اسلام یقینی طور پر سعادتوں اور خوش بختیوں کا پیغام لے کر آیا ھے ۔ اسلام لوگوں کو بَلاؤںمیں گرفتار کرنے کے لئے ھرگز نھیں آیا ھے اور نہ اس لئے آیا ھے کہ لوگوں کو مشکلات کے پیچ و خم میں پھنسا دے ۔ زندگی کے کسی شعبے میں کمزوری کا پھلو نھیں لایا ھے ۔ انسانی خوش بختی میں بھت اھم رول ادا کرتا ھے اسلام نے انسان کی زندگی کو سعادت سے ھمکنار کرنے میں معمولی فروگذاشت بھی نھیں برتی ھے اور اپنی انھیں گونا گوں خصوصیات کی بنا پر کامل ترین مذھب ھے ۔
اسلام اپنے اندر اتنی صلاحیت رکھتا ھے کہ موجودہ دور کی جملہ ضرورتوں کا مثبت جواب دے سکے ۔ شادی بیاہ و تشکیل خانوادے سے متعلق قوانین، اسلام کے ان عظیم قوانین میں داخل ھیں جس کا جواب دنیا کا کوئی مذھب نھیں پیش کر سکا ، کلیسا کا رویہ شادی بیاہ کے مسئلے میں اسلام کے بالکل خلاف ھے ۔ اسلام جس قدر تشکیل خانوادے کو اھمیت دیتا ھے کلیسا ضرورت سے زیادہ سختی کر کے تشکیل خانوادے کو روکتا ھے ۔ سابق عیسائیوں کی نظر میں تجرد ایک پسندیدہ اور شادی ایک نا پسند یدہ فعل تھا ۔ دنیائے عیسائیت کے موجودہ رھبر بھی سابق لوگوں کی پیروی کر رھے ھیں۔شھر ویٹیکن میں کچھ دنوں پھلے جو عظیم کانفرنس منعقد کی گئی تھی اس میں یہ مسئلہ بھی اٹھایا گیا اور طولانی بحث و مباحثہ و تبادل نظریات کے بعد مندرجہ ذیل نظریئے کو قبول کیا گیا :
شادی بیاہ پھلے ھی کی طرح نا پسندیدہ فعل ھے اور کلیسا اس سلسلے میں کسی قسم کے در گذر کا قائل نھیں ھے ۔ ! یہ بات بدیھی ھے کہ جب فطرت کے تقاضوں کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کی جائیں گی اور اس فطری مطالبہ کا صحیح جواب نہ دیا جائے گا تو جنسی بے راہ روی کا ھونا ناگزیر ھوجائے گا ۔ عیسائیت کا یھی غلط نظریہ دنیائے عیسائیت میں بھت سے مفاسد اور جنسی بے راہ روی کا سبب بنا ھے کیونکہ عیسائیت کا آئیڈیا زندگی پر کسی قیمت پرمنطبق نھیں ھوتا اور یہ نا قابل برداشت نظریہ جو لوگوں پر جبراً ٹھونسا جا رھا ھے بھتوں کے بس سے باھر ھے ۔ اسی لئے بھت سے عیسائی، پنجرے سے بھاگنے والے پرندوں کی طرح عیسائیت کی ” شھوت کشی “ سے بھاگ کر بغیر سوچے سمجھے بے لگام شھوت کے راستے پر لگ جاتے ھیں اور اپنی آزادی کو ثابت کرنے کے لئے ھر چیز کو روند تے چلے جاتے ھیں ۔ اسلام کا لوگوں کو ابتدائے بلوغ سے ھی شادی کی تشویق دلانا در حقیقت اس جنسی قوت سے استفادہ کرنے کی دلیل ھے لیکن اسی کے ساتھ اسلام حیوانوں کی طرح اس قوت سے لطف اندوز ھونے کو منع کرتا ھے اور ایسے طریقے پر آمادہ کرتا ھے جو انسان کے لائق و سزاوار ھو چونکہ بال بچوں سے محبت کرنا انسانی فطرت کا تقاضا ھے اور انسانی فطرت کے اندر جنسی قوت کا وجود بھی ایک واقعی چیز ھے لھذا اسلام اس کا اعتراف کرتا ھے اور اس قوت سے اخلاقی وقانونی حدود میں رھتے ھوئے بھر پور لطف اندوز ھونے کی اجازت دیتا ھے اور لوگوں کے لئے شادی بیاہ کو زینت تصور رکرتا ھے ۔اسلام میں جنسی خواھش کی بنیاد پربیویوں کو دوست رکھنا اور اولاد سے محبت کرنا انسانوں کے لئے باعث زینت قرار دیا گیا ھے۔ “ (۱)
