اللہ کي يکتائي کو ثابت کرنے کے لئے گوناگون دلائل بيان کئے گئے ہيں ليکن وہ سارے دلائل ہم يہاں بيان نہيں کرسکتے چنانچہ ہم ايک ہي دليل پيش کرکے اس کا تجزيہ و تشريح کرتے ہيں؛ اس برہان کو سمجھنے کے لئے دو مقدمات کي ضرورت ہے:
يکم- ہر معلول کا وجود اپني علت سے وابستہ ہے؛ بالفاظ ديگر ـ اصولِ عِلِيّت (Principle of Causality) جو مدلل طريقے سے بجائے خود ثابت ہوچکا ہے، کے مطابق ـ ہر معلول ـ اپنا وجود ـ اپنے تمام متعلقات اور تمام معاملات و امور کے ہمراہ، اس علّت سے وصول کرتا ہے، جس نے اس کو وجود عطا کيا ہے؛ اور اس کو اگر شروط اور مُعِدّات (وجود ميں لانے والے اسباب) کي ضرورت ہو تو ان کا وجود بھي اپنے وجود عطا کرنے والي علّت سے مستند ہونا چاہئے؛ لہٰذا اگر دو يا دو سے زيادہ ہستي بخش علتيں ايک ساتھ فرض کي جائيں، ان ميں سے ہر ايک کا معلول اپني ہستي بخش علت سے وابستہ ہوگا اور دوسري علتوں يا دوسري علتوں کے معلولات سے وابستہ نہ ہوگا اور يوں ان کے معلولات کے درميان کسي قسم کي وابستگي وجود ميں نہيں آئے گي-
دوئم- يہ نظامِ مشہود ايک واحد نظام ہے جس ميں معاصر اور غير معاصر موجودات ايک دوسرے سے تعلق رکھتے ہيں اور ايک دوسرے سے وابستہ ہيں- تاہم معاصر (اور ہم زمان) موجودات کے درميان تعلق وہي عِلّي و معلولي (يا علت و معلول کا) تعلق اور وہي تأثير و تأثر ہے جو مختلف اشکال ميں کارفرما ہے جو ان ميں تغيّرات اور دِگرگونيوں کا موجب بنتا ہے اور کسي صورت ميں بھي قابل انکار نہيں ہے- ---
حوالے جات:
(1) محمدتقى مصباح يزدى ، آموزش فلسفه، ج 2، ص 359 و 360 زيادہ معلومات کے لئے ديکھيں: سيدمحمدحسين طباطبايى ، اصول فلسفه و روش رئاليسم، ج 5، صص 111- 123.
source : tebyan