بعض فرقوں کے نزدیک ہر حاکم واجب اطاعت ہے اور اس کے خلاف قیام جائز نہیں خواہ وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہی کیوں نہ کرتا ہو یا مقدسات کی توہین ہی کیوں نہ کرتا ہو!
اس عقیدے کا مفہوم یہ ہے کہ خواہ حاکم وقت اولاد رسول اللہ (ص) کا خون ہی کیوں نہ بہائے اس کی اطاعت واجب ہے اور اس کی نافرمانی حرام اور ناجائز ہے۔
اہل حدیث، عام اہل سنت، (امام اشعری سے پہلے اور اس کے بعد)؛ امام اشعری کا خود یہی عقیدہ تھا۔ اس عقیدے کا ایک سرا مرجئہ طرز فکر سے بھی ملتا ہے جہاں افراد کا گناہ ان کا ذاتی عمل ہے اور اس عمل کا حساب و کتاب اللہ کے پاس ہے اور انسانوں کو ان کا محاسبہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اور تمام افراد چاہے کسی بھی عمل کا ارتکاب کریں قابل احترام ہیں اور قابل مؤاخذہ نہیں ہیں۔ یہ عقیدہ کلی طور پر حکمرانوں کو قانون اور شریعت سے بالاتر ثابت کرنے کے لئے استعمال ہوا ورنہ عام لوگوں کے لئے عدالتیں قائم تھیں اور ان کو معمول کے مطابق سزائیں ملتی تھیں اور ان علماء نے کبھی بھی انہیں گناہوں سے بری الذمه قرار نہیں دیا!.
ان لوگوں نے اپنے عقائد کی توجیہ کے لئے بعض احادیث بھی رسول اللہ (ص) سے منسوب کررکھی ہیں۔ شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کا یہ عقیدہ اور مذکورہ جعلی احادیث قرآن کی نص صریح اور حکم عقل کے بالکل برعکس ہیں۔
یہ عقیدہ بہت سے مؤلفین کے افکار پر اثر انداز ہوا، حتی ان کے بزرگ علماء اور فقہاء بھی اسی عقیدے سے متأثر ہوئے اور اسی بنا پر حکام کے جور و ستم پر پردہ ڈالنے اور ان کے برے اعمال کی تأویل و توجیہ پر مجبور ہوئے۔
حکام کا ایک مطالبہ یہ تھا کہ ائمۂ اہل بیت علیہم السلام کے حقائق کو لوگوں سے خفیہ رکھا جائے یا پھر ان حقائق کو من پسند انداز سے یوں بیان کیا جائے کہ ان کا اثر معکوس ہو۔ اس سلسلے میں درباروں سے وابستہ یا اپنے عقیدے سے مجبور ہوکر حکام کی بساط پر بیٹھنے والے علماء، مورخین اور مؤلفین نے کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کیا اور چونکہ ان کے جبری عقیدے کے مطابق حکام کا ارادہ اللہ کا ارادہ تھا چنانچہ انھوں نے حکام کے ارادے کی تکمیل کے لئے ہر ممکن کوشش کی؛ اسی بنا پر بہت سے کتابوں میں حتی ائمہ اہل بیت (ع) کا کردار بیان کرنا تو دور کی بات، ان کے اسماء گرامی بھی ذکر نہیں کئے گئے۔
اس امر کا سبب یہ نہیں تھا کہ ائمہ معصومین علیہم السلام گمنام تھے یا وہ معاشرے میں خدمت دین کے حوالے سے کام نہیں کررہے تھے یا عوام ـ حتی علماء ـ ان کو توجہ نہیں دیتے تھے۔ بلکہ سبب وہی تھا جس کی طرف اشارہ ہوا ورنہ لوگ یا تو ان کے دوست اور محب تھے یا پھر ان کے دشمن یا مخالف تھے اور دونوں صورتوں میں ان کا کسی نہ کسی انداز میں ائمہ علیہم السلام کے ساتھ واسطہ پڑہی جاتا تھا تا ہم کئی کتابوں میں ان کے نام ذکر کرنے سے بھی اجتناب کیا گیا ہے۔ جبکہ ان ہی کتابوں میں اس دور کی رقاصاؤں اور گلوکاراؤں کے نام یا اس دور کے مشہور ڈاکؤوں کے نام پڑھنے کو ملتے ہیں!
اگر اس مسئلے کا دینی پہلو نظر انداز بھی کیا جائے پھر بھی ادب اور تألیف و تصنیف اور تاریخ نویسی کی دنیا اور اخلاق قلم و کتابت کی روسے یہ ایک پیشہ ورانہ خیانت ہے انھوں نے اپنے دور کے حقائق سے چشم پوشی کرکے آئندہ مسلم نسلوں سے خیانت کی ہے اور اہل قلم ہونے کے ناطی انہیں جو امانت بعد کی نسلوں تک پہنچانی تھی اس میں وہ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں۔
حکومت ان ہی مستوفیوں، منشیوں اور تحصیلداروں کی حمایت کرتی تھی یا یوں کہئے کہ حکومت ان کے ہاتھ میں تھی چنانچہ تشریح حقائق کے حوالے سے اہل تشیع کے پاس تألیف و تصنیف کے لئے بہت ہی قلیل وسائل میسر تھے اور انہیں ہر وقت حکام اور اہل دربار کے عتاب و تعاقب کا سامنا تھا اور ان کی جان ہر وقت خطرے میں رہتی تھی۔
بہر حال حکام وقت مختلف علماء اور دانشوروں کو دور افتادہ علاقوں سے اپنے پاس بلوایا کرتے تھے اور اس بات سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ائمۂ طاہرین علیہم السلام علم و دانش کی چوٹی پر تھے تو پھر حکام ان کے ساتھ کیوں عداوت برتتے تھے کیا یہ حکام کے عمل میں تضاد کی علامت نہیں ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ:
1۔ خلفاء کی اہل بیت علیہم السلام کی دشمنی کا سبب یہ تھا کہ ان سب کو معلوم تھا کہ امت اسلامی پر حکمرانی کا حق ائمہ طاہرین علیہم السلام کا ہے چنانچہ مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں قتل کرکے اس حق کو پامال کیا کرتے تھے۔
2۔ ائمۂ معصومین کبھی بھی حکام کی تأئید نہیں کرتے تھے اور کبھی بھی ان کے کردار سے خوشنودی کا اظہار نہیں کرتے تھے۔
