اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(دوم)


موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور ید بیضا

اس میں شک نھیں کہ انبیاء علیھم السلام کو اپنے خدا کے ساتھ ربط ثابت کرنے کے لئے معجزے کی ضرورت ھے ، ورنہ ھر شخص پیغمبر ی کا دعویٰ کرسکتا ھے اس بناء پر سچے انبیاء علیھم السلام کا جھوٹوں سے امتیاز معجزے کے علاوہ نھیں ہوسکتا، یہ معجزہ خود پیغمبر کی دعوت کے مطالب اور آسمانی کتاب کے اندر بھی ہوسکتا ھے اور حسی اور جسمانی قسم کے معجزات اوردوسرے امور میں بھی ہوسکتے ھیں علاوہ ازیں معجزہ خود پیغمبر کی روح پر بھی اثرانداز ہوتا ھے اور وہ اسے قوت قلب، قدرت ایمان اور استقامت بخشتا ھے ۔
بھرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرمان نبوت ملنے کے بعد اس کی سند بھی ملنی چاہئے، لہٰذا اسی پُر خطر رات میں جناب موسیٰ علیہ السلام نے دو عظیم معجزے خدا سے حاصل کئے ۔
قرآن اس ماجرے کو اس طرح بیان کرتا ھے :
”خدا نے موسیٰ سے سوال کیا : اے موسیٰ یہ تیرے دائیں ھاتھ میں کیا ھے“؟۔[47]
اس سادہ سے سوال ،میں لطف ومحبت کی چاشنی تھی ، فطرتاً موسیٰ علیہ السلام، کی روح میں اس وقت طوفانی لھریں موجزن تھیں ایسے میں یہ سوال اطمینان قلب کے لئے بھی تھا اورایک عظیم حقیقت کو بیان کرنے کی تمھید بھی تھا ۔”موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں کھا: یہ لکڑی میرا عصا ھے “۔[48]
اور چونکہ محبوب نے ان کے سامنے پھلی مرتبہ یوں اپنا دروازہ کھولا تھا لہٰذا وہ اپنے محبوب سے باتیں جاری رکھنا اور انھیں طول دینا چاہتے تھے اور اس وجہ سے بھی کہ شاید وہ یہ سوچ رھے تھے کہ میرا صرف یہ کہنا کہ یہ میرا عصا ھے، کافی نہ ہو بلکہ اس سوال کا مقصد اس عصا کے آثار و فوائد کو بیان کرنا مقصودہو، لہٰذا مزید کھا : ”میں اس پرٹیک لگاتاہوں، اور اس سے اپنی بھیڑوں کے لئے درختوں سے پتے جھاڑتا ہوں ،اس کے علاوہ اس سے دوسرے کام بھی لیتا ہوں “۔[49]
البتہ یہ بات واضح اور ظاھر ھے کہ عصا سے کون کون سے کام لیتے ھیں کبھی اس سے موذی جانوروں اور دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک دفاعی، ہتھیار کے طور پر کام لیتے ھیں کبھی اس کے ذریعے بیابان میں سائبان بنا لیتے ھیں ، کبھی اس کے ساتھ برتن باندھ کر گھری نھرسے پانی نکالتے ھیں ۔
بھرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک گھرے تعجب میں تھے کہ اس عظیم بارگاہ سے یہ کس قسم کا سوال ھے اور میرے پاس اس کا کیا جواب ھے ، پھلے جو فرمان دئیے گئے تھے وہ کیا تھے ، اور یہ پرسش کس لئے ھے ؟
موسیٰ سے کھا گیا کہ : اپنے عصا کو زمین پرڈال دو “ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے عصا کو پھینک دیا اب کیا دیکھتے ھیں کہ وہ عصا سانپ کی طرح تیزی سے حرکت کررھا ھے یہ دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام ڈرے اور پیچھے ہٹ گئے یھاں تک کہ مڑکے بھی نہ دیکھا “ ۔[50]
جس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ عصا لیا تھا تاکہ تھکن کے وقت اس کا سھارا لے لیا کریں ،اور بھیڑوں کے لئے اس سے پتے جھاڑلیا کریں، انھیں یہ خیال بھی نہ تھا کہ قدرت خدا سے اس میں یہ خاصیت بھی چھپی ہوئی ہوگی اور یہ بھیڑوں کو چرانے کی لاٹھی ظالموں کے محل کو ھلادے گی ۔
موجودات عالم کا یھی حال ھے کہ وہ بعض اوقات ھماری نظر میں بہت حقیر معلوم ہوتی ھیں مگرا ن میں بڑی بڑی استعداد چھپی ہوتی ھے جو کسی وقت خدا کے حکم سے ظاھر ہوتی ھے ۔
اب موسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ آواز سنی جو ان سے کہہ رھی تھی :” واپس آ اور نہ ڈر توامان میں ھے“۔[51]
بھرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ درگاہ رب العزت میں مطلق امن وامان ھے اور کسی قسم کے خوف وخطر کا مقام نھیں ھے۔

 
انذار وبشارت

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو معجزات عطا کئے گئے ان میں سے پھلا معجزہ خوف کی علامت پر مشتمل تھا اس کے بعد موسی کو حکم دیا گیا کہ اب ایک دوسرا معجزہ حاصل کرو جو نوروامید کی علامت ہوگا اور یہ دونوں معجزہ گویا ”انذار اوربشارت“ تھے۔
موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ” اپنا ھاتھ اپنے گریبان میں ڈالو اور باھر نکا،لو موسیٰ علیہ السلام نے جب گریبان میں سے ھاتھ باھر نکالا تو وہ سفید تھا اور چمک رھا تھا اور اس میں کوئی عیب اور نقص نہ تھا “۔[52]
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ھاتھ میں یہ سفیدی اور چمک کسی بیماری (مثلا ”برص یا کوئی اس جیسی چیز) کی وجہ سے نہ تھی بلکہ یہ نور الٰھی تھا جو بالکل ایک نئی قسم کا تھا۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سنسان کو ہسار اور اس تاریک رات میں یہ دوخارق عادت ھم نے قبل ازیں کھا ھے کہ اس سانپ کے لئے جو یہ دوالفاظ استعمال ہوئے ھیں ممکن ھے اس کی دو مختلف حالتوں کے لئے ہوں کہ ابتدا میں وہ چھوٹا سا ہو اور پھر ایک بڑا اژدھا بن گیا ہو اس مقام پر یہ احتمال بھی ہوسکتا ھے کہ موسی نے جب واویٴ طور میں اسے پھلی بار دیکھا تو چھوٹا سا سانپ تھا، رفتہ رفتہ وہ بڑا ہوگیا ۔
اور خلاف معمول چیزیں دیکھیں تو ان پر لرزہ طاری ہوگیا، چنانچہ اس لئے کہ ان کا اطمینان قلب واپس آجائے انھیں حکم دیا گیا کہ” اپنے سینے پر اپنا ھاتھ پھریں تاکہ دل کو راحت ہوجائے “۔[53]
اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام نے پھروھی صدا سنی جو کہہ رھی تھی:” خدا کی طرف سے تجھے یہ دودلیلیں فرعون اور اس کے ساتھیوں کے مقابلے کے لئے دی جاری ھیں کیونکہ وہ سب لوگ فاسق تھے اور ھیں “۔[54]
جی ھاں!یہ لوگ خدا کی طاعت سے نکل گئے ھیں اور سرکشی کی انتھا تک جاپہنچے ھیں تمھارا فرض ھے کہ انھیں نصیحت کرو اور راہ راست کی تبلغ کرو اور اگر وہ تمھاری بات نہ مانیں تو ان سے جنگ کرو۔

