بچے کی تعلیم و تربیت میں مکتب اہل بیت کے دئے ہوئے خطوط کو مندرجہ ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے: ۱۔ فقط والدین پر بچے کی تربیت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے جو معاشرے کے تمام افراد پرعائد ہوتی ہے
بچے کی تعلیم و تربیت میں مکتب اہل بیت کے دئے ہوئے خطوط کو مندرجہ ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ فقط والدین پر بچے کی تربیت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے جو معاشرے کے تمام افراد پرعائد ہوتی ہے۔
امام صادق فرماتے ہیں :
ایما ناشیء نشاء فی قوم ثم لم یؤدب علی معصیةفان اللہ عزوجل اول مایعاقبھم فیہ ان ینقص من ارزاقھم۔
”جو بچہ کسی قوم میں پرورش پاتا ہے اور برائی سے بچنے کے آداب نہیں سیکھتا تو اللہ تعالی اس قوم کو پہلی سزا یہ دیتا ہے کہ اسکے رزق میں کمی کر دیتا ہے“ [1]۔
امام اس حدیث میں اجتماعی ذمہ داری کا منفی پہلو بیان فرما رہے ہیں اور تعلیم و تربیت کے اقتصاد کے ساتھ تعلق کو واضح کر رہے ہیں کہ تربیت سے ہرقسم کی روگردانی اقتصاد پرمنفی اثر ڈالتی ہے اور معصیت سے معاشرے پرمہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی لئے تو قرآن کریم میں ہے :
”جب قوم ھود تین سال تک رحمت کی بارش سے محروم رہی تو حضرت ھود نے اپنی قوم کو معصیت سے توبہ اور استغفار کرنے کا حکم دیا:
ویاقوم استغفروا ربکم ثم توابوا الیہ یرسل السماء علیکم مدرارا ویزدکم قوة الی قوتکم ولاتتولوامجرمین۔
اے میری قوم اپنے رب سے استغفار کرو پھر اس سے توبہ کرو توآسمان تم پر موسلادھار بارش برسائے گا اور تمہاری قوت بڑھادے گا اور مجرم بن کر اس سے منہ نہ موڑو“ [2]۔
تو مکتب اہل بیت میں معاشرے کے افراد بالخصوص نوجوانوں کو اطاعت کی تربیت دینا ضروری ہے اور یہ کہ اس کی ذمہ داری فقط والدین پر نہیں ہے اگر چہ انکا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اس کا دائرہ اس سے بھی زیادہ وسیع ہے اور یہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔
ب : بچے کی عمرکا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور ہرعمر کے بچے کے لئے تربیت کی ایک خاص روش ہے اور دیگر جدید تربیتی نکات سے پہلے مکتب اہل بیت نے درجہ بدرجہ والی روش اپنانے کا حکم دیا ہے اور آج جدید تربیتی طریقے بھی اسی روش کو اپنائے ہوئے ہیں اور اس کے عملی تجربات سے اس کے فوائد ثابت ہوگئے ہیں اور اس کے شواہد ہیں بچہ جب تین سال کا ہو جائے تو دینی تربیت کے لئے اسے ذکر خدا سکھانا چاہئے امام باقر فرماتے ہیں :
”اذا بلغ الغلام ثلاث سنین فقل لہ سیع مرات : قل : لاالہ الااللہ ثم یترک“ ”جب تین سال کا ہو جائے تو اس سے سات مرتبہ ”لاالہ الااللہ“ کہلواؤ پھراسےچھوڑ دو“ [3]۔
حضرت علی فرماتے ہیں :
ادب صغار اھل بیتک بلسانک علی الصلاة والطھور، فاذا بلغوا عشرسنین فاضرب ولاتجاوز ثلاثا“۔
”اپنے بچوں کو اپنی زبان کے ساتھ نماز اور طہارت کے آداب سکھاؤ اور جب بچہ دس سال کا ہو جائے تو اسے مار کر بھی سکھاؤ لیکن مارنا تین دفعہ سے تجاوز نہ کرے“[4] ”پھر پندرہ سے سولہ سال کے بچے کو روزہ رکھنے کاپابند بنایا جائے“۔ جیسا کہ امام صادق نے فرمایا ہے [5]۔
اور درمیان والے وقفے میں اسے دوسرے ایسے آداب سکھائے جائیں گے کہ جن کے لئے زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑتی ہے جیسے دوسروں کے ساتھ احسان کرنا اور مساکین سے محبت کرنا۔ امام صادق فرماتے ہیں :
مرالصبی فلیتصدق بیدہ بالکسرة والقبضة والشیٴ وان قل، فان کل شیٴ یرادبہ اللہ وان قل بعد ان تصدق النیة فیہ عظیم۔
