آل محمد(ع) اور بالخصوص حضرت علی علیہ السلام کی مظلومیت کیلئے درج ذیل واقعہ کو ملاحظہ فرمائیں :- ابو الحسن علی بن محمد بن ابی سیف المدائنی اپنی کتاب "الاحداث" میں رقم طراز ہیں :- کتب معاویة الی عمّاله بعد عام الجماعة ان برئت الذمة ممّن روی شیا من فضل ابی تراب واهل بیتة ،فقامت الخطباء فی کل کورة وعلی کل منبر یلعنون علیا و یبروؤن منه ویقعون فیه وفی اهل بیته و کتب معاویة الی عمّاله فی جمیع الافاق ،ان لایجیزوا لاحد من شیعة علی واهل بیته شهادة وکتب الیهم ان انظروا من قبلکم من شیعة عثمان و محبیه و اهل ولا یته و الذین یروون مناقبه وفضائله فادنوا مجالسهم وقربوهم واکرموهم واکتبوا لی بکل ما یروی کال رجل و اسمه و ابیه و عشریته ،ففعلوا ذالک حتی اکثروا فی فضائل عثمان ومناقبه لما کان یبعثه الیهم من الصّلات ثم کتب لی عمّاله ،ان الحدیث عن عثمان قد کثر فاذا جاء کم کتابی هذا فادعو االناس الی الروایة فی فضائل الصحابة والخلفاء الاولین ولا تترکوا خبرا یرویه احد من المسلمین فی ابی تراب الا واتو بمناقص له فی الصحابة فقرات کتابه علی الناس فرویت اخبار کثیرة فی مناقب الصحابة مفتعلة لاحقیقة لها ومضی علی ذالک الفقهاء والقضاة والولاة ۔" امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بعد معاویہ نے اپنے حکام کو لکھا کہ :جو شخص ابوتراب اور ان کے اہل بیت کی فضیلت کے متعلق کوئی روایت بیان کرے گا میں اس سے بری الذمہ ہوں ۔ اس خط کے بعد ہر مقام اور ہر منبر پر لوگ حضرت علی علیہ السلام پر لعنت کرنےلگے اور ان سے برائت کرتے اور ان کے اور ان کے خاندان کے عیوب بیان کرتے ۔ اس کے بعد معاویہ نے اپنے جملہ حکام کو لکھا کہ : علی اور ان کے اہل بیت کے ماننے والوں کی گواہی قبول نہ کی جائے ۔ اور پھر اپنے حکام کو مزید تحریر کیا کہ عثمان سے محبت رکھنے والے افراد اور ان کے فضائل ومناقب بیان کنے والے لوگوں کو اپنا مقرب بناؤ اور ان کا احترام کرو اور جو شخص عثمان کی فضیلت میں کوئی روایت بیان کرے تو اس شخص کانام ونسب اور بیان کردہ روایت میرے پاس بھیجو۔ حکام نے معاویہ کے ان احکام پر حرف بحرف عمل کیا اور فضائل عثمان بیان کرنے والوں کو گراں بہا انعامات سے نوازا گیا ۔اس کا نتیجہ نکلا کہ عثمان کے فضائل ومناقب بہت زیادہ ہوگئے ۔ پھر مستقبل کے خطرہ کو بھانپتے ہوئے معاویہ نے اپنے حکام کو تحریر کا کہ :فضائل عثمان کی حدیثیں بہت زیادہ ہوچکی ہیں اور جب تمھیں میرا یہ خط ملے لوگوں سے کہو کہ وہ اب صحابہ اور پہلے دوخلفاء کے فضائل کی احادیث تیار کریں اور ہاں اس امر کو ہمیشہ ملخوظ خاطر رکھنا کہ ابو تراب کی شان میں کوئی حدیث موجود ہو تو اس جیسی حدیث صحابہ کے لئے ضرور تیار کی جانی چاہیئے ۔ معاویہ کے یہ خطوط لوگوں کر پڑھ کر سنائے گئے ۔اس کے بعد صحابہ اور پہلے دونوں خلفاء کی شان میں دھڑا دھڑ حدیثیں تیار ہونے لگیں جن کا حقیقت س ے کوئی واسطہ نہ تھا ۔اس دور کے فقہاء ،قاضی اور حکام ان وضعی احادیث کو پھیلاتے رہے پہلے سوال کے جواب کو سمجھنے کے لئے ہمیں علی کی زندگی کا مطالعہ کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ علی کے والدین کی فدا کاری وایثار کو بھی اپنے سامنے رکھنا ہوگا ۔