حقیقت طلبی
یہ میلانات کہ جنھیں کبھی مقدسات بھی کہا جاتا ہے اجمالاً پانچ قسم کے ہیں یا کم ازکم ہم ابھی ان کی پانچ اقسام کو جانتے ہیں ان میں سے ایک ”حقیقت “ ہے۔ ”حقیقت “ کی اصطلاح کو ہم” دانائی“ یا ”دریافت حقیقت جہان“ بھی کہتے ہیں ۔مقصد یہ ہے کہ انسان میں ایک ایسا میلان موجود ہے کہ حقیقتیں جیسی کہ وہ ہیں، ان کے کشف کرنے کا میلان حقائق اشیاءکا ادراک کماھی علیھا یعنی حقیقت میں وہ جیسی ہیں ،یہ کہ انسان جہان ہستی اور اشیاء کو جیسی کہ وہ ہیں دریافت کرے۔ پیغامبر اکرم (ص) سے منسوب دعاﺅں میں سے ایک میں ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے:
اَللّھُمَّ اَرِنی الاَشیائَ کَماھِیَ۔
یا اللہ! مجھے اشیاءکو ویسی ہی دکھا جیسی کہ وہ ہیں۔
جسے ”حکمت اور فلسفہ“ کہتے ہیں بنیادی طور پر اس کاہدف یہی ہے ۔ اصولی طور پر انسان جو فلسفہ کی طرف آیا ہے وہ اس کی اسی حس کی بنیاد پر ہے کہ وہ حقیقت اور حقائق اشیاءکو جاننا چاہتا ہے ۔ اس حس کا نام ہم ” حس فلسفی“بھی رکھ سکتے ہیں۔ چاہے ہم اسے حقیقت طلبی کہیں یا مقولہ حقیقت کا نام دیں یا عنوان فلسفی کے تحت دیکھیں یا اسے دانائی کے زمرہ میں قرار دیں۔
ایک جملہ ہے کہ جوبو علی سینا نے استعمال کیا ہے اور یہ تعبیر استعمال کرنے والا وہ قدیم ترین شخص ہے ۔مجھے معلوم نہیں کہ اس سے پہلے ایسی تعبیر تھی یا نہیں البتہ بعد میں شیخ اشراق اور دیگر افراد نے اسے استعمال کیا۔
فلسفے کے مقصد اورہدف یا غایت اور نتیجے کے اعتبار سے فلسفے کی تعریف کرتے ہوئے وہ کہتا ہے
صَیر ورَةُ الاِنسانِ عالَماً عَقلِیّاً مُضاھِیاً لِلعالَمِ العَینِیِّ
یعنی فیلسوف بننے کا نتیجہ نہائی یہ ہے کہ انسان خود اس عالم عینی کے مانند ایک جہان عقلی بن جائے۔
یعنی اس جہان عینی اور مادی کو اس طرح سمجھے اور دریافت کرے کہ جس طرح وہ حقیقت میں ہے۔ بعد میں وہ خودایک عالم بن جائے لیکن وہ عالم بیرون، عالم عینی سے خارج ہوگا اگرچہ یہ عالم جدید وہی جہانِ عینی ہے، البتہ یہ اس کی عقلی صورت ہے۔
یہ حقیقت اور حقیقت طلبی فلاسفہ کی نظرمیں انسان کا کمالِ نظری ہی ہے۔ انسان جبلی اورفطری طورپر کمالِ نظری کا طالب ہے یعنی حقائق جہاں کو جانناچاہتا ہے۔ اس طرح کے میلانات انسان میں حقیقتِ عالم تک رسائی کے لئے موجود ہیں۔