”اپنے بچوں کوحکم دوکہ وہ اپنے ہاتھ سے صدقہ دیں اگر چہ معمولی چیزہی کیوں نہ ہوسچی نیت کے ساتھ جوچیزاللہ کے لئے دی جائے وہ عظیم ہے چاہے معمولی ہی کیوں نہ ہو“ [6]۔
قابل ذکرہے کہ آئمہ بچے کی عمرکے لئے تین مراحل بناتے ہیں اورہرمرحلہ میں یہ والدین کی خاص توجہ اورخاص تعلیم وتربیت کاضرورتمند ہوتاہے بطور نمونہ اس بارے میں تین احادیث پیش کرتے ہیں۔
پیغمبر سے مروی ہے کہ :
الولد سید سبع سنین،وعبد سبع سنین، ووزیرسبع سنین فان رضیت خلائقہ لاحدی وعشرین سنة والاضرف علی جنبیہ، فقداعذرت الی اللہ“ [7]۔
”بچہ سات سال تک سردار سات سال تک غلام اورسات سال تک وزیرہوتاہے اگران اکیس سال تک اس کی عادتیں بہترہوجائیں توٹھیک ورنہ اسے خوب مارواورمیں نے اللہ کی طرف عذرپیش کردیاہے“۔
امام صادق فرماتے ہیں : دع ابنک یلعب سبع سنین ویؤدب سبع سنین، والزامہ نفسک سبع سنین، فان افلح، والافانہ لاخیرفیہ [8]۔
سات سال تک بچے کوکھیلنے کودنے دو، سات سال تک اسے آداب سکھاؤ اورسات سال تک اس کی خوب نگرانی کرو اگرفلاح پاجائے توٹھیک ورنہ اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے“۔
توان دو روایتوں میں بچے کی عمرکے مراحل کوتین حصوں میں تقسیم کیاگیاہے اورہرمرحلہ سات سال پرمشتمل ہے پہلامرحلہ کھیل کودکاہے دوسرا آداب سکھاے کا اورتیسرا اسے سائے کی طرح اپنے ساتھ چمٹائے رکھنے کا۔اورتیسری روایت میں یہ تھوڑی سی مختلف ہے اس میں پہلااوردوسرا مرحلہ چھ چھ سال پرمشتمل ہے اورتیسرا مرحلہ سات سال کاہے۔
حسن طبرسی اپنی کتاب ”مکارم اخلاق“ میں کتاب المحاسن سے امام صادق کایہ فرمان نقل کرتے ہیں:
احمل صبیک حتی یاتی علیہ ست سنین، ثم ادبہ فی الکتاب ست سنین، ثم ضمہ الیک سبع سنین فادبہ بادبک، فان قبل وصلح والافخل عنہ۔
”چھہ سال تک بچے کواٹھاؤ،چھ سال تکہ اسے قرآن کی تعلیم دو، اورسات سال تک اسے اپنے ساتھ چمٹاکرآداب سکھاؤاگرقبول کرکے صالح بن جائے توٹھیک ورنہ اسے چھوڑدو“ [9]۔
ج : بچے کی راہمائی میں اسراف سے کام نہیں لیناچاہئے اورایسے تربیتی اسلوب کواپناناچاہئے کہ جس کاسرچشمہ ثواب وعقاب ہوچنانچہ آئمہ غضب کے ساتھ تربیت کرنے سے منع کرتے ہیں امیرالمومنین فرماتے ہیں :
لاادب مع غضب۔
”غضب کے ساتھ کوئی ادب نہیں ہے“ [10]۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ غضب ایسی حالت ہے جوعقل کے بجائے جذبات کو بھڑکاتی ہے اوراس کی وجہ سے تربیتی عمل کے مطلوبہ ثمرات حاصل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لئے اسی صبر،انتظار اورعمدہ علاج کی ضرورت ہوتی ہے کہ جس کی دیرینہ بیماریوں کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔
پس بچہ مسلسل عقلی راھنمائی کانیازمندہے اوریہ غضب اورجذبات سے حاصل نہیں ہوتی اوراس طرح تربیتی عمل بھی اپنے مطلوبہ اہداف کھودیتاہے اوریہ ایسے ہی ہے جیسے ٹھنڈے لوہے کوکوٹنا۔
مکتب اہل بیت میں ایسی احادیث ملتی ہیں جومارنے والااسلوب اختیارکرنے کاحکم دیتی ہے جیسے حضرت علی کافرمان ہے
ادب صغار اھل بیتک بلسانک علی الصلاة والطھور فاذا بلغوا عشرسنین فاضرب ولاتجاوزثلاثا
”اپنے بچوں کونماز اورطہارت کے آداب سکھاؤاورجب دس سال کا ہوجائے تواسے مارو لیکن تین سے تجاوزنہ کرو“ [11]۔
لیکن اس کے مقابلے میں ایسی احادیث بھی ملتی ہیں جومارنے والے اسلوب سے منع کرتی ہیں ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے امام موسی کاظم کے پاس اپنے بچے کی شکایت کی توآپ نے فرمایا:
لاتضربہ ولاتطل
”نہ اسے مارو اورنہ اسے آزادچھوڑ“ [12]۔
ان دونوں قسم کی احادیث کوملانے سے نتیجہ یہ نکلتاہے کہ شروع سے ہی مارنے کی روش کے اچھے نتائج نہیں ہوتے لیکن بعض مخصوص حالات میں یہ ضروری ہے خاص طورپرنماز اورروزے جیسے فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں البتہ ضرورت کی حدتک جیساکہ حضرت علی نے فرمایا:
فاضرب ولاتجاوزثلاثا
”مارولیکن تین دفعہ سے تجاوزنہ کرو“۔
اس بناپرحتی الامکان بچوں کومارنے سے اجتناب کرناچاہئے کیونکہ یہ چیز مفیدہونے کی بجائے ان کی شخصیت پرمنفی اثرڈالتی ہے لیکن خاص حالات میں ضرورت کے مطابق اس سے استفادہ کیاجاسکتاہے جیسے آٹے میں نمک۔
نیزمکتب اہل بیت کی طرف سے یہ بھی ہدایت ہے کہ بجے کوطاقت سے زیادہ ایسی تکلیف نہ دی جائے جواس پرشاق گزرے حلبی امام صادق سے اوروہ اپنے والدگرامی سے روایت کرتے ہیں :
انانامرصبیاننابالصلاة،اذاکانو بنی خمس سنین، فمروا صبیانکم بالصلاة اذاکانوا بنی سبع سنین۔ ونحن نامرصبیاننا بالصوم اذاکانوا بنی سبع سنین بمااطاقوامن صیام الیوم ان کان الی نصف النھاراواکثرمن ذلک اواقل، فاذا غلبھم العطش والغرث افطروا حتی یتعودا الصوم ویطیقوہ، فمروا صبیانکم اذاکانوا بنی تسع سنین بالصوم مااستطاعوا من صیام الیوم، فاذا غلبھم العطش افطروا [13]۔
ہم اپنے بچوں کوپانچ سال کی عمرمیں نمازکاحکم دیتے ہیں اورتم اپنے بچوں کوسات سال کی عمرمیں نماز کاحکم دو اورہم اپنے بچوں کوسات سال کی عمرمیں ان کی طاقت کے مطابق روزے کاحکم دیتے ہیں آدھادن یااس سے کچھ کم یازیادہ اوران پرپیاس یابھوک کاغلبہ ہوجائے توافطارکرلیں تاکہ روزے کے عادی اوراس کے متحمل ہوجائیں اورتم بھی اپنے بچوں کونوسال کی عمرمیں ان کی طاقت کے مطابق روزے کاحکم دو اورجب ان پرپیاس کاغلبہ ہوجائے توافطار کرادو“۔
اسی دوران بہترہے کہ بچے کواس کی طاقت کے مطابق گھرکے دیگرکاموں کوانجام دینے کاحکم دیاجائے جیسے بسترکامرتب کرنا، چیزوں کاصاف کرنا، کوڑے کرکٹ کوپھینکنا، دسترخوان پرکھانے اوربرتنوں کاسجانا، گھرکے باغیچے کاخیال رکھنااوران کے علاوہ دیگرچھوٹے چھوٹے کام جوبچے کے اندر ذمہ داری اورچستی کی روح کوبیداراوران میں اعتماد پیداکرسکیں۔
تعلیم بھی بچے کاحق ہے اوریہ تربیت میں معاون ثابت ہوتی ہے اورعلم بھی تربیت کے مثل ایک پاکیزہ وراثت ہے اورعلم نہ ختم ہونے والاخزانہ ہے، لیکن مال چوری وغیرہ کی وجہ سے ضائع ہوسکتاہے۔
حضرت علی فرماتے ہیں :لاکنزانفع من العلم [14]۔
کوئی بھی خزانہ علم سے بڑھ کرنفع بخش نہیں ہے۔
اس کانسب کتناہی پست ہو۔
حضرت علی فرماتے ہیں : العلم اشرف الاحساب ”علم بہترین حسب ہے“۔
لذا بچے کاباپ پریہ حق ہے کہ اس عظیم شرف کوحاصل کرنے میں اس کی مددکرے اورناخنوں کے اگنے کے وقت سے ہی اسے اس روحانی خزانے کا مالک بنانے کے لئے کوشش کرے، جوہربھلائی کاسرچشمہ ہے شہیدثانی اپنی کتاب ”منیة المرید“ میں لکھتے ہں :
”علم کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے آسمانوں اورزمینوں کوخلق کرنے کاسبب علم کوٹھرایاہے چنانچہ اپنی محکم کتاب میں ارباب عقل وخرد کونصیحت کرتے ہوئے فرماتاہے :
اللہ الذی خلق سبع سموات ومن الارض مثلھن یتنزل الامربینھن لتعلموا ان اللہ علی کل شیٴ قدیر وان اللہ قداحاط بکل شیٴ علما [15]۔
”اللہ وہ ہے جس نے سات آسمانوں کوپیداکیا اوران کے مثل زمینوں کو،ان میں خدا کاامرنازل ہوتارہتاہے تاکہ تمہیں علم ہوجائے کہ اللہ ہرشی پرقادر ہے اوراس نے ہرشیٴ کااحاطہ کررکھاہے“۔
یہ آیت علم کے شرف اورسربلندی کے لئے کافی ہے بالخصوص علم توحید جوہر علم کی اساس اورہرمعرفت کاسرچشمہ ہے۔
اورجتنی عظمت علم کی ہے اتنی ہی تعلیم کی ہے اسی لئے دانالوگ اس حق کوادا کرنے کے لئے ہمیشہ اپنے بچوں کوتحصیل علم کے لئے برانگیختہ کرتے رہتے ہیں۔
امام صادق فرماتے ہیں :کان فیما وعظ لقمان ابنہ، انہ قال لہ: : یابنی اجعل فی ایامک ولیالیک نصیبا لک فی طلب العلم، فانک لن تجد تضییعا مثل ترکہ
لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کویہ نصحیت بھی کی تھی کہ پیارے بیٹے اپنی رات اوردن میں ایک حصہ علم کے لئے مخصوص کرو کیونکہ علم حاصل نہ کرناسب سے بڑا نقصان ہے [16]۔
آئمہ نے بھی اس حق کی پوری پوری حفاظت وحراست کی ہے اوراسلام نے تحصیل علم کوہرمسلمان مرد اورعورت کافریضہ قراردیاہے اوروالدین کافریضہ صرف خود علم حاصل کرنانہیں ہے بلکہ اولاد کواس کاحکم دینابھی ضروری ہے اسی لئے حضرت علی والدین پرزوردیتے ہوئے فرماتے ہیں :مروا اولادکم بطلب العلم [17]۔
”اپنے بچوں کوطلب علم کاحکم دو“۔
اورچونکہ بچپن میں علم پتھرپرنقش ہوتاہے لذا ترجیحی بنیاد پرتحصیل علم کے لئے اس کے بچپن سے خوب استفادہ کیاجاسکتاہے بالخصوص آج کادورجوعلمی انقلاب، تعلیمی ترقی اورتحقیق ومہارت کازمانہ ہے۔
مکتب اہل بیت نے تعلم قرآن کوخاص ترجیح دی ہے اسی طرح مسائل حلال وحرام کے حاصل کرنے کوبھی خاص اہمیت دی ہے کیونکہ یہی علم مسلمان کوفرائض کی ادائیگی کے قابل بناتاہے چنانچہ حضرت علی اپنے فرزند امام حسن کواپنی وصیت میںفرماتے ہیں :
ابتداتک بتعلیم کتاب اللہ عزوجل وتاویلہ وشرائع الاسلام واحکامہ، وحلالہ وحرامہ، لااجاو ذلک بک الی غیرہ [18]۔
میں نے سب سے پہلے کتاب خدا،اس کی تاویل،شریعت اسلام، اس کے احکام اورحلال وحرام کی تعلیم دی اوراس سے تجاوزنہیں کیا۔
اورامام صادق سے جب کسی نے کہا، میراایک بیٹاہے میں چاہتاہوں کہ وہ فقط آپ سے حلال وحرام کے متعلق سوال کرے اوردوسرے قسم کے سوال سے پرہیز کرے توآپنے فرمایا:
وھل یسال الناس عن شی ٴ افضل من الحلال والحرام [19]۔
آیاحلال وحرام کے متعلق سوال کرنے سے بھی بہترکوئی سوال ہے؟
اس سے بڑھ کرسنت نبویہ فقط قرآن اورفقہ جیسے علوم دینیہ کی تعلیم ہی کوبچوں کے لئے ضرورت قرارنہیں دیتی بلکہ خاص قسم کے دیگرحیات بخش علوم کے حاصل کرنے پربھی زور دیتی ہے جیسے کتابت، تیراکی اوتیراندازی، اس سلسلہ میں بعض روایات ملاحظہ کریں۔ پیغمبر فرماتے ہیں :
من حق الولد علی والدہ ثلاثة : یحسن اسمہ، ویعلمہ الکتابة ویزوجہ اذا بلغ [20]۔
”بیٹے کاباپ پرحق ہے کہ اسے کتابت،تیراکی اورتیراندازی کی تعلیم دے اوراسے فقط پاکیزہ کھاناکھلائے“ [21]۔
یہاں پرایک بڑا اہم اوربنیادی نکتہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی افکارکوانحراف سے بچانے کے لئے انہیں آل محمد کے علوم ومعارف اوران کی احادیث کی تعلیم دیناضروری ہے۔ اسی نکتہ کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے حضرت علی فرماتے ہیں :
علموا صبیانکم من علمناماینفغھم اللہ بہ لاتغلب علیھم المرجئة برایھا۔
”اپنے بچوں کوہمارے علوم ومعارف کی تعلیم دو کیونکہ اللہ تعالی انہی کے ذریعے انہیں نفع دے گاکہیں ان پرمرجئہ اپنے نظریات مسلط نہ کردیں“ [22]۔
امام صادق فرماتے ہیں :باردوا احداثکم بالحدیث قبل ان یسبقکم الیھم المرجئة
اپنے نوجوانوں کوحدیث کی تعلیم دینے میں جلدی کروقبل اس کے کہ مرجئہ تم پرسبقت کرجائیں [23]۔
چونکہ مرجئہ کاگروہ اس دورمیں ظالمین کے لئے کام کرتاتھا اوران کے لئے نجات کی رسی کودرازکرنے میں مصروف تھا کیونکہ یہ لوگ ظالم کے خلاف قیام سے منع کرتے تھے اوراس کے حساب وکتاب کوروزقیامت پرچھوڑتے تھے اورگناہان کبیرہ کے ارتکاب کرنے والے فاسق کوبھی مومن شمارکرتے تھے اس لئے آئمہ نے نئی نسل کوان گمراہ کن اورمنحرف افکارسے بچانے کے لئے لازم قراردیاہے کہ انہیں صاف وشفاف چشموں سے پھوٹنے والی اسلامی افکارکی تعلیم دی جائے۔
۴:عدل ومساوات کاحق:
بچوں بالخصوص لڑکے اورلڑکی کے درمیان امتیازی سلوک سگے بہن بھائیوں کے درمیان بھی جدائی کے بیج بودیتاہے اوران کے رشتہ اخوت کوتارتارکردیتاہے کیونکہ بڑی حساس طبیعت کے حامل اوراسکے جذبات بڑے نازک ہوتے ہیں جب وہ محسوس کرتاہے کہ اس کاوالداس کے بھائی کوزیادہ اہمیت دیتاہے تواس کے سینے میں بھائی کے خلاف کینہ پیداہوجاتاہے۔
