امير المومنين حضرت علي ابن ابي طالب عليہما السلام کي شخصيت ايک ايسي شخصيت ہے جس سے اپنے اور غيرسبھي مفکرين اور دانشمند متاثر ہوئے بغير نہيں رہ سکے- جس کسي نے اس عظيم انسان کے کردار،گفتار اور اذکار ميں غور کيا، وہ دريائے حيرت ميں ڈوب گيا- غير مسلم محققين اور دانشوروں نے جب امام المتقين عليہ السلام کے اوصاف کو ديکھا تو دنگ رہ گئے کيونکہ انہوں نے افکار علي کو دنيا ميں بے نظير اور لاثاني پايا- اس کے علاوہ انہوں نے ديکھا کہ آپ ميں کمال طہارت، جادوبياني، حرارت ايماني، بلندي روح انساني، بلند ہمتي، نرم خوئي جيسي صفات موجود ہيں- ايک اور سکالر نے کہا کہ علي عليہ السلام روشن ضمير، شہيد محراب اور عدالت انساني کي پکار تھے- وہ مولا علي کوستاروں سے بلند مقام پر سمجھتا ہے-
ايک محقق لکھتا ہے کہ علي عليہ السلام وہ پہلي شخصيت ہيں جن کا پورے جہان سے روحاني تعلق ہے- وہ سب کے دوست ہيں اور اُن کي موت پيغمبروں کي موت ہے- دوسرا محقق لکھتا ہے کہ علي عليہ السلام روح و بيان ميں ايک لامتناہي سمندر کي مانند ہيں اور ان کي يہ صفت ہر زمان اور ہر مکان ميں ہے-
امير المومنين علي عليہ السلام کي ان تمام صفات کو استاد شہريار ايک شعر ميں يوں بيان کرتے ہيں:
نہ خدا تو انمش گفت نہ بشرتو انمش خواند متحيرم چہ نامم شہ ملک لافتيٰ را ”
ميں (علي عليہ السلام)کو نہ تو خدا کہہ سکتا ہوں اور نہ ہي بشر کہہ سکتا ہوں- ميں حيران ہوں کہ اس شہ ملک لافتيٰ کو کيا کہوں!”
آئيے اب غير مسلم مفکروں کے نظريات کو ديکھتے ہيں:
شبلي شُمَيل (ايک عيسائي محقق ڈاکٹر)
”امام علي ابن ابي طالب عليہما السلام تمام بزرگ انسانوں کے بزرگ ہيں اور ايسي شخصيت ہيں کہ دنيا نے مشرق و مغرب ميں، زمانہ گزشتہ اور حال ميں آپ کي نظير نہيں ديکھي”-
حوالہ
کتاب ادبيات و تعہد در اسلام، مصنف: محمد رضا حکيمي، صفحہ250-
ولتر(فرانسيسي فلاسفر اور رائٹر ،اٹھارہويں صدي)
ولتر نے اپني کتاب جو آداب و رسوم اقوام کے بارے ميں لکھي، اُس ميں رقمطراز ہے کہ خلافت علي برحق تھي اور اسي کي وصيت پيغمبر اسلام نے کي تھي- آخري وقت ميں پيغمبراکرم نے قلم دوات طلب کي کہ حضرت علي عليہ السلام کي جانشيني کو خود اپنے ہاتھ سے لکھ ديں- ولتر اس بات پر پشيمان ہے کہ پيغمبر اسلام کي يہ وصيت کيوں نہ پوري کي گئي- جبکہ اُن کا جانشين علي کومقرر کرديا گيا تھاتوپيغمبر اسلام کي وفات کے بعد کچھ لوگوں نے حضرت ابوبکر کو کيوں خليفہ چن ليا تھا؟
تھامس کارلائل (ايک انگريز فلاسفر اور رائٹر)
تھامس کارلائل لکھتا ہے:
”ہم علي کواس سے زيادہ نہ جان سکے کہ ہم اُن کو دوست رکھتے ہيں اور اُن کو عشق کي حد تک چاہتے ہيں- وہ کس قدر جوانمرد، بہادر اور عظيم انسان تھے- اُن کے جسم کے ذرّے ذرّے سے مہرباني اور نيکي کے سرچشمے پھوٹتے تھے- اُن کے دل سے قوت و بہادري کے نوراني شعلے بلند ہوتے تھے- وہ دھاڑتے ہوئے شير سے بھي زيادہ شجاع تھے ليکن اُن کي شجاعت ميں مہرباني اور لطف و کرم کي آميزش تھي-----
اچانک کوفہ ميں کسي بہانے سے اُنہيں قتل کر ديا گيا- اُن کے قتل کي وجہ حقيقت ميں اُن کا عدل جہاني کو درجہ کمال تک پہنچانا تھا- وہ دوسروں کو بھي اپني طرح عادل تصور کرتے تھے- جب علي سے اُن کے قاتل کے بارے ميں پوچھا گيا تو انہوں نے جواب ديا کہ اگر ميں زندہ رہا تو ميں جانتا ہوں (کہ مجھے کيا فيصلہ کرنا چاہئے) - اگر ميں زندہ نہ بچ سکا تو يہ کام آپ کے ذمہ ہے- اگر آپ نے قصاص لينا چاہا تو آپ صرف ايک ہي ضربت لگا کر سزا ديں اور اگر اس کو معاف کرديں تو يہ تقويٰ کے نزديک تر ہے”-
حوالہ
کتاب ”داستان غدير”، صفحہ294،نقل از کتاب صوت العدالۃ،صفحہ1229-
source : http://www.tebyan.net