 
کامیابی کے اسباب کی درخواست

موسیٰ علیہ السلام اس قسم کی سنگین مامورریت پر نہ صرف گھبرائے نھیں،بلکہ معمولی سی تخفیف کےلئے بھی خدا سے درخواست نہ کی، اور کھلے دل سے اس کا استقبال کیا ،زیادہ سے زیادہ اس ماموریت کے سلسلے میں کامیابی کے وسائل کی خدا سے درخواست کی اور چونکہ کامیابی کا پلااور ذریعہ، عظیم روح، فکر بلند اور عقل توانا ھے، اور دوسرے لفظوں میں سینہ کی کشاد گی وشرح صدر ھے لہٰذا ”عرض کیا میرے پروردگار! میرا سینہ کشادہ کردے “۔[55]
ھاں ، ایک رھبر انقلاب کا سب سے اولین سرمایہ ، کشادہ دلی ، فراوان حوصلہ، استقامت وبرد باری اور مشکلات کے بوجھ کو اٹھاناھے ۔
اور چونکہ اس راستے میں بے شمار مشکلات ھیں، جو خدا کے لطف وکرم کے بغیر حل نھیں ہوتیں، لہٰذا خدا سے دوسرا سوال یہ کیا کہ میرے کاموں کو مجھ پر آسان کردے اور مشکلات کو راستے سے ہٹادے آپ نے عرض کیا : ”میرے کام کو آسان کردے “۔[56]
اس کے بعد جناب موسیٰ علیہ السلام نے زیادہ سے زیادہ قوت بیان کا تقاضا کیا کہنے لگے:” میری زبان کی گرہ کھول دے“ ۔[57]
یہ ٹھیک ھے کہ شرح صدر کا ہونا بہت اھم بات ھے ، لیکن یہ سرمایہ اسی صورت میں کام دے سکتا ھے جب اس کو ظاھر کرنے کی قدرت بھی کامل طور پر موجود ہو، اسی بناء پر جناب موسیٰ علیہ السلام نے شرح صدر اور رکاوٹوں کے دور ہونے کی در خواستوں کے بعد یہ تقاضا کیا کہ خدا ان کی زبان کی گرہ کھول دے ۔
اور خصوصیت کے ساتھ اس کی علت یہ بیان کی :” تاکہ وہ میری باتوں کو سمجھیں“۔ [58]
یہ جملہ حقیقت میں پھلی بات کی تفسیر کرر ھاھے اس سے یہ بات واضح ہورھی ھے کہ زبان کی گرہ کے کھلنے سے مراد یہ نہ تھی کہ موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں بچپنے میں جل جانے کی وجہ سے کوئی لکنت آگئی تھی (جیسا کہ بعض مفسرین نے ابن عباس سے نقل کیا ھے)بلکہ اس سے گفتگو میں ایسی رکاوٹ ھے جو سننے والے کے لئے سمجھنے میں مانع ہوتی ھے یعنی میں ایسی فصیح وبلیغ اور ذہن میں بیٹھ جانے والی گفتگو کروں گہ ھر سننے والا میرا مقصد اچھی طرح سے سمجھ لے ۔

 
میرا بھائی میراناصر ومددگار

بھرحال ایک کامیاب رھبر ورہنما وہ ہوتا ھے کہ جو سعیٴ، فکر اور قدرت روح کے علاووہ ایسی فصیح وبلیغ گفتگو کرسکے کہ جو ھر قسم کے ابھام اور نارسائی سے پاک ہو ۔
نیز اس بار سنگین کے لئے ۔ یعنی رسالت الٰھی، رھبری بشر اور طاغوتوں اور جابروں کے ساتھ مقابلے کے لئے یارومددگار کی ضرورت ھے اور یہ کام تنھاانجام دینا ممکن نھیں ھے لہٰذا حضرت موسیٰ(ع)نے پروردگار سے جو چوتھی درخواست کی :
”خداوندا!میرے لئے میرے خاندان میں سے ایک وزیراور مددگار قراردے“۔[59]
البتہ یہ بات کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تقاضا کررھے ھیں کہ یہ وزیر ان ھی کے خاندان سے ہو، اس کی دلیل واضح ھے چونکہ اس کے بارے میں معرفت اور شناخت بھی زیادہ ہوگی اور اس کی ھمدردیاں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ ہوں گی کتنی اچھی بات ھے کہ انسان کسی ایسے شخص کو اپنا شریک کار بنائے کہ جو روحانی اور جسمانی رشتوں کے حوالے سے اس سے مربوط ہو۔
اس کے بعد خصوصی التماس کے بعد خصوصی طور پر اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عرض کیا : ”یہ ذمہ داری میرے بھائی ھارون کے سپرد کردے “۔[60]
ھارون بعض مفسرین کے قول کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بڑے بھائی تھے اور ان سے تین سال بڑے تھے بلند قامت فصیح البیان اور اعلیٰ علمی قابلیت کے مالک تھے، انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات سے تین سال پھلے رحلت فرمائی ۔[61]
اور وہ نور اور باطنی روشنی کے بھی حامل تھے، اور حق وباطل میں خوب تمیز بھی رکھتے تھے ۔[62]
آخری بات یہ ھے کہ وہ ایک ایسے پیغمبر تھے جنھیں خدا نے اپنی رحمت سے موسیٰ علیہ السلام کو بخشا تھا۔[63]
وہ اس بھاری ذمہ داری کی انجام دھی میں اپنے بھائی موسیٰ علیہ السلام کے دوش بدوش مصروف کار ھے ۔
یہ ٹھیک ھے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اس اندھیری رات میں، اس وادیٴ مقدس کے اندر، جب خدا سے فرمان رسالت کے ملنے کے وقت یہ تقاضا کیا ، تو وہ اس وقت دس سال سے بھی زیادہ اپنے وطن سے دور گزار کر آرھے تھے، لیکن اصولی طور پر اس عرصہ میں بھی اپنے بھائی کے ساتھ ان کارابطہ کامل طور پر منقطع نہ ہو، اسی لئے اس صراحت اور وضاحت کے ساتھ ان کے بارے میں بات کررھے ھیں، اور خدا کی درگاہ سے اس عظیم مشن میں اس کی شرکت کے لئے تقاضا رکرھے ھیں۔
اس کے بعد جناب موسیٰ علیہ السلام ھارون کو وزارت ومعاونت پر متعین کرنے کےلئے اپنے مقصد کو اس طرح بیان کرتے ھیں : ”خداوندا! میری پشت اس کے ذریعے مضبوط کردے“۔[64]
اس مقصد کی تکمیل کے لئے یہ تقاضا کرتے ھیں: ” اسے میرے کام میں شریک کردے۔“[65]
وہ مرتبہ رسالت میں بھی شریک ہو اور اس عظیم کام کو رو بہ عمل لانے میں بھی شریک رھیں، البتہ حضرت ھارون ھر حال میں تمام پروگراموں میں جناب موسیٰ علیہ السلام کے پیرو تھے او رموسیٰ علیہ السلام ان کے امام و پیشوا کی حیثیت رکھتے تھے۔
آخر میں اپنی تمام درخواستوں کا نتیجہ اس طرح بیان کرتے ھیں: ” تاکہ ھم تیری بہت بہت تسبیح کریں اور تجھے بہت بہت یاد کریں، کیونکہ تو ھمیشہ ھی ھمارے حالات سے آگاہ رھا ھے۔“[66]
تو ھماری ضروریات و حاجات کو اچھی طرح جانتا ھے اور اس راستہ کی مشکلات سے ھر کسی کی نسبت زیادہ آگاہ ھے، ھم تجھ سے یہ چاہتے ھیں کہ تو ھمیں اپنے فرمان کی اطاعت کی قدرت عطا فرمادے اور ھمارے فرائض، ذمہ داریوں اور فرائض انجام دینے کے لئے ھمیں توفیق اور کامیابی عطا فرما۔
چونکہ جناب موسیٰ علیہ السلام کا اپنے مخلصانہ تقاضوں میں سوائے زیادہ سے زیادہ اور کامل تر خدمت کے اور کچھ مقصد نھیں تھا لہٰذا خداوندعالم نے ان کے تقاضوں کو اسی وقت قبول کرلیا،” اس نے کھا: اے موسیٰ ! تمھاری درخواستیں قبول ھیں۔“[67]
حقیقت میں ان حساس اور تقدیر ساز لمحات میں چونکہ موسیٰ علیہ السلام پھلی مرتبہ خدائے عظیم کی بساط مھمانی پر قدم رکھ رھے تھے،لہٰذا جس جس چیز کی انھیں ضرورت تھی ان کا خدا سے اکٹھا ھی تقاضا کرلیا،اور اس نے بھی مھمان کا انتھائی احترام کیا،اور اس کی تمام درخواستوں اور تقاضوں کو ایک مختصر سے جملے میں حیات بخش ندا کے سا تھ قبول کرلیا اور اس میں کسی قسم کی قیدو شرط عائد نہ کی اور موسیٰ علیہ السلام کا نام مکرر لا کر،ھر قسم کے ابھام کو دور کرتے ہوئے اس کی تکمیل کر دی ،یہ بات کس قدر شوق انگیز اور افتخار آفرین ھے کہ بندے کا نام مولا کی زبان پر بار بار آئے۔

 
فرعون سے معرک آرا مقابلہ

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماموریت کا پھلا مرحلہ ختم ہوا جس میں بتایا گیا ھے کہ انھیں وحی اور رسالت ملی اور انھوں نے اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وسائل کے حصول کی درخواست کی ۔
اس کے ساتھ ھی زیر نظر دوسرے مرحلے کے بارے میں گفتگو ہوتی ھے یعنی فرعون کے پاس جانا اور اس کے ساتھ گفتگو کرنا چنانچہ ان کے درمیان جو گفتگو ہوئی ھے اسے یھاں پر بیان کیا جارھا ھے۔
سب سے پھلے مقدمے کے طور پر فرمایا گیا ھے:اب جبکہ تمام حالات ساز گار ھیں تو تم فرعون کے پاس جاؤ ”اور اس سے کہو کہ ھم عالمین کے پروردگار کے رسول ھیں“۔[68]
اور اپنی رسالت کا ذکر کرنے کے بعد بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیجئے اور کہئیے :”کہ ھمیں حکم ملا ھے کہ تجھ سے مطالبہ کریں کہ تو بنی اسرائیل کو ھمارے ساتھ بھیج دے“۔[69]
وہ مصر میں گئے اور اپنے بھائی ھارون کو مطلع کیا اور وہ رسالت جس کے لیے آپ(ع) مبعوث تھے،اس کا پیغام اسے پہنچایا۔پھر یہ دونوں بھائی فرعون سے ملاقات کے ارادے سے روانہ ہوئے۔ آخر بڑی مشکل سے اس کے پاس پہنچ سکے۔اس وقت فرعون کے وزراء اور مخصوص لوگ اسے گھیرے ہوئے تھے۔

