اردو
Monday 25th of November 2024
0
نفر 0

تاريخ کي اھميت قرآن کي نظر ميں

قرآن کي نظر ميں تاريخ حصول علم و دانش اور انسانوں کے لئے غور و فکر کے ديگر ذرائع ميں سے ايک ذريعہ ھے قرآن نے انسانوں کو غور و فکر کرنے کي دعوت دي ھے اس کے ساتھ ھي اس نے غور و فکر کے منابع بھي ان کے سامنے پيش کئے ھيں۔ قرآن نے مختلف آيات
تاريخ کي اھميت قرآن کي نظر ميں

قرآن کي نظر ميں تاريخ حصول علم و دانش اور انسانوں کے لئے غور و فکر کے ديگر ذرائع ميں سے ايک ذريعہ ھے قرآن نے انسانوں کو غور و فکر کرنے کي دعوت دي ھے اس کے ساتھ ھي اس نے غور و فکر کے منابع بھي ان کے سامنے پيش کئے ھيں۔

قرآن نے مختلف آيات ميں انسانوں کو يہ دعوت دي ھے کہ وہ گذشتہ اقوام کي زندگي کا مطالعہ کريں، ان کي زندگي کے مفيد نکات پيش کرنے کے بعد انھيں يہ دعوت دي کہ وہ باصلاحيت افراد کو اپنا ھادي و رھنما بنائيں اور ان کي زندگي کو اپنے لئے نمونہ سمجھيں حضرت ابراھيم (ع) کے بارے ميں فرماتا ھے: قد کان لکم اسوة حسنة في ابراھيم و الذين معہ۔ تم لوگوں کے لئے ابراھيم اور ان کے ساتھيوں ميں ايک اچھا نمونہ ھے۔

اسي طرح رسول اکرم (ص) کے بارے ميں قرآن فرماتا ھے: لقد کان لکم في رسول اللہ اسوة حسنة۔ در حقيقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول ميں ايک بھترين نمونہ ھے۔

حديث و سنت نبوي اور ائمہ کي رفتار و گفتار امت مسلمہ کے لئے حجت قاطع اور سند محکم ھيں، سيرت نبوي ھميں يہ درس ديتي ھے کہ ھمارا اخلاق و کردار نبي کي سيرت کے مطابق ھونا چاھےے جب کہ تواريخ ميں اس کا کھيں ذکر نھيں ملتا۔

تاريخ اسلام

تاريخ کے جتنے بھي منابع و ماخذ موجود ھيں تاريخ اسلام سے زيادہ معلومات سے لبريز اور مالامال ھے چنانچہ جب کوئي محقق تاريخ اسلام لکھنا شروع کرتا ھے اور اسے تاريخي واقعات وافر مقدار ميں بصورت دقيق مل جاتے ھيں۔ اس کے علاوہ تاريخ اسلام ميں جس قدر مستند و باريک نيز روشن نکات موجود ھيں وہ ديگر تواريخ ميں نظر نھيں آتے۔

ان خصوصيات کا سرچشمہ سيرت اور سنت رسول (ص) ھے اور يہ مسلمانوں کے لئے قطعي حجت و دليل ھے چنانچہ وہ انھي کي پيروي کرتے ھيں۔

تاريخ اسلام کے بارے ميں استاد مطھري رقم طراز ھيں

پيغمبر اسلام اور مذھب اسلام کو ديگر مذاھب پر فوقيت حاصل ھے کيونکہ آپ کي تاريخ روشن و مستند ھے، اس اعتبار سے دنيا کے ديگر رھبر و راھنما ھماري برابري نھيں کرسکتے چنانچہ پيغمبر اکرم(ص) کي زندگي کي دقيق باتيں اور اس کے جزئيات آج بھي ھمارے پاس قطعي اور مسلم طور پر موجود و محفوظ ھيں۔ آپ کا سال ولادت ماہ ولادت روز ولادت يھاں تک کہ ھفتہ ولادت بھي تاريخ کے سينے ميں درج ھے دورۂ شير خوارگي، وہ زمانہ جو آپ نے صحرا ميں بسر کيا، وہ دور جب آپ سن بلوغ کو پھونچے، وہ سفر جو آپ نے ملک عرب سے باھر کئے، وہ مشاغل جو آپ نے مبعوث بہ رسالت ھونے سے پھلے انجام ديئے ھيں وہ ھميں بخوبي معلوم ھيں۔ آپ نے کس سال شادي کي اور اس وقت آپ کا سن مبارک کيا تھا آپ کي ازواج کے بطن سے کتنے بچوں نے ولادت پائي اور کتنے بچے آپ کي رحلت سے قبل اس دنيا سے کوچ کرگئے، وفات کے وقت آپ کي عمر کيا تھي يہ واقعات مبعوث برسالت ھونے کے وقت تک کے ھيں اس کے بعد کے واقعات اور دقيق ھوجاتے ھيں تفويض رسالت، جيسا عظيم واقعہ کب پيش آيا وہ پھلا شخص کون تھا جو مسلمان ھوا اس کے بعد کون مشرف بہ اسلام ھوا آپ کي لوگوں سے کيا گفتگو ھوئي آپ نے کيا کارنامے انجام ديئے اور کيا راہ و روش اختيار کي سب دقيق طور پر روشن و عياں ھيں۔

