قافلہ بشریت نے ہر زمانے میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ مظلوم کے سر کو تن سے جد ا کر دینے کے بعد بھی ارباب ظلم کو چین نہیں ملتا بلکہ انکا سارا ہم و غم یہ ہوتا ہے کہ دنیا سے مظلوم اور مظلومیت کا تذکرہ بھی ختم ہو جائے ، اس سعی میں کبھی ورثا ء کو ظلم کا نشانہ بنا یا جاتا ہے تو کبھی مظلومیت کا چرچہ کرنے والو ں کی مشکیں کسی جاتی ہیں مگر اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آخری چارہ کار کے طور پر مظلوم کی نشانی یعنی تعویذ قبر کو بھی مٹا دیا جاتا ہے ، تاکہ نہ علامت باقی رہیگی اور نہ ہی زمانہ ، ظلم و ستم کو یاد کرے گا ّ۔یہ سلسلہ روز ازل سے جاری و ساری ہے ؛مگر جس کر و فر سے اس ظالمانہ روش کو اختیار کیا گیا اسی شدت سے مظلومیت میں نکھار پیدا ہوتا گیا اور پھر سلسلہ مظالم کی یہ آخری کڑی ہی ظالم کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوئی جس کے بعد ظلم و ظالم دونوں ہی فنا ہو گئے ، اس کی جیتی جاگتی مثال کرب و بلا ہے جہاں متعدد د فعہ سلاطین جور نے سید الشھداء حضرت امام حسین کے مزار کو مسمار کرنا چاہا مگر آج بھی اس عظیم بارگاہ کی رفعت باقی ہے جبکہ اس سیاہ کاری کے ذمہ داروں کا نام تک صفحہ ہستی سے پوری طرح مٹ چکا ہے ۔
لیکن افسوس !گذ شتہ صدی میں ٤٤ ہجری ق ٨ شوال المکرم کو آل سعو دنے بنی امیہ و بنی عباس کے قدم سے قدم ملا تے ہوے خاندان نبوت و عصمت کے لعل و گہر کی قبروں کو ویران کرکے، اپنے اس عناد و کینہ کا ثبوت دیا جو صدیوں سے ان کے سینوں میں پنہاں تھا ۔آج آل محمد کی قبریں بے سقف و دیوار ہیں جبکہ ان کے صدقے میں ملنے والی نعمتوں سے یہ یہودی نما سعودی اپنے محلوں میں مزے اڑا رہے ہیں اس چوری کے بعد سینہ زوری کا یہ عالم ہے کہ چند ضمیر و قلم فروش مفتی اپنے بے بنیاد فتووں کی اساس ان جعلی روایات کو قرار دیتے ہیں جو بنی امیہ اور شام کے ٹکسال میں بنی ، بکی اور خریدی گئی ہیں ''حسبنا کتاب اللہ '' کی دعویدار قوم آج قرآن کے صریحی احکا م کو چھوڑ کر اپنی کالی کرتوتوں کا جواز ، نقلی حدیثوں کی آغوش میں تلاش کر رہی ہے ۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ان مقدس مزاروں کو مسمار کر دینے کے بعد اب اس مملکت سے چھپنے والی کتابوں میں ،بقیع میں دفن ان بزرگان اسلام کے نام کا بھی ذکر نہیں ہوتا ہے ، مبادا کوئی یہ نہ پوچھ لے کہ پھر ان کے روضے کہا ں گئے ؟
چنانچہ سعودی عرب کے وزارت اسلامی: امور اوقاف و دعوت و ارشاد کی جانب سے حجاج کرام کے لئے چھپنے اور ان کے درمیان مفت تقسیم ہونے والے کتابچہ ''رہنمائے حج و عمرہ و زیارات مسجد نبوی ''(مصنف :متعدد علماء کرام ، اردو ترجمہ شیخ محمد لقمان سلفی ١٤١٩ ھ )کی عبارت ملاحظہ ہو :
''اہل بقیع : حضرت عثمان ، شہدائے احد اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنھم کی قبروں کی زیارت بھی مسنون ہے...مدینہ منورہ میں کوئی دوسری جگہ یا مسجد نہیں ہے کہ جس کی زیارت مشروع ہو اس لئے اپنے آپ کو تکلیف مین نہ ڈالو اور نہ ہی کوئی ایسا کام کرو جس کا کوئی اجر نہ ملے بلکہ الٹا گناہ کا خطرہ ہے ''(١)
یعنی اس کتا ب کے لکھنے والے ''علماء '' کی نگاہ میں بقیع میں جناب عثمان، شہداء احد اور حضرت حمزہ کی قبروں کے علاوہ کوئی اور زیارت گاہ نہیں ہے جبکہ تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والا ایک معمولی سا طالب علم بھی یہ بات بخوبی جابتا ہے کہ اس قبرستان میں آسمان علم و عرفان کے ایسے آفتاب و ماہتاب دفن ہیں،جنکی ضیا ء سے آج تک کائنات منور و ضوفشاںہے ۔
