آپ کی ولادت باسعادت ،بیت نبوت وامامت،مرکز طہارت،شہر عزت وسخاوت مدینہ منورہ میں ۵جمادی الاول۶ ہجری میں ہوئی آپ نےطاہر ترین آغوش میں آنکھیں کھولیں آپ گلشن علی و زہرا سلام اللہ علیہم کی تیسری کلی تھیں
باپ کی زینت
زینب یعنی باپ کی زینت یہ نام خداوند عالم نے اس باعظمت خاتون کے لئے منتخب کیا جس نے اپنے پیغام سے تاریخ کو مزین کردیا اور خاندان رسالت کو دین اسلام اور خداوند عالم حضور میں سر خ رو فرمایا،کربلا اسلام کی تاریخ میں ایسا جاوداںباب ہےجس پر اسلام وشیعت ہمیشہ فخر کرتے رہیں گے اوررہتی دنیا تک زینب سلام اللہ علیہا کا اسم گرامی اسباب کی زینت بنا رہیگا
پیامبر خدا کی آغوش تربیت میں
جس وقت آپکی ولادت باسعادت ہوئی رسول اکرم صلی اللہ علی وآلہ وسلم مدینہ میں نہیں تھے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے حضرت علی علیہ السلام سے نام مبارک رکھنے کے لئے کہا علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: میں آپکے پدر گرامی پر سبقت نہیں لے سکتا ہم پیامبر اکرم صلی اللہ علی وآلہ وسلم کے مدینہ میں وارد ہونے تک انتظار کرینگے جب رسول اکرم صلی اللہ علی وآلہ وسلم تشریف لائےاور ولادت کی خبر سنی تو فرمایا زہرا کی اولاد میری اولاد ہے لیکن ان کے بارے میں خدا وند عالم فیصلہ لینے والا ہے اسکے بعد جبرئیل امین نازل ہوئے اور سلام و تحیت عرض کرنے کے بعد عرض کیا خدا ٓپ پر سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے اس بیٹی کا نام زینب رکھئے رسول خدا نے زینب کو آغوش میں لیا اور فرمایا سب اس بچی کا احترام کریں کیونکہ یہ خدیجۃ الکبری کی شبیہ ہے
حقیقت بھی یہی ہے جس طرح حضرت خدیجہ نے اسلام کے نشر ہونے میں اپنے احسانات کا سکہ جما دیا اسی طرح زینب کبری نے کربلا کے میدان سے اشہد ان لاالہ الا اللہ کی وہ صدا بلند کی کہ قیامت تک کوئی یزید توحید اور اسلام کو اپنا کھلونانہ بنا سکے گا
اگر ۶ ہجری میں ولادت والی روایت کو معتبر مانا جائے تو حضرت زینب نےپانچ سال تک رسول اکرم کے وجود مبارک سے فیض حاصل کیااور یہ مدت انکے صحابی رسول ہونے کے لئے کافی ہے اسی اعتبار کی بنیاد پر جن لوگوں نے اصحاب پیامبر کے موضوع پر کتاب تالیف کی ہے اکثر نے حضرت زینب کے اسم گرامی سے اپنے صفحات کو مزین کیا ہے
یہ پانچ سال اچھا خاصا وقت تھا جس میں حضرت زینب اپنے جد اطہر سے بہت کچھ سیکھ سکتی تھیں پیامبر اکرم نے اپنی آغوش تربیت میں معرفت کے جام دے دے کر انکے وجود کو صبر و استقامت کا پیکر بنا دیا ،رسول اکرم کیونکہ آیندہ کے حالات سے باخبر تھے اور جانتے تھے کہ انکے اس جگر پارے کو کن کن مصیبتوں کا سامنا کرنا ہےاور یہ کہ ان مصائب کا سامنا کرنے کے لئے پہاڑ سا دل ،آسماں بوس حوصلہ اور عشق خدا سے سرشار دل کی ضرورت ہے اسی لئے زینب کو صبر و استقامت کا ایسا نمونہ بنا دیا کہ قیام قیامت تک صاحبان قلم انگشت بدنداں رہیں گے
دردنا ک خواب
رسول خدا کی رحلت کے ایام قریب تھے زینب سلام اللہ علیہا نے خواب دیکھا اور اپنے نانا جان سے بیان کیا : نانا جان میں نے کواب دیکھا ہے شدید آندھی چل رہی ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا اندھیرے میں ڈوب گئی ہے میں آندھی کی شدت سے زمین پر گر گئی ہوں اور ہوا تھپیڑوں سے ادھر ادھر گر رہی ہوں یہاں تککہ ایک بڑے درخت کے نیچےپنا ہ حاصل کی لیکن وہ بھی کچھ دیر کے بعد ساتھ چھوڑ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں خواب سے بیدار ہوگئی ، رسول خدا یہ خواب سن کر گریہ کیا اور فرمایا : جس درخت کے نیچے تم نے پہلی بار پناہ لی تھی وہ تمہارے جد ہیں جو بہت جلد اس دنیا سے جانے والے ہیں اور وہ دو شاخیں جو آپس میں ملی ہوئی ہیں تم نے ان سے پناہ لی وہ تمہارے دو بھائی حسن اور حسین ہیں جن کی مصیبت میں دنیا تاریک ہو جائیگی
کچھ ہی روز بعد رسول اکرم اس دنیا سے رحلت فرما گئےیہ پہلی مصیبت تھی جو زیب کبری قلب نازنین کو برما گئی
ماں فاطمۃ الزہراء کے ساتھ
بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے پدر بزرگوار کے بعد صرف چند ماہ تک زندہ رہیں اسی لئے زینب سلام اللہ علیہا نانا کے بعدصرف چند ماہ شفقت وعطوفت مادری کے سائے میں رہیں یہی وہ مصائب تھے جنھوں نے زینب کو صبر و استقامت کا کوہ آسماں رشک بنا دیا کہ جس کی تا ریخ میں نظیر ملنا ممکن نہیں
source : alhassanain