بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وآلہ الطاہرین ولعنۃ اللہ علیٰ اعدائہم اجمعین۔
اس دنیا امکان کا بہ نظر عائر مطالعہ کیا جائے تو اس کی ہر چیز چاہئیے عرض ہو یا جو ہر حضرت حق کے فضل و کرم کا محتاج نظر آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی چیز کے و جود میں استقلال قابل تصور نہیں ہے لہٰذا ذات باری کے علاوہ تمام موجودات فقر ذاتی کا مجموعہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے حالات لحظہ بہ لحظہ غیر کی طرف محتاج اور زمان و مکان کے حوالے سے قابل تغیر ہے کہ جس کو سمجھے نے کے خاطر تدبر و تفکر کا حکم ہوا اور آیات و روایات میں تدبر کی بیحد تاکید کے ساتھ فرمایا فکر الساعتہ عبادہ تا کہ قانون فلسفی اور موجودات کے آپس میں نظر آنے والا تناقص اور تنافی دور، اور خلقت کے حقیقی ہدف کو (جو ترقی وتکامل ہے) درک کر سکے۔
اور تکامل و ترقی کے اسباب میں سے اہم ترین ایک سبب مستحبات کی پائبندی بالخصوص نماز شب کی عادت ہے کہ جس کی اہمیت قرآن و سنت کی روشنی میں انشاء اللہ عنقریب ذکر کیا جائے گا۔
لیکن کاش کہ آج کل زمانہ کچھ ایسا ہو چکا ہے کہ ہم نماز شب جیسی عبادت کو انجام دینے سے محروم ہیں جبکہ قدیم زمانے میں علماء بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میں مذہب پر اتنے خوف و ہراس اور ہر قسم کی سختی اور دیگر وسائل کی کمی کے با وجود تہجد کے ذریعے مذہب اور قرآن کی حفاظت کرتے رہے لیکن آج کل علماء کی اتنی کثرت اور سہولیات کی فراوانی اور گذشتہ دور کی مانند خوف و ہراس اور کسی کی طرف سے کوئی پابندی نہ ہونے کے باوجود تبلیغات میں استحکام نظر نہیں آتا۔
لہٰذا علما ر وحی طبیب ہونے کی حیثیت سے لوگ روز بہ روز علماء اور مذہب سے نزدیک ہونے کے بجائے دور ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ دور حاظر فہم و شعور اور علم و ادراک کے حوالے سے کامل اور سہولیات کے اعتبار سے بنی امیہ اور بنی عباس کے دور سے مقائیسہ کرنا ہی غلط ہے پس اگر دین کا استحکام، مذہب کی ترویج، کلام میں جاذبیت، کاموں میں اثر، علم میں برکت اور خدا کی رضایت کے خواہاں ہو تو مستحبات پر عمل کر کے اپنے آپ کو تہجد گزار بنائے تاکہ انتشار اور آپس میں جدائی، مذہب کی نابودی، تبلیغ کی ناکامی، معاشرے میں بدنامی جیسی مشکلات کا سد باب کر سکیں۔
کیونکہ اس قسم کے تمام اخلاقی مشکلات کا سدباب اور راہ حل نماز شب ہے لہٰذا اگر کوئی شخص پابندی کے ساتھ نماز شب انجام دے تو علم میں شہید صدر، سیاست میں امام خمینی (ره) کی مانند بن سکتا ہے کہ امام خمینی(ره) نے بوڑھاپے میں ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کی طاقتوں کو خاک میں ملا دیا جب کہ دینوی سپر پاور حکومتیں اور سیاست دان ایسا انقلاب اور کامیابی کو ناممکن سمجھتے تھے
لیکن یہ حقیقت میں ان کے خام خیالی اور مادی فکر کا نتیجہ تھا کیونکہ خدا نے ہر انسان کو دو طاقتیں عنایت کی ہے مادی اور معنوی اگر کسی کی معنوی طاقت قوی ہو تو کبھی کوئی مادی طاقت اس پر غلبہ اور دیگر ذرائع اسے ناکام نہیں بنا سکتے
لہٰذا اگر امام خمینی (ره) جیسے عمر رسیدہ ہستی کے ہاتھوں دنیا کے کسی خطے میں اسلام کی حاکمیت اور انقلاب کی آبیاری ہو تو تعجب نہ کیجئے کیونکہ کوئی بھی عالم دین اپنے معنویات کو مستحکم کرنے کی کوشش کرے گا تو اتنی معنوی طاقت خداوند عطا کرتا ہے کہ اس کا کوئی بھی مادی طاقت اور دیگر ذرائع مقابلہ نہیں کر سکتے اسی لئے قدیم زمانے میں مدارس دینیہ اور مراکز علمیہ میں علما اور طلب پر ابتدائی مرحلے میں ہی نماز شب کو انجام دینے کی پابندی عائد کرتے تھے کیونکہ علما اور طلبا اسلام کے حقیقی محافظ ہیں اور اسلام کی حفاظت معنوی استحکام بغیر ناممکن ہے ۔
لہٰذا اس عظیم عبادت کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اس مختصر کتاب میں نماز شب سے متعلق آیات کریمہ اور روایات مبارکہ کی جمع آوری کے ساتھ ان کی وضاحت کی گئی ہے اگر چہ سند کے حوالے سے روایات میں خدشہ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس موضوع سے مربوط بہت سی روایات سند کے حوالے سے ضعیف ہے لیکن اس کا مضمون اور دلالت امام کے کلام ہونے پر قرینہ ہے لہٰذا سند کی تحقیق سے قطع نظر صرف دلالت کی وضاحت کی گئی ہے تاکہ مؤمنین نماز شب کی حقیقت سے آگاہ اور اس کے فوائد سے بہرہ مند ہوں نیز نماز شب کی کیفیت کی طرف بھی اشارہ کے ساتھ نماز شب سے مربوط پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ علیہم السلام سے منقول دعاؤں کو ترجمہ کے ساتھ بیان کیا ہے تاکہ خوش نصیب اور نماز شب کے عادی لوگوں کو نماز شب کی حقیقت اور بندگی کا ذریعہ ہونے پر مزید یقین اور یہ نورانی کلمات معنوی درجات کی بلندی کا وسیلہ بنے کیونکہ نماز شب شریعت اسلام میں پورے مستحباب کا نچوڑ اور خلاصہ ہے لہٰذا گنہگار بندہ اپنے مولا و مالک حقیقی کی بارگاہ میں نماز شب پڑھنے کی توفیق رات کی تاریکی میں راز و نیاز کرنے میں کامیابی اور نماز شب کے فوائد سے دنیا و آخرت میں مالا مال ہونے کا خواہاں ہے ساتھ ہی امام عصر کے ظہور میں تعجیل اور اس نا چیز زحمت پر تائید کا طالب ہوں۔ (آمین)
والسلام۔
source : tebyan