اردو
Monday 25th of November 2024
0
نفر 0

جمع بین صلاتین کا مسئلہ

 نماز مخلوقات کے لئے خالق سے رابطہ کیلئے بہترین ذریعہ ، تربیت کا بہترین وسیلہ ، تہذیب اور خودسازی کا عالی ترین برنامہ ، برائیوں سے دور رہنے کا موجب اور حق تعالی کا تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور نماز باجماعت مسلمین کی قدرت ، وحدت اور بیداری کی بہترین نمائش ہے۔
نمازدن بھر میں پانچ مرتبہ ادا کی جاتی ہے اسطرح انسان کی روح دائم پروردگار کے چشمہ زلال یعنی نماز سے پاک و صاف ہوتی رہتی ہے ، آنحضرتۖ نماز کو اپنی آنکھوں کی روشنی کہا کرتے تھے : '' قرة عینی فی الصلاة'' ١اور اسے مومنوں کی معراج کا نام دیا کرتے تھے : '' الصلوة معراج المومن '' ؛ ٢جوبارگاہ الہی میں پرہیزگاروں کے تقرب کا باعث ہے :'' الصلاة قربان کل تقی '' ۔ ٣
یہاں پر ہماری بحث پنجگانہ نمازوںکے سلسلہ میں ہے کہ کیا انہیں معین اوقات میں بجالانا ایک واجب ہے کہ جس کے بغیر وہ باطل ہے ( جس طرح کہ وقت سے پہلے نماز کو ادا کرنا اس کے بطلان کا موجب ہے )یا انہیں تین اوقات میں انجام دیا جاسکتا ہے یعنی ظہر وعصر کو ایک ساتھ اور مغرب و عشاء کوایک ساتھ انجام دینا صحیح ہے ؟۔
شیعہ علماء اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرتے ہوئے نماز کو تین اوقات میں انجام دینے کو جائز سمجھتے ہیں اگر چہ افضل یہ ہے کہ انہیں ان کے مخصوص اوقات میں انجام دیا جائے ۔
لیکن اہلسنت کے بیشتر فقہاء پنجگانہ نمازوں کو ان کے اوقات میں انجام دینے کو واجب کہتے ہیں ( وہ لوگ صرف عرفات میں روز عرفہ نماز ظہر وعصر کوایک ساتھ اور مشعر الحرام میں عید الضحیٰ کی رات میں نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں اور بیشتر فقہاء نے سفر میں یا بارش کے دوران جماعت کی تشکیل کی زحمت کے باعث دونمازوں کے اجتماع کو جائز قرار دیا ہے )
شیعہ فقہاء کے نزدیک اگرچہ نماز کو ان کے اوقات میں بجا لانا افضل ہے لیکن دو نمازوں کو جمع کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہے بلکہ یہ بندوں کے حق میںایک قسم کی سہولت ہے جو انہیں دی گئی ہے نیز یہ سہولت روح اسلام ( شریعت سمحة و سھلة ) سے سازگار بھی ہے ۔
بلکہ تجربہ نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ پانچ نماز وں کو ان کے اوقات میں بجالانے کی تاکید نماز سے غفلت اور اسے اہمیت نہ دینے کا موجب ہے اور اس تاکید کی وجہ سے بہت سے لوگ نماز سے دور ہوجاتے ہیں ۔
اسلامی سماج میں پنجگانہ اوقات پر اصرار کے آثار

کیوں اسلام نے روز عرفہ اور شب مشعر میں دونمازوں کے اجتماع کی اجازت دی ہے ؟
کیوں اہلسنت کے بیشتر فقہاء نے حدیث نبوی کی روشنی میں سفر اور بارش کے دوران دونمازوں کو جمع کرنے کی اجازت دی ہے ؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ اجازت امت کی سہولت کی خاطر ہے ۔
اس سہولت کا تقاضا یہ ہے کہ دوسری مشکلات کے سامنے بھی دونمازوں کو جمع کرنے کی اجازت دی جائے اور یہ اجازت کسی خاص زمان سے مخصوص نہیں ہے اس لئے کہ ہمارے دور میں لوگوں کی روزمرہ کی زندگی بالکل بدل چکی ہے ، کارخانوں اور ادارہ جات میںمیں کام کرنے والے اورکلاسوں میں شرکت کرنے والے طالب علموں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ پانچ وقتوں میں پنجگانہ نمازوں کو ادا کرسکیں ۔
لہذا اگر لوگوں کو پیغمبر اکرم ۖ اور ائمہ علیہم السلام کی روایات کی روشنی میں دونمازوں کو ایک ساتھ ادا کرنے کی اجازت دی تو وہ اپنے امور کو بھی بخوبی انجام دے سکتے ہیں او ر بروقت نماز کے لئے حاضر بھی ہوسکتے ہیں جو نماز کی صفوں میں افزائش کا باعث ہے وگرنہ صفیں خالی اور نماز کو ترک کرنے والوں کی کثرت ہوجائے گی اسی وجہ سے اہلسنت کے بہت سے جوانوں نے نماز کو ترک کردیا ہے حالانکہ شیعوں کے درمیان نماز کو ترک کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے ۔
حق تویہ ہے کہ '' بعثت الی الشریعة السمحة السهلة '' اور آنحضرت ۖ سے منقول روایات کی روشنی میں پنجگانہ اوقات میں نماز کی ادائیگی کی فضیلت پر تاکید کے ساتھ لوگوں کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ اپنی پنجگانہ نماز وں کو تین وقتوں میں ادا کریں تاکہ زندگی کی مشکلات انہیں نماز کو ترک کرنے پر مجبور نہ کرے ۔
اس کے بعد قرآن مجید ، آنحضرت ۖ اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی روایات کی روشنی میں بحث کو ادامہ دیں گے تاکہ یہ مسئلہ کسی تعصب کے بغیر حل ہوسکے ۔
دونمازوں کے اجتماع پر روایات کی تائید

