اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 56 تا 60)

تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 56 تا 60)

ثُمَ بَعَثْنٰکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ  لَعَلَکُمْ تَشْکُرُوْنَ(56)
پھرتمہارےمرنےکےبعدتمہیں ھم نے دوبارہ جِلادیا کہ شاید تم شکرگزارثابت ھو"
؛؛؛
چونکہ سوال رویتِ جلال و عظمتِ الہی سے کمیِ معرفت اور نادانی کی بنا پر تھا تو صاعقہ کے عذاب سے اس تصور و عقیدہ کے جرم کی اھمیت ثابت کردی گئی جس سے بقیہ قوم کا تنبیہ کا مقصد بھی پورا ھوگیا مگر اس کے بعد انہیں دوبارہ زندگی عطا کردی گئی تاکہ وہ اپنے گزشتہ عمل کی پاداش کا ذاتی تجربہ ھوچکنے کے بعد اب تنزہ و تجردِ معبود کی کامل معرفت اور ایمان بالغیب کے ساتھ اپنے دَورِحیات میں عبادت و اطاعت کی زندگی گزار سکیں جس سے ظاھر ھوتا ھے کہ وہ عذابِ استیصال نہیں بلکہ عذابِ تنبیہہ تھا جو امراض و مصائب اور تسلطِ جبارین وغیرہ کی شکل میں اکثر آتا رھتا ھے.
**


"وَ ظَلَلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَ  اَنْزَلْنَاعَلَیْکُمُ الْمَنَ وَالسَلْوٰی کُلُوْامِنْ طَیِبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ^  وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لَکِنْ کَانُوْآ  اَنْفُسَهمْ یَظْلِمُوْنَ(57).

اورھم نےتم پرابرکوسایہ فگن کیااورتم پر من وسلوی اتاراکہ کھاؤ ان پاک و حلال چیزوں میں  سے جوھم نےعطاکی ھیں اور انہوں نے اس سے کچھ ھمارا نقصان نہیں کیا بلکہ وہ برابر خود اپنے ھی اوپر ستم ڈھاتے  رھے"
؛؛؛
جزیرہ نمائے سینا میں جو غیر معمولی فضل و کرم خالق کا بنی اسرائیل پر ھوتا رھا اور پھر وہ اس پر ناشکراپن کرتے رھے اسکا تذکرہ ھے.
توریت میں اس سایہ کا ذکر "بدلی کے ستون" کے الفاظ میں کیا گیا ھے.من و سلوی کی اصلی حقیقت تو اللہ جانے مگر اھلِ لغت کی تشریح کے مطابق "من" ایک میٹھی چیز تھی جو درختوں پر شبنم کی طرح گرتی تھی (1). "سلوی" ایک طرح کا طائر ھے (2).
ان نعمتوں کے باوجود اُنہوں نے اپنے نبی کے احکام سے سرتابی کی یہی وہ ظلم ھے جسے کہا جارھا ھے کہ درحقیقت اس طرح انہوں نے ھم پر کوئی زیادتی نہیں کی.مطلب یہ ھے کہ اس سے ھمارا کچھ بگاڑا نہیں.ضرر اسکا جو بھی تھا وہ انکی ذات ھی کی طرف راجع تھا.اور یہ انتباہ ھے ھر کافر ، مشرک اور عاصی کیلیے کسی کی نافرمانی اور سرتابی سے اللہ کے عزت و جلال ، کبریائی اور جبروت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ ایمان و اطاعت کی صورت میں نفع بھی خود انہی کا ھوتا ھے اور کفر و عصیاں سے نقصان بھی خود انہی کا ھوتا ھے.
**


"وَاِذْ قُلْنَاادْخُلُوْا هذِہ الْقَرْیَةَ  فَکُلُوْا مِنْها حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا  وَادْخُلُوْاالْبَابَ سُجَدًا وَقُوْلُوْا  حِطَةّ نَغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ ^ وَ  سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ (58).
اورجب ھم نے کہاکہ اس بستی میں داخل ھو جاؤ اور اس میں  سےجہاں سے چاھو خوب مزے  سے کھاؤ پیو اور دروازہ میں  سجدہ کرتے ھوئے جانا اورکہنا  'گناھوں کی توبہ' توھم تمہاری  خطائیں بخش دیں گے اور حسن
عمل سےکام لینے والوں کو ھم  کچھ زیادہ ھی عطا کریں گے"
؛؛؛
چونکہ آیاتِ قرآن کی ترتیب شانِ نزول کے مطابق نہیں ھے اس لیے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ واقعہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے دَور کا ھے بلکہ ممکن ھے اُن کے وصی حضرت یوشع علیہ السلام کے وقت پیش آیا ھو یا اس کے بھی بعد کا ھو اور اسی لیے اُس بستی کو بھی تعین کے ساتھ نہیں بتایا جاسکتا جس میں داخلہ کے موقع پر یہ صورت پیش آئی تھی.بہرحال تعلق اسکا بنی اسرائیل ھی کی تاریخ سے ھے.
"الباب" سے مراد شہرِپناہ کا پھاٹک ھے جس سے شہر کے اندر داخلہ ھونا تھا.سجدہ خشوع و خضوع کا انتہائی مظاھرہ ھے.کوئی وجہ نہیں کہ اس کے ظاھری معنی کو چھوڑ کر یہاں فروتنی اور انکساری ھی کو مراد لیا جائے.
**

