فدا حسین بالہامی
کائنات میں ہرشے کو اس کی خلقت، طینت اور فطرت کے مطابق مقام و منصب اور کام سونپا گیا ہے۔ کسی بھی شےء کو اس کے اپنے مقام سے گھٹانا تو صریحاً ناانصافی ہے ہی، اسے اس کے قد و قامت سے بڑھ کر مقام و منصب دینا بھی عدل اجتماعی میں رخنہ اندازی ہے۔ اعتدال وتوازن چاہئے ماحولیاتی ہویا سماجی ،سیاسی ہو یااقتصادی اس بات پر منحصر ہے کہ صلاحیت و استعداد کے مطابق ہی ہر شے اور شخص سے کام لیا جائے۔ بصورت دیگر اعتدال و توازن برقرار رکھ پانا کسی بھی معاشرے یا نظام کے لئے ناممکن ہے۔ مثلاً کسی ایسے شخص کو سربراہِ مملکت کے عہدے پر فائز کیا جائے جس میںچار افراد کو سنھبالنے کا سلیقہ نہ ہو۔تو اندازہ لگا لیجئے اس مملکت کا حشر کیا ہوگا۔ کتنا بڑا مضحکہ خیز امر ہے کہ گدھی سے دودھ کا تقاضا کیا جائے اور گائے پر بوجھ لاد دیا جائے۔ پالتوجانوروں کو جنگل میں چھوڑ دیا جائے اور جنگل میں پلنے والے وحشی جانوروں کو پالتوسمجھ کرگھرکی زینت بنایاجائے۔ بالفرض جانوروں سے بھی انسانوں جیسے کام ہوتے تو انسان کو کوئی اشرف المخلوقات کیسےمانتا؟ کہاجاتا ہے ‘‘گدھوں سے ہل چلیں تو بیل کیوں بسائیں’’۔ بالفاظ دیگر انسان کی ذمہ داری حیوان نبھاتا تو انسان کا اس دنیا میں گزر بسر نہایت ہی دشوار ہوتا۔ لہٰذ اس سے بڑھ کر ابلہی کیا ہوگی کہ جانور کو انسان سے بلند مرتبہ دے کر وہ عیش و آرام بہم پہنچایا جائے جو انسان کے بھی نصیب میںنہ ہو۔ بدقسمتی سے ایسا ہی کچھ یورپ میں ہوتا ہے جہاں کتوں کو انسان کے مساوی بلکہ اسے بھی اعلیٰ تر سہولیات بہم رکھی جاتی ہیں اور اس طرح ایک حیوان کو انسان پر بھی فوقیت دی جاتی ہے۔یہ رجحان یقیقناً مغربی تمدن کو کشاں کشاں قعرِ مذلت کی طرف لے جا رہا ہےاسے بڑھ کر بد قسمتی اور کیا ہو گی کہ ہم مشرقیوں نے بھی کو ان کی اندھی تقلید پر پوری طرح کمر کس لیا ہے۔
کتے تو صحن خانہ میں گھر کی رکھوالی پر معمور ہوتے تھے آج کل وہ انسانوں کے پہلو بہ پہلو بیڈروم میں نرم و ملائم بستر پر سوئے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ مزے سے(Dining Table) پر کھانا کھاتے اور ان کے دو بدو ٹھاٹ سے سوفہ پر بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کھانے کو ایسی لذیذغذائیں ملتی ہیں، کہ سن کر آدمی کے منہ میں پانی آجائے۔ انہیں اب چلنے پھرنے کی بھی تکلیف نہیں اُٹھانا پڑتی ہے کیونکہ آرام دہ گاڑیوں میں انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لیا جاتا ہے۔کتے ہوائی جہازوں میں انسان کے بغل میں بیٹھ کر محوِسفر ہوتے ہیں۔ اب تو مغرب میں پالتوکتوں کےلئےپاسپورٹ(pet passport ( کی سہولت بھی میسر ہے۔
ستم بالائے ستم کہیں پرایک کتےکی دیکھ ریکھ (Look after) کے لیے دو دو چار چار انسان بطور ملازم تعینات ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر کو گھر کے باقی افراد کے ساتھ ساتھ کتے کا بھی خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مذکورہ حیوان پرستی محض کھانے پینے اور سیر سپاٹے ہی تک محدود نہیں ہے، بلکہ کتوں کے بناؤ سنگھار پر سینکڑوں ڈالر سالانہ خرچ کئے جاتے ہیں۔ فرانس کے ایک جریدے(Animal) کے مطابق ‘‘صرف امریکہ میں ہی کتوں کی سجاوٹ پر سالانہ قریباً تیس کروڑ ڈالر سے زائدصرف ہوتے ہیں۔ نیویارک ‘فانسسکو، شیکاگو اور لاس اینجلس میں ان دکانوں کی بھرمار ہے جن میں صرف کتوں کی آرایش کا سامان بھاری مقدار میںقسم بقسم دستیاب ہوتا ہے۔ ان دکانوں کی آمدنی کافی تسلی بخش ہے۔ گزشتہ صدی کی ستر(70 )کی دہائی میں منظر عام پر آنے والی اس رپورٹ کے مطابق کتوں کی آرایش و زیبائش کا ایک سالہ تربیتی کورس بھی ہوا کرتا تھا۔’’بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قریباً آدھی صدی گزرنے کے بعد آج اس رجحان نے کیا گل مغربی تمدن میں کھلائے ہوں گے آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ اب عنقریب مغرب میں عالمی پیمانے پر کتوں کامقابلہ حسن(Fashion Show) منعقد ہوگا۔اور پھر لازماً ان کتوں میں سے کوئی مس یا مسٹر ورلڈ منتخب ہوگا۔ اس فضول مشغلے نے یورپ میںوباء کی صورت اختیار کرلی ہے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی سے ہرگھر میں کئی کئی پالتو کتے انسانوں جیسی زندگی گذارتے ہیں۔زندگی میں ان پالتو کتوں کے وارے نیا رے تو ہیں ہی مرنے کے بعد بھی ان کے مالک ان حیونوں کو انسانوں سے بڑھ کر عزت و اکرام سے نوازتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اکثر شہروں میں کتوں کے قبرستان بھی بنائے گئے ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ جب کتوں کے قبرستان ہیں تو فوت شدہ کتوں کے جنازے بھی بڑے ہی ٹھاٹ سے اٹھائے جارہے ہوں گے۔یہ بات اور ہے کہ ان سگ پرستوں کو اپنے ماں باپ بڑھاپے میں اس قدر بدے لگتے ہیں کہ اپنے بزرگ والدین کو اولڈ ایچ ہوم میں چھوڑ آنے کے سوا انہیں کوئی چارہ کار دکھائی نہیں دیتا۔ایک بار اس بڑی آفت(بوڑھے والدین) سے جان چھوٹ گئی تو دوبارہ ان کا نام تک نہیں لیا جاتا ہے ۔ پھر وہ کب اور کس حال میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے انہیں اس بات کی بھنک تک نہیں ملتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جن ماں باپ نےپالا پوسا ہے ان کے آخری رسومات کا انتظام کجاان کے جنازے میں شرکت کی نوبت تک نہیں آتی ہے ان کی (والدین) قبر نامعلوم ہی سہی البتہ اپنے پالتو کتے کی قبر سے کبھی یہ غافل نہیں ہوا کرتے۔کتوں کے جنم دن بھی دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں کیا بعید ہے کہ مرنے کی یومِ وصال بھی نہایت ہی غم انگیز ماحول میں منایا جاتا ہو۔
انسانوں کی بڑھتی آبادی سے پہلے ہی مغرب پریشاں تھا لیکن اب تو پالتو کتوں کی شرحِ آبادی میں اضافہ بھی مغربی معاشرے کے لئے باعثِ تشویش ہے۔ وائس آف امریکہ کی ویب سائٹ پر شایع ہونے والی رپوٹ کے مطابق امریکہ میں پالتو کتوں کی تعداد چھ کروڑ سے زیادہ ہے۔ ایک حالیہ جائزے میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں ایک کتا پالنے پر سالانہ اوسطاً دوہزار ڈالر صرف ہوتے ہیں۔اس رقم پر ہمارے یہاں ایک متوسط فیملی گزر بسر کر سکتی ہے۔اب خود ہی اندازہ لگائیے کہ کتوں کے پالن پوسن پر کس قدر سرمایہ صرف ہو رہا ہے۔سید مجتبیٰ موسوی لاری کے مطابق "بڑے شہر انسانوںکے بجائے کتوںکے مسکن معلوم ہوتے ہیں" ٹائم میگزین(Magzine Time) نے اپنے شمارہ نمبر ۱۳۷۴۱ میںلکھا ہے۔ کہ ‘‘لندن، ٹوکیو، میکسکو جیسے بڑے شہروں میں کتوں کی آبادی اتنی زیادہ ہوگئی ہے جس سے گندگی بڑھ گئی ہے اور بہت ساری الجھنیں پیدا ہوگئی ہیں’’
بحوالہ
Western Civilization through Muslim Eyes… by Mujtaba Mosavi Lary