والدین یاان میں سے ایک کاکسی وجہ سے اپنے کسی ایک بچے پرزیادہ مہربان ہونااوراس سے زیادہ محبت کرنافطری سی بات ہے لیکن دوسروں کے سامنے اسے زیادہ اہمیت دے کریااسے زیادہ تحفے وتحائف دے کراس کااظہارکرناان میں حزن وملال کے گہرے احساسات کاموجب بنتاہے اوربعض اوقات اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں لذا بچوں کے درمیان عدل ومساوات کرناگویاآفات کے سامنے بندباندھنا اورافراد خانہ کے درمیان معمولی خلش کوروکنا ورنہ ان کے درمیان حسد اورکینے کے جذبات بھڑک اٹھیں گے۔
حضرت یوسف کاقصہ بھی اولاد کے درمیان عدل ومساوات قائم کرنے کادرس دیتا ہے علامات نبوت کی وجہ سے حضرت یوسف اپنے والدگرامی حضرت یعقوب کے زیادہ قریب تھے اورآپ انہیں دوسرے بچوں پرترجیح دیتے تھے اس چیزنے آپ کے بھائیوں میں بغض وکینے کے جذبات کوبھڑکادیا اوران میں آہستہ آہستہ اس کی نشانیاں ظاہرہونے لگیں یہی وجہ ہے کہ جب حضرت یوسف نے اپنی رفعت اوربلندی پرمبنی خواب حضرت یعقوب کوسنائے تھے توآپ نے حضرت یوسف کوڈراتے ہوئے فرمایاتھا :یابنی لاتقصص رؤیاک علی اخوتک فیکیدوا لک کیدا ۔
”اے میرے بیٹے اپنا خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کرناورنہ وہ تیرے خلاف کوئی مکرکریں گے“[24] ۔
آئمہ بھی اس ناقابل فراموش درس سے استفادہ کرنے کاحکم دیتے ہیں اور اسے اپنانصب العین قراردیتے ہیں مسعدة بن صدقة امام صادق سے روایت کرتے ہیں کہ امام باقر نے فرمایا :
واللہ انی لاصانع بعض ولدی، واجلسہ علی فخذی، واکثرلہ المحبة،واکثرلہ الشکر،وان الحق لغیرہ من ولدی ولکن محافظة علیہ منہ ومن غیرہ، لئلایصنعوا بہ مافعل بیوسف واخوتہ…
”قسم بخدا میں ایک بچے کے ساتھ اس کے باوجود کہ حق دوسرے کاہے زیادہ محبت کرتاہوں، اس سے نرمی کرتاہوں تاکہ وہ دوسروں سے محفوظ رہے اوراس کے ساتھ وہ کچھ نہ کریں جوحضرت یوسف کے ساتھ کیاگیاتھا“ [25]۔
پیغمبر اکرم کی متعدد احادیث میں والدین کویہ سنہری نصیحت کی گئی ہے اوراولاد ووالدین کے ایک دوسرے پرحقوق بیان کئے گئے ہیں۔
فرماتے ہیں : ان لھم علیک من الحق ان تعدل بینھم، کماان لک علیھم من الحق ان یبروک [26]۔
۱۔ ”تیرے اوپران کاحق یہ ہے کہ توان کے درمیان عدل قائم کرے اوران پرتیرا حق یہ ہے کہ وہ تیرے ساتھ حسن سلوک کریں“۔
نیزفرماتے ہیں :اعدلوا بین اولادکم فی النحل۔ای العطاء۔ کما تحبون ان یعدلوا بینکم فی البرواللطف [27]۔
اپنے بچوں کے درمیان عطاوبخشش میں عدل کروجیسے تم چاہتے ہوکہ وہ حسن سلوک اورمہربانی کرنے میں تمہارے درمیان عدل کریں“۔
ان احادیث میں آیک دقیق نکتہ یہ ہے کہ حقوق باہمی اورطرفینی ہیں جس طرح باپ کاحق ہے حسن سلوک اسی طرح اس کافریضہ ہے عدل ومساوات اور مزید دقت نظرپیغمبر کی اس حدیث میں ملتی ہے:
ان اللہ تعالی یحب ان تعدلوا بین اولادکم حتی فی القبل ۔
اللہ تعالی کویہ پسندہے کہ تم بچوں کے درمیان عدل کرو حتی کہ بوسہ لینے میں بھی“۔
یہ صحیح ہے کہ اسلامی نقطہ نظرسے والدین کے بارے میں حسن سلوک کاقانون ہے نہ عدل وبرابری کایعنی اگرباپ بیٹے کومحروم رکھے توبیٹے کے لئے اسے محروم رکھناجائزنہیں ہے یااگرباپ اس کااحترا نہ کرے توبیٹے کے لئے روا نہیں ہے کہ اس کااحترام نہ کرے کیونکہ بیٹاباپ کی ایک فرع ہے اوراس کی زندگی باپ ہی کی مرہون منت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ والدین کوبھی بچوں کے ساتھ عدل ومساوات کابرتاؤکرناچاہئے اوریہ فقط مہرومحبت اوررحمت جیسے روحانی اورمعنوی امورہی میں نہیں ہے بلکہ مادی امورمیں بھی ضروری ہے پیغمبر والدین کونصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ساووا بین اولادکم فی العطیہ فلوکنت مفضلا احدا لفضلت النساء [28]۔