3۔ ائمۂ طاہرین علیہم السلام اپنے طرز سلوک اور با اثر سماجی شخصیت کے حامل تھے اور معاشرے میں ان کا بہت گہرا اثر و رسوخ تھا چنانچہ حکام ان کی طرف سے اپنی حکومت و اقتدار کے لئے ہر وقت خطرہ محسوس کرتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ حکام علماء اور فقہاء کی حمایت کیوں کرتے تھے اور وہ ان علماء کی سرپرستی کیوں کرتے تھے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے:
1۔ اس طرح علماء ـ جو معاشرے کے آگاہ افراد تھے اور معاشرے میں ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ـ حکام کے زیر تسلط قرار پاتے تھے اور حکام انہیں حکومت کے مفاد کی حدود میں رکھتے تھی۔
2۔ تاریخ گواہ ہے کہ حکام ان ہی علماء کے ذریعے بہت سے مشکل منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے تھے۔
3۔ علماء کی سرپرستی کرکے عوام کو باورکراتے تھے کہ ان کے حکمران علم دوست ہیں اور علماء کی تکریم کرتے ہیں اور اس طرح وہ معاشروں کا اعتماد حاصل کیا کرتے تھے اور اہل بیت (ع) کے ساتھ اپنی دشمنی سے وجود میں آنے والے سماجی بدظنی کی تلافی بھی کیا کرتے تھے اور سادہ دل عوام ان کی اہل بیت دشمنی کو نظرانداز کرجاتے تھے۔
4۔ علماء کی تکریم کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ حکام ان کو اپنے گرد جمع کرکے ائمۂ طاہرین علیہم السلام کا نورانی چہرہ عوام کی نظروں سے چھپا دیتے تھے تا کہ وہ ائمہ (ع) کو فراموش کردیں۔
اور ہاں علماء کی تکریم کا سبب ہرگز یہ نہ تھا کہ حکام کسی خاص مذہب سے تعلق رکھتے تھے ان کا مذہب تو اقتدار تھا اور حکام کی طرف سے علماء کی تکریم و تعظیم بھی غیرمشروط نہیں تھی بلکہ ان کی حمایت اس وقت تک جاری رہتی تھی جب تک وہ متعینہ حدود میں رہ کر سرکاری مقاصد کے حصول میں معاون رہتے تھے اور جب ان کا کردار حکومت کے متعینہ سیاسی اہداف سے متصادم ہو جاتی تو وہی حکام ان ہی علماء کو سزائیں بھی دیتے تھے یہاں تک کہ بعض اکابرین علماء اہل سنت جیلوں میں ہی انتقال کرگئے۔ چنانچہ علم اور عالم متعینہ سرکاری اہداف کے دائرے میں محترم تھے۔
احمد امین المصری عباسی بادشاہ منصور دوانیقی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: "منصور معتزلیوں کو ضرورت کے وقت اپنے پاس بلایا کرتا تھا اور محدثین اور علماء کو بھی دعوت دیا کرتا تھا اور یہ دعوتیں اس وقت تک ہوتی تھیں جب تک ان (معتزلیوں اور علماء و محدثین) کا کردار اس کے اقتدار سے متصادم نہیں ہوتا تھا اور اگر ان کے کردار اور سلطان کے اقتدار میں ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوتی تو انہیں بلا تکلف منصور کی سزائیں بھگتنا پڑتی تھیں"۔ (1)
منصور دوانیقی وہی بادشاہ ہے جس نے حنفی مسلمانوں کے امام ابوحنیفہ کو زہر کا جام پلایا اور ساتھ ہی امام جعفر الصادق علیہ السلام اور آپ (ع) کے شاگردوں کے ساتھ بہت ناروا سلوک روا رکھا۔ اور کہا جاتا ہے کہ منصور محمد بن عبداللہ علوی کے قیام کی وجہ سے امام (ع) کا مخالف ہوچکا تھا۔ (2)
بہرحال حکام کی کوشش ہوتی تھی کہ ائمہ علیہم السلام کے حقائق بیان نہ ہوں یا توڑ مروڑ کر بیان کئے جائیں اور اس سلسلے میں علماء کہلانے والے افراد کی حمایت حاصل کیا کرتے تھے۔
چنانچہ اگر کہا جائے کہ ابن اثیر، طبرى، ابوالفداء، ابن العبرى، یافعى اور ابن خلكان ان ہی علماء میں سے تھے جنہوں نے حقیقت اور تاریخ سے خیانت کی اور واقعات تاریخ کی تألیف میں بے انصاف تھے اور انھوں نے پیشہ ورانہ غیرجانبداری کا لحاظ ہرگز نہ رکھا، تو یہ عین حقیقت ہوگی۔
ان لوگوں کی ناانصافی، تعصب اور حکام جور کی اندھادھند متابعت کی ایک اہم دلیل امام رضا علیہ السلام کے بارے میں ان کی تحریریں ہیں۔ اچھا تو ان سب نے لکھا ہی کیا ہے کہ اتنی شدت سے ہماری تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں؟
ہاں انھوں نے لکھا ہے: امام رضا علیہ السلام نے انگور کھانے میں زیادہ روی کی اور اسی وجہ سے انتقال کرگئے!!!؟ ۔(3)
ابن خلدون نے بھی علم و فن کے ہر شعبے میں قلم فرسائی کی ہے اور حدیث کے حوالے سے تو انہیں سنی علماء کی طرف سے بھی شدید تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا ہے اور اس نے تاریخ و سیاست کے بارے میں بھی لکھا ہے اور عقائد و کلام کے بارے میں چنانچہ اس نے بھی ـ جو اموی مذہب تھا ـ ان ہی لکھاریوں کی پیروی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: «جب مأمون طوس میں داخل ہوا اسی وقت امام رضا (ع) انگور کھانے میں زیادہ روی کے باعث ناگہانی طور پر گذر گئے»۔ (4)
ہم یہاں ان یاوہ گوئیوں پر تبصرہ نہیں کرتے بلکہ اپنے قارئین سے تبصرہ کرنے کی درخواست کرتے ہیں؛ کتنی عجیب ہیں یہ باتیں اور ایک اہل قلم کا مقام کتنا اونچا ہوتا ہے ان بے قدر و قیمت باتوں سے؟
