اردو
Sunday 24th of November 2024
0
نفر 0

جبر و اختیار

”جبر واختیار“ كا مسئلہ ایك طولانی بحث كا حامل ھے چند صفحات میں اس كو بیان نھیں كیا جا سكتا ۔ اور چونكہ مسئلہ ”جبر“ ایك سیاسی حربہ ھے یہ صرف غیر مذھبی حكام نے اپنے افعال واعمال كو صحیح كرنے كا ایك ذریعہ نكالا ھے، ان كا مقصد صرف اسلام كے مخالف اعمال كو غیر اختیاری (جبری) كہہ كر عذر پیش كرنا ھے ۔ یہ موضوع بہت سے شعبے اور مختلف پھلو ركھتا ھے اسی وجہ سے علم كلام كے اھم مسائل میں شمار هوتا ھے اور عقائد كے باب میں اھم باب ھے اور دینی مسائل كا ایك مشكل مسئلہ ھے۔
جبر و اختیار

”جبر واختیار“ كا مسئلہ ایك طولانی بحث كا حامل ھے چند صفحات میں اس كو بیان نھیں كیا جا سكتا ۔ اور چونكہ مسئلہ ”جبر“ ایك سیاسی حربہ ھے یہ صرف غیر مذھبی حكام نے اپنے افعال واعمال كو صحیح كرنے كا ایك ذریعہ نكالا ھے، ان كا مقصد صرف اسلام كے مخالف اعمال كو غیر اختیاری (جبری) كہہ كر عذر پیش كرنا ھے ۔

یہ موضوع بہت سے شعبے اور مختلف پھلو ركھتا ھے اسی وجہ سے علم كلام كے اھم مسائل میں شمار هوتا ھے اور عقائد كے باب میں اھم باب ھے اور دینی مسائل كا ایك مشكل مسئلہ ھے۔

مسئلہ ”جبر“ یااس كے مثل دوسرے مسائل جن پر بعض مسلمانوں كا عقیدہ ھے ان كی بنیاد یہ ھے كہ انسان كے افعال واعمال صرف اس كے ارادہ و اختیار سے انجام نھیں پاتے بلكہ وہ خداوند عالم كے ارادہ اور اس كے حكم سے انجام پاتے ھیں اور ان كے انجام دینے میں انسان كا كوئی كردار نھیں هوتا، اس نظریہ كو ”جبر“ كھا جاتا ھے جس كے نتیجہ میں انسان كو مجبور ماننا پڑتا ھے، چاھے وہ اطاعت هو یا معصیت یعنی ان كے انجام پر مجبور هوتا ھے چاھے ان كا ارادہ كرے یا نہ كرے۔

چنانچہ جبر كے قائل لوگوں نے اپنے گمان كے مطابق قرآن كریم كی بعض وہ آیات جن میں اس بات كا ایك ھلكا سا اشارہ پایا جاتا ھے، پیش كی ھیں جیسا كہ ارشاد خداوندی ھے:

”(اے رسول) تم كہہ دو كہ ھم پر ھرگز كوئی مصیبت نھیں پڑسكتی مگر وھی جو خدا نے (ھماری تقدیر میں) لكھ دیا ھے۔“

”(اے رسول) تم كہہ دو كہ سب خدا كی طرف سے ھے“

لہٰذا ان آیات كے پیش نظر ان لوگوں نے یہ گمان كرلیا كہ ان آیات كے ذیل میں انسان كے افعال واعمال بھی آتے ھیں۔

جبكہ بعض مسلمانوں كا عقیدہ یہ ھے (كیونكہ وہ مذكورہ نظریہ كو باطل جانتے ھیں) كہ انسان او ر خداوندعالم میں سوائے خلق اول كے كوئی رابطہ نھیں ھے، یعنی خداوندعالم نے ان كو خلق كرنے كے بعد مكمل آزاد كردیا ھے اور تمام چیزوں كو انھیں پر چھوڑ دیا ھے، ان كا خدا سے كوئی ربط نھیں ھے، ان كا ماننا یہ ھے كہ علت محدثہ معلول كی بقا كے لئے كافی ھے، اس حیثیت سے كہ معلول اپنے وجود كے بعد اپنی علت سے بے نیاز هوجاتا ھے كیونكہ وہ فقط پھلی علت حدوث كا محتاج هوتا ھے، چنانچہ علماء علم كلام اس نظریہ كو” تفویض“ كہتے ھیں یعنی خداوندعالم نے تمام كاموں كو انسان پر چھوڑ دیا ھے اور اب اس سے كوئی مطلب نھیں۔

جبكہ حقیقت میں صحیح نظریہ ان دونوں نظریات كا درمیانی راستہ ھے، اس سلسلہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام كا بیان بہترین او ر دقیق ھے، آپ نے اپنی مشهور حدیث میں فرمایا:

(نہ جبر اور نہ تفویض بلكہ دونوں كا درمیانی راستہ صحیح ھے)


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

آسمان اور ستاروں کا تھس نھس ھوجانا
طبیعا ت ( pHYSICS)
کیا خداوند متعال کو دیکھا جاسکتا ھے ؟ اور کیسے ؟
ولایت تکوینی اور ولایت تشریعی
آنحضرت (ص) کی آفتاب زندگی کی کرن
تصوف کیا ہے؟ کیا امام خمینی ﴿رہ﴾ ایک صوفی تھے ؟
قرآن کی علمی اور عملی تربیت
رضائے الٰہی
وجوب، امکان اور امتناع کی اصطلاحات کی ان کی اقسام ...
اللہ کو قرضِ حسنہ دیجے!

 
user comment