امام حسین (ع) نےعراق کے لئے نکلتے ہوئے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا کہ موت کا نشان اولاد آدم کی گردن سے یونہی وابستہ ہے جس طرح عورت کے گلے میں ہار ، میں اپنے اسلاف کا اسی طرح اشتیاق رکھتاہوں جس طرح یعقوب کو یوسف کا اشتیاق تھا میری بہترین منزل وہ ہے جس کی طرف میں جارہاہوں اور میں وہ منظر دیکھ رہاہوں کہ نواویس اور کربلا کے درمیان نبی امیہ کے درندے میرے جوڑ جوڑ کو الگ کررہے ہیں اور اپنی عداوت کا پیٹ بھر رہے ہیں، قلم قدرت نے جو دن لکھ دیا ہے وہ بہر حال پیش آنے والا ہے ” اللہ کی مرضی ہی ہم اہلبیت (ع) کی رضا ہے، ہم اس کی بلاپر صبر کرتے ہیں اور وہ ہمیں صابروں کا اجر دینے والا ہے رسول اکرم سے ان کے پارہ ہائے جگر الگ نہیں رہ سکتے ہیں، خدا سب کو جنت میں جمع کرنے والا ہے جس سے ان کی آنکھوں کو خنکی نصیب ہوگی اور ان سے کئے گئے وعدہ کو پورا کیا جائے گا، دیکھو جو ہمارے ساتھ اپنی جان قربان کرسکتاہے اور لقائے الہی کے لئے اپنے نفس کو آمادہ کرچکاہے وہ ہمارے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوجائے، ہم کل صبح نکل رہے ہیں ۔( کشف الغمہ 2 ص 241 ، ملہوف ص 126 ، نثر الددر ص 333)۔
source : tebyan