اتنا بتانا البتہ ضروری ہے کہ ائمۂ معصومین علیہم السلام کھانے پینے اور دیگر دنیاوی امور میں نہایت متوازن تھے اور ان کے زہد و پارسائی کا تو دشمن بھی انکار نہیں کرسکتے اور پھر وہ تمام علوم و فنون کے امام تھے اور انہیں حدود کا علم تھا اور یقینا کوئی عام سا عقلمند شخص بھی کھانے پینے میں زیادہ روی کے انجام سے بخوبی واقف ہوتا ہے اور کبھی بھی خودکشی نہیں کرتا چہ جائےکہ وہ فرد ایک امام معصوم ہو۔
تاہم ایسی باتیں لکھنے کا سبب تعصب اور حقائق سے اعلانیہ چشم پوشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور کوئی بھی با ضمیر اہل قلم ایسے امام سے ایسے سخیف عمل کی نسبت نہیں دے سکتا۔ اور پھر ہم بھی اتنے زمانی فاصلے کے باوجود اپنی عقل و ضمیر کی طرف رجوع کریں تو ایسی یاوہ سرائیوں کی تصدیق نہیں کرسکتے کیونکہ کسی امام کے بارے میں ایسی کوئی صفت کسی بھی دوست یا دشمن نے ذکر نہیں کی ہے۔
امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں مختلف آراء:
مذکورہ بالا رائے کو کوئی بھی علمی اہمیت حاصل نہیں ہے کیونکہ وہ امام علیہ السلام کی زندگی کے حالات میں غور کرنے سے آپ (ع) کی سیرت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے چنانچہ ہم نے اس رائے کو شہادت کے بارے میں مختلف آراء میں شامل نہیں کیا۔
دیگر مؤرخین نے مختلف آراء بیان کی ہیں جو ناہماہنگ ہیں اور ان کے نقطہ ہائےنظر میں وحدت کا فقدان ہے جس کی طرف آنے والی سطروں میں اشارہ ہوگا۔
* بعض مورخین نے صرف اس حادثے کی رپورٹ دی ہے اور اس کی کیفیت اور اسباب و عوامل کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے اور صرف بر سبیل تردد متذکر ہوئے ہیں کہ «کہا جاتا ہے کہ آپ (ع) کو زہر دیا گیا اور آپ (ع) انتقال کرگئے»۔ جیسا کہ یعقوبی نے اپنی تاریخ کی جلد دوئم کے صفحہ 80 پر اشارہ کیا ہے۔
* بعض دیگر نے تسلیم کیا ہے کہ امام کو مسموم کیا گیا مگر ان کی رائے یہ ہے کہ یہ جرم عباسیوں نے کیا ہے [جبکہ مامون اس سے بری الذمہ تھا]۔ سیدامیرعلی کی رائے بھی یہی ہے۔ اور احمد امین المصری نے بھی یہی رائے نقل کی ہے۔ (5)
اس رائے کی صرف ایک سند ہے جو اربلی نے نقل کی ہے اور وہ ایک مبہم عبارت ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ «جب انھوں نے (عباسیوں نے) نے دیکھا کہ خلافت فرزندان علی علیہ السلام کو منتقل ہوگئی ہے تو انھوں نے علی بن موسی (ع) کو زہر دیا اور آپ (ع) ماہ مبارک رمضان کے ایام میں طوس کے مقام پر دنیا سے رخصت ہوئے»۔ (6)
٭ ایک رائے یہ ہے کہ امام علیہ السلام عباسی بادشاہ مأمون بن ہارون کے ہاتھوں مسموم ہوئے لیکن اس نے یہ عمل اپنے وزیر فضل بن سہل کی ترغیب اور اس کے کہنے پر انجام دیا۔
البتہ ہماری رائے کے مطابق مأمون کو کسی ترغیب یا ہدایت و راہنمائی کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ خود امام علیہ السلام کے مقام و منزلت کا بخوبی ادراک کرچکا تھا اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ رائے دینے والی مؤرخین نے جب محسوس کیا کہ مأمون کو اس قتل سے کلی طورپر بری الذمہ قرار دینا ممکن نہیں ہے تو انھوں نے لکھا کہ یہ درست ہے کہ مأمون اس قتل کا مرتکب ہوا ہے لیکن یہ کام اس نے اپنے ارادے سے نہیں بلکہ فضل بن سہل کی ترغیب پر انجام دیا تھا گو وہ پھر بھی مأمون کی بے گناہی ثابت کرنے پر بضد ہیں۔ جبکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ فضل بن سہل امام کی شہادت سے کافی عرصہ قبل ـ مأمون کے طوس آنے سے پہلے ـ اس کے جلادوں کے ہاتھوں قتل ہوچکا تھا چنانچہ یہ تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے کہ مأمون نے امام کو اپنے مقتول وزیر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے امام علیہ السلام کو شہید کردیا تھا ورنہ وہ خود ہرگز اس عمل کا روادار نہ تھا!۔
* ایک رائے یہ بھی ہے کہ امام علیہ السلام کا وصال طبعی موت کا نتیجہ تھا اور نہ تو آپ (ع) مسموم ہوئی تھی اور نہ ہی کسی نے آپ (ع) کو قتل کرنی کی سازش کی تھی۔ یہ رائے دینی والوں نے بعض دلیلیں بھی بیان کی ہیں۔
ابن جوزی اس رائے کی قائل ہیں۔ انھوں نے دیگر مؤلفین کی یہ رائے نقل کی ہے کہ: «امام علیہ السلام حمام گئی تھی؛ حمام میں آپ (ع) کے سامنے ایک طشت انگور کا رکھا گیا جس میں رکھے ہوئے انگور کی دانوں کو سوئی کے ذریعے زہر سے آلودہ کیا گیا تھا چنانچہ آپ (ع) انگور تناول فرمانی کے بعد وصال کرگئی»؛ اور اس کے بعد رقمطراز ہیں: یہ بات درست نہیں ہے کہ مأمون کو اس عمل میں ملوث قرار دیا جائے کیونکہ اگر اس نے انگور مسموم کرکے آپ (ع) بھیجا تھا تو پھر وہ آپ (ع) وصال پر اتنا ملول و محزون کیوں ہوا اور اتنی بی چینی کا اظہار کیوں کررہا تھا؟ ابن جوزی کی بقول یہ واقعہ مأمون پر اتنا گران گزرا کہ کئی روز تک کھانا پینا تک چھور دیا اور دنیا کی تمام لذتوں سے دوری اختیار کی۔ (7)
