اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

قرآن مجيد اور اخلاقي تربيت ( حصّہ سوّم )

قرآن مجيد اور اخلاقي تربيت ( حصّہ سوّم )

يت کريمہ کے ہر لفظ ميں ايک نئي اخلاقي تربيت پائي جاتي ہے اور اس سے مسلمان کے دل ميں ارادي اخلاق اور قوت برداشت پيدا کرنے کي تلقين کي گئي ہے- دشمن کي طرف سے بے خوف ہوجانا شجاعت کا کمال ہے ليکن حسبنا اللہ کہہ کر بےخوفي کا اعلان کرنا ايمان کا کمال ہے- بے خوف ہوکر نامناسب اور متکبرانہ انداز اختيار کرنا دنياوي کمال ہے اور رضوان الہي کا اتباع کرتے رہنا قرآني کمال ہے-
قرآن مجيد ايسے ہي اخلاقيات کي تربيت کرنا چاہتا ہے اور مسلمان کو اسي منزل کمال تک لے جانا چاہتا ہے-
 ”‌ولما رأي المومنون الاحزاب قالوا ہذا ما وعدنا اللہ رسولہ و صدق اللہ و رسولہ و ما زاداہم الا ايماناً تسليماً” (احزاب 22) ”
‌اور جب صاحبان ايمان نے کفار کے گروہوں کو ديکھا تو برجستہ يہ اعلان کرديا کہ يہي وہ بات ہے جس کا خدا و رسول نے ہم سے وعدہ کيا تھا اور ان کا وعدہ بالکل سچا ہے اور اس اجتماع سے ان کے ايمان اور جذبہ تسليم ميں مزيد اضافہ ہو گيا”

مصيبت کو برداشت کر لينا ايک انساني کمال ہے- ليکن اس شان سے استقبال کرنا گويا اسي کا انتظار کر رہے تھے اور پھر اس کو صداقت خدا اور رسول کي بنياد قرار دے کر اپنے ايمان و تسليم ميں اضافہ کر لينا وہ اخلاقي کمال ہے جسے قرآن مجيد اپنے ماننے والوں ميں پيدا کرنا چاہتا ہے-
”‌وکاين من نبي قات معہ ربّيون کثير فما وہنوا لما اصابہم في سبيل اللہ و ما ضعفوا وما استکانوا واللہ يحبّ الصابرين” (آل عمران 146)
”‌اور جس طرح بعض انبياء کے ساتھ بہت سے اللہ والوں نے جہاد کيا ہے اور اس کے بعد راہ خدا ميں پڑنے والي مصيبتوں نے نہ ان ميں کمزوري پيدا کي اور نہ ان کے ارادوں ميں ضعف پيدا ہوا اور نہ ان ميں کسي طرح کي ذلّت کا احساس پيدا ہوا کہ اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے”

آيت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اس واقعہ کي ذريعہ ايمان والوں کواخلاقي تربيت دي جا رہي ہے اور انہيں ہر طرح کے ضعف و ذلت سے اس ليے الگ رکھا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ خدا ہے اور وہ انہيں دوست رکھتا ہے اور جسے خدا دوست رکھتا ہے اسے کوئي ذليل کرسکتا ہے اور نہ بيچارہ بنا سکتا ہے- يہي ارادي اخلاق ہے جو قرآني آيات کا طرہ امتياز ہے اور جس سے دنيا کے سارے مذاہب و اقوام بے بہرہ ہيں- ”‌وعباد الرحمن الذين يمشون علي الارض ہوناً واذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاماً----- اولئک يجزون الغرفة بما صبروا و يلقون فيہا تحيہ وسلاما” ( فرقان 63)

”‌اور اللہ کے بندے وہ ہيں جو زمين پر آہستہ چلتے ہيں اور جب کوئي جاہلانہ انداز سے ان سے خطاب کرتا ہے تو اسے سلامتي کا پيغام ديتے ہيں -- يہي وہ لوگ جنہيں ان کے صبر کي بنا پر جنت ميں غرفے ديے جائيں گے اور تحيہ اور سلام کي پيش کش کي جائے گي اس آيت ميں بھي صاحبان ايمان اور عباد الرحمن کي علامت قوت تحمل و برداشت کو قرار ديا گيا ہے، ليکن ”‌قالوا سلاماً” کہہ کراس کي اراديت اور شعوري کيفيت کا اظہار کيا گيا ہے کہ يہ سکوت بر بنائے بزدلي اور بے حيائي نہيں ہے بلکہ اس کے پيچھے ايک اخلاقي فلسفہ ہے کہ وہ سلامتي کا پيغام دے کر دشمن کو بھي راہ راست پر لانا چاہتا ہيں-

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام عصر كی معرفت قرآن مجید كی روشنی میں
کیا شیطان (ابلیس) جنّات میں سے هے یا فرشتوں میں سے؟
قرآن مجید میں سورج کے طلوع اور غروب سے کیا مراد ...
اسلامی اتحاد قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآنی لفظِ "سمآء"کے مفاہیم
قرآن و اھل بیت علیھم السلام
امامت قرآن اورسنت کی رو سے
اسلام پر موت کی دعا
دینی معاشرہ قرآن و سنت کی نظر میں
سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۳ اور سورہ احقاف کی آیت ...

 
user comment