اب ایسے وقت میں جبکہ وہابی میڈیا یہ کوشش کر رہی ہے کہ جنت البقیع میں مدفون،بزرگانِ اسلام کے نام کو بھی مٹا دیا جائے ، ضروری ہے کہ تمام مسلمانوں کی خدمت میں مظلوموں کا تذکرہ کیا جائے تاکہ دشمن اپنی سازش میں کامیاب نہ ہو نے پائے نیز یہ بھی واضح ہو جائے کہ اسلام کی وہ کون سی مایۂ ناز و افتخار ہستیاں ہیں جن کے مزارکو وہابیوں کی کم عقلی و کج روی نے ویران کردیا ہے لیکن اس گفتگو سے قبل ایک بات قابل ذکر ہے کہ یہ قبرستان پہلے ایک باغ تھا ۔عربی زبان میں اس جگہ کا نام ''البقیع الغرقد '' ہے بقیع یعنی مختلف درختوں کا باغ اور غرقد ایک مخصوص قسم کے درخت کا نام ہے چونکہ اس باغ میں ایسے درخت زیادہ تھے اس وجہ سے اسے بقیع غرقد کہتے تھے اس باغ میںچاروں طرف لوگوں کے گھر تھے جن میں سے ایک گھر جناب ابو طالب کے فرزند جناب عقیل کا بھی تھا جسے ''دارعقیل '' کہتے تھے بعد میں جب لوگوں نے اپنے مرحومین کو اس باغ میں اپنے گھروں کے اندر دفن کرنا شروع کیا تو ''دار عقیل '' پیغمبر اسلام (ص) کے خاندان کا قبرستان بنا اور ''مقبرہ بنی ہاشم '' کہلایا رفتہ رفتہ پورے باغ سے درخت کٹتے گئے اور قبرستان بنتا گیا ۔
مقبرہ ٔبنی ہاشم ، جو ایک شخصی ملکیت ہے ، اسی میں ائمہ اطہار کے مزارتھے جن کو وہابیوں نے منہدم کردیا ہے (٢)
افسوس تو اس وقت ہوتا ہے جب اس تاریخی حقیقت کے مقابلے میں انہدام بقیع کے بعد سعودی عرب سے چھپنے والے رسالہ ''ام القری '' (شمارہ جمادی الثانیہ ١٣٤٥ ھ ) میں اس ظالم فرقہ کے مفتی و قاضی '' ابن بلیہد ''کا یہ بیا ن نظروں سے گزرتا ہے کہ ''بقیع موقوفہ ہے اور قبروں پر بنی ہوئی عمارتیں قبرستان کی زمین سے استفادہ کرنے سے روکتی ہیں ''
نہ جانے کس شریعت نے صاحبان ملکیت کی زمین میں بیجا دخالت اور اسے موقوفہ قراردینے کا حق اس زرخرید مفتی کودے دیا ؟
اس مقدس قبرستان میں دفن ہونے والے عمائد اسلام کے تذکرے سے قبل یہ بتا دینا ضروری ہے کہ بقیع کا احترام ، فریقین کے نزدیک ثابت ہے اور تمام کلمہ گویان اس کا احترام کرتے ہیں اس سلسلے میں فقط ایک روایت کافی ہے '' ام قیس بنت محصن کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں پیغمبر (ص) کے ہمراہ بقیع پہونچی تو آپ (ص) نے فرمایا : اس قبرستان سے ستر ہزار افراد محشور ہوں گے جو حساب و کتاب کے بغیر جنت میں جائیں گے ، نیز ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی مانند دمک رہے ہوں گے'' (٣)
ایسے با فضیلت قبرستان میں عالم اسلام کی ایسی عظیم الشان شخصیتیں آرام کر رہی ہیں جن کی عظمت و منزلت کو تمام مسلمان ،متفقہ طور پر قبول کرتے ہیں ۔
آیئے دیکھیں کہ وہ شخصیتیں کون ہیں :
(١)امام حسن مجتبی ٰ :
آپ پیغمبر اکرم (ص) کے نواسے اور حضرات علی و فاطمہ کے بڑے صاحب زادے ہیں ۔منصب امامت کے اعتبار سے دوسرے امام اور عصمت کے لحاظ سے چوتھے معصوم ہیں آپ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسین نے آپ کو پیغمبراسلام (ص) کے پہلو میں دفن کرنا چاہا مگر جب ایک سرکش گروہ نے راستہ روکا اور تیربرسائے تو امام حسین نے آپ کو بقیع میں دادی کی قبر کے پاس دفن کیا ۔ اس سلسلہ میں ابن عبد البر سے روایت ہے کہ جب یہ خبر ابو ہریرہ کو ملی تو کہا : والله ما ھو الا ظلم ، يمنع الحسن ان يد فن مع ابيه ؟والله انه لابن رسول الله (ص) ( خدا کی قسم یہ سرا سر ظلم ہے کہ حسن کو باپ کے پہلو مین دفن ہونے سے روکا گیا جب کہ خداکی قسم وہ رسالت مآب صلعم کے فرزند تھے )(٤)۔