چودہ سو سال پھلے اجتماعی ضرورتوں کی بنا ء پر آج کی موجودہ عالمگیر فحاشی و بد کاری کے خاتمے کے لئے اسلام نے نھایت ھی آسان و سادہ شرائط کے ساتھ متعہ کا قانون بنایا تھا اور اس طرح مفاسد کا خاتمہ کر کے بشریت کو فلاح و بھبود کی طرف دعوت دی تھی ۔
اسلام سے پھلے زمانھٴ جاھلیت میں دیگر نا شائستہ افعال کی طرح فحاشی اور نا مشروع جنسی روابط بھی ایک عام چیز تھی ، کھلے عام فحاشی کے اڈے بنائے گئے تھے ۔پیغمبر اسلام نے اعمال و اخلاق و افکار کی اصلاح اور جنسی بے راہ روی کو روکنے کے لئے متعہ کا قانون بنایا اور اسی قانون کے زیر سایہ جنسی خواھش کو صحیح راستے پر لگایا ۔ رسول اسلام کی طرف سے ایک منادی کوچہ و بازار میں اعلان کر رھا تھا ، لوگو رسول خدا نے تمھارے لئے متعہ کو جائز قرار دیا ھے ۔ جنسی پیاس بجھانے کے لئے صحیح طریقوں کا استعمال کرو ، بد کاری و جنسی راہ روی کو چھوڑ دو ۔(۲)
اس قانون کی بناء پر مرد و عورت نکاح دائمی کے بوجہ سے بچتے ھوئے محدود وقت کے لئے متعہ کر سکتے ھیں اور مدت کے ختم ھونے تک زوجیت کی رعایت کی جائے گی ۔
متعہ میں نہ تو توارث ھے اور نہ مرد، عورت کی خوراک ، پوشاک ،گھر کا ذمہ دار ھے لیکن حفاظت نفس کی خاطر نکاح دائمی کے جو اصول ھیں وہ سب متعہ پر لاگو ھیں ۔ متاعی عورت واقعاً مرد کی بیوی ھے اور زوجیت کے سارے احکام اس پر نافذ ھیں ۔ قرآن کھتا ھے : جن عورتوں سے متعہ کرو ان کا مھر ادا کرو ۔ (۳)
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ اگر متعہ میں مدت معین نہ کی جائے تو وہ نکاح دائمی شمار ھو جائے گا جو ھمیشہ باقی رھے گا اور اس کو ختم کرنے کےلئے طلاق جیسی چیزوں کا سھارا لینا پڑے گا لیکن چونکہ اس کی مدت معین ھوتی ھے اس لئے اس کو متعہ کھا جاتا ھے ۔ نکاح و متعہ سے ھونے والی بیوی میں کوئی اصولی فرق نھیں ھے ۔ صرف اتنا فرق ھے کہ متعہ محدود وقت کے لئے ھوتا ھے اور نکاح غیر محدود وقت کے لئے ھوتا ھے ۔ اسی طرح نکاحی اور متاعی اولاد میں بھی کوئی فرق نھیں ھے ۔ نکاحی بچے کو جتنی قانونی ، شرعی رعایتیں حاصل ھیں وہ سب متاعی بچے کو بھی حاصل ھیں ۔
بد کاری کے عام ھونے کی ایک وجہ یہ بھی ھے کہ کچھ لوگ نکاح نھیں کر سکتے کیونکہ شادی کی ذمہ داریاں خصوصاً مالی پریشانی اورکمر توڑ خرچ ھر شخص کو تشکیل خانوادے کی اجازت نھیں دیتا اور یہ مسئلہ ھمیشہ سے رھا ھے ۔