سگ پرستی کا یہ رحجان یورپ میں کسی خاص طبقے سے منسوب نہیں کیا جاسکتا ہے اس طرحکے مشغلوں میںہر طبقے سے وابستہ افراد ملوث ہیں۔ یہاںتک کہ بڑے عہدیدار، حاکم اور سیاسی لیڈر بھی اس شوق سے تہی دامن نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حیوان پرستی سے مغربی میڈیا بھی متاثر دکھائی دیتا ہے۔ ایک روز راقم الحروف بی بی سی کی نشریات سن رہا تھا کہ نیوز ریڈر کا یہ اعلان سنائی دیا ‘‘سابق امریکی صدر کا ‘‘بڑی" فوت ہوا ہے اس پر ایک خصوصی رپورٹ پیش کی جائے گی۔’’میں نے سوچا کہ شاید کلنٹن کا کوئی مشیر خاص انتقال کر گیا ہے۔ لیکن چند منٹ بعد میری حیرت کی انتہاء نہ رہی جب یہ کہا گیا کہ ‘‘بڑی پالتو کتا تھا جو اب اس دنیا میںنہ رہا اور اس کی تعریفوں کے پل باندھنے میں بی بی سی نے بخل سے کام نہیں لیا ۔
حیوانوں کے تئیں اس لاڑ پیار کا پہلا وار تو مغرب کے انسان کو ہی جھیلنا پڑھ رہا ہے کیونکہ اب انسان کے بجائے وہاں کی آدم ذات اپنے پالتو جانوروں ساتھ رشتہء ازدواج استوارکرنے میں سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔ یہ جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ مہذب شہروں میں رہنے والی تہذیب یافتہ خواتین(بزعمِ خود) کو فخر ہے کہ ان کے شوہر یعنی کتے نہایت ہی وفادار ہیں۔ وہ عام مردوںکی طرحدغا نہیں دیتے اور نہ ہی یہ عجیب و غریب شوہر طلاق اور تعددِ ازواج سے واقف ہیں۔ انہیںجو کچھ کھانے کو دیا جائے کھائیں گے۔ جو ان کی بیویوں کی پسند ہے وہی ان کی بھی پسند ہے۔ یہ باقی شوہروں کی طرح بیویوں کی پسند پر اپنی پسند کوفوقیت نہیں دیتے۔ گویاگلی کوچوں کے مکین جانور اب خواب گاہوں کی بھی زینت بن گئے ہیں۔ اگر یہی رحجان فروغ پائے تو فرنگی مردوں کے لیے بن باس لینے کے سوا کوئی چارہ نہیںرہ پائے گا۔مقام تاسف نہیں تو اور کیا ہے کہ جدییت کی ماری ہوئی وہی عورت جو بچے جننے اور انسانی بچوں کی پرورش و پرداخت سے کوسوں دور بھاگ رہی ہے وہ بڑے ہی شوق سے کتے کے پلے کو اپنی کود میں لے کر پال رہی ہے۔ گویا وہ کبھی اپنی مامتا اس جانور کے نذر کر رہی ہے اور کبھی شریکِ حیات کے تئیں اپنے پیار کو اس پر لٹا رہی ہے۔
مغربی تمدن کی زوال پزیری کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ ایک انسان کھلم کھلا کتوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرے ۔اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس قبییح فعل کی تشہیر بھی فخریہ انداز میں مختلف انٹر نیٹ ویب سائٹوں پر کرے۔اس قسم کے لوگوں کو یورپ میں زوفل (zoophile)کہا جاتا ہے۔اس غیر انسانی فعل میں مرد و زن دونوں ملوث ہیں۔ اسی قماش کے ایک پنتس (35) سالہ شخص نے ویب سائٹ پر یہ انکشاف کیا ہے کہ وہ محض نو سال کی کم عمرہی سے اس قبیح حرکت میں ملوث ہے ساتھ ہی ساتھ اس نے اپنے ذاتی تجربا ت کی روشنی میں اس معاملے میں چند ایک ہدایات اور احتیاطی تدابیر کا بھی ذکر کیا ہے ۔یہ رجحان روز بروز زور پکڑتا جارہا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ انسانوں کے آپسی تعلقات میں بھی ان کی حیوان پرستی زہر گھول رہی ہے۔البامہ (Alabama ) ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے جنوب مشرقی علاقے میں واقع ایک ریاست ہے .