**

 


"فَبَدَلَ الَذِیْنَ ظَلَمُوْاقَوْلاً غَیْرَ  الَذِیْ قِیْلَ لَهمْ فَاَنْزَلْنَاعَلَی الَذِیْنَ  ظَلَمُوْا رِجْزًامِنَ السَمَآءِ بِمَا کَانُوْا  یَفْسُقُوْنَ(59).
مگر ان ظالموں نےاُس قول کی بجائے جوانہیں بتایا تھاایک دوسری بات بدل کرکہہ دی توھم نےان ظالموں پرآسمان
سےایک بڑاعذاب نازل کیااس لئےکہ وہ برابرنافرمانی کرتےرھتے تھے"
؛؛؛
انہوں نے بدل کر کیا کہہ دیا اس بارے میں قرآن تصریح نہیں کرتا روایتیں ضرور ھیں مگر سند کے لحاظ سے بےاعتبار.تاھم سب سے اتنا پتا چلتا ھے کہ انہوں نے حکمِ الہی کا استخاف کرتے ھوئے بطور تمسخر لفظ کو بدل دیا مثلاً "حِطَةّ" (توبہ) کے لفظ کو "حِنْطَةّ" (گیہوں) کردیا، جس سے انکی ذھنیت بھی ظاھر تھی کہ وہ گناھوں کی معافی کو کوئی چیز نہیں سمجھتے تھے.اس کی بجائے "شکم پری" کو وہ زیادہ بہتر سمجھتے ھیں.یہ ایک لفظ کی بات نہ تھی بلکہ عدولِ حکمی ھونے کے ساتھ اھانتِ حکم و حاکم کی حیثیت اُسے حاصل تھی.چنانچہ اسکی پاداش میں ان پر عذاب نازل ھوگیا.(3) پھر قرآن نے اس توھم کو دور کرنے کےلیے کہ اتنی سی بات پر آخر وہ عذاب کے مستحق کیونکر ھوگئے عذاب کی وجہ بیان کی کہ "بماکانوایفسقون" یہ ماضی استمراری کا صیغہ ھے جس سے مطلب یہ نکلتا ھے کہ یہ انکا فعل اگر اتفاقی طور ایک شرارت کی حیثیت رکھتا ھوتا تو اُسے ایک وقتی شوخی قرار دیکر ٹالا بھی جاسکتا تھا مگر وہ تھے ھی ایسے برابر عدولِ حکمی کرتے رھتے تھے جسکا ایک مظاھرہ اسکی رکاکت آمیز صورت سے ھوا.اس لئے اب اُن پر عذاب نازل ھی ھوگیا.(4)
**



"وَاِذِاسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِه فَقُلْنَا  اضُرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ^ فَانْفَجَرَتْ  مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا^قَدْ عَلِمَ کُلُ اُنَاسٍ مَشْرَبَهمْ^کُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ  رِزْقِ اللہِ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ  مُفْسِدِیْنَ(60).
اور جب موسٰی نے اپنی قوم کیلئے  پانی کی دعا مانگی تو ھم نےکہا کہ  اپناعصا چٹان پر مارو.بس اُس میں
بارہ چشمے پھوٹ نکلےاس طرح کہ  ھرگروہ نےاپناپنا گھاٹ الگ جان لیا کھاؤاورپیو اللہ کےدیئےرزق سےاور زمین پر خرابیاں پھیلاتے نہ پھرو"
؛؛؛
مصر سے نکل کر فلسطین کے راستے میں ایک جگہ ایسی آئی جہاں دور دور تک پانی دستیاب نہ ھوا.بنی اسرائیل پریشان ھوئے اور خود پریشان ھوکر جناب موسٰی علیہ السلام کو سخت پریشان کیا اور توریت کہتی ھے کہ "موسٰی (علیہ السلام( سے جھگڑنے لگے اور کہا کہ ھمکو پانی دے کہ پیویں.موسٰی (ع) نے خداوند سے فریاد کرکے کہا کہ میں ان لوگوں سے کیا کروں، وہ سب تو مجھے ابھی سنگ سار کرنے کو تیار ھیں" (خروج 1:17، 4)
اس کے بعد ھے کہ
"خداوند نے موسٰی (ع) کو فرمایا کہ لوگوں کے آگے جا اور بنی اسرائیل کے بزرگوں کو اپنے ساتھ لے اور اپنا عصا جو تونے دریا پر مارا تھا اپنے ھاتھ میں کے.تو اس چٹان کو ماریو.اس سے پانی نکلے گا تاکہ لوگ پیویں.چنانچہ موسٰی (ع) نے بنی اسرائیل کے لوگوں کے ساتھ یہی کیا" (خروج 5:17، 6)
قرآن کے مختصات میں سے یہ ھے کہ اس نے چشموں کی تعداد بارہ بتائی ھے کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کی تعداد کے مطابق بارہ چشمے ظاھر ھوئے.عبدالماجد صاحب دریا بادی لکھتے ھیں :
"بعض نادان مسیحیوں نے اس تعداد پر اعتراض کردیا کہ یہ تو بائیبل میں موجود نہیں.قرآن نے کہاں سے گھڑ کر کہہ دیا؟ قدرت نے سوال کا جواب بھی مسیحیوں کی زبان سے دلوایا.جارج سیل انگریزی میں قرآن کا مترجم ھے.آیت کے حاشیہ پر لکھتا ھے: "ایک مسیحی سیاح جو وھاں ھو آیا ھے بتصریح بیان کرتا ھے کہ چٹان سے پانی بارہ مقامات سے نکلتا تھا" اور ایک دوسرے مسیحی سیاح کا مشاھدہ بیان کرتا ھے "چٹان میں اس وقت 24 سوراخ موجود ھیں جو بہ آسانی شمار کئے جاسکتے ھیں بارہ ایک طرف ھیں اور بارہ ان کے مقابل جانب"
پادری ڈین اسٹینلے (DEAN STANLEY) نے جو انیسویں صدی میں مسیحیت کے ایک ممتاز رکن ھوئے ھیں.صدی کے وسط میں بائیبل کے مقامات مقدسہ کی جغرافیائی تحقیق کیلئے بہ نفس نفیس فلسطین اور اس کے ملحقات کا سفر کیا اور اپنے مشاھدات و تحقیقات پر ایک مستقل تصنیف شائع کی.اس میں اس چٹان کا ذکر کرکے لکھتے ھیں : "یہ چٹان دس اور پندرہ فٹ کے درمیان بلند ھے آگے کی طرف ذرا خمیدہ ھے اور راس سفسفہ کے لے جا کے وسیع وادی میں واقع ھے.شگاف اور دراز جابجا پڑے ھوئے ھیں کچھ مٹے ھوئے ھیں کچھ بڑے ھیں کچھ چھوٹے.گنتی میں اگر سبکو لیا جائے تو بیس ھوتے ھیں اگر بعض کو چھوڑ دیا جائے تو دس.سب سے پہلے قرآن ھی نے حتمی طور پر بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کیلئے بارہ چشموں کی تعداد بیان کی ھے.یہ اشارہ انہی شگافوں کی طرف ھے.
**

_____________________________________

(1). وقال بعض المفسرین انه الترنجبين وليس له مستند يقول عليه (البلاغی(
(2). اسم طائریشبه السمانی (طبری(
اردو میں بعض نے اسے "بٹیر" کی قسم سے بتایا هے اور لکھا ہے بٹیر جزیره نمائے سینا کا خاص جانور ہے.بڑی کثرت سے پایا جاتاہے گرمی میں شمال کی طرف چلا جاتا ہے سردیوں میں پھر جنوب کی طرف آجاتا ہے اونچا نہیں اڑتا بہت نیچا رھتا ہے بہت جلدی تهک جاتا ہے اور شکار بڑی آسانی سے ھوجاتا ہے (دریابادی)
(3). الرجز فی لغة العرب لعذاب (طبری(
(4). بسبب فستهم المستمر جسما یفیده الجمع بین صیغتي الماضي والمستقبل (ابوالسعود(

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام عصر كی معرفت قرآن مجید كی روشنی میں
کیا شیطان (ابلیس) جنّات میں سے هے یا فرشتوں میں سے؟
قرآن مجید میں سورج کے طلوع اور غروب سے کیا مراد ...
اسلامی اتحاد قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآنی لفظِ "سمآء"کے مفاہیم
قرآن و اھل بیت علیھم السلام
امامت قرآن اورسنت کی رو سے
اسلام پر موت کی دعا
دینی معاشرہ قرآن و سنت کی نظر میں
سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۳ اور سورہ احقاف کی آیت ...

 
user comment