اسی طرح تجارت ، دفاعی و نظامی مقاصد ، تحصیل علم ، تفریح اور اسی قسم کی مختلف چیزوں کی انجام دھی کے لئے انسان کو مسافرت کرنی پڑتی ھے اور وطن سے دور رھنا پڑتا ھے اور یہ چیز بھی یعنی سفر، زندگی کی ضروریات میں داخل ھے ۔ اب حالت سفر میں نکاح دائمی یا بال بچوں کو ھر موقع پر ساتھ لئے رھنا مسافرت اور اکثر مقامات پر شخصاً بھت ھی دشوار بلکہ نا ممکن ھے۔ ایسے موقع پرمتعہ کے علاوہ کوئی بھی حل نھیں ھے ۔ اس بات کو پیش نظر رکہ کر دیکھئے کہ عموماًطولانی سفر کرنے والے نوجوان افراد ھوتے ھیں جو بھر پور جوانی سے مالا مال ھیں اور جنسی خواھش ان کے یھاں عروج پر ھوتی ھے تو ایسی صورت میں متعہ کے علاوہ اس مسئلے کا کوئی اور حل ھے ؟
اسی لئے اگر نظم و ضبط کے ساتھ یہ اصلاحی و مترقی قانون عمل میں لایا جائے اور صحیح طریقے سے اس کو استعمال کیا جائے تو انحرافات اجتماعی اور فحشاء و مفاسد کے خلاف بھترین ھتھیار ھے ۔ اور اس طرح فساد و جسم فروشی کو روکا جا سکتا ھے، عمومی اخلاق بھتر ھو سکتے ھیں اور بھت سی عورتیں جن کا دامن آلودہ ھے نجات پا سکتی ھیں ۔
یھاں صحیح طریقے سے استعمال کی شرط اس لئے لگائی گئی ھے کہ کچھ نادان و آزاد لوگ اس قانون سے غلط فائدے حاصل کرنے لگے ھیں اور پھر مخالفین و کوتاہ نظروں کی اس مسئلے کے خلاف بے بنیاد قسم کی تبلیغات نے مسئلے کی صورت ھی بدل دی ھے اور حقیقت کے بالکل بر خلاف اس کا تعارف کرایا ھے ، اگر متعہ کو ( جو ایک پاکیزہ شادی ھے ) گناہ کی اھمیت نہ سمجھنے والوں کے لئے استعمال کیا جائے تو صورت حال بالکل بدل سکتی ھے اور پھر قطعی طور پر جسم فروشی و بد کاری کو روکا جا سکتا ھے ۔
صرف متعہ ھی کے لئے یہ بات نھیں ھے کہ لوگ اس کا غلط استعمال کرتے ھیں بلکہ لوگ تو ھر چیز کو غلط استعمال کر سکتے ھیں ۔ ان باتوں کے لئے تھذیب روح اور لوگوں میں اخلاقی بلندی پیدا کرنے کی ضرورت ھے اور اسلام نے لوگوں کے اخلاقی فضائل کی طرف بھت زیادہ توجہ دی ھے ۔
ھر قانون کی خلاف ورزی کرنے پر کچھ نہ کچھ تادیب ھوتی ھے اس لئے قانون متعہ کے خلاف ورزی پر بھی تادیب ھونی چاھئے اور واقعی بات یہ ھے کہ بغیر تادیب کے متعہ کا فائدہ بھی حاصل نہ ھو سکے گا چونکہ یہ قانون اجتماع کے فائدے کے لئے ھے اس لئے مخالفت کی صورت میں حکومت کو دخل دینا چاھئے اور سر کشوں کو صحیح راستے کی طرف لگانا چاھئے تاکہ فردی و اجتماعی مصالح محفوظ رہ سکیں امام پنجم ﷼ نے حضرت علی ﷼ سے نقل فرمایا ھے : اگر خلیفہ دوم متعہ کو حرام نہ کرتے تو کمینہ و پست فطرت افراد کے علاوہ کوئی بھی شخص زنا کا ارتکاب نہ کرتا ۔ (۴)
