اس ميں شک نہيں کہ کل قيامت کو ہر کسي سے اس کو سونپي گئي ذمہ داريوں کے لحاظ سے پوچھ گچھ ہو گي - ليکن اگر ميرے ماتحت دو افراد کام کر رہے ہيں تو مجھ پر لازم ہے کہ انہي دو افراد کے ساتھ اچھا سلوک کروں اور جو ڈائريکٹر جنرل ہے اس کي ذمہ دارياں دوسري نوعيت کي ہيں -
ہمارے ملک ميں ايک مسئلہ يہ ہے کہ ہر شخص دوسرے کو قصوروار ٹھہراتا ہے - مجھے اپني حد تک صحيح کام کرنا چاہيۓ - ميرا دوسروں سے کيا کام ؟ اگر ميں نے بھي برا عمل کيا تو بالکل اسي شخص کي مانند ہو جاğ گا جس کي ميں برائي بيان کرتا ہوں کہ اس نے فلاں حق کو ضائع کيا ہے - کل قيامت کے دن ميں اپني حد تک اپنے اعمال کا جواب دہ ہوں اور جس کي ذمہ دارياں زيادہ ہيں اسے اس کے حصّے کا جواب دينا پڑے گا - کتاب " ميزان الحکمھ " ميں آٹھ صفحات صرف ہمسايہ کے متعلق لکھے گۓ ہيں - ميري کوشش ہو گي کہ اس ميں سے صرف روايات پڑھوں -
نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے روايت ہے کہ :
" اپنے ہمسايے کے ساتھ اچھا سلوک کرو تاکہ تم مومن بن سکو - "
پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا :
جبرائيل نے خدا کي طرف سے مجھے ہمسايہ کے حقوق کي اس قدر تاکيد کي کہ مجھے يہ توقع ہونے لگي کہ کہہ ديں گے کہ پڑوسي کو پڑوسي کي ارث کا حصّہ بھي ملے گا "-
اس سے اوپر روايات ميں آيا ہے :
حُرمة الجار علي الإنسان کَحُرمة اُمّه،
انسان کے ليۓ پڑوسي کا احترام ماں کے احترام کي مانند ہے - ميں اپنے ہمسايے کے ساتھ کيسا سلوک کرتا ہوں - بعض اوقات تو ميں اپنے ہمسايہ کو جانتا بھي نہيں ہوتا -
يہي مسئلہ کہ کسي رہائشي عمارت ميں پڑوسيوں کا آپس ميں رابطہ نہيں ہے بعض لوگوں کي نظر ميں مثبت پہلو تصوّر ہوتا ہے -
ايک روايت ہے کہ اگر پڑوسيوں کے حقوق کا خيال رکھو گے تو تمہارے رزق ميں اضافہ ہو گا - اگر ميں اپنے ہمسايے سے برا سلوک کروں تو ميرے کاروبار ميں مشکلات آ جاتي ہيں - يہ بہت عجيب بات ہے - ہم کہتے ہيں کہ ناگہاني اموات ميں اضافہ کيوں ہو گيا ہے ؟ ہم ذرا سوچيں کہ ايک دوسرے سے ہمارا يہ طرز عمل تو کہيں اس طرح کے حادثات کي وجہ تو نہيں ہے ؟
بچے کا والدين کے ساتھ برتاؤ ، ہمسايہ کا ہمسايہ سے اور --- يہ سب ہماري زندگي ميں اثر گزار ہيں - ايک روايت ميں ہے کہ
حُسن الجوار يُعمر الديار و يزيد في الأعمار،
اچھي ہمسائيگي شہروں کو آباد اور عمروں کو لمبا کر ديتي ہے -
ايک اور روايت ميں ہے کہ
ما تأکدت الحُرمَة بمثل المصاحبة و المُجاورة،
ساتھي اور ہمسايے کے احترام کا خيال رکھنے سے زيادہ کوئي بھي چيز محترم نہيں ہے - دين کا تصوّر اسي جگہ مشخص ہو جاتا ہے - دين کہتا ہے کہ اگر تم نے کسي کے ساتھ دو گھنٹے يا چند روز گزارے تو وہ تمہارے ليے قابل احترام ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہر طرح کا سلوک کرنے کا تمہيں کوئي حق نہيں -
اميرالمؤمنين عليہ السلام نے شہادت کے وقت اپني وصيت ميں فرمايا :
اميرالمؤمنين (عليهالسلام) در هنگام شهادت در وصيت خود فرمودند: الله لله في جيرانکم فإنهم وصية نبيّکم ما زال يوصي بهم حتي ظننا انه سيورثهم،
اپنے ہمسايے کے ساتھ اچھا سلوک کرو کيونکہ ان کے ليۓ تمہارے پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے نصيحت اور سفارش کي ہے - وہ پڑوسيوں کے حقوق کي ہميشہ تاکيد کرتے تھے يہاں تک کہ ہميں يہ گمان ہونے لگا کہ بہت جلد ان کے ليۓ وراثت ميں سے حصّہ مقرر کر ديا جاۓ گا -
ايک روايت ميں آيا ہے کہ
ما تأکدت الحُرمَة بمثل المصاحبة و المُجاورة،
ساتھي اور ہمسايہ کي عزّت کا خيال رکھے جانے سے زيادہ کوئي بھي چيز عزت والي نہيں - دين کا تصوّر اس جگہ مشخص ہو جاتا ہے - دين کہتا ہے کہ اگر تم نے کسي کے ساتھ دو گھنٹے يا چند روز گزارے تو وہ تمہارے ليے قابل احترام ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہر طرح کا سلوک کرنے کا تمہيں کوئي حق نہيں -
source : tebyan