اردو
Friday 8th of November 2024
0
نفر 0

عام الحزن

عام الحزن

بعثت کے دسویں سال بطل جلیل حضرت ابوطالب علیہ الصلاة والسلام کی رحلت ہوئی_ آپ کی وفات سے رسول(ص) اللہ اپنے اس مضبوط، وفادار اور باعظمت حامی سے محروم ہوگئے جو آپ(ص) کا، آپ(ص) کے دین کا اور آپ(ص) کے مشن کا ناصر و محافظ تھا (جیساکہ پہلے عرض کرچکے ہیں)_
اس حادثے کے مختصر عرصے بعد بقولے تین دن بعد اور ایک قول کے مطابق ایک ماہ(1) بعدام المؤمنین حضرت خدیجہ (صلوات اللہ وسلامہ علیہا) نے بھی جنت کی راہ لی_ وہ مرتبے کے لحاظ سے رسول(ص) اللہ کی ازواج میں سب سے افضل ہیں_
نیز آنحضرت(ص) کے ساتھ اخلاقی برتاؤ اور سیرت کے حوالے سے سب سے زیادہ باکمال تھیں_ رسول(ص) خدا کی ایک بیوی( حضرت عائشےہ) ان سے بہت حسد کرتی تھیں حالانکہ اس نے حضرت خدیجہ(ع) کے ساتھ آنحضرت(ص) کے گھر میں زندگی نہیں گزاری تھی کیونکہ آپ(ص) نے حضرت خدیجہ کی رحلت کے بہت عرصہ بعد اس سے شادی کی تھی_(2)
دین اسلام کی راہ میں حضرت ابوطالب(ع) اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی عظیم خدمات کا اندازہ اس حقیقت سے ہوسکتا ہے کہ نبی کریم(ص) نے ان دونوں کی وفات کے سال کو عام الحزن کا نام دیا(3) یعنی غم واندوہ کا سال_ آپ(ص) نے ان دونوں سے جدائی کو پوری امت کیلئے مصیبت اور سانحہ قرار دیا_
چنانچہ فرمایا:'' اس امت پر دو مصیبتیں باہم ٹوٹ پڑیں اور میں فیصلہ نہیں کرسکتا ان میں سے کونسی مصیبت میرے لئے دوسری مصیبت کے مقابلے میں زیادہ سخت تھی''(4)_ یہ بات آپ(ص) نے ان دونوں کی جدائی کے غم سے متا ثر ہوکر فرمائی_