آپ کی مزار کے سلسلہ میں ساتویں ہجری قمری کا سیاح ابن بطوطہ اپنے سفرنامہ میں لکھتا ہے کہ :بقیع میں رسول اسلام (ص) کے چچا عباس ابن عبد المطلب اور ابوطالب کے پوتے حسن بن علی کی قبریں ہیں جن کے اوپر سونے کا قبہ ہے جو بقیع کے باہر ہی سے دکھائی دیتا ہے ۔۔۔دونوں کی قبریں زمین سے بلند ہیں اور نقش و نگار سے مزین ہیں ۔(٥)ایک اور سنی سیاح رفعت پاشا بھی نا قل ہے کہ : عباس اور حسن کی قبریں ایک ہی قبہ میں ہیں اور یہ بقیع کا سب سے بلند قبہ ہے (٦)بتنونی نے لکھا ہے کہ : امام حسن کی ضریح چاندی کی ہے اور اس پر فارسی میںنقوش ہیں (٧)
مگر آج آل سعود کی کج فکری کے نتیجے میں یہ عظیم بارگاہ اور بلند و بالا قبہ منہدم کردیا گیا ہے اور اس امام ہمام کی قبر مطہر زیر آسمان ہے۔
٢)حضرت امام زین العابدین سجاد :
آ پ کا نام علی ہے اور امام حسین کے بیٹے نیز عالم تشیع کے چوتھے امام ہیں ۔ آپ کی ولادت ٣٨ ھ میںہوئی آپ کے زمانے کا مشہور سنی محدث و فقیہ محمد بن مسلم زہری آپ کے بارے میں کہتا ہے کہ :ما رايت قرشيا اورع منه ولا افضل(٨) (میں نے قریش میں سے کسی کو آپ سے بڑھکر پرہیزگار اور بلند مرتبہ نہیں دیکھا )یہی نہیں بلکہ کہتا ہے کہ : ما رايت افقه منه(٩) ، نیز یہ کہتا ہے کہ : علی ابن الحسين اعظم الناس علیّ منة (١٠)(دنیا میں سب سے زیادہ میری گردن پر جس کا حق ہے وہ علی بن حسین کی ذات ہے )۔آپ کی شہادت ٤ ٩ ھ میں ٢٥ محرم الحرام کو ہوئی اور بقیع میں چچا امام حسن کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔رفعت پاشا نے اپنے سفر نامے میں ذکر کیا ہے کہ امام حسن کے پہلو میں ایک اور قبر ہے جو امام سجاد کی ہے جس کے اوپر قبہ ہے ۔ مگر افسوس ١٣٤٤ھ میں تعصب کی آندھی نے غربا ء کے اس آشیانے کو بھی نہ چھوڑا اور آج اس عظیم امام اور اسوہ اخلاق کی قبر ویران ہے ۔
(٣)حضرت امام محمد باقر :
آپ رسالت مآب ۖکے پانچویں جانشین و وصی اور امام سجاد کے بیٹے ہیں نیز امام حسن کے نواسے اور امام حسین کے پوتے ہیں ۔ ٥٦ ھ میں ولادت اور ١١٤ میں شہادت ہوئی ۔ واقعہ کربلا میں آپ کا سن مبارک چار سال تھا ، ابن حجرھیثمی (الصواعق المحرقہ کے مصنف ) کا بیا ن ہے کہ : امام محمد باقر سے علم و معار ف ، حقائق احکام ، حکمت اور لطائف کے ایسے چشمے پھوٹے جن کا انکا ر بے بصیرت یا بد سیرت و بے بہرہ انسان ہی کر سکتا ہے ۔اسی وجہ سے یہ کہا گیا ہے کہ آپ علم کو شگافتہ کرکے اسے جمع کرنے والے ہیں یہی نہیں بلکہ آپ ہی پرچم علم کے آشکار و بلند کرنے والے ہیں ۔(١١) اسی طرح عبد اللہ ابن عطاء کا بیان ہے کہ میں نے علم و فقہ کے مشہور عالم حکم بن عتبہ (سنی عالم دین ) کو امام محمد باقر کے سامنے اس طرح زانوئے ادب تہ کر کے آپ سے علمی استفادہ کرتے ہوئے دیکھا جیسے کوئی بچہ کسی بہت عظیم استاد کے سامنے بیٹھا ہو ۔(١٢)
آپ کی عظمت کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت رسول اکرم ۖنے جناب جابر بن عبد اللہ انصاری جیسے جلیل القدر صحابی سے فرمایا تھا کہ : فان ادرکتہ یا جا بر فا قرأ ہ منی السلام (١٣) (ائے جابر اگر باقر سے ملاقات ہو تو میری طرف سے سلام کہنا) اسی وجہ سے جناب جابر آپ کی دست بوسی میں افتخار محسوس کرتے تھے اور اکثر و بیشتر مسجد النبوی میں بیٹھ کر رسالت پناہ ۖ کی طرف سے سلام پہونچانے کی فرمایش کا تذکرتے تھے (١٤)
عالم اسلام بتا ئے کہ ایسی عظیم شخصیت کی قبر کو ویران کرکے آل سعود نے کیا کسی ایک فرقہ کی دل شکنی کی ہے یاتمام مسلمانوں کو تکلیف پہونچائی ہے؟