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک طرف سے تو ابن جوزی کہتا ہے کہ امام کا وصال طبعی موت کا نتیجہ تھا اور دوسری طرف سے تسلیم کرتا ہے کہ حمام میں آپ (ع) کو زہریلا انگور دیا گیا شاید ان کی بات کا یوں مفہوم لیا جائے کہ مأمون کی ولیعہد کو مأمون کی موجودگی میں کسی اور نے قتل کیا اور مأمون بہت مغموم ہوا لیکن اس صورت میں سوال یہ ہے کہ مأمون نے قاتلوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اور ایسی کوئی بات تاریخ میں نہیں ملتی کہ کوئی قاتل پکرا گیا ہو اور اس کو سزا دی گئی ہو۔ اور اس سوال کا جواب دھوندتے ہوئے الزام کی انگلی سیدھی مأمون کی طرف ہی اٹھتی ہے بادشاہ اور صاحب اختیار جو تھا!۔
بہر حال ابن جوزی کا اصرار ہے کہ مأمون اس قتل میں ملوث نہیں تھا۔
«اربلى» نے بھی ابن جوزی کی پیروی کرتے ہوئے یہی رائے بیان کی ہے اور اس رائے کے لئے وہی دلیل بیان کی ہے جو اربلی نے بیان کی تھی۔
احمد امین المصری کا بھی یہی خیال ہے اور اس کی دلیل بھی یہ ہے کہ مأمون جب بغداد واپس آیا اس وقت بھی علویوں کی طرح سبز جامہ پہنتا تھا اور علماء کے ساتھ علی علیہ السلام کی برتری کے بارے میں مباحثے کیا کرتا تھا۔ ۔ (8) عجیب یہ ہے کہ اتنے مشہور لکھاریوں کی دلیلیں اتنی سست کیوں ہیں؟
ڈاكٹر احمد محمود صبحى نے بھی گمان کیا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی مسمومیت اہل تشیع کا بنا بنایا الزام ہے اور شیعہ مؤرخین اور تاریخی تجزیہ نگار مأمون کے نزدیک امام علیہ السلام کے مقام و منزلت اور مأمون کے ہاتھوں آپ (ع) کی مسمومیت کے درمیان تضاد کا احساس کیوں نہیں کرتے! (9(
انھوں نےالبتہ اس حقیقت کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے کہ جب منشی حضرات بادشاہوں کی تاریخ لکھتے تھے شیعہ علماء حالات پرپوری طرح نظر رکھے ہوئے تھے اور کبھی بھی حق کو باطل کے بطن میں ہضم ہونے نہیں دے رہے تھے؛ بات صرف اتنی سی ہے کہ اہل تشیع ظاہری نعروں اور وابستگی و محبت کے اظہار کو محبت اوروفاداری کی دلیل نہیں سمجھتے۔
جن لوگوں نے مأمون کو امام رضا علیہ السلام کو زہر خورانی کے الزام سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی ہے ان کی دلیلوں کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
1۔ مأمون اور امام علیہ السلام کے درمیان ولیعہدی کی میثاق موجود تھی جس کے تحت امام کو مأمون کی موت کے بعد خلافت کا عہدہ سنبھالنا تھا۔
2۔ مأمون امام علیہ السلام کی شان و منزلت کی تعظیم کرتا اور آپ (ع) کے شرف و علم و فضیلت اور آپ (ع) کی خاندانی عظمت کا معترف تھا؛
3۔ مأمون نے اپنی بیٹی کا نکاح امام علیہ السلام سے کرایا تھا اور یہ خود ان کے درمیان محبت و اخلاص کے استحکام کا سبب تھا۔
4۔ مأمون علماء کے سامنے علی علیہ السلام کی برتری پر استدلال کیا کرتا تھا۔
5۔ امام (ع) کا وصال ہوا تو مأمون بہت بے چین اور مغموم ہوا اور اس نے کئی روز تک کھانے پینے اور دیگر دنیاوی لذتوں سے اجتناب کیا۔
6۔ مأمون نے امام علیہ السلام کو اپنے باپ کے پہلو میں دفنا دیا اور آپ (ع) کی میت پر خود ہی نماز پڑھی۔
7۔ امام کا وصال ہوا تو وہ بدستور سبز لباس میں ملبوس رہا حتی کہ بغداد میں لوٹ کررہائش پذیر ہوا۔
8۔ علوی اس کے خلاف مختلف اقدامات کیا کرتے تھے مگر وہ علویوں پر مہربان تھا۔
9۔ مأمون کے اخلاق اورعادات و اطوار کے پیش نظر وہ ایسا قدم اٹھا نہیں سکتا تھا ( البتہ اس نے اپنے بھائی امین کو بھی شاید غلطی سے قتل کروایا تھا اور اس کا سر اپنے محل میں ایک نیزے کے نوک پر ایک عرصے تک نصب کررکھا تھا ورنہ وہ کہاں اور کسی کا قتل کہاں!!! (()))۔
10۔ امام علیہ السلام کی مسمومیت کی داستان شیعہ جعلیات کا حصہ ہے؛
چنانچہ مأمون اس قتل سے بری الذمہ ہے۔
یہ ان دلیلوں کاخلاصہ ہے جو مأمون کی وکالت کرنے والے اہل قلم حضرات نے اس کو بری الذمہ اور بے گناہ ثابت کرنے کے لئے پیش کی ہیں۔
ہمارے خیال میں یا تو ان حضرات کو تمام حقائق کے بارے میں علم نہیں تھا یا پھر اتنی ساری باتوں میں سے حقیقی رائے استخراج کرنے اور اس تاریخی واقعے کے صحیح تجزیئے سے عاجز تھے۔
یا پھر یہ کہ وہ تاریخی حقیقت سے بخوبی واقف تھے اور حقائق کا تجزیہ کرنے کی قوت سے بھی بہرہ مند تھے مگر تعصب نے انہیں حقیقت کا اعتراف کرنے سے روک رکھا ہےا اور انھوں نے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ائمۂ اہل بیت رسول (ص) کے خلاف اپنی عداوت کی بنا پر حقائق سے چشم پوشی کی ہے اور اپنی ہوائے نفس اوراپنے بادشاہوں کی پیروی کرتے ہوئے ان حقائق کو خلط ملط کرچکے ہیں جو ان کے خلفاء کے حق میں نہ تھے۔