 
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو خدا کا پیغام سنایا۔

اس مقام پر فرعون نے زبان کھولی اور شیطنت پر مبنی چند ایک جچے تلے جملے کھے جس سے ان کی رسالت کی تکذیب کرنا مقصود تھا۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منہ کرکے کہنے لگا:”آیا بچپن میں ھم نے تجھے اپنے دامن محبت میں پروان نھیں چڑھایا “۔[70]
ھم نے تجھے دریائے نیل کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی خشمگین موجوں سے نجات دلائی وگرنہ تیری زندگی خطرے میں تھی۔تیرے لیے دائیوں کو بلایا اور ھم نے اولاد بنی اسرائیل کے قتل کردینے کا جو قانون مقرر کر رکھا تھا اس سے تجھے معاف کردیا اور امن و سکون اور نازونعمت میں تجھے پروان چڑھایا۔
اور اس کے بعد بھی ”تو نے اپنی زندگی کے کئی سال ھم میں گزارے“۔[71]
پھر وہ موسیٰ علیہ السلام پر ایک اعتراض کرتے ہوئے کہتا ھے:تو نے وہ اھم کام کیا ھے۔(فرعون کے حامی ایک قبطی کو قتل کیا ھے)۔[72]
یہ اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ ایسا کام کرنے کے بعد تم کیونکررسول بن سکتے ہو؟
ان سب سے قطع نظر کرتے ہوئے ”تو ھماری نعمتوں سے انکار کررھا ھے“۔[73]
تو کئی سالوں تک ھمارے دسترخوان پر پلتا رھا ھے،ھمارا نمک کھانے کے بعد نمک حلالی کا حق اس طرح ادا کررھا ھے؟اس قدر کفران نعمت کے بعد تو کس منہ سے نبوت کا دعویٰ کررھاھے؟
در حقیقت وہ بزعم خود اس طرح کی منطق سے ان کی کردار کشی کرکے موسیٰ علیہ السلام کو خاموش کرنا چاہتا تھا۔
جناب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی شیطنت آمیز باتیں سن کر اس کے تینوں اعتراضات کے جواب دینا شروع کیے۔لیکن اھمیت کے لحاظ سے فرعون کے دوسرے اعتراض کا سب سے پھلے جواب دیا(یا پھلے اعتراض کو بالکل جواب کے لائق ھی نھیں سمجھا کیونکہ کسی کا کسی کی پرورش کرنا اس بات کی دلیل نھیں بن جاتا کہ اگر وہ گمراہ ہوتو اسے راہ راست کی بھی ہدایت نہ کی جائے)۔
بھر حال جناب موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:”میں نے یہ کام اس وقت انجام دیا جب کہ میں بے خبر لوگوں میں سے تھا“۔[74]
یعنی میں نے اسے جو مکا مارا تھا وہ اسے جان سے ماردینے کی غرض نھیں بلکہ مظلوم کی حمایت کے طور پر تھا ،میں تو نھیںسمجھتا تھا کہ اس طرح اس کی موت واقع ہوجائے گی۔
پھر موسیٰ علیہ السلام فرماتے ھیں:”اس حادثے کی وجہ سے جب میں نے تم سے خوف کیا تو تمھارے پاس سے بھاگ گیا اور میرے پروردگارنے مجھے دانش عطا فرمائی اور مجھے رسولوں میںسے قرار دیا“۔[75]
پھر موسیٰ علیہ السلام اس احسان کا جواب دیتے ھیں جو فرعون نے بچپن اور لڑکپن میںپرورش کی صورت میںان پر کیا تھادو ٹوک انداز میں اعتراض کی صورت میں فرماتے ھیں:”تو کیا جو احسان تو نے مجھ پر کیا ھے یھی ھے کہ تو بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنالے“۔[76]
یہ ٹھیک ھے کہ حوادث زمانہ نے مجھے تیرے محل تک پہنچادیا اور مجھے مجبوراًتمھارے گھر میں پرورش پانا پڑی اور اس میں بھی خدا کی قدرت نمائی کار فرما تھی لیکن ذرا یہ تو سوچو کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟کیا وجہ ھے کہ میں نے اپنے باپ کے گھر میں اور ماں کی آغوش میں تربیت نھیں پائی؟ آخر کس لیے؟
کیا تو نے بنی اسرائیل کو غلامی کی زنجیروں میں نھیں جکڑ رکھا؟یھاں تک کہ تو نے اپنے خودساختہ قوانین کے تحت ان کے لڑکوں کو قتل کردیا اور ان کی لڑکیوں کو کنیز بنایا۔
تیرے بے حدوحساب مظالم اس بات کا سبب بن گئے کہ میری ماں اپنے نو مولود بچے کی جان بچانے کی غرض سے مجھے ایک صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کی بے رحم موجوں کے حوالے کردے اور پھر منشائے ایزدی یھی تھا کہ میری چھوٹی سی کشتی تمھارے محل کے نزدیک لنگر ڈال دے۔ھاں تو یہ تمھارے بے اندازہ مظالم ھی تھے جن کی وجہ سے مجھے تمھارا مرہون منت ہونا پڑا اور جنھوں نے مجھے اپنے باپ کے مقدس اور پاکیزہ گھر سے محروم کرکے تمھارے آلودہ محل تک پہنچادیا۔