علماء و دانش مندان سنی و شیعہ نے حضرت عمر ۻ کا جو قول نقل کیا ھے اس میں غور کرنے سے پتہ چلتا ھے کہ متعہ یقینی طور پر رسول خدا کے زمانے میں رائج تھا لیکن عمر نے نہ معلوم اسباب کی بناء پر اپنے دور خلافت میں یہ کھہ کر حرام قرار دے دیا :دو متعہ جو رسول خدا کے زمانے میں رائج و مرسوم تھے ، میں ان دونوں کو روکتا ھوں اور حرام کرتا ھوں جو بھی یہ کام کرے گا اس کو سزا دوں گا اوروہ دونوں متعہ ایک تو متعہ حج ھے اور دوسرا متعہ زنان ھے ۔ اس عبارت سے واضح ھے کہ عمر نے اپنی شخصی رائے سے متعہ کو حرام قرار دیا ۔ حالا نکہ بھت سے اصحاب پیغمبر نے عمر کی بات پر کوئی اعتنا نھیں کی اور برابر متعہ کو جائز و حلال سمجھتے رھے ۔ (۵)
آج کی دنیا میں ھر طرف فتنہ اور آزادروی ھے اور عصمت و عفت کے خلاف رسالے ، روزنامے ، شھوت کو ابھارنے والی فلمیں ، سنیما ، اور غلط قسم کی باتوں کو نشر کرنے والے ریڈیو ، ٹیلی ویژن ، عورتوں کی نیم عریانی ، یہ ایسی چیز یں ھیں جو جوانوں کے اخلاق کو خراب کرنے والی ھیں ۔ پاک دامن جوان ایک بندگلی میں پھنسے ھیں اسلامی قوانین سے نا واقف لوگ جو متعہ کے بارے میں غلط افواھیں پھیلاتے رھتے ھیں اور نا معقول قسم کا شور و غل کرتے رھتے ھیں اس مشکل کا کیا حل پیش کریں گے۔؟
کیا سارے جوان اپنے نفس پر کنٹرول کر لیں گے ؟ اور جوانی کی بد مستیوں کے سامنے سینہ سپر ھو سکیں گے ؟ نفس امارہ کو عقل کا تابع بنا سکیں گے ؟ چلئے تھوڑی دیر کے لئے ھم مان لیتے ھیں کہ سارے جوان اپنے نفس کو قابو میں کر لیں گے لیکن کیا اس سے مقصد خلقت فوت نہ ھو جائے گا ؟ کیونکہ نسل انسانی میں قلت پیدا ھوجائے گی نطفہ ھائے حیاتی بیکار ھو جائیں گے اور یہ سب روح اسلام کے منافی ھے کیونکہ قرآن مقدس نے اعلان کر دیا ھے : خدا وند عالم نے دین اسلام میں دشوار اور نا قابل برداشت بوجہ تمھارے کندھوں پر نھیںڈالا ھے ۔ (۶)
اب یہ سوال اٹھتا ھے کہ متعہ کو ختم کر کے کیا تمام بد اخلاقیوں کی اجازت دے دی جائے ؟ اور ان مفاسد و بد بختیوں کو جو آج پورے معاشرے میں سرایت کر چکی ھیں اپنی تمام بے شرمیوں کے ساتھ رائج و عام کر دیا جائے ؟ تاکہ بشریت دریائے شھوت میں ڈوب جائے اور ایک عام ھرج و مرج پیدا ھو جائے ؟ قرآن کھتا ھے : کیا اچھی چیزوں کو چھوڑ کر بری باتوں کو اختیار کرو گے ۔(۷)
یا پھر متعہ کے قانون کو رائج کر کے کروڑوں مطلقہ ،بن بیاھی اوربیوہ عورتوں کو ، جو پریشانی و عسرت کی زندگی بسر کر رھی ھیں ،نجات دی جائے تاکہ ان کی زندگی کی گاڑی پھر راستے پر لگ جائے ۔
چلئے ھم مانے لیتے ھیں کہ یہ عورتیں اپنی عسر ت و تنگ دستی کا علاج کر سکتی ھیں لیکن کیا یہ اپنے باطنی احساسات اور روحانی جذبوں کی بھی تکمیل کر لیں گی ؟ اور کیا مردوں کی طرف فطری میلان اور علاقہ و وابستگی کا صحیح جواب دیا جا سکتا ھے ؟ اگر فطری احساسات ، جنسی شھوت کا صحیح تدارک نہ کیا گیا تو بھت ممکن ھے اس کی وجہ سے عورتیں تباھی و بر د باری اور آلودگی کے راستے پر لگ جائیں ۔
