انساني زندگي ميں عقيدہ آخرت کو بےحد زيادہ اہميت حاصل ہے - انسان اس عارضي زندگي ميں جو اعمال بھي انجام ديتا ہے وہ مختلف نوعيت کے ہوتے ہيں - بعض انساني اعمال اچھے ہوتے ہيں جن پر انسان انعام کا حقدار ٹھہرتا ہے جبکہ بعض اعمال برے ہوتے ہيں جن پر سزا اس کا مقدر بن جاتي ہے - بعض اوقات ايسا بھي ہوتا ہے کہ انسان ايک اچھا کام کرے مگر اسے اس کا اجر نہ ملے اور اس کے برعکس کوئي برا کام کرے اور اس پر اسے سزا نہ ملے - جس انسان نے اچھا عمل کيا ہے اگر اسے فوري انعام نہيں ملا تو اس کا يہ مطلب نہيں کہ اسے اس اچھائي کا بدلہ نہيں ملے گا - اس کي اچھائي اور نيکي کا بدلہ اسے ضرور ملتا ہے - اگر انسان کو اس کے اچھے کاموں کا انعام اس دنيا ميں نہ مل سکے تو وہي انعام اسے مرنے کے بعد يعني يوم آخرت پر ملتا ہے -
آخرت کے عقيدہ کا مطلب يہ ہے کہ اس بات کا يقين کيا جائے کہ اس دنيا کي زندگي کے بعد ايک اور زندگي ايک اور عالم آنے والا ہے اور وہاں انسان کو اس دنيا ميں کيے ہوئے اُس کے اچھے بُرے اعمال کي جزا اور سزا ملے گي ، آخرت کي اجمالي حقيقت اتني ہے اور اس کو عقل سليم بھي ضروري سمجھتي ہے ، انسان اگر غور وفکر سے کام لے تو يہاں تک اس کي عقل بھي پہنچا ديتي ہے کہ اس دنيوي زندگي کے بعد ايک اور ايسا عالم ہونا چاہيے، جہاں انسانوں کو ان کے اچھے اور بُرے اعمال کي جزا اور سزا ملے، کيوں کہ اس دنيا ميں برائي اوربھلائي تو موجود ہے ، ليکن اس کي سزا اور جزا، جو الله تعاليٰ کي صفت عدل کا لازمي تقاضا ہے، يہاں نہيں ملتي، اس ليے کسي اور ايسي زندگي کا ہونا ضروري ہے، جس ميں نيک بختوں کو اُن کي نيکوکاريوں کي جزا اور مجرموں کو اُن کي مجرمانہ بدکرداريوں کي سزا ملے، اس کو ذرا اور تفصيل سے يوں سمجھيے کہ اس دنيا ميں ہم ديکھتے ہيں کہ بہت سے پيشہ ور مجرم عمر بھر بڑے ظلم اور پاپ کرتے ہيں ، لوگوں کي جان ومال پر ڈاکے ڈالتے ہيں، بندگان خدا کے حق مارتے ہيں ، کمزوروں اور غريبوں کو ستاتے ہيں ، رشوتيں ليتے اور خيانتيں کرتے ہيں اور عمر بھر عيش کرتے ہوئے، بلکہ اولاد کے ليے بھي عيش وعشرت کا بہت کچھ سامان چھوڑ کے اس دنيا سے چلے جاتے ہيں
source : tebyan