئے ان کا تعارف ہے کیونکہ اپنی جگہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ مقام انتصابی ہے اور ایسا شخص خداوند عالم کی طرف سے منتخب ہوتا ہے ،لہذا اب کیا اعتراض ہے کہ یہ تعارف قرآن کریم میں اوصاف و صفات کے ساتھ ذکر ہو اور پھر رسول خدا اس شخص کو نام و نشان ذکر کرنے کے ساتھ لوگوں کے سامنے بیان کریں ۔
ہم جس وقت قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ خداوند عالم نے دو طرح سے لوگوں کا تعارف کرایا ہے ، کبھی نام لے کر تعارف کرایا ہے جیسے بعض انبیاء کہ جن کا نام سورہ مریم میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے : ”اذکر فی الکتاب ابراھیم ․․․، و اذکر فی الکتاب موسی․․․، واذکر فی الکاب اسماعیل ․․․ و اذکر فی الکتاب ادریس ․․․“ ۔ (۵) ۔ ( جاری ہے )

 


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

آسمانی کتابوں کے نزول کا فلسفہ
ماں کے پیٹ کے تین تاریک پردے
امامت قرآن اورسنت کی رو سے
قرآني آيات اور سورتوں کي ترتيب
اسلام پر موت کی دعا
ایسا قرآن کس طرح همیشه کے لئے رهنما هوسکتا هے جس ...
اولو العزم انبیاء اور ان کی کتابیں کون کونسی هیں؟ ...
سورۂ رعد کي آيت نمبر 24-28 کي تفسير
کیفیات ادائیگی حروف
تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 11 تا 15)

 
user comment