عنایت اوربخشش کے لحاظ سے بچوں کے درمیان مساوات قائم کرواوراگرمیں کسی کوترجیح دیتا توعورتوں کودیتا۔
۵۔ اولاد کے مالی حقوق :
والدین پراولاد کاایک مالی حق یہ ہے کہ انہیں خرچ فراہم کریں اوران کے لباس، طعام اوررہائش جیسی ضروریات کوپوراکریں اورشریعت اسلامی میں اقرباء پرخرچ کرنے کوخاص اہمیت حاصل ہے بلکہ دیگرمقامات پرخرچ کرنے سے بہترہے رشتہ داروں پرخرچ کرنااوراس کازیادہ ثواب ہے، جیسا کہ والدین کی وراثت کے مالک اولادہے اوراسلام اولاد کومحروم کرناجائز قرارنہیں دیتامگرخاص حالات میں جیسے بیٹے کامرتد ہوجانا یاوالدین کوقتل کرنا، اولاد کے حق وراثت کے بارے میں اللہ تعالی فرماتاہے :
یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکرمثل حظ الانثیین… [29]۔
”اللہ تعالی اولاد کے سلسلے میں تمہیں وصیت کرتاہے کہ مرد کے لئے عورتوں کے دوبرابرحصہ ہے“۔
اورمزید ارشاد ہوتاہے :وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اٴَزْوَاجُکُمْ إِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمْ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُوصِینَ بِہَا اٴَوْ دَیْنٍ ۔
۱۔ ”اورتمہارے لئے اس کاآدھاہے جوتمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کابچہ نہ ہو، اوراگران کاکوئی بچہ ہوتوتمہارے لئے چوتھا حصہ ہے بعد اس وصیت کے جووہ کرتی ہیں یاقرض کے اوران کے لئے چوتھا حصہ ہے اس کاجوتم چھوڑ جاؤاگرتمہارا بچہ نہ ہواوراگربچہ ہوتوان کے لئے آٹھواں حصہ ہے اس کاجوتم چھوڑجاؤبعد اس وصیت کے جوتم کرتے ہویاقرض کے“۔
یہاں سوال پیداہوتاہے کہ ایک طرف سے والدین کوبچوں کے درمیان عدل ومساوات قائم کرنے کاحکم دیتاہے تودوسری طرف قرآن کہہ رہاہے لڑکے کاحصہ لڑکی کے دوبرابرہے یہ سوال زمانہ قدیم میں آئمہ سے بھی کیاگیاتوان کاجواب ایک ہی تھا چنانچہ اسحاق بن محمدنخعی سے روایت ہے کہ فہفکی نے امام حسن عسکری سے دریافت کیا عورت مسکین کاکیاحق ہے کہ اسے ایک حصہ ملتاہے تومردکودو؟ آپ نے فرمایا: ان المراة لیس علیھا جھاد، ولانفقة، ولاعلیھا معقلة، انماذلک علی الرجال… فقال: نعم، ھذہ المسالة مسالة ابن ابی العوجاء وکان زندیقاوالجواب مناواحد [30]۔
عورت پرنہ جہاد ہے نہ نان ونفقہ اورنہ ہی خون بہا اوردین بلکہ یہ سب مرد پرہے“ کہتاہے کہ میں نے دل میں سوچاکہ مجھے کسی نے بتایاتھاکہ ابن ابی العوجاء نے بھی یہی سوال امام صادق سے کیاتھا اورانہوں نے اس کایہی جواب دیاتھا توامام عسکری نے میری طرف پلٹے اورفرمایا: ”ہاں ابن ابی العوجاء زندیق نے یہ سوال کیاتھا اورہماری طرف سے اس کاایک ہی جواب ہے“۔
آئمہ نے اس پراورطریقوں سے بھی روشنی بھی ڈالی ہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ مردعورت کومہردیتاہے اوریہ حق اللہ تعالی نے عورت کے لئے قراردیاہے اورپھر مرد ہے کہ جس پرعورت کاخرچ واجب ہے اورعورت پرکوئی خرچ نہیں ہے لہذا لڑکے اورلڑکی کے درمیان وراثت کایہ فرق عین عدل ہے اورقرآن کریم صراحت کے ساتھ اعلان کرتاہے کہ انبیاء کی اولادکوبھی باپ کی وراثت ملتی تھی (وورث سلیمان داؤد) اورسلیمان ، داؤود کے وارث بنے [31]۔
اورحضرت علی نے اسی آیت کے ذریعہ حضرت زہرا کے اپنے والدگرامی کے وراثت کے حقدارہونے پردلیل دیتے ہوئے فرمایاتھا : (ھذاکتاب اللہ ینطق)۔
”یہ اللہ کی کتاب بول رہی ہے “ اس پرلوگ خاموش ہوگئے اوراپنے باطل موقف سے پیچھے ہٹ گئے [32]۔
اورحضرت ابوبکر نے اس حدیث :
نحن معاشرالانبیاء لانورث،ماترکناہ صدقة