٤)حضرت امام جعفر صادق :
آپ امام محمد باقر کے فرزند ارجمند اور شیعوں کے چھٹے امام ہیں ۔ ٨٣ھ میں ولادت اور ١٤٨ میں شہادت ہوئی آپ کے سلسلہ میں حنفی فرقہ کے پیشوا مام ابو حنیفہ کا بیان ہے کہ ''میں نے نہیں دیکھا کہ کسی کے پاس امام جعفر صادق سے زیادہ علم ہو ''(١٥)اسی طرح مالکی فرقہ کے امام مالک کہتے ہیں : کسی کو علم و عبادت و تقوی ٰ میں امام جعفر صادق سے بڑھ کر نہ تو کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی کے ذ ہن میں یہ بات آسکتی ہے ۔(١٦) نیزآٹھویں قرن میں لکھی جانے والی کتاب ''الصواعق المحرقة ''کے مصنف نے لکھا ہے کہ : (امام )صادق سے اس قدر علوم صادر ہوئے کہ لوگوں کے زبان زد ہو گیا تھا یہی نہیں بلکہ بقیہ فرقوں کے پیشوا جیسے یحییٰ بن سعید ، مالک، سفیان ثوری ، ابو حنیفہ ...وغیرہ آپ سے نقل روایت کرتے تھے (١٧)مشہور مورخ ابن خلکان رقمطراز ہیکہ ''وکان تلمیذ ہ ابو موسیٰ جابر بن حیان ''(١٨)(مشور زمانہ شخصیت اورعلم الجبرا کے موجد جابر بن حیان آپ کے شاگرد تھے )
مسلمانوںکی اس عظیم ہستی کے مزار پر ایک عظیم الشان روضہ وقبہ تھا مگر افسوس ایک عقل و خرد سے عاری گروہ کی سر کشی کے نتیجہ میں اس وارث پیغمبر ۖ کی لحد آج ویران ہے ۔
(٥) جناب فاطمہ بنت اسد :
آپ حضرت علی کی ماں ہیں اور آپ ہی نے رسالت پناہ صلعم کی والدہ کے انتقال کے بعدآنحضرت ۖ کی پرورش فرمائی تھی آنحضرت ۖ کو آپ سے بیحد انسیت و محبت تھی اور اپ بھی اپنی اولاد سے زیادہ رسالت مآب کا خیال رکھتی تھیں ۔ہجرت کے وقت حضرت علی کے ہمراہ مکہ تشریف لائیں اور آخر عمر تک وہیں رہیں۔آپ کے انتقال پررسالت مآب ۖ کو بہت زیادہ صدمہ ہوا تھا اور آپ نے کفن کے لئے اپنا کرتا عنایت فرمایا تھا نیز دفن سے قبل چند لمحوں کے لئے قبر میں لیٹے تھے اور قرآن کی تلاوت فرمائی تھی ، نماز میت پڑھنے کے بعد آپ نے فرمایا تھا :کسی بھی انسان کو فشار قبر سے نجات نہیں ہے سوائے فاطمہ بنت اسد کے ۔نیز آپ نے قبر دیکھ کر فرمایا تھا ''جزاک الله من ام و ربيبة خير ا ، فنعم الام و نعم الربيبة کنت لی''(١٩)
آپ کا رسول مقبول (ص) نے اتنا احترام فرمایا مگر آنحضرت (ص) کی امت نے آپ کی تو ہین میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ، یہاں تک کہ آپ کی قبر بھی ویران کر دی ۔جس قبر میں رسول (ص)نے لیٹ کر آپ کو فشار قبر سے بچایا تھا اور قرآن کی تلاوت فرمائی تھی ، اس پر بلڈوزر چلا یا گیا اور تعویذ قبر کو بھی مٹا دیا گیا ۔
(٦)جناب عباس ابن عبد المطلب :
آپ رسول اسلام(ص) کے چچا اور مکہ کے شرفاء و بزرگان میں سے تھے ، آپ کا شمار حضرت پیغمبر(ص)کے مدافعان و حامیان ، نیز آپ (ص) کے بعد حضرت امیرالمومنین کے وفاداروں اور جاں نثاروں میں ہوتا ہے ۔عام الفیل سے تین سال قبل ولادت ہوئی اور ٣٣ ھ میں انتقال ہوا آپ عالم اسلام کی متفق فیہ شخصیت ہیں ۔ماضی کے سیاحوں نے آپ کے روضہ اور قبہ کا تذکرہ کیا ہے (٢٠)مگر افسوس آپ کے قبہ کو منہدم کر دیا گیا اور قبرویران ہو گئی۔
(٧) جناب عقیل ابن ابی طالب :
آپ حضرت علی کے بڑے بھا ئی تھے اورنبی کریم(ص) آپ کو بہت چاہتے تھے عرب کے مشہور نساب تھے اور آپ ہی نے حضرت امیر کا عقدجناب ام البنین سے کرایا تھا ۔ انتقال کے بعد آپ کو آپ کے گھر (دارعقیل ) میں دفن کیا گیا، انہدام سے قبل آپ کی قبر بھی سطح زمین سے بلند تھی مگر انہدام نے اب آپ کی قبر کا نشان مٹا دیا ہے (٢١)
(٨)جناب عبداللہ ابن جعفر :