سب سے زيادہ اھم بات يہ ھے کہ پيغمبر اکرم(ص) کي تاريخ ميں زمانہٴ ”وحي“ کے دوران تحقيق ثبت کي گئي۔ تيئس سالہ عھد نبوت کا ھر واقعہ وحي آسمان کے نور سے منور ھوا اور اسي کي روشني ميں اس کا تجزيہ کيا گيا قرآن مجيد ميں جو واقعات درج ھيں ان ميں اکثر و بيشتر وھي مسائل و واقعات ھيں جو عھد نبوت کے دوران پيش آئے، ھر وہ واقعہ جسے قرآن نے بيان کيا ھے بے شک وہ خداوند عالم الغيب و الشھادہ نے ھي بيان کيا ھے قرآن کي رو سے تاريخ بشر اور اس کا ارتقا اصول و ضوابط کي بنياد کے سلسلے پر قائم ھے عزت و ذلت، کاميابي و ناکامي، فتح و شکست اور بدبختي و خوش نصيبي کے واقعات دقيق و منظم حساب کے مطابق وقوع پذير ھوتے ھيں ان اصول و ضوابط اور قوانين کو سمجھنے کے لئے ضروري ھے کہ تاريخ کو سمجھا جائے۔ اور اس کے ذريعہ اپني ذات نيز معاشرے کو فائدہ پھونچايا جائے۔ يھاں مثال کے طور پر يہ آيت پيش کي جاسکتي ھے۔

قد خلت من قبلکم سنن فسيروا في الارض فانظروا کيف۔۔۔

(تم سے پھلے بھت سے دور گزر چکے ھيں زمين ميں چل پھر کر ديکھ لو ان لوگوں کا کيا انجام ھوا جنھوں نے اللہ کے احکامات اور ھدايات کو جھٹلايا۔)

تاريخ کي اھميت نھج البلاغہ کي روشني ميں

قرآن کے علاوہ معصومين عليھم السلام کے پيشوا حضرت علي (ع) نے بھي اپنے اقوال ميں اس عظيم اور علم و دانش کے وسيع سرچشمے کي قدر و قيمت کي جانب اشارہ فرمايا ھے چنانچہ اس سلسلہ ميں آپ کے ارشادات عاليہ ميں سے نھج البلاغہ کے اس قول کو نقل کيا جاسکتا ھے۔

يا بني! اني و ان لم اکن عمر من کان قبلي فقد نظرت في اعمالھم و فکرت في اخبارھم و سرت في آثارھم حتي عدت کاحدھم بل کاني بما انتھي الي منامورھم قد عمرت مع اولھم الي آخرھم فعرفت صنعوا ذلک من کدرہ و نفعہ من ضررہ۔

اے ميرے بيٹے ميري عمر ھر چند اتني نھيں جتني گزشتہ دور کے لوگوں کي رھي ھے ليکن ميں نے ان کے کاموں کو ديکھا ان کے واقعات پر غور کيا ان کے جو آثار باقي رہ گئے تھے ان ميں تلاش و جستجو کي يھاں تک کہ ميں بھي ان جيسا بن گيا بلکہ ان کے جو اعمال و افعال مجہ تک پھونچے ميں نے گويا ان کے ساتھ اول تا آخر زندگي بسر کي اس کے بعد ھي ميں نے ان کے کردار کي پاکيزگي و خوبي کو برائي اور تيرگي سے عليحدہ کرکے نفع و نقصان کو پھچانا، امير المومنين حضرت علي (ع) کا يہ بيان اس امر کي وضاحت کرتا ھے کہ ائمہ عليھم السلام کس حد تک عھد گزشتہ کي تاريخ کو اھميت ديتے تھے۔


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن کے اسماء کیا کیا هیں؟
فريقين كى دو كتابيں
قرآن مجید کے کتنے سورے حیوانوں کے نام پر هیں؟
قرآن مجید ذریعہ نجات
امام عصر كی معرفت قرآن مجید كی روشنی میں
کیا شیطان (ابلیس) جنّات میں سے هے یا فرشتوں میں سے؟
قرآن مجید میں سورج کے طلوع اور غروب سے کیا مراد ...
اسلامی اتحاد قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآنی لفظِ "سمآء"کے مفاہیم
قرآن و اھل بیت علیھم السلام

 
user comment