قرآن ایک عظیم کتاب ہے جو تمام دنیا کے انسانوں کے لیے نازل ہوئی ہے ۔ یہ کسی خاص قبیلے یا دنیا میں پائی جانے والی کسی بھی خاص نسل کے لیے ہرگز نہیں ہے ۔ قرآن پاک غیر مسلمانوں سے بھی اسی طرح بحث کرتا ہے جس طرح مسلمانوں کو حکم دیتا ہے ۔ قرآن میں بہت سی چگہوں پر کفار ، مشرکین ، اہل کتاب ، یہودیوں ، عیسائیوں اور بنی اسرائیل کو مورد بحث قرار دیتے ہوۓ انہیں شناخت حقیقی کی طرف دعوت دی گئی ہے ۔
سورہ توبہ میں قرآن فرماتا ہے کہ :
فان تابو واقامو الصلواۃ و اتو الزکوۃ فاخوانکم فی الدّین
( سورہ توبہ آیت 11 )
ترجمہ : " پس اگر انہوں نے توبہ کر لی اور نماز قائم کی اور زکوۃ دی تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں "
قرآن میں ایک اور جگہ اھل کتاب کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ :
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَى كَلَمَةٍ سَوَاء بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ ۔
( سورہ آل عمران آیت 64 )
ترجمہ : اے نبی کہہ دو کہ اہل کتاب خدا کے کلام کی طرف لوٹ آئیں ، کہ ہمارے اور تمہارے درمیان مساوی طور پر قبول ہو جاۓ ( مساوی طور پر خدا کے کلام کو قبول کر لیں ) اور یہ وہ ہے کہ خداوند کے سوا کسی اور کی پرستش نہ کریں اور نہ ہی اس کا شریک ٹھہرائیں اور ہم میں سے بعض لوگ دوسری چیزوں کو اپنا خدا نہ بنائیں "
مندرجہ بالا آیت سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن نے کسی خاص طبقے کو مخاطب نہیں کیا ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ " مشرکین عرب توبہ کر لیں " اور نہ ہی فرمایا کہ " اہل کتاب جو عربی نسل سے تعلق رکھتے ہو "
ہاں یہ بات درست ہے کہ جب طلوع اسلام ہوا اور اسلام کی دعوت صرف جزیرہ نما عرب تک ہی محدود تھی تو فطری طور پر قرآنی خطبات امّت عرب ہی سے منسوب کر دیۓ جاتے تھے لیکن ہجرت کے چھ سال بعد جب یہ دعوت ہر طرف پھیلنے لگی تب یہ خیال باطل ہو گیا ۔
اسی طرح سورہ انعام میں ارشاد ہوتا ہے " ( یہ قرآن ) مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے ، اس لیۓ کہ تم کو نصیحت کروں اور ڈراؤں ان لوگوں کو جو اس نصیحت اور قرآن پر ایمان رکھتے ہیں ۔ "
تاریخی لحاظ سے بھی اسلام مختلف مذاہب مثلا بت پرستوں ، یہودیوں ، عیسائیوں اور ایسے ہی بعض دوسری امتوں کے افراد مثلا سلمان فارسی ، صہیب رومی اور بلال حبشی جیسی شخصیتوں کے ذریعے بھی ثابت ہو چکا ہے ۔
source : tebyan