ہم ان تمام دلیلوں کو مانتے ہیں اور بظاہر یہ سب باتیں وقوع پذیر ہوئی ہیں اور ہمیں ان کا انکار نہیں۔ مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ سب باتیں مأمون کے سامنے ممکنہ خطرات کا خاتمہ کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے تھے اس کو عباسی بادشاہت کے سلسلے کی حفاظت کا مسئلہ درپیش تھا اس نے اس سے قبل اپنے وفادار وزیر کو اپنے اقتدار کے لئے خطرہ گردان کر قتل کردیا۔ فضل کو مأمون کے نزدیک بلند مقام و مرتبت حاصل تھی اور مأمون نے بارہا اصرار کیا تھا کہ اپنی ایک بیٹی کا فضل سے نکاح کردی۔
«ہرثمہ بن اعین» اس کا قریبی ساتھی اور اس کی فوج کا سربراہ تھا اور اس کے اقتدار کے استحکام میں اس کا بہت بڑا کردار تھا مگر یہی کمانڈر جب اس کے دارالسطنت «شہر مرو» میں داخل ہوا تو اس کا خیر مقدم کرنے کی بجائے اس پرمتعدد الزامات کی بوچھاڑ کردی اور اس کو بات کرنے اور اپنے دفاع میں کچھ بولنے تک کی فرصت دیئے بغیر اس کا سر تن سے جدا کروایا۔ اس نے اپنی دوسرے اعلی کمانڈر طاہر بن حسین اور اس کے فرزندوں کو بھی نیست و نابود کردیا۔ یہ اس کے کمانڈر اور اس کے تاج وتخت کے محافظ تھے اور ان کی شمشیر کی بدولت وہ اسلامی مملکت پر حکمرانی کرتا تھا مگر اس نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا۔
ابتدائے سلطنت مأمون سے انتہا تک دیکھیں تو اس نے اپنے تمام قریبی ساتھیوں کو آب تیغ سے سیراب کیا جبکہ انہیں قتل کرنے سے قبل ان کے ساتھ محبت کا اظہار بھی کرتا تھا۔ مأمون کے کون سے عادات و اطوار اس کو امام رضا علیہ السلام کے قتل سے روک سکتے تھے جبکہ اس نے سلطنت اور اقتدار پر قبضہ جمانے کی خاطر اپنے بھائی تک کو تہہ تیغ کیا تھا! اب اگر اقتدار ہی کی حفاظت کا مسئلہ امام رضا علیہ السلام کے قتل کا متقاضی ہو تو وہ کون سا عامل ہوسکتا ہے جو اس کو اس عمل سے روک سکے؛ کیا یہ بات معقول ہوگی کہ کوئی دعوی کرے کہ "مأمون امام رضا علیہ السلام کو اپنے سچے خدمتگزاروں اور حتی اپنے بھائی سے زیادہ دوست رکھتے تھے اور آپ (ع) مأمون کو سب سے زیادہ عزیز تھے؟
اب سوال یہ ہے کہ پھر مأمون امام علیہ السلام کی شہادت پر اتنا محزون و مغموم کیوں ہوا؟
اس سوال کا جواب بھی بالکل روشن ہے اور وہ یہ ہے کہ مأمون نہایت مکار اور عیار سیاستدان تھا اور اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ کسی کو قتل کرکے اس کی موت پر خوشی منائے۔
کیا مأمون ہی نہیں تھا جس نے اپنے مخلص وزیر فضل بن سہل کو قتل کیا اور پھر اس کے لئے عزاداری کا اہتمام کیا؟ (10) اس نے خود ہی کئی افراد کو مأمور کرکے انہیں فضل بن سہل کے قتل کی ہدایت کی تھی اور انہیں انعام و اکرام کا وعدہ دیا تھا چنانچہ وہ انہیں بخوبی جانتا تھا اور فضل کی قتل کے بعد ان سب کو گرفتار کیا اور لوگوں کے سامنے ان کا خون بہایا (کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک نے لوگوں کے سامنے مأمون سے کہا کہ "ہم نے فضل کو تمہارے حکم پر قتل کیا ہے اور اگر قاتل کو سزا دینی ہے تو یہ سزا تمہیں ملنی چاہئے") بہر حال مأمون نے انہیں قتل کروایا اور ان کے سر قلم کرواکر فضل کے بھائی حسن بن سہل کے پاس بھجوائے۔ اور اپنی لڑکی بھی حسن بن سہل سے بیاہ دی۔ مگر جب اس نے ابن شکلہ کی شورش کچل دی تو حسن بن سہل کو بھی برطرف کرکے گھر بٹھا دیا۔ (11)
طاہر بن حسین کو بھی اسی نے قتل کیا اور پھر اس زمانے کے بڑے مولوی جناب یحیی بن اکثم کو طاہر کے بیٹوں کے پاس روانہ کیا تا کہ وہ خلیفہ کا تعزیتی پیغام انہیں پہنچادیں۔ اس کے بعد طاہر کے بیٹوں کو باپ کا منصب سونپا مگر انہیں بھی یکے بعد دیگرے برطرف کرکے نیست و نابود کردیا۔
وہ ایسا اس لئے کرتا تھا کہ قتل ہونے والے افراد معاشرے میں اثر و رسوخ رکھتے تھے اور اس مکار خلیفہ کا یہ وطیرہ تھا کہ بااثر افراد کے قتل کے منفی نتائج سے بچنے کے لئے ان کے خاندانوں سے اظہار ہمدردی کیا کرتا تھا اور امام رضا علیہ السلام کا اثر و رسوخ اتنا وسیع تھا کہ مأمون کے سامنے غم و اندوہ کا اظہار کرنے کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں تھا وہ سخت خوفزدہ ہوچکا تھا اور غم و اندوہ خوف کی بھی تو علامت ہے۔
امام رضا علیہ السلام کے بارے میں اس کی آراء و خیالات اور آپ (ع) کی شہادت کے بعد اس کا اظہار غم ہرگز اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ اگر واقعی وہ سچا تھا تو اس نے امام کے سات بھائیوں کو کیوں قتل کیا؟ اور علویوں کو اذیت و آزار کا نشانہ بنایا اور مصر میں اپنے والے کو لکھا: منبروں کی دھلائی کا فرمان جاری کرو کیونکہ ان پر امام رضا (ع) کا نام لیا گیا ہے!۔