 
دیوانگی کی تھمت

جب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دوٹوک اور قاطع جواب دے دیا جس سے وہ لا جواب اور عاجز ہوگیا تو اس نے کلام کا رخ بدلا اور موسیٰ علیہ السلام نے جو یہ کھا تھا”میں رب العالمین کا رسول ہوں“تو اس نے اسی بات کو اپنے سوال کا محور بنایا اور کھا یہ رب العالمین کیا چیز ھے؟[77]
بہت بعید ھے کہ فرعون نے و اقعاًیہ بات مطلب کے لئے کی ہو بلکہ زیادہ تر یھی لگتا ھے کہ اس نے تجاھل عارفانہ سے کام لیا تھا اور تحقیر کے طور پر یہ بات کھی تھی۔
لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیدار اور سمجھ دارافراد کی طرح اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ دیکھا کہ گفتگو کو سنجیدگی پر محمول کریں اور سنجیدہ ہوکر اس کا جواب دیں اور چونکہ ذات پروردگار عالم انسانی افکار کی دسترس سے باھر ھے لہٰذا انھوں نے مناسب سمجھا کہ اس کے آثار کے ذریعے استدلال قائم کریں لہٰذا انھوں نے آیات آفاقی کا سھارا لیتے ہوئے فرمایا:”(خدا)آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ھے سب کا پر وردگار ھے اگر تم یقین کا راستہ اختیار کرو“۔[78]
اتنے وسیع و عریض اور باعظمت آسمان و زمین اور کائنات کی رنگ برنگی مخلوق جس کے سامنے تو اور تیرے چاہنے اور ماننے والے ایک ذرہٴ ناچیز سے زیادہ کی حیثیت نھیں رکھتے، میرے پروردگار کی آفرینش ھے اور ان اشیاء کا خالق ومدبر اور ناظم ھی عبادت کے لائق ھے نہ کہ تیرے جیسی کمزور اور ناچیز سی مخلوق۔
لیکن عظیم آسمانی معلم کے اس قدر محکم بیان اورپختہ گفتگو کے بعد بھی فرعون خواب غفلت سے بیدار نہ ہوا اس نے انپے ٹھٹھے مذاق اور استہزاء کو جاری رکھا اور مغرور مستکبرین کے پرانے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے ”اپنے اطراف میں بیٹھنے والوں کی طرف منہ کرکے کھا: کیا سن نھیں رھے ہو(کہ یہ شخص کیا کہہ رھا ھے)“۔[79]
معلوم ھے کہ فرعون کے گردکون لوگ بیٹھے ھیں اسی قماش کے لوگ تو ھیں۔صاحبان زوراور زرھیںیا پھرظالم اور جابر کے معاون ۔
وھاں پر فرعون کے اطراف میں پانچ سوآدمی موجود تھے،جن کا شمار فرعون کے خواص میں ہوتا تھا۔
اس طرح کی گفتگو سے فرعون یہ چاہتا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کی منطقی اور دلنشین گفتگو اس گروہ کے تاریک دلوں میں ذرہ بھر بھی اثر نہ کرے اور لوگوں کو یہ باور کروائے کہ انکی باتیں بے ڈھنگی اور ناقابل فھم ھیں۔
مگر جناب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی منطقی اور جچی تلی گفتگو کو بغیر کسی خوف وخطر کے جاری رکھتے ہوئے فرمایا:”تمھارا بھی رب ھے اور تمھارے آباء واجداد کا رب ھے“۔[80]
درحقیقت بات یہ ھے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے پھلے تو آفاقی آیات کے حوالے سے استدلال کیا اب یھاں پر” آیات انفس“اور خود انسان کے اپنے وجود میں تخلیق خالق کے اسرار اور انسانی روح اور جسم میں خداوند عالم کی ربوبیت کے آثار کی طرف اشارہ کررھے ھیں تاکہ وہ عاقبت نا اندیش مغرور کم از کم اپنے بارے میں تو کچھ سوچ سکیںخود کو اور پھر اپنے خدا کو پہچان سکیں۔
لیکن فرعون اپنی ہٹ دھرمی سے پھر بھی باز نہ آیا،اب استہزاء اور مسخرہ پن سے چند قدم آگے بڑھ جاتا ھے اور موسیٰ علیہ السلام کو جنون اور دیوانگی کا الزام دیتا ھے چنانچہ اس نے کھا:”جو پیغمبر تمھاری طرف آیا ھے بالکل دیوانہ ھے“۔[81]
وھی تھمت جو تاریخ کے ظالم اور جابر لوگ خدا کے بھیجے ہوئے مصلحین پر لگاتے رہتے تھے۔
یہ بھی لائق توجہ ھے کہ یہ مغرور فریبی اس حد تک بھی روادارنہ تھا کہ کھے”ھمارا رسول“اور” ھماری طرف بھیجا ہوا “بلکہ کہتا ھے”تمھارا پیغمبر“اور ”تمھاری طرف بھیجا ہوا“ کیونکہ”تمھارا پیغمبر“میں طنز اور استہزاء پایا جاتا ھے او رساتھ ھی اس میں غرور اور تکبر کا پھلو بھی نمایاں ھے کہ میں اس بات سے بالا تر ہوں کہ کوئی پیغمبر مجھے دعوت دینے کے لئے آئے اور موسیٰ علیہ السلام پر جنون کی تھمت لگانے سے اس کا مقصد یہ تھا کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کے جاندار دلائل کو حاضرین کے اذھان میںبے اثر بنایا جائے۔
لیکن یہ ناروا تھمت موسیٰ علیہ السلا م کے بلند حوصلوں کو پست نھیںکر سکی اور انھوں نے تخلیقات عالم میں آثار الٰھی اور آفاق و انفس کے حوالے سے اپنے دلائل کو برابر جاری رکھا اور کھا:”وہ مشرق ومغرب اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ھے سب کا پروردگار ھے اگر تم عقل وشعور سے کام لو“۔[82]
اگر تمھارے پاس مصر نامی محدود سے علاقے میں چھوٹی سی ظاھری حکومت ھے توکیا ہوا؟میرے پروردگار کی حقیقی حکومت تو مشرق و مغرب اور اس کے تمام درمیانی علاقے پر محیط ھے اور اس کے آثار ھر جگہ موجودات عالم کی پیشانی پر چمک رھے ھیں اصولی طور پر خود مشرق و مغرب میں آفتاب کا طلوع و غروب اور کائنات عالم پر حاکم نظام شمسی ھی اس کی عظمت کی نشانیاں ھیں، لیکن عیب خود تمھارے اندر ھے کہ تم عقل سے کام نھیں لیتے بلکہ تمھارے اندر سوچنے کی عادت ھی نھیں ھے۔[83]
درحقیقت یھاں پر حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے اپنی طرف جنون کی نسبت کا بڑے اچھے انداز میںجواب دیا ھے۔ دراصل وہ یہ کہنا چاہتے ھیں کہ دیوانہ میں نھیں ہوں بلکہ دیوانہ اور بے عقل وہ شخص ھے جو اپنے پروردگار کے ان تمام آثار اور نشانات کو نھیں دیکھتا ۔
عالم وجود کے ھر درودیوار پر ذات پروردگار کے اس قدر عجیب وغریب نقوش موجود ھیں پھر بھی جو شخص ذات پروردگار کے بارے میں نہ سوچے اسے خود نقش دیوار ہوجانا چاہئے ۔
ان طاقتور دلائل نے فرعون کو سخت بوکھلادیا، اب اس نے اسی حربے کا سھارا لیا جس کا سھارا ھربے منطق اور طاقتور لیتا ھے اور جب وہ دلائل سے عاجزہوجاتاھے تو اسے آزمانے کی کوشش کرتاھے۔
” فرعون نے کھا: اگر تم نے میرے علاوہ کسی اور کو معبود بنایا تو تمھیں قیدیوں میں شامل کردوںگا“۔[84]میں تمھاری اور کوئی بات نھیں سننا چاہتا میں تو صرف ایک ھی عظیم الہٰ اور معبوے کو جانتاہوں اور وہ میں خود ہوں اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کہتا ھے تو بس سمجھ لے کہ اس کی سزا یا تو موت ھے یا عمر قید جس میں زندگی ھی ختم ہوجائے۔
درحقیقت فرعون چاہتا تھا کہ اس قسم کی تیزوتند گفتگو کرکے موسی علیہ السلام کو ھراساں کرے تاکہ وہ ڈرکر چپ ہوجائیں کیونکہ اگر بحث جاری رھے گی تو لوگ اس سے بیدار ہوں گے اور ظالم وجابر لوگوں کے لئے عوام کی بیداری اور شعور سے بڑھ کر کوئی اور چیز خطر ناک نھیں ہوتی ۔