اسی ریاست سے تعلق رکھنے والے میڈلی (Medley )نامی شخص کو جب یہ محسوس ہوا کہ اس کی بیوی شوہر کے بجائے پالتو کتے کی جانب مائل بہ التفات ہے تو اس نے بھی اپنی بیوی سے انتقام گیری کے سلسلے میں ایک کتیا سے جنسی تعلقات استوار کئے۔ چنانچہ بیوی نے جب اپنے شوہر کا بدلتے رویہ کے پیشِ نظر اس پر خفیہ نگرانی رکھی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کا شوہر آئے روز ایک کتی کے ساتھ جنسی عمل میں ملوث ہے۔میڈلی کی بیوی نے متعلقہ عہدہ داروں سے اپنے شوہر کی شکایت کی جس پر وہ گرفتار تو ہو گیا لیکن پانچ سو پینتیس ڈالر کا معمولی جرمانہ ادا کر کے فوری طور رہا بھی ہو گیا۔
مندرجہ بالاحقائق پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ مغربی لوگ اپنےپالتو کتوںکو کسی درجہ بھی انسان سے کمتر نہیں دیکھنا چاہتےہیں۔ یہ انسانیت کے ساتھ کھلا مذاق اور ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے کہ لندن اور واشنگٹن کے پالتو کتے روزانہ تازہ بہ تازہ نعمتیں (Tasteful Dishes) نوش فرمائیں اور براعظم افریقہ کے غریب ترین ممالک میںاولادِ آدم کی بڑی تعداد دو وقت کی سوکھی روٹی اور پانی کی ایک ایک بوند کو ترستی رہے۔ اس بے اعتدالی اور عدم توازن کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ افریقہ کے بھوکے انسان کا حق لندن اور واشنگٹن کے لاڈلے کتے کے نذر ہوجاتا ہے۔ اس نکتے کو حضرت علیؑ کے اس قول کی روشنی میںدیکھا جائے تو بالکل واضح ہوجائے گا۔ آپ فرماتے ہیںکہ ‘‘کوئی فقیر اس وقت تک بھوکا نہیںہوتا جب تک کوئی غنی اس کے حصّے کی دولت سے بہرہ ورنہ ہوجائے۔ میں نے کہیں بھی نعمت کا بے دریغ استعمال اور دولت کا بے جا مصرف نہیںدیکھا۔ مگر اس کے پہلو میںایک حق کو برباد ہوتے بھی دیکھا ہے’’اگر ان کتوں کی آرائش و زیبائش پر صرف ہو رہی رقم کو ہی افلاس زدہ اور قحط زدہ ممالک پر خرچ کیا جائے تو بلا شبہ لاکھوں انسان فاقہ کشی سے نجات پائیں گے۔ خیربچارےجانور میں اتنا دم کہاں کہوہ کسی انسان سے اس کےحصے کی روٹی بھی چھین لے البتہ یہ تہذیب یافتہ انسان ہی ہےجو اپنے ہی نوع کے انسان سے منہ کا نوالہ چھین کر ایک جانور کو کھلا دیتا ہے۔ فی الواقع ان پالتو کتوں سے انسان کو کوئی گلہ نہیں ہوسکتا۔ یہ انسان کی انسان کے ساتھ بے رخی اور بے مروتی کا بھیانک روپ ہے جسے دیکھ کر آدمی ہی سے آدمی خوف زدہ ہو جائے تو کوئی تعجب کی بات نہیںہے۔ بقولِ غالبؔ
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
المختصر مغرب کے انسان نماحیوانوںنے ہر رنگ میںجو انسانیت کی مٹی پلید کی ہے حیوان پرستی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ڈارون کے پرستاروں کو انسان کا وہ وقار وعزت ایک آنکھ نہیںبھاتا جو خالق انسان کا عنایت کردہ ہے۔ یہی وجہ ہے یہ لوگ انسان بالخصوص مسلمان کے تئیں اس قدر بے رحم اور کٹھور ہیں اور جانوروں کے واسطے رحم دل اور مہربان ہیں۔ مغرب کے حکمران چاہے افغانستان،عراق،لبنان,شام ا ور فلسطین میں لاکھوں انسانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑیں۔ عراق میںتیل چرانے کے لیے قریباً یک ملین انسانوںکا خون بہادیںمغرب میںرہنے والے عیش پرستوںکے کان پر جوںتک نہیںرینگتی۔ ایک طرف جانوروںکو نت نئے ملبوسات سے مزین کرنا اور دوسری طرف ابوگریب جیل میں قیدیوں کو عریان کرنا ان لوگوں کی حیوان پرستی اور انسان دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