مأمون کی وہ کونسی شرافت تھی جس کے ہوتے ہوئے وہ امام (ع) کو قتل نہیں کرسکتا تھا؟ یہ کیسا سوال ہے کہ امام (ع) سے اس کا اظہار محبت اس کے ہاتھوں آپ (ع) کے قتل سے ناہماہنگ تھا؟ کیا اس کے ہاتھوں قتل ہونے والے دیگر افراد سے اس نے کبھی بھی اظہار محبت نہیں کیا تھا؟
ہاں وہ علویوں کا احترام کرتا تھا اور اس نے عباسی اکابرین کے نام اپنے خط میں اس کی وجہ یوں بیان کی ہے: "علویوں کی تکریم و تعظیم ہماری پالیسی کا حصہ ہے"۔
وہ امام رضا علیہ السلام کی شہادت کی چند روز بعد تک علویوں کا سبز لباس پہنتا تھا مگر اس کے بعد اس نے سیاہ عباسی لباس پہننا شروع کیا اور امام کے سات بھائیوں کو قتل کیا اور مختلف علاقوں میں اپنے گماشتوں کو لکھا کہ علوی بزرگوں کو پابند سلاسل کردیں۔
احمد امین نے لکھا ہے کہ "علویوں نے مأمون کے خلاف بہت سے قیام کئے تھے" لیکن اس نے اس بات کے لئے کوئی ثبوت نقل نہیں کیا ہے اور امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد شیعیان اہل بیت (ع) نے کوئی قیام نہیں کیا۔ ہاں البتہ یمن میں "عبدالرحمن بن احمد" نے قیام کیا جس کی وجہ صرف اور صرف عباسی والی کا ظلم و ستم تھی۔ اور بس۔ اور امام (ع) کے بھائیوں نے اپنے بھائی کی خونخواہی کی غرض سے قیام کیا تھا۔
احمد امین نے لکھا ہے کہ امام (ع) کی مسمومیت اہل تشیع کا افسانہ ہے! تو اس کا جواب یہ ہے کہ اہل تشیع سے پہلے سنی مؤرخین نے ہی لکھا ہے کہ مأمون اس جرم کا مرتکب ہوا تھا اور شیعہ بھی اس جرم کی داستان سنیوں کی کتابوں میں پڑھا کرتے تھے۔ لیکن اگر پھر بھی مأمون کو خیرسگالی کی نسبت دینا ہے اور اس کو اس گناہ سے بری الذمہ قرار دینے پر بضد رہنا ہے تو وہ آکر ہمارے اس سوال کا جواب دے کہ: "مأمون نے امام علیہ السلام کے وصال کے بعد ولیعہدی کا منصب آپ (ع) کے فرزند "محمد تقی الجواد علیہ السلام" کوکیوں نہیں سونپا؟ جبکہ امام جواد علیہ السلام مأمون کے داماد بھی تھے اور مأمون کو آپ (ع) کے فضل و علم و کمالات کا اعتراف بھی تھا!
امام جواد علیہ السلام نے ظاہری طور پر بچپنے کی عمر میں ہی یحیی بن اکثم کے ساتھ مناظرہ کرکے ان کی تحسین جیت لی تھی۔ یہ مناظرہ بہت مشہور و معروف ہے۔(12)
* ایک نظر جو درست بھی ہے یہ ہے کہ امام علیہ السلام کو مسموم کیا گیا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور ابن جوزی نے بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ رائے بالکل درست ہے البتہ شیخ اربلی نے کشف الغُمّہ میں اس رائے سے اختلاف کیا ہے لیکن شیخ مفید نے لکھا ہے کہ امام (ع) کو مسموم کیا گیا تھا۔ گو کہ شیخ مفید نے لکھا ہے کہ: مأمون اور امام رضا علیہ السلام نے ساتھ مل کر انگور تناول کیا جس کے بعد امام علیہ السلام بیمار پڑگئے اور مأمون نے تمارض کرکے اپنے آپ کو بیمار ظاہر کیا!!۔
بہر حال تمام شیعہ علماء اور مؤرخین کا اتفاق ہے کہ امام علیہ السلام کو مأمون نے زہرخورانی کے ذریعے شہید کردیا اور یہ بہت اہم دلیل ہے کیونکہ شیعہ علماء زیادہ بہتر انداز میں ائمہ علیہم السلام کی احوال نویسی میں غور کرتے تھے اور وہ اس حوالے سے کوئی بھی خفیہ زاویہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔
اہل سنت کے علماء میں سے ایک کثیر تعداد نے امام علیہ السلام کی طبعی موت کو مسترد کردیا ہے یا پھر ان کے ہاں اس حقیقت کو ترجیح دی گئی ہے کہ آپ (ع) کو شہید کیا گیا ہے۔
ذیل کے افراد ان ہی مؤرخین اور مؤلفین میں سے ہیں:
ـ ابن حجر مکی ـ صواعق المحرقہ ـ صفحہ 122 / ابن صباغ مالكى فصول المہمة صفحہ 250۔
ـ مسعودى ـ اثبات الوصیة ـ صفحہ 208/ التنبیہ و الاشراف صفحہ 203/ مروج الذہب / 3 / صفحہ 417۔
ـ لقشندى ـ مآثرالانافة فى معالم الخلافة / 1 / صفحہ 211۔
ـ قندوزى حنفى ـ ینابیع المودة، صفحہ 263 و 385۔
ـ جرجى زیدان ـ تاریخ تمدن اسلامى / 2 / بخش 4 / صفحہ 440، و کتاب امین و مأمون آخری صفحہ۔
ـ ابوبكر خوارزمى نے اپنے رسالے میں اور احمد شلبى نے تاریخ اسلامى اور تمدن اسلامى / 3 / صفحہ 107۔ میں یہ نکتہ بیان کیا ہے۔
ـ ابوالفرج اصفہانى ـ مقاتل الطالبیین - ابو زكریا موصلى ـ تاریخ موصل 171 / 352 - ابن طباطبا ـ الآداب السلطانیة صفحہ 218 - شبلنجى ـ نور الابصار صفحہ 176 و 177 مطبوعہ 1948۔
ـ سمعانى ـ الانساب جلد 6 صفحہ 139۔
ـ سنن ابن ماجہ بحوالہ تہذیب التہذیب الكمال فى اسماء الرجال صفحہ 278 - عارف تامرـ الامامة فی الاسلام صفحہ 125۔
ـ ڈاکٹر كامل مصطفى شیبى ـ الصلة بین التصوف و التشیع ـ صفحہ 226۔
مأمون کے زمانے میں امام رضا (ع) کے قتل کی خبر پھیل گئی تھی:
جب ہم تاریخی کتب کی طرف رجوع کرتے ہیں دیکھتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام کی شہادت مأمون کے ہاتھوں زہر خورانی کے نتیجے میں واقع ہوئی اور یہ خبر مأمون کے دور میں ہی پھیل کر معروف ہوگئی اور خاص و عام اس سے مطلع تھے۔ مأمون کو بھی یہ خبر پہنچ چکی تھی چنانچہ وہ خود بھی گاہے بگاہے شکوہ کیا کرتا تھا کہ "لوگ امام علیہ السلام کو زہرخورانی کا الزام اس پر کیوں عائد کرتے ہیں!"۔
روایت میں مذکور ہے کہ جب امام علیہ السلام شہید ہوئے تو لوگ اجتماع کرکے بآواز بلند بیان کررہے تھے کہ امام کواس شخص (مأمون) نے دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے؛ اس سلسلے میں لوگوں کا احتجاج اس قدربڑھ گیا کہ مأمون نے مجبور ہوکر آپ (ع) کے عم بزرگوار محمد بن جعفر کو عوام کے پاس بھجوایا اور ان کو عوام سے یہ کہنے پر مجبور کیا کہ "امام (ع) بلؤوں سے اجتناب کی خاطر آج گھر سے باہر نہیں نکلیں گے"۔(13)
ابن خلدون نے مأمون کے ہاتھوں امام (ع) کی شہادت کا انکار کرنے کے باوجود مأمون کے خلاف امام (ع) کے بھائی "ابراہیم بن موسی" کے قیام کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "ابراہیم بن موسی مأمون کو اپنے بھائی کے قتل کا مجرم سمجھتے تھے"۔ (14) دہشت گردی میں یہ عباسی بادشاہ امویوں سے کسی قدر کم نہ تھا گو کہ دیگر عباسی خلفاء بھی ایسے ہی تھے؛ اس شخص نے ہی ابراہیم بن موسی کو بھی زہر دلوا کر شہید کردیا اور مصر میں مأمون کے خلاف اٹھنے والی امام (ع) کے دوسری بھائی زید بن موسی کو بھی اس نے زہر کے ذریعے قتل کروایا۔ البتہ یعقوبی نے لکھا ہے کہ مأمون نے ابراہیم اور زید کو معاف کردیا (15) اور یہ بات درست ہے کیوں کہ مأمون کی مکارانہ دہشت گردی کا تقاضا یہی تھا اس نے ان دونوں بھائیوں کو معاف کردیا اور جب وہ گھر بیٹھ گئے تو انہیں زہر دلوا کر قتل کروایا۔
احمد بن موسی (شاہ چراغ) بھی امام (ع) کے دیگر بھائی تھے جنہوں نے تین ہزار ـ اور ایک روایت کے مطابق 12 ہزار افراد ـ کی سرکردگی میں مأمون کے خلاف بغداد سے قیام کیا اور فارس کی طرف چلے گئے جہاں مأمون کے کارگزار فارس "قتلغ خان" کے ساتھ ان کی مڈبھیڑ ہوئی اور جھڑپیں کئی دنوں تک جاری رہیں؛ یہ قیام احمد بن موسی اور ان کے دوسرے بھائی "محمدعابد" اور ان کے اعوان و انصار کی شہادت پر اختتام پذیر ہوا۔ (16) سید احمد بن موسی شاہ چراغ کا حرم آج بھی شہر شیراز میں ملجأ خلائق ہے۔
ان ہی ایام میں امام علیہ السلام کے ایک بھائی "ہارون بن موسی" 22 علوی سادات کے ہمراہ خراسان کی طرف جارہے تھے۔ اس قافلے کی سربراہ امام علیہ السلام کی ہمشیرہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا تھیں۔ (17) مأمون نے اپنے گماشتوں کو حکم دیا کہ اس قافلے کا خاتمہ کردیں۔ گماشتوں کے حملے میں ہارون بن موسی اور دیگر سادات زخمی ہوئے اور جب مرہم پٹی کے بعد کھانا کھانے کے لئے دسترخوان پر بیٹھ گئے تو مأمون کے گماشتوں نے ان کا قتل عام کیا۔ (18)
روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کو ساوہ میں زہر دیا گیا جس کے نتیجے میں سیدہ نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ (19) سیدہ معصومہ سلام اللہ کا حرم شہر مقدس قم میں لاکھوں مسلمانوں کی زیارتگاہ ہے۔
یا یوں کہئے کہ مأمون کی مبینہ شرافت کا یہ حال تھا کہ اس نے اہل بیت علیہم السلام کی خواتین تک کو قتل کروایا! جبکہ عرب عورت کا قتل اپنے لئے ننگ و عار سمجھتے ہیں۔
ان کے علاوہ مأمون نے امام علیہ السلام کے ایک بھائی حمزہ بن موسی کو بھی قتل کروایا۔
امام علیہ السلام کی شہادت کے سلسلے میں آپ (ع) اور آپ (ع) کے آباء و اجداد علیہم صلوات اللہ و سلامہ، کی پیشین گوئیاں
تاریخی تجزیئے سے ثابت ہوگیا کہ امام علیہ السلام کومأمون نے زہر کے ذریعے شہید کردیا تھا؛ علاوہ ازیں امام علیہ السلام نے بارہا فرمایا تھا کہ آپ (ع) کو مسموم کرکے قتل کیا جائے گا۔ اور آپ (ع) کے اجداد طاہرین علیہم السلام نے بھی آپ (ع) کی ولادت سے برسوں قبل اس امر کی پیشین گوئی فرمائی تھی۔
اس سلسلے میں ذیل کی روایات خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پانچ حدیثیں منقول ہیں جن میں حضور (ص) نے پیشین گوئی فرمائی ہے کہ امام رضا علیہ السلام طوس میں زہر کے ذریعے شہید کئے جائیں گے۔
2۔ امام رضا علیہ السلام نے متعدد بار فرمایا تھا کہ آپ طوس میں ہی شہید کئے جائیں گے اور قبر ہارون کے پہلو میں دفنا دیئے جائیں گے۔
شاعر اہل بیت (ع) دعبل خزاعی (رحمةاللہ علیہ) نے قصیدہ پرھا اور جب اس بیت پر پہنچے کہ:
اور قبر نفس زکیہ یعنی امام موسی کاظم علیہ السلام بغداد میں ہے اور اللہ تعالی نے امام (ع) کو اعلی ترین غرفوں (کمروں) اور اخروی مقامات ومنازل میں جگہ دی ہے؛ تو امام رضا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: کیا آپ حاضر ہیں کہ میں بھی آپ کے قصیدے میں دو بندوں کا اضافہ کروں:
دعبل نے عرض کیا: کیوں نہیں یابن رسول اللہ (ص)!