علمِ نفسیات میں بھی اس پر حس حقیقت طلبی یا حسِ جستجو کے نام سے بحث کی جاتی ہے۔ جب کسی مسئلے کو ایک وسیع سطح پر پیش کیا جاتا ہے تو اس کا نام جس کا وش یا حس جستجو رکھاجاتا ہے ۔ یہ وہ چیز ہے کہ جو دو یا تین سال کے بچوں تک میں موجود ہوتی ہے البتہ مختلف بچوں میں مختلف سطح کی ہوتی ہے۔ بچہ جب تین سال کا ہوتا ہے تو ہمیشہ طرح طرح کے سوال پوچھتا رہتا ہے ۔تعلیم وتربیت میں ماں باپ کو نصیحت کی جاتی ہے کہ جہاں تک ہوسکے اپنے بچوں کے سوال کا جواب دیں اور انھیں جھڑک نہ دیں۔ نادان اور بے توجہ ماں باپ جب دیکھتے ہیں کہ ان کا تین چار سالہ بچہ ہمیشہ سوال ہی کرتا رہتا ہے تو وہ اسے ایک فضول حرکت تصور کرتے ہیں ور کہتے ہیں ”چپ کر، کیا ٹیں ٹیں لگا رکھی ہے۔“ ایسا طرز عمل غلط ہے یہ حس سوال ہے، تلاش حقیقت کی حس ہے، حس حقیقت طلبی ہے جو ابھی اس میں ابھری ہے اور وہ پوچھتا ہے اور حق رکھتا ہے کہ پوچھے ۔ یہاں تک اگر وہ ایسی چیزوں کے بارے میں پوچھے کہ جس کا آپ جواب نہ دے سکیں یا جس کا جواب وہ نہ سمجھ سکے تب بھی اسے ڈانٹنا، جھڑک دینا یا اس کی اس حس کو دبادینا درست نہیں ہے اور اس کا یہ جواب نہیں کہ چپ کرجا۔ جس قدر ممکن ہو اس کا جواب دیا جانا چاہیے اوراسے مطمئن کرنا چاہیے ۔ یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ بچے کی بہت سی شرارتیں اسی حس کی وجہ سے ہیں۔ کیونکہ بچے کا شرارتی ہونا بھی ایک مسئلہ ہے جس چیز تک بھی پہنچتا ہے اس کو چھیڑتا ہے کبھی اس چیز کو اِس پر مارتا ہے کبھی اُس کو اِس پر گراتا ہے۔ کیا انسان طبعاً شرارتی ہے؟ جب وہ بڑا ہوجاتا ہے تو کیا اس کی اصلاح ہوجاتی ہے یا نہیں؟ کہتے ہیں کہ یہ اسی حس حقیقت شناسی کا نتیجہ ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے اس پر مار کر دیکھے کہ کیا ہوتا ہے۔ اب ہم جو ایسا نہیں کرتے تو یہ اس لئے ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ ہم بار ہا تجربہ کرچکے ہیں لہٰذا ہمارے لئے مسئلہ حل شدہ ہے لیکن بچے کے لئے یہ مسئلہ ابھی واضح نہیں ہے۔ انسان کے اندر سوال کا پیدا ہونا اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے۔ فلاسفہ اس کو ایک بالاترسطح پر پیش کرتے ہیں۔ماہرین نفسیات اس کو عمومیت دیتے ہیں یہاں تک کہ بچے کو بھی شامل کرتے ہیں۔ بہرحال انسان حقیقت اور حقائق کو جاننے کی طرف میلان رکھتا ہے۔ ابوریحان بیرونی کا ایک معروف واقعہ ہے جو شاید آپ نے سنا ہو ۔ وہ مرض موت میں مبتلا تھے ۔ ان کا ایک ہمسایہ فقیہ تھا ۔ وہ ابوریحان کی عیادت کے لئے آیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ بستر پر پڑے ہیں اور روبہ قبلہ لیٹے ہوئے ہیں اور زندگی کے آخری سانس لے رہے ہیں۔ ابو ریحان نے اپنے اس ہمسائے سے وراثت کا ایک شرعی مسئلہ پوچھا ۔اس فقیہ کو تعجب ہوا اورکہنے لگا : یہ کونسا وقت ہے مسئلہ پوچھنے کا؟ ابو ریحان کہنے لگے: مجھے معلوم ہے کہ میں مر رہا ہوں لیکن آپ سے یہ مسئلہ پوچھ رہا ہوں۔ اگر میں اس مسئلہ کا جواب جان کر مر جاﺅں تو بہتر ہے یا نہ جانتے ہوئے مر جاﺅں تو بہتر ہے؟ ہمسایہ کہنے لگا واضح ہے کہ جان کر مرنا بہتر ہے۔۔۔ ابو ریحان کہنے لگا:
پھر اس کا جواب بتاﺅ، تو اس نے جواب دیا۔۔۔ اس فقیہ کا کہنا کہ میں ابھی واپس اپنے گھر نہ پہنچا تھا کہ ابو ریحان کے گھر سے عورتوں کے رونے کی آواز آنے لگی۔
بہر حال یہ انسان میں موجود ایک حس ہے۔ جنھوں نے اپنی اس حس سے کام لیا ہے اوراسے زندہ رکھا ہے، وہ اس مرحلہ تک جا پہنچتے ہیں کہ کشفِ حقیقت کی لذت ان کے لئے ہر دوسری لذت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں لذت کشف حقیقت ان کے لئے۔ لذت سے بالاتر ہوتی ہے حجة الاسلام سیدمحمد باقر شفتی اصفہانی مرحوم کے بارے میںبھی ایک واقعہ ہمارے قدما نے نقل کیا ہے اور بالکل ایسا ہی واقعہ پا سچر کے بارے میں بھی ہے۔ جناب سید محمد باقر مرحوم کی شب زفاف تھی جب دلہن کاہاتھ دلہا کے ہاتھ میں دے دیاجاتا ہے اور پھر عام طور پر عورتیں دلہن کو حجلہ عروسی میں لے جاتی ہیں۔ اس وقت جناب سید محمد باقرکسی دوسرے کمرے میں چلے گئے تاکہ جب عورتیں چلی جائیں تو پھر دلہن کے پاس جائیں تو انھوں نے سوچا کہ موقع ہے کیوں نہ فائدہ اٹھایا جائے اور مطالعہ کیاجائے اور انھوں نے مطالعہ شروع کردیا۔ عورتیں چلی گئیں، دلہن بیچاری تنہا بیٹھی رہی ،بہت انتظار کیا کہ دلہا آجائے مگر وہ نہ آئے۔ سید محمد باقر جب متوجہ ہوئے تو وقتِ سحر تھا یعنی علم کی کشش نے انھیں اس طرح سے جذب کر لیا کہ شب زفاف وہ اپنی دلہن کو بھول گئے۔
پاسچر کے بارے میں بھی ایسا ہی قصہ بیان کیا جاتا ہے ۔کہتے ہیں کہ اس کی بھی شبِ عروسی تھی، ایک گھنٹہ وہیں کام میں مگن رہا اور وہ بھول گیا کہ یہ تو اس کی شادی کی رات ہے۔
یہ حقائق ہیں، یہ حس کم وبیش تمام انسانوں میں موجود ہوتی ہے البتہ دیگر حسوں کی طرح کسی میں زیادہ کسی میں کم نیز یہ بات اس امر سے مربوط ہے کہ انسان نے اسے کتنا پروان چڑھایا ہے لہٰذا انسان کو علم اور جاننے کی وجہ سے غیر انسان پر ترجیح دی جاتی ہے ۔انگلستان کا معروف فلسفی اسٹوارٹ میل کہتا ہے:
اگر انسان دانا ہو اور مفلس ہو تو وہ اس احمق سے بہتر ہے جو خوشحال ہے۔ ایک رنجیدہ و بے حال سقراط کو ایک موٹے خنزیر پر ترجیح حاصل ہے۔
ایسی سب باتیں انسان کے لئے حقیقت کی اہمیت واضح کرتی ہیں کیونکہ دانائی کا آخر کیا معنی ہے آگاہی، کائنات تک پہنچنا ، عالم کو سمجھنا اور جاننا ۔
source : tebyan