آپ جناب جعفر طیار ذوالجناحین کے بڑے صاحبزادے اور امام علی کے داماد (جناب زینب سلام اللہ علیھا کے شوہر ) تھے آپ نے دو بیٹوں محمد اور عون کو کربلا اس لئے بھیجاتھاتا کہ امام حسین پر اپنی جان نثار کر سکیں آپ کا انتقال ٨٠ ھ میں ہوا اور بقیع میں چچا عقیل کے پہلو میں دفن کیا گیا ، ابن بطوطہ کے سفر نامہ میں آپ کی قبر کا ذکر ہے (٢٢)سنی عالم سمہودی نے لکھا ہے : چونکہ آپ بہت سخی تھے اس وجہ سے خدا وند کریم نے آ پ کی قبر کو لوگوں کی دعائیں قبول ہونے کی جگہ قرار دیا ھے(٢٣)مگر صد حیف ! آ ج جناب زینب (س) کے سہا گ کا نشان قبر بھی باقی نہیں ہے ۔
(٩)جناب ام البنین:
آپ حضرت علی کی زوجہ اور حضرت ابوالفضل عباس کی والدہ ہیں ، صاحب ''معالم مکہ والمدینہ'' کے مطابق آپ کا نام فاطمہ تھا مگر صرف اس وجہ سے آپ نے اپنا نام بدل دیا کہ مبادا حضرات حسن و حسین کو شہزادی کونین (س) نہ یاد آجائیں اور تکلیف پہونچے ۔(٢٤)آ پ ان دو شہزادوں سے بے پناہ محبت کرتی تھیں ۔واقعہ کربلامیںآپ کے چار بیٹوں نے امام حسین پر اپنی جان نثار کی ہے ۔انتقال کے بعد
آپکو بقیع میں رسالت مآب کی پھو پھیوں کے بغل میں دفن کیا گیا ، یہ قبر موجودہ قبرستان کی بائیں جانب والی دیوار سے متصل ہے اور زائریں یہاں کثیر تعداد میںآتے ہیں ۔
(١٠)جناب صفیہ بنت عبد المطلب :
رسول اسلام (ص) کی پھوپھی اور عوام بن خولد کی زوجہ تھیں ، آپ ایک باشہامت اور شجاع خاتون تھیں ایک جنگ میںجب بنی قریظہ کا ایک یہودی ، مسلمان خواتین کے تجسس میں،خیموں میں گھس آیا تو آپ نے حسان بن ثابت سے اس کو قتل کرنے کے لئے کہا مگر جب انکی ہمت نہ پڑی تو آپ خود بہ نفس نفیس اٹھیں اور حملہ کر کے اسے قتل کر دیا ۔آپ کا انتقال ٢٠ ھ میں ہوا آپ کو بقیع میں مغیرہ بن شعبہ کے گھر کے پاس دفن کیا گیا .پہلے یہ جگہ ''بقیع العمات''کے نام سے مشہور تھی۔ مورخین اور سیاحو ں کے نقل سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تعویذ قبر واضح تھی (٢٥) مگر اب فقط نشان قبر باقی بچا ہے ۔
(١١)جناب عاتکہ بنت عبد المطلب :
آپ رسول اللہ (ص ) کی پھوپھی تھیں آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں ہوا اور بہن صفیہ کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔رفعت پاشا نے اپنے سفر نامہ میں آپ کی قبر کا تذکرہ کیا ہے (٢٦)مگر اب صرف نشان ہی باقی رہ گیا ہے ۔
(١٢)جناب حلیمہ سعدیہ :
آپ رسول اسلام (ص) کی رضاعی ماں تھیں آپ کا تعلق قبیلہ سعد بن بکر سے تھا انتقال مدینہ میں ہوا اور بقیع کے شمال مشرقی سرے پر دفن ہوئیں ۔آپ کی قبر پر ایک عالی شان قبہ تھا رسالت مآب(ص) اکثر و بیشتر یہاں آکر آپ کی زیارت فرماتے تھے .(٢٧)
مگر افسوس ! سازش و تعصب کے مرموز ہاتھوں نے سید المرسلین (ص) کی اس محبوب زیارت گاہ کو بھی نہ چھوڑا اور قبہ زمین بوس کر کے قبر کا نشان مٹا دیا گیا۔
(١٣)جناب ابراہیم بن رسول اللہ (ص):
آپ کی ولادت ساتویںہجری قمری میں مدینہ منورہ میںہوئی مگر سولہ سترہ ماہ بعد ہی آپ کاانتقال ہو گیااس موقع پر رسول (ص) مقبول نے فرمایا تھا :ادفنو ہ فی البقیع فان لہ مرضعا فی الجنة تتم رضاعہ (٢٨)(اس کو بقیع میں دفن کرو بے شک اس کی دودھ پلانے والی جنت میںموجود ہے جو اس کی رضاعت کو مکمل کرے گی )۔آپ کے دفن ہونے کے بعد بقیع کے تمام درختوں کو کاٹ دیا گیا اور اس کے بعد ہر قبیلے نے اپنی جگہ مخصوص کر دی جس سے یہ باغ قبرستان بن گیا ۔ابن بطوطہ کے مطابق جناب ابراہیم کی قبر پر سفید گنبد تھا (٢٩)اسی طرح رفعت پاشا نے بھی قبر پر قبہ کا تذکرہ کیا ہے (٣٠)مگر افسوس آل سعود کے مظالم کانتیجہ یہ ہے کہ آج فقط قبر کا نشان باقی رہ گیا ہے ۔