”ہم انبیاء وراثت نہیں چھوڑتے ہم جوکچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتاہے“ کاسہارا لے کرحضرت فاطمة کواپنے والدگرامی کی وراثت سے محروم کردیا۔
حضرت ابوبکرکایہ قول قرآن کی واضح آیت کے مخالف ہے اوراس نے بنت مصطفی کے دل کوشدید صدمہ پہنچایاکیونکہ آپ اپنے حق کوغصب ہوتے دیکھ رہی تھیں اورجانتی تھیں کہ ہم اسے حاصل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ اورآپ کی اندوہ ناک وفات میں اس چیزکابھی دخل تھا۔
اس بات کی طرف اشارہ کرناباقی ہے کہ انبیاء اوصیاء اورصالحین نے اپنی اولاد کووصیت کرنے کی بہت تاکید فرمائی ہے۔
قرآن کریم حضرت ابراھیم کی اپنی اولاد کوکی گئی وصیت کویوں نقل کرتاہے:
وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیمُ بَنِیہِ وَیَعْقُوبُ یَابَنِیَّ إِنَّ اللهَ اصْطَفَی لَکُمْ الدِّینَ فَلاَتَمُوتُنَّ إِلاَّ وَاٴَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (۱۳۲) اٴَمْ کُنتُمْ شُہَدَاءَ إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیہِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِی قَالُوا نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ آبَائِکَ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُون[33] ۔
”اوراس کی وصیت کی ابراھیم نے اپنی اولاد کواوریعقوب نے اے میرے بیٹو! اللہ تعالی نے تمہارے لئے دین کوچناہے پس تم نہ مرنامگراس حالت میں کہ تم مسلمان ہوکیاتم اس وقت موجودتھے جب یعقوب کے پاس موت آئی توانہوں نے اپنے بیٹوں سے کہامیرے بعدتم کس کی عبادت کروگے توانہوں نے کہا ہم تیرے آباؤاجداد ابراھیم، اسماعیل اوراسحاق کے معبود کی عبادت کریںگے درحالیکہ وہ ایک معبود ہے اورہم اسی کے فرمانبردارہیں“۔
اوراحادیث نے ہمارے لئے حضرت آدم کی اپنے بیٹے شیث کوکی گئی قدیم اورقیمتی وصیت کوذکرکیاہے اس کاایک اقتباس پیش کرتے ہیں :
اذا نفرات قلوبکم من شیٴ فاجتنبوہ، فانی حین دنوت من الشجرة لاتناول منھا نفرقلبی،فلوکنت امتنعت من الاکل مااصابنی مااصابنی۔
”دل جس شی سے نفرت کرے اس سے اجتناب کروکیونکہ میں جب درخت کے کھانے کے لئے اس کے قریب گیاتھا تومیرا دل نفرت کررہاتھا اوراگرمیں کھانے سے رک جاتا تومجھ پروہ مصیبت نہ آتی جوآئی“ [34]۔
اورآئمہ نے وصیت کوھدایت کے لئے ایک وسیلہ اوراپنے نورانی افکار کوآئندہ نسلوں تک پہنچانے کے لئے ایک اسلوب کے طورپراستعمال کیااوروصیت ہی میں اپنی اولاد کومجموعہ عقائد اورزندگی کے تجربات سے آگاہ کردیا کرتے تھے۔
حضرت علی کی اپنے لخت جگرامام حسن کوکی گئی وصیت کے یہ جملے ملاحظہ فرمائیں توبلاتردید آپ انہیں صاف وشفاف بصیرت،ضمیر کی پاکیزگی اورانسانیت کامظہر کامل پائیں گے فرماتے ہیں :
اوصیک بتقوی اللہ ای بنی ولزوم امرہ، وعمارة قلبک بذکرہ والاعتصام بحبلہ وای سبب اوثق من سبب بینک وبین اللہ ان انت اخذت بہ! احی قلبک بالموعظة ، وامتہ بالزھادة، وقوہ بالیقین، ونورہ بالحکمة، وذللہ بذکرالموت واعلم یابنی ان احب ماانت آخذبہ الی من وصیتی، تقوی اللہ، والاقتصارعلی مافرضہ اللہ علیک والاخذ بمامضی علیہ الاولون من آبائک، والصالحون من اھل بیتک… [35]۔
”اے میرے پیارے بیٹے میں تجھے اللہ سے ڈرنے اورتقوی کواپناشعاربنانے کی وصیت کرتاہوں اور یہ کہ تم ذکرخدا سے اپنے دل کوآباد رکھواوراس کی رسی کومضبوطی سے تھامے رکھو اس کے سوا خدااورتمہارے درمیان کونسامضبوط رابطہ ہوسکتاہے اگرتم اس سے متمسک رہے اپنے دل کوموعظہ کے ذریعہ زندہ رکھواور زھد کے ذریعے اسے قوت بخشو اورحکمت کے ذریعے نورانیت اورموت کی یاد کے ذریعے اسے اذیت پہنچاؤ، میرے پیارے بیٹے میری وصیت میں سے مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ چیزجسے توحاصل کرسکتاہے اللہ سے ڈرناہے اوراسی پراکتفا کرناجسے اللہ تعالی نے تجھ پرفرض کیاہے اوراپنے باپ دادا کی نیک سیرت سے تمسک کرنا۔