افغانستان میں امریکی بمباری کی زد میں آکر کابل کے چڑیا گھر کی شیرنی آنکھوںکی بینائی سے محروم ہوگئی یہ خبر جب لندن پہنچ گئی تو لندن سے اس شیرنی کے اندھے پن پر افسوس کا اظہار یوں ہوا کہ لاکھوںڈالراس کی علاج کیلئے لوگوںنے رضاکارانہ طور دینے کی پیش کش کی۔ حالانکہ اسی جنگ کے دوران سینکڑوں انسان موت کے گھاٹ اترگئے اور بہت سے جسمانی طور ناخیز ہوگئے جو ابھی تک اپنے زخموںکی مداوا کے منتظر ہیں۔ لندن کے ان رضاکارانہ امداد دینے والوں کو شیرنی کے اندھے پن پر افسوس تو ضرور ہوا لیکن ان کی زبان سے مجروح انسانیت کے لیے ہمدردی کے دوبول زبان زد نہ ہو سکے۔
ضمناً یہ بات یہاں پر دہرانا برمحل ہوگا کہ جانوروں کے تحفظ کے اقدامات بذات خود مستحسن امر ہے لیکن ان کے تحفظ کی آڑ میںانسانی حقوق کو پامال کرنا انسانیت کو حیوانیت کی منزل میں گرادیتا ہے۔ جو شخص اپنے ہی انسان کے ساتھ ہمدردی نہ رکھتا ہو وہ ہزار جانوروںکی حفاظت کا ڈنڈورا پیٹنے کے باوجود بھی انسان نہیںکہلوایا جائے گا۔ اولاً انسانی حقوق کا پاس و لحاظ رکھنا انسان کے لیے لازمی ہے اور پھر جانوروں کے ساتھ بھی ہمدردانہ پیش آئے تو سونے پر سہاگا ہے۔
عالمی سطح پر بے خانماں انسانوں کی باز آبادکاری کا مسئلہ دن بدن گھمبیر رخ اختیار کر رہا ہے۔امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس حوالے سے بہت سے سنگین مسائل حل طلب ہیں۔مگر یہاں بھی انسانوں کے بجائے انہیں کتوں کی فکرمندی لاحق ہے۔ اسی فکرمندی کا نتیجہ ہے کہ امریکہ میں اسرا ( ESRA)نامی ایک رضا کار تنظیم 1998 میں قائم کی گئی جس کا مقصد آوارہ کتوں کا تحفظ اورباز آباد کا ری ہے۔یعنی بے گھر انسانوں کو گھر فراہم کرنے کے بجائے بے گھر اور آوارہ کتوں کو گھر دینے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔بالفاظِ دیگر بے خانماں انسانوں کی دربدری انہیں دکھائی نہیں دیتی اور آوارہ کتوں کی آوارگی ان سے دیکھی نہیں جاتی۔کتوں کو چھت فراہم کرنے والے ان رضاکاروں کو کون بتائے کہ ان پرمسلط حکمرانوں کی دسیسہ کاری کے سبب عراق،یمن،لیبیا علی الخصوص شام اور دیگر شورش زدہ ممالک انسانی بحران کا شکار ہیں وہاں کے لاکھوں افراد اپنے گھر ہوتے ہوئے بے گھر ہوئے اور وہ ہنوز دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ان میں سے ایک بڑی تعداد سمندروں کی لہروں میں سما گئے۔برعکس اس کے حالیہ امریکی انتخاب کے کامیاب صدارتی امید وار ڈونلڈ ٹریمپ نے اپنے انتخابی منشور میں اس نکتے کو واضع طور پر ابھارا کہ مسلم مہاجرین کے امریکہ میں دخول پر روک لگنی چاہیئے۔ چند ایک سال قبل شام سے تعلق رکھنے والے کم سن مہاجر بچے کی لاش سمندر نے اگل کر ساحل پر جو پھینک دی تو ایک دلدوز منظر پوری دنیا نے محسوس کیا ۔لیکن اس کے باوجود امریکہ میں کسی رضاکار تنظیم نے ان مظلوم مہاجروں کو بچانے اور پھر سے بسانے کی مہم نہیں چلائی اور نہ ہی اپنے حکمرانوں سے اس سلسلے میں کوئی باز پرس کی مجھے یقین ہے کہ اس انسانی بچے کے بجائے اگر پالتو کتے کے پِلے کی لاش یوں ساحلِ سمندر پر پائی جاتی تو امریکہ میں کہرام مچ جاتا۔حالانکہ یہ بات دھکی چھپی نہیں ہے کہ شام کے خرمن امن میں آگ امریکی سامراج کے ہاتھوں لگائی گئی ہے۔