(١٤) جناب عثمان بن مظعون :
آپ رسالت مآب (ص) کے باوفا و باعظمت صحابی تھے آپ نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا جب فقط ١٣ آ دمی مسلمان تھے اس طرح آپ کائنات کے چودہویں مسلما ن تھے۔ آپ نے پہلی ہجرت میںاپنے صاحبزادے کے ساتھ شرکت فرمائی پھر اس کے بعد مدینہ منورہ بھی ہجرت کرکے آئے ۔جنگ بدر میں بھی شریک تھے ، عبادت میں بھی بے نظیر تھے آپ کا انتقال ٢ ھ ق میں ہوا اس طرح آپ پہلے مہاجر ہیںجسکا انتقال مدینہ میں ہوا ۔ جناب عائشہ سے منقول روایت کے مطابق حضرت رسول اسلام (ص) نے آپ کے انتقال کے بعد آپ کی میت کا بوسہ لیا ،نیز آ پ (ص)شدت سے گریہ فرما رہے تھے (٣١)۔آنحضرت نے جناب عثمان کی قبر پر ایک پتھر نصب کیاتھا تاکہ علامت رہے مگر مروان بن حکم نے اپنی مدینہ کی حکومت کے زمانے میں اس کو اکھاڑ کر پھینک دیا تھا جس پر بنی امیہ نے اس کی بڑی مذمت کی تھی ۔(٣٢)
(١٥) جناب اسمعٰیل بن امام صادق :
آپ امام صادق کے بڑے صاحبزادے تھے اور آنحضرت کی زندگی ہی میںآپ کا انتقال ہو گیا تھا ۔سمہودی نے لکھا ہے کہ آپ کی قبر زمین سے کافی بلند تھی(٣٣) اسی طرح مطری نے ذکر کیا ہے کہ جناب اسمعٰیل کی قبر اور اس کے شمال کا حصہ (امام)سجاد کا گھر تھا جس کے بعض حصے میں مسجدبنائی گئی تھی جس کا نام مسجد زین العابدین تھا (٣٤)مرأ ة الحرمین کے مولف نے بھی جناب اسمعٰیل کی قبر پر قبہ کا تذکرہ کیا ہے ١٣٩٥ ھ ق میں جب سعودی حکومت نے مدینہ کی شاہراہوں کو وسیع کرنا شروع کیا تو آپ کی قبر کھود ڈالی مگر جب اندر سے سالم بدن بر آمد ہوا تو اسے بقیع میں شہداء احد کے قریب دفن کیا گیا (٥٣)۔
(١٦) جنا ب ابو سعید حذری :
رسالت پناہ کے جاں نثار اور حضرت علی کے عاشق و پیرو تھے ۔مدینہ میں انتقال ہو ا اور حسب وصیت بقیع میں دفن ہوے ۔رفعت پاشا نے اپنے سفر نامہ میں لکھا ہے کہ آپ کی قبر کا شمار معروف قبروں میں ہوتا ہے ۔(٣٦)امام رضا نے مامون رشید کو اسلام کی حقیقت سے متعلق جوخط لکھا تھااسمیں جناب ابو سعید حذری کو ثابت قدم اور با ایمان قرار دیتے ہوے آپ کے لئے رضی اللہ عنھم و رضوان اللہ علیھم کی لفظیں استعمال فرمائی تھیں (٣٧)
(١٧)جناب عبد اللہ بن مسعود :
آ پ بزرگ صحابی اور قرآن مجید کے مشہور قاری تھے آپ حضرت علی کے مخلصین و جاں نثاروں میں سے تھے آپ کو خلافت دوم کے زمانے میں نبی اکرم (ص) سے احادیث نقل کرنے کے جرم میں زندانی کیا گیا جسکی وجہ سے آ پ کو اچھا خاصا زمانہ زندان میں گزارنا پڑا (٣٨)آپکا انتقال ٣٣ ھ ق میں ہوا تھا آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ جناب عثمان بن مظعون کے پہلو میں دفن کیا جائے اور کہا تھا کہ : ''فانہ کان فقیھا ''( بے شک عثمان ابن مظعون فقیہ تھے) رفعت پاشا کے سفر نامہ میں آپ کی قبر کا تذکرہ ہے ۔
(١٨۔٢٧)ازواج پیغمبر ۖ کی قبریں :
بقیع میں مندرجہ ذیل ازواج کی قبریں ہیں
(١٨) زینب بنت خزیمہ (وفات ٤ ھ)
(١٩)ریحانہ بنت زید (وفات ٨ ھ)
(٢٠)ماریۂ قبطیہ (وفات ١٦ ھ)
(٢١)زینب بنت جحش (وفات ٢٠ ھ)
(٢٢)ام حبیبہ (وفات ٤٢ ھ یا ٤٣ھ)
(٢٣)حفصہ بنت عمر (وفات ٤٥ ھ)
(٢٤)سودہ بنت زمعہ (وفات ٥٠ ھ)
(٢٥)صفیہ بنت حی (وفات ٥٠ ھ)
(٢٦)جویریہ بنت حارث (وفات ٥٠ ھ)
(٢٧)ام سلمہ (وفات ٦١ ھ)
یہ قبریں جناب عقیل کی قبر کے قریب ہیں ،ابن بطوطہ کے سفر نامہ میں روضہ کا تذکرہ ہے (٣٩)
مگر اب روضہ کہا ں ؟ !