آج مغربی ممالک میں عورتوں اور مردوں کے درمیان متعہ کی جگہ عملی طور پر نا جائز ”جنسی تعلقات “ نے لے رکھی ھے اور مغربی مفکرین اس وضع نکبت بار کے لئے ایک قانون کی ضرورت کا احساس کر رھے ھیں اور جواز متعہ کو معاشرے کے لئے ایک ضروری چیز سمجھنے لگے ھیں ۔
انگریز فلسفی برٹر انڈر اسل ( BERTRAND RUSSELL ) لکھتا ھے : آج کی دنیا میں اجتماعی و اقتصادی مشکلات اور ضرورتوں نے ھمارے جوانوں کی شادی میں تاخیر پیدا کر دی ھے کیونکہ سودو سو سال پھلے ایک طالب علم اٹھارہ بیس سال کی عمر میں اپنی تعلیم مکمل کر کے عین عنفوان شباب میں شادی کے لئے تیار ھو جاتا تھا ۔ بھت ایسے لوگ تھے جو تیس چالیس سال محنت کر کے کسی فن میں اکسپرٹ ھو کر شادی کرتے تھے لیکن آج کل بیس سال کے بعد ( اگر اکسپرٹ ھو بھی گئے ) تحصیل معاش کے چکر میں کافی وقت گزر جاتا ھے پھر شادی کی نوبت آتی ھے عموما ً۳۵ سال سے پھلے شادی بیاہ کی نوبت نھیں آتی ، اسی لئے آج کل کے نوجوان تعلیم سے فراغت پانے کے بعد اور شادی کرنے کے وقت تک زندگی کا حصہ جو بھت ھی اھم ھوتا ھے مجبوراً جس طرح بھی ممکن ھو گزارتے ھیں ۔زندگی کے اس حصے سے کسی بھی قیمت پر چشم پوشی نھیں کی جا سکتی ، اگر ھم اس کے لئے کوئی فکر نہ کریں گے تو نسل ، اخلاق ، معاشرتی اصول سب میں فساد پیدا ھو جائے گا اسی لئے کچھ کرنا چاھئے مگر کیا کریں ؟ اس مشکل کا حل صرف یہ ھے کہ عمر کے اس حساس حصے کے لئے موقت شادی ( متعہ ) (لڑکیوں اور لڑکوں کےلئے )کو قانوناً تسلیم کیا جائے جو عائلی زندگی اورنکاح دائم کے مشکلات کی زیر باری سے محفوظ ھو اورنہ صرف مختلف غلط اعمال اور نامشروع افعال اورگناہ سے محفوظ رکھے بلکہ بھت سی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھے۔
امریکہ یونیورسٹی کے استاد ویلیان وان لوم (VELYAN WAON LOME) تحریر کرتے ھیں کہ تجربے نے یہ بات ثابت کر دی ھے کہ نکاح کی عمر گزر جانے کے بعد مرد تازگی نشاط آور کی طرف مائل نھیںھوتے اسی لئے جنسی انحرافات کی طرف مائل ھو جاتے ھیں ۔
چنانچہ اعداد و شمار بتاتے ھیں ۳ سے ۶۵ فیصد شادی شدہ مرد اپنی بیویوں سے خیانت کرتے ھیں۔ ( یہ بات مغربی ممالک کے لئے ھے )
اس جنسی بے راہ روی کو ختم کرنے کے لئے اور نکاح کے مصارف کو سبک و ھلکا کرنے کے لئے مخصوص شرائط کے ساتھ جس مدت تک میاں بیوی تیار ھوں ،قانوناً بھی متعہ جائز ھوناچاھئے ۔(۸)
حوالے :
(۱)سورہ آل عمران آیت /۱۲
(۲)وسائل ابواب متعھ
(۳) سورہ نساء /آیت ۲۸
(۴)وسائل ابواب متعھ
(۵)مزید تفصیل کے لئے اھل سنت کی کتب تفسیر ،فقہ ، حدیث کا مطالعہ فرمائیے
(۶) سورہ حج آیت ۷۸
(۷)سورہ بقرہ آیت /۶۱
(۸)بھداشت ازدواج از نظر اسلام ص
source : alhassanain