جو لوگ انتہا پسندانہ اقدامات بجا لاتے ہيں ايک معنوي قلب کے ذريعے اللہ کے ساتھ رشتہ جوڑنے کي صلاحيت کھو بيٹھے ہيں-
دين اور بالخصوص دين اسلام جس کے دائرے ميں محض ايک خارجي اور ظاہري ڈھانچہ نہيں ہے بلکہ اس کي داخلي اور باطني حقيقت بھي ہے- نظر تو يوں آ رہا ہے کہ آج کے اس زمانے ميں اکثر مبلغين خاص طور پر وہ مبلغين جو اہل سنت اور سلفيوں کي نمائندگي کرتے ہيں، اسلام کي ايک خارجي اور بيروني شکل بنائے ہوئے ہيں اور وہ دين خدا کي اندروني روح اور خالص حقيقت کا تعارف نہيں کراتے-
مثال کے طور پر دعا اور ذکر و مناجات در حقيقت خدا کے ساتھ تعلق اور اللہ کے حضور مشرف ہونے کے وسائل ہيں اور اس صورت ميں انسان کو مطيع و فرمانبردار مريد بننا پڑتا ہے- قرآن مقدس ميں ايسي کثير آيتيں ہيں جن کا تعلق انسان کے قلب و روح سے ہے- اگر خدا ادارہ کرے تو بعض لوگوں کے دلوں پرتالے ڈال ديتا ہے اور اگر ارادے کرے تو کئي ديگر انسانوں کے قلب و روح سے تالے کھول ديتا ہے ارشاد ہوتا ہے : (اے ميرے حبيب) ہم نے ان کے قلبوں پر پردے ڈال ديئے تا کہ وہ آپ کا کلام نہ سمجھيں اور ان کے کانوں ميں بھاري پن قرار ديا-
پس يہ اللہ کي لطف و رحمت کي علامت ہے- ہماري روح اور ہمارے دل کا تالا اللہ کي رحمت سے اٹھاليا گيا ہے-
source : tebyan