 
تمھارا ملک خطرے میں ھے

گزشتہ صفحات میں ھم نے دیکھ لیا ھے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے منطق اور استدلال کی روسے فرعون پر کیونکر اپنی فوقیت اوربر تری کا سکہ منوالیا اور حاضرین پر ثابت کردیا کہ ان کا خدائی دین کس قدر عقلی ومنطقی ھے اور یہ بھی واضح کردیا کہ فرعون کے خدائی دعوے کس قدر پوچ اور عقل وخردسے عار ی ھیں کبھی تو وہ استہزاء کرتا ھے ،کبھی جنون اور دیوانگی کی تھمت لگاتاھے اور آخر کار طاقت کے نشے میں آکر قیدوبند اور موت کی دھمکی دیتا ھے ۔
اس موقع پر گفتگو کارخ تبدیل ہوجاتاھے اب جناب موسیٰ کو ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے تھا جس سے فرعون کی ناتوانی ظاھر ہوجائے ۔
موسیٰ علیہ السلام کو بھی کسی طاقت کے سھارے کی ضرورت تھی ایسی خدائی طاقت جس کے معجزانہ اندازہوں، چنانچہ آپ فرعون کی طرف منہ کرکے فرماتے ھیں :” آیا اگر میں اپنی رسالت کے لئے واضح نشانی لے آؤں پھر بھی تو مجھے زندان میں ڈالے گا “۔[85]
اس موقع پر فرعون سخت مخمصے میں پڑگیا، کیونکہ جناب موسی علیہ السلام نے ایک نھایت ھی اھم اور عجیب وغریب منصوبے کی طرف اشارہ کرکے حاضرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی تھی اگر فرعون ان کی باتوں کو ان سنی کر کے ٹال دیتا تو سب حاضرین اس پر اعتراض کرتے اور کہتے کہ موسیٰ کو وہ کام کرنے کی اجازت دی جائے اگر وہ ایسا کرسکتا ھے تو معلوم ہوجائے گا اور اس سے مقابلہ نھیں کیا جاسکے گا اور اگر ایسا نھیں کرسکتا تو بھی اس کی شخیی آشکار ہوجائے گی بھرحال موسیٰ علیہ السلام کے اس دعوے کو آسانی سے مسترد نھیں کیا جاسکتا تھا آخرکار فرعون نے مجبور ہوکر کھا” اگر سچ کہتے ہو تو اسے لے آؤ“[86]
”اسی دوران میں موسیٰ علیہ السلام نے جو عصا ھاتھ میں لیا ہوا تھا زمین پر پھینک دیا اور وہ (خدا کے حکم سے ) بہت بڑا اور واضح سانپ بن گیا“۔ [87]
”پھر اپنا ھاتھ آستین میں لے گئے اور باھر نکالا تو اچانک وہ دیکھنے والوں کے لئے سفید اور چمک دار بن چکا تھا“۔ [88]در حقیقت یہ دو عظیم معجزے تھے ایک خوف کا مظھر تھا تو دوسرا امید کا مظھر، پھلے میں انذار کا پھلو تھا تو دوسرے میں بشارت کا ،ایک خدائی عذاب کی علامت تھی تو دوسرا نور اور رحمت کی نشانی ،کیونکہ معجزے کو پیغمبر خدا کی دعوت کے مطابق ہونا چاہئے۔
فرعون نے جب صورت حال دیکھی تو سخت بوکھلا گیا اور وحشت کی گھری کھائی میں جاگرا ،لیکن اپنے شیطانی اقتدار کو بچانے کے لئے جو موسیٰ علیہ السلام کے ظہور کے ساتھ متزلزل ہوچکا تھا اس نے ان معجزات کی توجیہ کرنا شروع کردی تاکہ اس طرح سے اطراف میں بیٹھنے والوں کے عقائد محفوظ اور ان کے حوصلے بلند کرسکے اس نے پھلے تو اپنے حواری سرداروں سے کھا: ”یہ شخص ماھر اور سمجھ دار جادو گر ھے“۔ [89]
جس شخص کو تھوڑی دیر پھلے تک دیوانہ کہہ رھا تھا اب اسے ” علیم“ کے نام سے یاد کررھا ھے، ظالم اور جابر لوگوں کا طریقہ کار ایسا ھی ہوتا ھے کہ بعض اوقات ایک ھی محفل میں کئی روپ تبدیل کرلیتے ھیں اور اپنی انا کی تسکین کے لئے نت نئے حیلے تراشتے رہتے ھیں ۔
اس نے سوچا چونکہ اس زمانے میں جادوکادور دورہ ھے لہٰذا موسیٰ علیہ السلام کے معجزات پر جادو کا لیبل لگا دیا جائے تاکہ لوگ اس کی حقانیت کو تسلیم نہ کریں ۔
پھر اس نے لوگوں کے جذبات بھڑکانے اور موسیٰ علیہ السلام کے خلاف ان کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کے لئے کھا : ”وہ اپنے جادو کے ذریعے تمھیں تمھارے ملک سے نکالنا چاہتا ھے،تم لوگ اس بارے میں کیا سوچ رھے ہو اور کیا حکم دیتے ہو “۔[90]
یہ وھی فرعون ھے جو کچھ دیر پھلے تک تمام سرزمین مصر کو اپنی ملکیت سمجھ رھا تھا” کیا سرزمین مصر پر میری حکومت اور مالکیت نھیں ھے ؟“اب جبکہ اسے اپنا راج سنگھا سن ڈوبتا نظرآرھا ھے تو اپنی حکومت مطلقہ کو مکمل طور پر فراموش کر کے اسے عوامی ملکیت کے طور پر یاد کرکے کہتا ھے ” تمھارا ملک خطرات میں گھر چکا ھے اسے بچانے کی سوچو“۔وھی فرعون جو ایک لحظہ قبل کسی کی بات سننے پر تیار نھیں تھا بلکہ ایک مطلق العنان آمر کی حیثیت سے تخت حکومت پر براجمان تھا اب اس حد تک عاجز اور درماندہ ہوچکا ھے کہ اپنے اطرافیوں سے درخواست کررھا ھے کہ تمھارا کیا حکم ھے نھایت ھی عاجز اور کمزور ہوکر التجا کررھا ھے ۔
قرآن سے معلوم ہوتا ھے کہ اس کے درباری باھمی طور پر مشور ہ کرنے میںلگ گئے وہ اس قدر حواس باختہ ہوچکے تھے کہ سوچنے کی طاقت بھی ان سے سلب ہوگئی تھی ھر کوئی دوسرے کی طرف منہ کرکے کہتا :
”تمھاری کیا رائے ھے ؟“ [91]
بھرحال کافی صلاح مشورے کے بعد درباریوں نے فرعون سے کھا:”موسی اور اس کے بھائی کو مھلت دو اور اس بارے میں جلدی نہ کرو اور تمام شھروں میں ھرکارندے روانہ کردو،تاکہ ھر ماھر اور منجھے ہوئے جادوگر کو تمھارے پاس لے آئیں“۔[92]
در اصل فرعون کے درباری یا تو غفلت کا شکار ہوگئے یا موسیٰ علیہ السلام پر فرعون کی تھمت کو جان بوجھ کر قبول کرلیا اور موسی کو” ساحر“ (جادوگر) سمجھ کر پروگرام مرتب کیا کہ ساحر کے مقابلے میں ” سحار“ یعنی ماھر اور منجھے ہوئے جادو گروں کو بلایا جائے چنانچہ انھوں نے کھا : ”خوش قسمتی سے ھمارے وسیع وعریض ملک (مصر) میں فن جادو کے بہت سے ماھر استاد موجود ھیں اگر موسیٰ ساحر ھے تو ھم اس کے مقابلے میں سحار لاکھڑا کریں گے اور فن سحر کے ایسے ایسے ماھرین کو لے آئیں گے جو ایک لمحہ میں موسیٰ کا بھرم کھول کر رکھ دیں گے“۔

 
ھر طرف سے جادو گر پہنچ گئے

فرعون کے درباریوں کی تجویز کے بعد مصر کے مختلف شھروں کی طرف ملازمین روانہ کردئیے گئے اورانھوںنے ھر جگہ پر ماھر جادو گروں کی تلاش شروع کردی ” آخر کار ایک مقررہ دن کی میعادکے مطابق جادو گروں کی ایک جماعت اکٹھا کرلی گئی “[93]
دوسرے لفظوں میں انھوں نے جادوگروں کو اس روزکے لئے پھلے ھی سے تیار کرلیا تاکہ ایک مقرر دن مقابلے کے لئے پہنچ جائیں ۔
”یوم معلوم “ سے کیا مراد ھے ؟جیسا کہ سورہٴ اعراف کی آیات سے معلوم ہوتا ھے مصریوں کی کسی مشہور عید کا دن تھا جسے موسیٰ علیہ السلام نے مقابلے کے لئے مقرر کیا تھا اور اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس دن لوگوں کو فرصت ہوگی اور وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں شرکت کریں گے کیونکہ انھیں اپنی کامیابی کا مکمل یقین تھا اور وہ چاہتے تھے کہ آیات خداوندی کی طاقت اور فرعون اور اس کے ساتھیوں کی کمزوری اور پستی پوری دنیا پر آشکار ہوجائے ”اور زیادہ سے زیادہ لوگوں سے کھا گیا کہ آیا تم بھی اس میدان میں اکٹھے ہوگے؟[94]
اس طرزبیان سے معلوم ہوتا ھے کہ فرعون کے کارندے اس سلسلے میں سوچی سمجھی ا سکیم کے تحت کام کررھے تھے انھیں معلوم تھا کہ لوگوں کو زبردستی میدان میں لانے کی کوشش کی جائے تو ممکن ھے کہ اس کا منفی رد عمل ہو، کیونکہ ھر شخص فطری طور پر زبردستی کو قبول نھیں کرتا لہٰذا انھوں نے کھا اگر تمھاری جی چاھے تو اس اجتماع میں شرکت کرو اس طرح سے بہت سے لوگ اس اجتماع میں شریک ہوئے ۔
لوگوں کو بتایا گیا” مقصد یہ ھے کہ اگر جادو گر کامیاب ہوگئے کہ جن کی کامیابی ھمارے خداؤں کی کامیابی ھے تو ھم ان کی پیروی کریں گے “[95]اور میدان کو اس قدر گرم کردیں گے کہ ھمارے خداؤں کا دشمن ھمیشہ ھمیشہ کے لئے میدان چھوڑجائے گا ۔
واضح ھے کہ تماشائیوں کا زیادہ سے زیادہ اجتماع جو مقابلے کے ایک فریق کے ھمنوا بھی ہوں ایک طرف توان کی دلچسپی کا سبب ہوگا اور ان کے حوصلے بلند ہوں گے اور ساتھ ھی وہ کامیابی کے لئے زبردست کوشش بھی کریں گے اورکامیابی کے موقع پر ایسا شور مچائیں گے کہ حریف ھمیشہ کے لئے گوشئہ گمنامی میں چلاجائے گا اور اپنی عددی کثرت کی وجہ سے مقابلے کے آغاز میں فریق مخالف کے دل میں خوف وھراس اور رعب ووحشت بھی پیدا کرسکیں گے۔
یھی وجہ ھے کہ فرعون کے کارندے کوشش کررھے تھے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں شرکت کریں موسیٰ علیہ السلام بھی ایسے کثیراجتماع کی خدا سے دعا کررھے تھے تاکہ اپنا مدعا اور مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں۔
یہ سب کچھ ایک طرف، ادھر جب جادو گر فرعون کے پاس پہنچے اور اسے مشکل میں پھنسا ہوا دیکھا تو موقع مناسب سمجھتے ہوئے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور بھاری انعام وصول کرنے کی غرض سے اس سے کھا :” اگر ھم کامیاب ہوگئے تو کیا ھمارے لئے کوئی اھم صلہ بھی ہوگا ؟“ [96]
فرعون جو بری طرح پھنس چکا تھا اور اپنے لئے کوئی راہ نھیں پاتاتھا انھیں زیادہ سے زیادہ مراعات اور اعزاز دینے پر تیار ہوگیا اس نے فورا ًکھا: : ”ھاں ھاں جو کچھ تم چاہتے ہومیں دوں گا اس کے علاوہ اس صورت میں تم میرے مقربین بھی بن جاؤگے“۔ [97]
در حقیقت فرعون نے ان سے کھا :تم کیا چاہتے ہو؟ مال ھے یا عہدہ: میں یہ دونوں تمھیں دوں گا ۔
اس سے معلوم ہوتا ھے کہ اس ماحول اورزمانے میں فرعون کا قرب کس حد تک اھم تھا کہ وہ ایک عظیم انعام کے طور پر اس کی پیش کش کررھا تھا درحقیقت اس سے بڑھ کر اور کوئی صلہ نھیں ہوسکتا کہ انسان اپنے مطلوب کے زیادہ نزدیک ہو۔