اورامام حسین کوکی گئی وصیت کابہترین اورحسین ترین ٹکرا ملاحظہ فرمائیں :
یابنی اوصیک بتقوی اللہ فی الغنی والفقر، وکلمة الحق فی الرضاوالغضب، والقصد فی الغنی والفقر، وبالعدل علی الصدیق والعدو، وبالعمل فی النشاة واوالکسل،والرضی عن اللہ فی الشدة والرخا [36]۔
”میرے پیارے بیٹے میں تجھے اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتاہوں غنی وفقرمیں اورحق بات کی رضاوغضب میں اورمیانہ روی کی غنی اورفقرمیں اورعدل کرنے کی دوست ودشمن کے ساتھ، چستی اورسستی میں عمل کرنے اورخوشحالی میں خدائے تعالی سے راضی رہنے کی۔
ہمارے دوسروں اماموں نے بھی اسی سیرت پرعمل کیا لیکن سب کی وصیتوں کوذکرکرناممکن نہیں ہے اورجوکچھ ہم نے ذکرکیاہے ہمارے ہدف کے لئے کافی ہے۔
آخرمیں ہم ترتیب وارگذشتہ مطالب کاخلاصہ ذکرکرتے ہیں۔
خلاصہ:
بچے کے باپ پرکئی حقوق ہیں بعض ولادت سے پہلے جیسے حق وجود اوروالدہ کے انتخاب کاحق اوربعض ولادت کے بعدجیسے حق حیات پس کسی کواسے زندہ در گورکرنے یاقتل کرکے اس کی شمع حیات کوگل کرنے کاحق نہیں ہے اوراچھے نام،اچھی تربیت،نفع بخش علوم ومعارف کی تعلیم، اولاد کے درمیان عدل ومساوات قائم کرنا، ان کے مالی حق اداکرنے میں سستی نہ کرنا اور دین ودنیاکے معاملات میں اسے نصیحت کرنے میں بخل نہ کرناجیسے حقوق۔
آخرمیں امام سجاد کے اولاد کے حقوق کے بارے میں رسالے سے ایک اقتباس ذکرکرتے ہیں یہ وہ رسالہ ہے کہ جس کی فصول اورابواب معدن رسالت اورمنبع وحی سے پھوٹتے ہیں، فرماتے ہیں :
…وحق ولدک ان تعلم انہ منک، ومضاف الیک فی عاجل الدنیا بخیرہ وشرہ، وانک مسؤول عماولیتہ بہ من حسن الادب والدلالة علی ربہ عزوجل، والمعونة علی طاعتہ فاعمل فی امرہ عمل من یعلم انہ مثاب علی الاحسان الیہ، معاقب علی الاساء ةالیہ۔
”تم کوتمہارے بیٹے کاحق معلوم ہوناچاہئے کہ وہ تم سے ہے اوراس کی ہرنیکی اوربرائی تمہاری طرف منسوب ہوگی اورجوکچھ تم اسے دوگے تم سے اس کاسوال کیاجائے گااچھی تربیت،پروردگارکے بارے میں راہنمائی اوراس کی اطاعت پرکمک لذا تمہین اس کے ساتھ ایسارویہ اپنانا چاہئے جیسے تمہیں اس کی نیکی پرثواب اوراس کی برائی پرعقاب ملے گا [37]۔
[1] - بحارالانوار۱۰: ۷۸۔
[2] - سورہ ھود ۱۱: ۵۲۔
[3] - بحار ۱۰۴:۹۵۔
[4] - تنبیہ الخواطر۳۹۰۔
[5] - بحار ۱۰۲: ۱۶۲۔
[6] - وسائل ۶:۲۶۱/۱باب من ابواب الصدقة۔
[7] - وسائل ۱۵:۱۹۵/۷باب ۸۳ازابواب احکام اولاد ۔
[8] - بحار ۱۰۴:۹۵۔
[9] - وسائل ۱۵:۱۹۵/۶ باب ۸۳از ابواب احکام الاولاد-
[10] - المعجم المفھرس لالفاظ غررالحکم ۲:۷۴/۱۰۵۲۹۔
[11] - تنبیہ الخواطر۳۹۰۔
[12] - البحار۷۹:۱۰۲۔
[13] - فروع کافی ۳:۴۰۹/۱ باب صلاة الصبیان ومتی یؤخذون بھا،و۴:۱۲۵/۱باب صوم الصبیان ومتی یؤخذون بھا۔
[14] - بحار ۱:۱۶۵۔
[15] - الطلاق ۶۵:۱۲۔
[16] - بحارالانوار ۱۶:۱۶۹۔
[17] - کنزالعمال ۱۶:۵۸۴/۴۵۹۵۳۔
[18] - نہج البلاغہ تربیت ڈاکٹرصبحی صالح کتاب ۳۱۔
[19] - بحار۱: ۲۹۴۔
[20] -البحار ۷۴:۸۰۔
[21] - کنزالعمال ۱۶:۴۴۳/۴۵۳۴۰۔
[22] - وسائل ۲۱:۵۷۸/۵باب ۸۴از ابواب احکام الاولاد۔
[23] - فروع کافی
[24] - سورہ یوسف ۱۲:۵۔
[25] - تفسیرثعلبی
[26] - کنز العمال ۱۶:۴۴۶/ ۴۵۳۵۸اور۴۵۳۵۷۔
[27] - کنزالعمال
[28] - کنزالعمال ۱۶:۴۴۴/۴۵۳۴۶۔
[29] - سورہ نساء ۴:۱۱۔
[30] - بحارج۱۰۴: ص۳۲۸۔
[31] - سورہ نحل ۲۷:۱۶۔
[32] - کنزالعمال ۵: ۶۲۵/۱۴۱۰۱۔
[33] - البقرہ ۲: ۱۳۲۔۱۳۳۔
[34] - بحار ج۷۸ص۴۵۳۔
[35] - نھج البلاغہ ۔صبحی صالح۔مکتوب ۳۱۔
[36] - تحف العقول ۸۸۔
[37] - شرح رسالة حقوق۱:۵۸۱ حسن القبانچی۔
source : http://www.taghrib.ir