(٢٨۔٣٠) جناب رقیہ، ام کلثوم ،زینب :
آپ تینوں کی پرورش جناب رسالتمآب ۖ اور حضرت خدیجہ نے فرمائی تھی ،اسی وجہ سے بعض مورخین نے آپ کی قبروں کو '' قبور بنات رسول اللہ'' کے نام سے یاد کیا ہے ،رفعت پاشا نے بھی اسی اشتباہ کی وجہ سے ان سب کو اولاد پیغمبر ۖ قرار دیا ہے وہ لکھتا ہے :''اکثر لوگوں کی قبروں کو پہچاننا مشکل ہے البتہ بعض بزرگان کی قبروں پر قبہ بنا ہوا ہے ،ان قبہ دار قبروں میں جناب ابراھیم ،ام کلثوم،رقیہ،زینب،وغیرہ اولاد پیغمبر کی قبریں ہیں (٤٠)
(٣١)شہداء احد :
یوں تو میدان احد میں شہید ہونے والے فقط ستر افراد تھے مگر بعض شدید زخموں کی
وجہ سے مدینہ میں آکر شہید ہوئے ان شہداء کو بقیع میں ایک ہی جگہ دفن کیا گیا جو جناب ابراہیم کی قبر سے تقریبا ٢٠ میٹر کے فاصلے پر ہے اب فقط ان شہد اء کی قبروں کا نشان باقی رہ گیا ہے ۔
(٣٢) واقعہ حرہ کے شہداء :
کربلا میں امام حسین کی شہادت کے بعد مدینے میں ایک ایسی بغاوت کی
آندھی اٹھی جس سے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ بنی امیہ کے خلاف پورا عالم اسلام اٹھ کھڑا ہوگا اور خلافت تبدیل ہو جائیگی مگر اہل مدینہ کو خاموش کرنے کے لئے یزید نے مسلم بن عقبہ کی سپہ سالاری میں ایک ایسا لشکر بھیجا جس نے مدینہ میں گھس کر وہ ظلم ڈھائے جن کے بیان سے زبان و قلم قاصر ہیں ۔اس واقعہ میں شہید ہونے والوں کو بقیع میں ایک ساتھ دفن کیا گیا اس جگہ پہلے ایک چہار دیواری اور چھت تھی مگر اب چھت کو ختم کر کے فقط چھوٹی چھوٹی دیواریں چھوڑ دی گئی ہیں ۔
(٣٣) جناب محمد بن حنفیہ :
آپ حضرت امیر کے بہادر صاحبزادے تھے۔ آپ کو آپ کی ماں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے امام حسین کا وہ مشہور خط جسمیں آپ نے کربلا کی طرف سفر کا سبب بیان فرمایا ہے ؛آپ ہی کے نام لکھا گیا ہے ۔(٤١)آپ کا انتقال ٨٣ ھ میں ہوا اور بقیع میں دفن کیا گیا ۔
(٣٤)جناب جابر بن عبد اللہ انصاری :
آپ رسالت پناہ (ص) اور حضرت امیر کے جلیل القدر صحابی تھے آنحضرت (ص)کی ہجرت سے پندرہ سال قبل ،مدینہ میں پیدا ہوے اور آپ (ص) کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے اسلام لا چکے تھے ۔آنحضرت (ص) نے امام محمد باقر تک سلام پہونچانے کا ذمہ آپ ہی کو دیا تھا آپ نے ہمیشہ اہل بیت کی محبت کادم بھر ا۔امام حسین کی شہادت کے بعد کربلا کا پہلا زائر بننے کا شرف آپ ہی کو ملا مگر حجاج بن یوسف ثقفی نے محمد وآل محمد کی محبت کے جرم میں بدن کو جلوا ڈالا تھا آپ کا انتقال ٧٧ھ میں ہوا اور بقیع میں دفن ہوے (٤٢)
(٣٥)جناب مقداد بن اسود :