چنانچہ امام (ع) نے فرمایا:
اور ایک اور قبر طوس میں ہوگی جس نے کتنے مصائب برداشت کئے ہیں اور کتنی صعوبتیں جھیلی ہیں اور اس کے باطن کو زہر جفا کے ذریعے جلا دیا گیا ہے جو روز محشر تک سوزاں ہے۔
اور خداوند متعال اپنی حجت یعنی امام مہدی آخر الزمان عجَلَ اللہ فَرَجَہ الشریف کو بھیج دے گا اور وہ ہم اہل بیت (ع) کے ہر غم و حزن کو برطرف کردیں گے۔
دعبل نے عرض کیا: یابن رسول اللہ (ص)! اس قبر میں کون مدفون ہوگا جو طوس میں واقع ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ میری قبر ہے۔ اور بہت جلد طوس ہمارے شیعوں اور زائرین کے اجتماع کا مقام ہوگا۔
پس جو بھی طوس میں غربت (وطن سے دوری) کی حالت میں معرفت کے ساتھ میری زیارت کرے گا اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور قیامت کے روز میرے ساتھ محشور ہوگا۔ (20)
.............
مآخذ:
1- ضحى الاسلام، 3 ، ص 202 و نیز جلد 2 / ص 46 و 47۔
2۔ ((محمد بن عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابیطالب (ع) االمعروف "نفس زكيہ" جنہوں نے سنہ 145 ہجری میں منصور دوانیقی کے خلاف مدینہ منورہ میں قیام کیا۔ منصور نے اپنے بھانجے عیسی کو ایک لشکر دے کر مدینہ روانہ کیا؛ مدینہ کے قریب جنگ چھڑگئی اور نفس زکیہ شہید ہوئے اور ان کا سر قلم کرکے منصور کے پاس بھیج دیا گیا))۔
2- الكامل / 5 / ص 150 - طبرى / 11 / ص 1030 - تاریخ ابوالفداء / 2 / ص 23 - مختصر تاریخ الدول / ص 134 - مرآة الجنان / 2 / ص 12 - وفیات الاعیان / 1 / ص 321 (چاپ 1310 ہجرى) - برخى از اینان داستان مسموم شدن را با تعبیر «گفتہ مىشود۔ ۔ ۔ » بیان كردہاند۔
3- تاریخ ابن خلدون / 3 / ص 250۔
4- روح الاسلام، سید امیر على / ص 311 و 312 - احمد امین چنین نگاشتہ: «اگر به راستى او را مسموم كرده باشند، حتما این سم را كسى غیر از مأمون به او خورانیده، یعنى یكى از مدعیان حكومت براى خاندان عباسى۔»
5- الامام الرضا ولى عهد المأمون / ص 102 به نقل از خلاصة الذهب المسبوك / ص 142۔
6- تذكرة الخواص / ص 355۔
7- ضحى الاسلام / 3 / ص 295 و 296۔
8- نظریة الامامة / ص 387۔
9- التاریخ الاسلامى و الحضارة الاسلامیة / 3 / ص 322 - ماثر الانافة / 1 / ص 211۔ 10- لطف التدبیر / ص 166۔
11- الصواعق المحرقة، فصول المهمة، ینابیع المودة، اثبات الوصیة، بحار، اعیان الشیعة، احقاق الحق جلد 2 به نقل از: اخبار الدول قرمانى، نور الابصار، ائمة الهدى هاشمى، الاتحاف بحب الاشراف، مفتاح النجا فى مناقب اہل العبا۔ ۔ ۔
12- مسند الامام الرضا / 1 / ص 130 - بحار / 49 / ص 299 - عیون اخبار الرضا / 2 / ص 242۔
13- تاریخ ابن خلدون / 3 / ص 115۔
14- مشاكلة الناس لزمانهم / ص 29۔
15- قیام سادات علوى / ص 169 - اعیان الشیعة / 10 از مجلد 11 / ص 286 و 287 به نقل از كتاب الانساب از محمد بن هارون موسوى نیشابورى - مدینة الحسین (سرى دوم) ص 91 - بحار / 8 / ص 308 - حیاة الامام موسى بن جعفر / 2 / ص 413 - فرق الشیعة / حاشیه ص 97 به نقل از بحر الانساب (چاپ بمبئى) و سایر منابع۔
16- قیام سادات علوى / ص 168۔
17- جامع الانساب / ص 56 - قیام سادات علوى / ص 161 - حیاة الامام موسى بن جعفر / 2۔
18- قیام سادات علوى / ص 168۔
منبع: كتاب زندگى سیاسى هشتمین امام، ص 202 ، سید جعفر شهیدى ۔
19۔ اعلام الورى طبرسى: جلد 2، صفحہ 66 تا 68، عيون اءخبارالرّضا عليه السلام : جلد 2، صفحہ 263، حدیث 34، رجال كشّى : صفحہ 504، حدیث 970، بحار الانوار: جلد 49، صفحہ 239، حدیث 9 ۔
source : abna24