 
محبت وعداوت، دونوں خداکی رضاکیلئے

 واضح ہے کہ ان دونوں ہستیوں سے رسول(ص) کی محبت اور ان دونوں کی جدائی میں آپ(ص) کا حزن وغم نہ ذاتی مفادات ومصالح کے پیش نظر تھا اور نہ ہی خاندانی محبت وجذبے کی بنا پر بلکہ آپ(ص) کی محبت فقط اور فقط رضائے الہی کیلئے تھی_ آپ(ص) کسی بھی شخص کو اتنی ہی اہمیت دیتے ،اس کی جدائی میں اتنے ہی غمگین ہوتے اور اس سے اسی قدر روحانی و جذباتی لگاؤ رکھتے جس قدر اس شخص کا رابطہ خدا سے ہوتا ،جس قدر وہ اللہ سے نزدیک اور اس کی راہ میں فداکاری کے جذبے کا حامل ہوتا_
آپ(ص) حضرت ابوطالب(ع) اور حضرت خدیجہ(ع) کیلئے اس وجہ سے غمگین نہ ہوئے تھے کہ خدیجہ آپ(ص) کی زوجہ تھیں یا ابوطالب آپ(ص) کے چچا تھے وگرنہ ابولہب بھی تو آپ(ص) کا چچا تھا _بلکہ وجہ یہ تھی کہ آپ(ص) نے ان
دونوں کی قوت ایمانی، دین میں پائیداری اور اسلام کی راہ میں فداکاری کو محسوس کرلیا تھا_ اور یہی تو اسلام کا بنیادی اصول ہے جس کی خدانے یوں نشاندہی کی ہے (لاتجد قوماً یومنون بالله و الیوم الآخر یوادون من حاد الله و رسوله و لو کانوا آبائهم او ابنائهم او اخوانهم او عشیرتهم ...) (5) یعنی جولوگ اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں آپ ان کو خدا اور اس کے رسول(ص) کے مخالفین سے محبت کرتے ہوئے نہیں پائیں گے خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں_
کیا شرک سے زیادہ کوئی دشمنی اللہ اور رسول(ص) کے ساتھ ہوسکتی ہے؟ وہی شرک جس کے بارے میں خدانے فرمایا ہے: (ان الشرک لظلم عظیم) یعنی شرک سب سے بڑا ظلم ہے_
نیز فرمایا ہے: (ان الله لایغفر ان یشرک به و یغفر ما دون ذلک) یعنی یہ کہ خدا شرک کے علاوہ دیگر گناہوں کو معاف کردیتا ہے_
خداکی رضا کیلئے محبت کرنے اور اس کی رضا کیلئے بغض رکھنے کے بارے میں آیات و احادیث حد سے زیادہ ہیں اور ان کے ذکر کی گنجائشے نہیں_
اسی معیار کے پیش نظر خداوند تعالی نے حضرت نوح(ع) سے انکے بیٹے کے متعلق فرمایا: (انه لیس من اهلک انه عمل غیرصالح)(6) یعنی اس کا تیرے گھرانے سے کوئی تعلق نہیں ہے اسکا تو غیرصالح عمل ہے_ اسی طرح حضرت ابراہیم (ع) کا قول قرآن مجید میں ہے کہ ( من تبعنی فانہ منی) (7) جو میری پیروی کرے گا وہ میرے خاندان سے ہوگا_
نیز اسی بنا پر سلمان فارسی کا شمار اہلبیت پیغمبر(ص) میں ہوا_
ابوفراس کہتا ہے:

کانت مودة سلمان لهم رحما
ولم تکن بین نوح و ابنه رحم ...
یعنی اہلبیت پیغمبر(ص) سے محبت کے باعث سلمان ان کے گھرانے کا ایک فرد بن گیا جبکہ اس کے برعکس نوح(ع) اور ان کے بیٹے کے درمیان قرابت نہیں رہی_

 
1_ حضرت خدیجہ علیہا السلام

 حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ میں نے کسی عورت سے اتنی نفرت نہیں کی جس قدر خدیجہ سے کی ہے_ اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ میں نے اس کے ساتھ زندگی گزاری ہو بلکہ یہ تھی کہ رسول(ص) اللہ انہیں زیادہ یاد کرتے تھے_ اگر آپ(ص) کوئی گوسفندبھی ذبح کرتے تو اسے حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کے پاس بطور ہدیہ بھیجتے تھے_ (8)یہ قول مختلف عبارات میں مختلف اسناد کے ساتھ مذکور ہے_
ایک دن رسول(ص) (ص) اللہ نے حضرت خدیجہ کاذکر کیا تو ام المومنین عائشہ نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کہا:'' وہ تو بس ایک بوڑھی عورت تھی جس سے بہتر عورت خدا نے آپ(ص) کو عطاکی ہے''_ مسلم کے الفاظ یہ ہیں ''جس کا آپ(ص) ذکر کرتے ہیں وہ تو قریش کی بوڑھیوں میں سے ایک بڑھیا تھی_ جس کے لبوں کے گوشے سرخ تھے اور اسے مرے ہوئے عرصہ ہوگیا ہے _ خدا نے آپ کو اس سے بہتر عطا کی ہے''_ یہ سن کر
رسول(ص) اللہ غضبناک ہوئے یہاں تک کہ آپ(ص) کے سرکے اگلے بال کھڑے ہوگئے_ پھر فرمایا :''خدا کی قسم ایسانہیں، اللہ نے مجھے اس سے بہتر عطا نہیںفرمایا ...''_ (9)
عسقلانی اور قسطلانی کا کہنا ہے کہ حضرت عائشہ پیغمبراکرم(ص) کی بیویوں سے حسد کرتی تھیں لیکن حضرت خدیجہ سے ان کا حسد زیادہ تھا_ (10)
مجھے اپنی زندگی کی قسم یہ تو حضرت خدیجہ کی زندگی کے بعد حضرت عائشہ کی حالت ہے_ پتہ نہیں اگر وہ زندہ ہوتیں تو کیا حال ہوتا؟ نیز جب ام المومنین کے حسد نے مُردوں کوبھی نہ چھوڑا تو زندوں کے ساتھ ان کا رویہ کیسا رہا ہوگا؟