حضرت رسول خدا(ص) اور حضرت علی کے نہایت ہی معتبر صحابی تھے۔ آخری لمحہ تک حضرت امیر کی امامت پر باقی رہے اور آپ کی طرف سے دفاع بھی کرتے رہے امام محمد باقر کی روایت کے مطابق آپ کا شمار ان جلیل القدر اصحا ب میں ہوتا ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد ثابت قدم اور با ایمان رہے (٤٣)
یہ تھا بقیع میں دفن ہونے والے بعض ایسے بزرگان کا تذکرہ جن کے ذکر سے سعودی حکومت گریزاں ہے اور ان کے آثار کو مٹا کر ان کا نام بھی مٹا دینا چاہتی ہے کیوں کہ ان میں سے اکثر افرادایسے ہیں جو زندگی بھر محمد وآل محمد کی محبت کا دم بھرتے رہے اور سعادت اخروی لے کر اس دنیا سے گئے ۔ان بزرگان اور عمائد اسلام کی تاریخ اور سوانح حیات خود ایک مستقل بحث ہے جس کی گنجائش یہاں نہیں ہے۔
آخر میں ہم رب کریم سے دعا کرتے ہیں :خدارا !محمد وآل محمد کا واسطہ ہمیں ان افراد کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما جوتیرے نمائندوں کے باوفا رہے نیز ہمیں ان لوگوں میں قرار دے جو حق کے ظاہر کرنے میں ثابت قدم رہے اور جن کے عزم کو سلاطین جور بھی متزلزل نہ کر سکے ۔
حوالے :
(١) رہنمائے حج و عمرہ و زیارات مسجد نبوی ص ٢٧
(٢)معالم مکہ والمدینہ ص ٤٤١
(٣)صحیح بخاری ج ٤ ح ٤ و سنن نسائی ج ٤ ح ٩١وسنن ابن ماجہ ج ١ ص ٤٩٣
(٤) وفاء الوفاء ج ٤ ص ٩٠٩
(٥) رحلة ابن بطوطہ ج ١ ص ا٤٤
(٦) مرآة الحرمین ج١ ص ٤٢٦
(٧) گنجینہ ہای ویران ص ١٢٧
(٨)و(٩)و(١٠)البدایة والنھایة ج ٩ ص ١٢٢و ١٢٤ و ١٢٦
(١١) الصواعق المحرقة ص ١١٨
(١٢) تذکرة الخواص ص ٣٣٧
(١٣)و(١٤)تذکرة الخواص ص ٣٠٣
(١٥)تذکرة الحفاظ ج ١ص ١٦٦
(١٦)الامام الصادق والمذاھب الربعہ ج ١ ص ٥٣
(١٧)الصواعق المحرقہ ص ١١٨
(١٨)وفیات الاعیان ج ١ ص ٣٢٧
(١٩)معالم مکہ والمدینہ ص ٤٢٨
(٢٠) رحلة ابن بطوطہ ج ١ ص ١٤٣، مرآة الحرمین ج ١ ص ٤٢٦،
المرحلة الحجازیہ و وفاء الوفاء ج ٣
(٢١) معالم مکہ والمدینہ ص ٤٤١
(٢٢) رحلة ابن بطوطہ ج ١ ص ١٤٤
(٢٣) معالم مکہ والمدینہ ص ٤٤١
(٢٤) معالم مکہ والمدینہ ص ٤٤٠
(٢٥) رحلة ابن بطوطہ ج ١ ص ١٤٤
(٢٦) مرآة الحرمین ج ١ ص ٤٢٦
(٢٧) معالم مکہ والمدینہ ص٤٤٣
(٢٨) معالم مکہ والمدینہ ص ٤٤٣
(٢٩) رحلة ابن بطوطہ ج ١ ص ١٤٤
(٣٠) مرآة الحرمین ج ١ ص ٤٢٦
(٣١) معالم مکہ والمدینہ ص٤٢٢
(٣٢) معالم مکہ والمدینہ ص٤٤٣
(٣٣) معالم مکہ والمدینہ ص٤٤٥
(٣٤) معالم مکہ والمدینہ ص٤٢٦
(٣٥) معالم مکہ والمدینہ ص٤٤٥
(٣٦) مرآة الحرمین ج ١ ص ٤٢٦
(٣٧)عیون اخبار الر ضا ص ١٢٦باب ٣٥حدیث ١
(٣٨)سیرہ پیشوایان ص ٣٢٤
(٣٩) رحلة ابن بطوطہ ج ١ ص ١٤٤
(٤٠)مرآة الحرمین ج١ ص٤٢٦
(٤١)بحار الانوار ج ٤٤ص ٣٢٩
(٤٢)سوگنامہ آل محمد (ص) ص ٥٠٧
(٤٣)معجم رجال الحدیث ج ١٨ص
source : alhassanain