 
جادو گروں کا عجیب وغریب منظر

جب جادوگروں نے فرعون کے ساتھ اپنی بات پکی کرلی اور اس نے بھی انعام، اجرت اور اپنی بارگاہ کے مقرب ہونے کا وعدہ کرکے انھیں خوش کردیا اور وہ بھی مطمئن ہوگئے تواپنے فن کے مظاھرے اور اس کے اسباب کی فراھمی کے لئے تگ ودوکرنی شروع کردی، فرصت کے ان لمحات میں انھوں نے بہت سی رسیاں اور لاٹھیاں اکٹھی کرلیں اور بظاھر ان کے اندر کو کھوکھلاکر کے ان میں ایسا کوئی کیمیکل مواد (پارہ وغیرہ کی مانند)بھر دیا جس سے وہ سورج کی تپش میں ھلکی ہوکر بھاگنے لگتی ۔
آخرکاروعدے کا دن پہنچ گیا اور لوگوں کا اکثیر مجمع میدان میں جمع ہوگیا تاکہ وہ اس تاریخی مقابلے کو دیکھ سکیں ،فرعون اور اس کے درباری، جادوگر اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی ھارون علیہ السلام سب میدان میں پہنچ گئے۔
لیکن حسب معمول قرآن مجید اس بحث کو خدف کرکے اصل بات کو بیان کرتا ھے ۔
یھاں پر بھی اس تاریخ ساز منظر کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہتا ھے: ”موسیٰ نے جادو گروں کی طرف منہ کرکے کھا :جو کچھ پھینکنا چاہتے ہو پھینکو اور جو کچھ تمھارے پاس ھے میدان میں لے آؤ “۔[98]
قرآن سے معلوم ہوتا ھے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے یہ بات اس وقت کی جب جادوگروں نے ان سے کھا:” آپ پیش قدم ہوکر اپنی چیز ڈالیں گے یا ھم؟“[99]
موسیٰ علیہ السلام کی یہ پیش کش درحقیقت انھیں اپنی کامیابی پر یقین کی وجہ سے تھی اوراس بات کی مظھر تھی کہ فرعون کے زبردست حامیوں اور دشمن کے انبوہ کثیر سے وہ ذرہ برابر بھی خائف نھیں ،چنانچہ یہ پیش کش کرکے آپ نے جادوگروں پر سب سے پھلا کامیاب وار کیا جس سے جادو گروں کو بھی معلوم ہوگیا کہ موسیٰ علیہ السلام ایک خاص نفسیاتی سکون سے بھرہ مند ھیں اور وہ کسی ذات خاص سے لولگائے ہوئے ھیں کہ جوان کا حوصلہ بڑھارھی ھے ۔
جادو گر تو غرور ونخوت کے سمندر میں غرق تھے انھوں نے اپنی انتھائی کوششیں اس کام کے لئے صرف کردی تھیں اور انھیںاپنی کامیابی کا بھی یقین تھا” لہٰذانھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینک دیں اور کھافرعون کی عزت کی قسم ھم یقینا کامیاب ھیں “۔[100]
جی ھاں :انھوں نے دوسرے تمام چاپلوسیوں خوشامدیوں کی مانند فرعون کے نام سے شروع کیا اوراس کے کھوکھلے اقتدار کا سھارالیا ۔
جیسا کہ قرآن مجید ایک اور مقام پر کہتا ھے :
” اس موقع پر انھوں نے جب رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینکیںتو وہ چھوٹے بڑے سانپوں کی طرح زمین پر حرکت کرنے لگیں“۔ [101]
انھوں نے اپنے جادو کے ذرائع میں سے لاٹھیوں کا انتخاب کیا ہوا تھا تاکہ وہ بزعم خود موسی کی عصا کی برابری کرسکیں اور مزید برتری کے لئے رسیوں کو بھی ساتھ شامل کرلیا تھا ۔
اسی دوران میں حاضرین میں خوشی کی لھر دوڑگئی اور فرعون اور اس کے درباریوں کی آنکھیں خوشی کے مارے چمک اٹھیں اور وہ مارے خوشی کے پھولے نھیں سماتے تھے یہ منظر دیکھ کر ان کے اندر وجدو سرور کی کیفیت پیدا ہوگئی اور وہ جھوم رھے تھے ۔ چنانچہ بعض مفسرین کے قول کے مطابق ان ساحروں کی تعداد کئی ہزار تھی نیز ان کے وسائل سحر بھی ہزاروں کی تعداد میں تھے چونکہ اس زمانے میں مصر میں سحرو ساحری کا کافی زور تھا اس بناپر اس بات پر کوئی جائے تعجب نھیں ھے ۔
خصوصاً جیسا کہ قرآن [102]کہتا ھے کہ :
وہ منظر اتنا عظیم ووحشتناک تھا کہ حضرت موسی نے بھی اس کی وجہ سے اپنے دل میں کچھ خوف محسوس کیا ۔
اگرچہ نہج البلاغہ میں اس کی صراحت موجود ھے کہ حضرت موسی کو اس بات کا خوف لاحق ہو گیا تھا کہ ان جادوگروں کو دیکھ کر لوگ اس قدر متاثر نہ ہوجائیں کہ ان کو حق کی طرف متوجہ کرنا دشوار ہوجائے بھرصورت یہ تمام باتیں اس بات کی مظھر ھیں کہ اس وقت ایک عظیم معرکہ درپیش تھا جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بفضل الٰھی سرکرنا تھا۔