----------------------------

1_ السیرة الحلبیہ ج1 ص 346 ، السیرة النبویہ ( ابن کثیر) ج 2 ص 132 ، البدایہ والنہایہ ج 3 ص 127 اورا لتنبیہ و الاشراف ص 200_
2_ البدایہ والنہایہ (ابن کثیر) ج 3 ص 127 و 128 ، السیرة النبویہ(ابن کثیر) ج 2 ص 133 تا 135 ، صحیح بخاری ج 2 ص 202 ، عائشہ (عسکری) ص 46 اور اس کے بعد اور اس کے بعض منابع ہم نے آنے والی فصل '' بیعت عقبہ تک '' میں عائشہ کے حسن و جمال کے ذکر میں بیان کیا ہے_
3_ سیرت مغلطای ص 26، تاریخ الخمیس ج1 ص 301 ، المواہب اللدنیہ ج 1 ص 56 ، السیرة النبویہ (دحلان ) ج 1 ص 139 ص 21 مطبوعہ دار المعرفہ اور اسنی المطالب ص 21_
4_تاریخ یعقوبی ج 2ص 35 _
5_ سورہ مجادلہ، آیت 22 _
6_ سورہ ہود آیت 46_
7_ سورہ ابراہیم آیت 36_
8_ صحیح بخاری ج 9 ص 292 اور ج 5 ص 48 اور ج 7 ص 47 اور ج 8 ص 10 صحیح مسلم ج 7 ص 34_135 اسد الغابة ج 5 ص 438، المصنف ج 7 ص 493، الاستیعاب حاشیة الاصابة ج 4 ص 286 صفة الصفوة ج 2 ص 8، بخاری و مسلم سے، تاریخ الاسلام ذہبی ج 2 ص 153البدایة و النہایة ج 3 ص 128_
9_ صحیح مسلم ج 7 ص 134 لیکن اس نے آپ(ص) کا جواب ذکر نہیں کیا، اسد الغابة ج 5 ص 438 نیز ص 557 و 558 ،الاصابة ج 4 ص 283 استیعاب ج 4 ص 286، صفة الصفوة ج 2 ص 8مسند احمد ج 6 ص 117بخاری ج 2 ص 202 مطبوعہ 1309 ہجری ، البدایة و النہایة ج 3 ص 128 نیز اسعاف الراغبین در حاشیہ نور الابصار ص 96_
10_ فتح الباری ج 7 ص 102، ارشاد الساری ج 6 ص 166 و ج 8 ص 113 _

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

بعثت رسول اللہ ص تاریخ کاعظیم واقعہ
امام حسين (ع) کي طرف سے آزادي کي حمايت
خوارج كى نامزدگي
سر زمين شام و عراق كى فتح
همیں معلوم هے کے پوری دنیا میں ﮐﭽﮭ ایسے افراد ...
اسارائے اہل بيت کي دمشق ميں آمد
عام الحزن
تاریخ غدیر کی صحیح تحقیق
امام حسن (ع) کی صلح اور امام حسین (ع)کے جہاد کا ...
اسارائے اہل بيت کي دمشق ميں آمد

 
user comment