 
جادو گروں کے دل میں ایمان کی چمک

لیکن موسیٰ علیہ السلام نے اس کیفیت کو زیادہ دیر نھیں پنپنے دیا وہ آگے بڑھےاور اپنےعصا کو زمین پردے مارا تو وہ اچانک ایک اژدھےکی شکل میں بتدیل ہوکر جادو گروں کےان کر شموں کو جلدی نگلنےلگا اور انھیں ایک ایک کرکے کھاگیا۔[103]
اس میں کوئی شک نھیں کہ عصا کا ازدھا بن جانا ایک بیّن معجزہ ھے جس کی توجیہ مادی اصول سے نھیں کی جاسکتی، بلکہ ایک خدا پرست شخص کو اس سے کوئی تعجب بھی نہ ہوگا کیونکہ وہ خدا کو قادر مطلق اور سارے عالم کے قوانین کو ارادہ الٰھی کے تابع سمجھتا ھے لہٰذا اس کے نزدیک یہ کوئی بڑی بات نھیں کہ لکڑی کا ایک ٹکڑا حیوان کی صورت اختیار کرلے کیونکہ ایک مافوق طبیعت قدرت کے زیر اثر ایسا ہوناعین ممکن ھے ۔
ساتھ ھی یہ بات بھی نہ بھولنا چاہئے کہ اس جھان طبیعت میں تمام حیوانات کی خلقت خاک سے ہوئی ھے نیز لکڑی و نباتات کی خلقت بھی خاک سے ہوئی ھے لیکن مٹی سے ایک بڑا سانپ بننے کے لئے عادتاًشاید کروڑوں سال کی مدت درکار ھے،لیکن اعجاز کے ذریعے یہ طولانی مدت اس قدر کوتاہ ہوگئی کہ وہ تمام انقلابات ایک لحظہ میں طے ہوگئے جن کی بنا پر مٹی سے سانپ بنتا ھے ،جس کی وجہ سے لکڑی کا ایک ٹکڑا جو قوانین طبیعت کے زیر اثر ایک طولانی مدت میں سانپ بنتا،چند لحظوں میں یہ شکل اختیار کرگیا۔
اس مقام پر کچھ ایسے افراد بھی ھیں جو تمام معجزات انبیاء کی طبیعی اور مادی توجیھات کرتے ھیں جس سے ان کے اعجازی پھلوں کی نفی ہوتی ھے،اور ان کی یہ سعی ہوتی ھے کہ تمام معجزات کو معمول کے مسائل کی شکل میں ظاھر کریں،ھر چند وہ کتب آسمانی کی نص اور الفاظ صریحہ کے خلاف ہو،ایسے لوگوں سے ھمارا یہ سوال ھے کہ وہ اپنی پوزیشن اچھی طرح سے واضح کریں۔کیا وہ واقعاً خدا کی عظیم قدرت پر ایمان رکھتے ھیںاور اسے قوانین طبیعت پر حاکم مانتے ھیں کہ نھیں؟ اگر وہ خدا کو قادر و توانا نھیں سمجھتے توان سے انبیاء کے حالات اور ان کے معجزات کی بات کرنا بالکل بے کار ھے اور اگر وہ خدا کو قادر جانتے ھیں تو پھر ذرا تاٴمل کریں کہ ان تکلف آمیز توجیہوں کی کیا ضرورت ھے جو سراسر آیات قرآنی کے خلاف ھیں (اگر چہ زیر بجث آیت میں میری نظر سے نھیں گزرا کہ کسی مفسر نے جس کا طریقہٴ تفسیر کیسا ھی مختلف کیوںنہ ہو اس آیت کی مادی توجیہہ کی ہو،تا ھم جو کچھ ھم نے بیان کیا وہ ایک قاعدہ کلی کے طور پر تھا۔
اس موقع پر لوگوں پر یکدم سکوت طاری ہوگیا حاضرین پر سناٹا چھا گیا، تعجب کی وجہ سے ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے آنکھیں پتھرا گئی گویا ان میں جان ھی نھیں رھی لیکن بہت جلد تعجب کے بجائے وحشت ناک چیخ و پکار شروع ہوگئی،کچھ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے کچھ لوگ نتیجے کے انتظار میں رک گئے اور کچھ لوگ بے مقصد نعرے لگارھے تھے لیکن جادوگرں کے منہ تعجب کی وجہ سے کھلے ہوئے تھے۔
اس مرحلے پر سب کچھ تبدیل ہوگیا جو جادوگر اس وقت تک شیطانی رستے پر گامزن ،فرعون کے ھم رکاب اور موسیٰ علیہ السلام کے مخالف تھے یک دم اپنے آپے میں آگئے اور کیونکہ جادو کے ھر قسم کے ٹونے ٹوٹکے او رمھارت اور فن سے واقف تھے اس لئے انھیں یقین آگیا کہ ایسا کام ھر گز جادو نھیں ہوسکتا، بلکہ یہ خدا کا ایک عظیم معجزہ ھے ”لہٰذا اچانک وہ سارے کے سارے سجدے میں گر پڑے “۔[104]
دلچسپ بات یہ ھے کہ قرآن نے یھاں پر ”القی“کا استعمال کیا ھے جس کا معنی ھے گرادیئے گئے یہ اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ وہ جناب موسیٰ علیہ السلام کے معجزے سے اس قدر متاٴثر ہوچکے تھے کہ بے اختیار زمین پر سجدے میں جاپڑے ۔
اس عمل کے ساتھ ساتھ جو ان کے ایمان کی روشن دلیل تھا ؛انھوں نے زبان سے بھی کھا:”ھم عالمین کے پروردگار پر ایمان لے آئے“۔[105]
اور ھر قسم کا ابھام وشک دور کرنے کے لئے انھوں نے ایک اور جملے کابھی اضافہ کیا تاکہ فرعون کے لئے کسی قسم کی تاویل باقی نہ رھے،انھوں نے کھا:”موسیٰ اور ھارون کے رب پر“ ۔[106]
اس سے معلوم ہوتا ھے کہ عصازمین پر مارنے اور ساحرین کے ساتھ گفتگو کرنے کا کام اگرچہ موسیٰ علیہ السلام نے انجام دیا لیکن ان کے بھائی ھارون علیہ السلام ان کے ساتھ ساتھ ان کی حمایت اور مدد کررھے تھے۔
یہ عجیب وغریب تبدیلی جادوگروں کے دل میں پیدا ہوگئی اور انھوں نے ایک مختصر سے عرصے میں مطلق تاریکی سے نکل کر روشنی اور نور میں قدم رکھ دیا اور جن جن مفادات کا فرعون نے ان سے وعدہ کیا تھا ان سب کو ٹھکرادیا ،یہ بات تو آسان تھی، انھوں نے اس اقدام سے اپنی جانوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا،یہ صرف اس وجہ سے تھا کہ ان کے پاس علم و دانش تھا جس کے باعث وہ حق اور باطل میں تمیز کرنے میں کامیاب ہوگئے اور حق کا دامن تھام لیا۔
کیا میری اجازت کے بغیر موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے؟
اس موقع پر اس طرف تو فرعون کے اوسان خطا ہوچکے تھے اور دوسرے اسے اپنا اقتدار بلکہ اپنا وجود خطرے میں دکھائی دے رھا تھا خاص طور پر وہ جانتا تھا کہ جادوگرو ں کا ایمان لانا حاضرین کے دلوں پر کس قدر موٴثر ہوسکتا ھے اور یہ بھی ممکن ھے کہ کافی سارے لوگ جادوگروں کی دیکھا دیکھی سجدے میں گر جائیں، لہٰذا اس نے بزعم خود ایک نئی اسکیم نکالی اور جادوگروں کی طرف منہ کرکے کھا:”تم میری اجازت کے بغیر ھی اس پر ایمان لے آئے ہو[107] (۱)
چونکہ وہ سالھا سال سے تخت استبداد پر براجمان چلاآرھا تھا لہٰذا اسے قطعاً یہ امید نھیں تھی کہ لوگ اس کی اجازت کے بغیر کوئی کام انجام دیں گے بلکہ اسے تو یہ توقع تھی کہ لوگوں کے قلب و عقل اور اختیار اس کے قبضہٴ قدرت میں ھیں،جب تک وہ اجازت نہ دے وہ نہ تو کچھ سوچ سکتے ھیں اور نہ فیصلہ کرسکتے ھیں ،جابر حکمرانوں کے طریقے ایسے ھی ہوا کرتے ھیں۔
لیکن اس نے اسی بات کو کافی نھیں سمجھا بلکہ دو جملے اور بھی کھے تا کہ اپنے زعم باطل میں اپنی حیثیت اور شخصیت کو برقرار رکھ سکے اور ساتھ ھی عوام کے بیدار شدہ افکار کے آگے بند باندھ سکے اور انھیں دوبارہ خواب غفلت میں سلادے۔
اس نے سب سے پھلے جادوگروں سے کھا:تمھاری موسیٰ سے یہ پھلے سے لگی بندھی سازش ھے ،بلکہ مصری عوام کے خلاف ایک خطرناک منصوبہ ھے اس نے کھا کہ وہ تمھارا بزرگ اور استاد ھے جس نے تمھیں جادو کی تعلیم دی ھے اور تم سب نے جادوگر ی کی تعلیم اسی سے حاصل کی ھے۔ “[108]
تم نے پھلے سے طے شدہ منصوبہ کے تحت یہ ڈرامہ رچایا ھے تا کہ مصر کی عظیم قوم کو گمراہ کرکے اس پر اپنی حکومت چلاؤ اور اس ملک کے اصلی مالکوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کردو اور ان کی جگہ غلاموں اور کنیزوں کو ٹھھراؤ۔
لیکن میں تمھیں کبھی اس بات کی اجازت نھیں دوں گا کہ تم اپنی سازش میں کامیاب ہوجاؤ،میں اس سازش کو پنپنے سے پھلے ھی ناکام کردوں گا”تم بہت جلد جان لوگے کہ تمھیں ایسی سزادوں گا جس سے دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں گے تمھارے ھاتھ اور پاؤں کو ایک دوسرے کی مخالف سمت میں کاٹ ڈالوں گا(دایاں ھاتھ اور بایاں پاؤں ،یا بایاں ھاتھ اور دایاں پاؤں)اور تم سب کو (کسی استثناء کے بغیر)سولی پر لٹکادوں گا“۔[109]
یعنی صرف یھی نھیں کہ تم سب کو قتل کردوں گا بلکہ ایسا قتل کروں گا کہ جس میں دکھ،درد،تکلیف اور شکنجہ بھی ہوگا اور وہ بھی سرعام کھجور کے بلند درختوںپرکیونکہ ھاتھ پاؤں کے مخالف سمت کے کاٹنے سے احتمالاًانسان کی دیر سے موت واقع ہوتی ھے اور وہ تڑپ تڑپ کر جان دیتا ھے۔

 
ھمیں اپنے محبوب کی طرف پلٹادے

لیکن فرعون یھاں پر سخت غلط فھمی میں مبتلا تھا کیونکہ کچھ دیر قبل کے جادوگر اور اس وقت کے مومن افراد نور ایمان سے اس قدر منور ہوچکے تھے اور خدائی عشق کی آگ ان کے دل میں اس قدر بھڑک چکی تھی کہ انھوں نے فرعون کی دھمکیوں کو ھر گز ھرگز کوئی وقعت نہ دی بلکہ بھرے مجمع میں اسے دو ٹوک جواب دے کر اس کے تمام شیطانی منصوبوں کو خاک میں ملادیا۔
انھوں نے کھا:”کوئی بڑی بات نھیں اس سے ھمیں ھر گز کوئی نقصان نھیں پہنچے گا تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر لو، ھم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جائیں گے“۔[110]
اس کام سے نہ صرف یہ کہ تم ھمارا کچھ بگاڑ نہ سکوگے بلکہ ھمیں اپنے حقیقی معشوق اور معبود تک بھی پہنچادوگے،تمھاری یہ دھمکیاں ھمارے لئے اس دقت موٴثر تھیں جب ھم نے خود کو نھیں پہچانا تھا،اپنے خدا سے نا آشنا تھے اور راہ حق کو بھلاکے زندگی کے بیابان میں سرگردان تھے لیکن آج ھم نے اپنی گمشدہ گراں بھا چیز کو پالیا ھے جو کرنا چاہو کرلو۔
انھوں نے سلسلہٴ کلام آگے بڑھاتے ہوئے کھا: ھم ماضی میں گناہوں کا ارتکاب کرچکے ھیں اور اس میدان میں بھی اللہ کے سچے رسول جناب موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مقابلے میں پیش پیش تھے اور حق کے ساتھ لڑنے میں ھم پیش قدم تھے لیکن”ھم امید رکھتے ھیں کہ ھمارا پروردگار ھمارے گناہ معاف کردے گا کیونکہ ھم سب سے پھلے ایمان لانے والے ھیں“۔[111]
ھم آج کسی چیز سے نھیں گھبراتے، نہ تو تمھاری دھمکیوں سے اور نہ ھی بلند و بالا کھجور کے درختوں کے تنوں پر سولی پر لٹک جانے کے بعد ھاتھ پاؤں مارنے سے۔
اگر ھمیں خوف ھے تو اپنے گزشتہ گناہوں کا اور امید ھے کہ وہ بھی ایمان کے سائے اور حق تعالیٰ کی مھربانی سے معاف ہوجائیںگے۔
یہ کیسی طاقت ھے کہ جب کسی انسان کے دل میں پیدا ہوجاتی ھے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کی نگاہوں میں حقیر ہوجاتی ھے اوروہ سخت سے سخت شکنجوں سے بھی نھیں گھبراتا اور اپنی جان دیدینا اس کے لئے کوئی بات ھی نھیں رہتی۔

 
یقینا یہ ایمانی طاقت ہوتی ھے۔

یہ عشق کے روشن ودرخشاں چراغ کا شعلہ ہوتا ھے جو شھادت کے شربت کو انسان کے حلق میں شہد سے بھی زیادہ شیریں بنادیتا ھے اور محبوب کے وصال کو انسان کا ارفع و اعلیٰ مقصد بنا دیتا ھے۔
بھر حال یہ منظر فرعون اور اس کے ارکان سلطنت کے لئے بہت ھی مہنگا ثابت ہوا ھر چند کہ بعض روایات کے مطابق اس نے اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ بھی پہنایا اور تازہ ایمان لانے والے جادوگروں کو شھید کردیا لیکن عوام کے جو جذبات موسیٰ علیہ السلام کے حق میں اور فرعون کے خلاف بھڑک اٹھے تھے وہ انھیں نہ صرف دبا نہ سکا بلکہ اور بھی بر انگیختہ کردیا۔
اب جگہ جگہ اس خدائی پیغمبر کے تذکرے ہونے لگے اور ھر جگہ ان با ایمان شہداء کے چرچے تھے بہت سے لوگ اس وجہ سے ایمان لے آئے۔جن میں فرعون کے کچھ نزدیکی لوگ بھی تھے حتٰی کہ خود اس کی زوجہ ان ایمان لانے والوں میں شامل ہوگئی۔

 
فرعون کی زوجہ ایمان لے آئی

فرعون کی بیوی کا نام آسیہ اور باپ کا نام مزاحم تھا۔کہتے ھیں کہ جب اس نے جادوگروں کے مقابلہ میں موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کو دیکھا تو اس کے دل کی گھرائیاں نور ایمان سے روشن ہوگئیں،وہ اسی وقت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئی ۔وہ ھمیشہ اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھتی تھی۔ لیکن ایمان اور خدا کا عشق ایسی چیز نھیں ھے جسے ھمیشہ چھپایا جاسکے۔جب فرعون کو اس کے ایمان کی خبر ہوئی تو اس نے اسے بارھا سمجھایا اور منع کیا اور یہ اصرار کیا کہ موسیٰ کے دین سے دستبردار ہوجائے اور اس کے خدا کو چھوڑدے،لیکن یہ با استقامت خاتون فرعون کی خواہش کے سامنے ھر گز نہ جھکی۔
آخر کار فرعون نے حکم دیا کہ اس کے ھاتھ پاؤں میخوں ساتھ جکڑ کر اسے سورج کی جلتی ہوئی دھوپ میں ڈال دیا جائے اور ایک بہت بڑا پتھر اس کے سینہ پر رکھ دیں۔جب وہ خاتون اپنی زندگی کے آخری لمحے گزار رھی تھی تو اس کی دعا یہ تھی:
”پروردگارا!میرے لئے جنت میں اپنے جوار رحمت میں ایک گھر بنادے۔ مجھے فرعون اور اس کے عمال سے رھائی بخش اور مجھے اس ظالم قوم سے نجات دے“۔
خدا نے بھی اس پاکباز اور فدار کار مومنہ خاتون کی دعا قبول کی اور اسے مریم(ع) جیسی دنیا کی بہترین خاتون جناب مریم(ع) کے ھم ردیف قرار پائی ھے۔
----------
[47] سورہ طہ آیت ۱۷۔
[48] سورہ طہ آیت ۱۸۔
[49] سورہ طہ آیت۱۸۔
[50] سورہٴ قصص آیت ۳۱۔
[51] سورہ قصص آیت۳۱۔
البتہ قرآن کی بعض دوسری آیات میں ” ثعبان مبین“ (واضح اژدھا) بھی کھا گیا ھے ۔(اعراف ۱۰۷ ۔شعراء ۳۲۔)
[52] سورہ قصص آیت۳۱۔
[53] سورہ قصص آیت ۳۲۔
[54] سورہ قصص آیت ۳۲۔
[55] سورہ طہٰ آیت۲۳۔
[56] سورہ طہ ٰآیت۲۷۔
[57] سورہ طہ ٰآیت۲۷۔
[58] سورہ طہ ٰآیت۲۸ ۔
[59] سورہ طہٰ آیت۲۹۔
[60] سورہ طہ ٰآیت۳۱۔
[61] جیسا کہ سورہ مومنون کی آیہ ۴۵ میں بیان ہوا ھے :
[62] جیسا کہ سورہٴ انبیاء کی آیہ ۴۸ میں بیان ہوا ھے :
[63] (سورہ مریم آیت ۵۳)
[64] سورہ طہٰ آیت ۳۱۔
[65] سورہ طہٰ آیت ۳۲۔
[66] سورہ طہٰ آیت ۳۳ تا۳۵۔
[67] سورہ طہٰ آیت ۳۶۔
[68] سورہٴ شعراء آیت۱۶۔
[69] سورہٴ شعراء آیت۱۷۔
[70] سورہٴ شعراء آیت ۱۸۔
[71] سورہٴ شعراء آیت ۱۸۔
[72] سورہٴ شعراء آیت۱۹۔
[73] سورہٴ شعراء آیت۱۹۔
[74] سورہٴ شعراء آیت۲۰۔
[75] سورہء شعراء آیت۲۱۔
[76] سورہٴ شعراء آیت۲۲۔
[77] سورہٴ شعراء آیت ۲۳۔
[78] سورہٴ شعراء آیت ۲۴۔
[79] سورہٴ شعراء آیت ۳۵۔
[80] سورہٴ شعراء آیت ۲۶۔
[81] سورہٴ شعراء آیت۲۷۔
[82] سورہٴ شعراء آیت۲۸۔
[83] سورہٴ شعراء آیت۲۸۔
[84] سورہ شعراء آیت۲۹۔
[85] سورہ شعراء آیت ۳۱ ۔
[86] سورہ شعراء آیت ۳۱۔
[87] سورہ شعراء آیت ۳۲۔
[88] سورہ شعراء آیت ۳۳۔
[89] سورہ شعراء آیت۳۴ ۔
[90] سورہ شعراء آیت۳۵۔
[91] سورہ اعراف آیت ۱۱۰۔
[92] سورہ شعراء ۳۶ تا ۳۶۔
[93] سورہ شعراء آیت ۳۸۔
[94] سورہ شعراء آیت ۳۹۔
[95] سورہ شعراء آیت۴۰۔
[96] سورہ شعراء آیت ۴۱ ۔
[97] سورہ شعراء آیت ۴۲۔
[98] سورہ شعراء آیت ۴۳۔
[99] سورہ اعراف آیت۱۱۵۔
[100] سورہ شعراء آیت۴۴۔
[101] سورہ طہٰ آیت ۶۶۔
[102] سورہٴ طہ اایت ۶۷۔
[103] سورہ طہٰ ، آیت۶۶۔ کیا عصاکا اژدھابن جانا ممکن ھے ؟
[104] سورہٴ شعراء آیت ۴۶۔
[105] سورہٴ شعراء آیت۴۷۔
[106] سورہٴ شعراء آیت ۴۸۔
[107] سورہٴ شعراء آیت ۴۹۔
[108] سورہٴ شعراء آیت ۴۹۔
[109] سورہٴ شعراء آیت۴۹۔
[110] سورہٴ شعراء آیت۴۹۔
[111] سورہٴ شعراء آیت ۵۱۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلام پر موت کی دعا
ایسا قرآن کس طرح همیشه کے لئے رهنما هوسکتا هے جس ...
اولو العزم انبیاء اور ان کی کتابیں کون کونسی هیں؟ ...
سورۂ رعد کي آيت نمبر 24-28 کي تفسير
کیفیات ادائیگی حروف
تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 11 تا 15)
سورۂ فرقان؛ آيات 60۔ 63 پروگرام نمبر 676
قرآنی معلومات
اسباب نزول
تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 61 تا 65)

 
user comment