اہلسنت کے مشہور منابع صحیح مسلم ، بخاری ، سنن ترمذی، موطامالک، مسند احمد، سنن نسائی ،مصنف عبد الرزاق اور دیگر کتابوں میں دونمازوں کے جمع کرنے کے سلسلہ میں کسی سفر یا بارش یا اضطرارکی علت کے بغیرتیس روایتیں نقل ہوئیں ہیں جو پانچ راویوں سے ہیں:
١۔ ابن عباس
٢۔ جابر ابن عبد اللہ انصاری
٣۔ عبد اللہ ابن عمر
٤۔ ابو ہریرہ
٥۔ابو ایوب انصاری
مذکورہ راویوں کی بعض روایات کو ملاحظہ کریں:
١۔ ابوزبیر سعید بن جبیر اور وہ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں : '' صلی رسول الله ۖ الظهروالعصرجمیعابالمدینةفی غیرخوف و لاسفر''؛رسول اللہ ۖنماز ظہر و عصر کو کسی خوف اور سفر کے بغیر ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے ۔ ابوزبیر کہتے ہیں : میںنے سعید بن جبیر سے سوال کیا کہ کیوں پیغمبر ۖ اس طرح نماز ادا کیا کرتے تھے ؟
سعید نے جواب دیا: میںنے بھی یہی سوال جب ابن عباس سے کیا تو انھوںنے نے جواب دیا:'' اراد ان لایحرج احدا من امته'' ؛ آنحضرت ۖ کی نیت یہ تھی کہ ان کی امت کا کوئی بھی فرد زحمت میں نہ پڑے ۔ ۴
٢۔ ایک دوسری حدیث میں جناب ابن عباس فرماتے ہیں : '' جمع رسول الله ۖ بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء فی المدینة فی غیر خوف و لا مطر''؛ آنحضرت ۖ نے مدینہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو کسی بھی خوف اور بارش کے عذر کے بغیر ایک ساتھ ادا کی ۔ جب ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ اس سے آنحضرت ۖ کی مراد کیا تھی ؟تو جواب دیا: '' اراد ان لایحرج ''؛ یعنی آنحضرت ۖ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی امت کا کوئی بھی فرد زحمت میں پڑے ۔ ۵
٣۔عبد اللہ بن شقیق کا بیان ہے : '' خطبنا ابن عباس یوما بعد العصر حتی غربت الشمس و بدت النجوم و جعل الناس یقولون الصلاة الصلاة ! قال فجائه رجل من بنی تمیم لا یفتر ولایتنی : الصلوة الصلوة فقال: ابن عباس اتعلمنی بالسنة ، لاام لک ثم قال : رایت رسول الله ۖ جمع بین الظهر و والعصر والمغرب والعشاء قال عبد الله بن شقیق : فحاک فی صدری من ذلک شیء فاتیت اباهیرة فسالته ، فصدق مقالته ؛
عبدا للہ بن شقیق کہتے ہیں : ایک روزجب ابن عباس نے ہمارے درمیان عصر کے بعد خطبہ کا آغاز کیا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اور ستارے ظاہر ہوگئے تو لوگوں کی آوازیں بلند ہوگئیں ''نماز نماز'' اس کے بعد بنی تمیم کا ایک شخص آیا اور مرتب نماز نماز کہے جارہا تھا ، جناب ابن عباس نے اس سے کہا: کیا تو مجھے پیغمبر ۖ کی سنت کی تعلیم دینا چاہتا ہے ، اے بے بنیاد ! آنحضرت مغرب و عشاء اور ظہر و عصر کو ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے ، عبد اللہ بن شقیق کا بیان ہے : میرے دل میں شک پید اہوا لہذا میں ابوہریرہ کے پاس آیا اور اس سے سوال کیا تو اس نے ابن عباس کی بات کی تصدیق کی !۔ ۶
٤۔ جابر بن زید کا بیان ہے کہ جناب ابن عباس نے فرمایا: '' صلی النبی سبعا جمیعا و ثمانیا جمیعا'' ؛ پیغمبر ۖ نے سات رکعت ایک ساتھ اور آٹھ رکعت ایک ساتھ پڑھی ( جو مغرب و عشاء اور ظہر و عصر کی طرف اشارہ ہے )۔۷
٥۔سعید بن جبیر جناب ابن عباس سے نقل کرتے ہیں : '' جمع رسول الله ۖ بین الظهر والعصر وبین المغرب والعشاء بالمدینة من غیر خوف ولا مطر قال : فقیل لابن عباس: مااراد بذلک ؟ قال : اراد ان لایحرج امته''؛ پیغمبر ۖ نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اور بارش کے نماز ظہر وعصر اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ، کسی نے جناب ابن عباس سے سوال کیا: اس فعل سے آنحضرت ۖ کی مراد کیا تھی ؟ فرمایا: آنحضرت ۖ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی امت زحمت میں پڑے ۔ ۸
٦۔احمد بن حنبل نے اسی مضمون کی روایت جناب ابن عباس سے اپنی مسند میں ذکر کی ہے ۔ ۹
٧۔ اہل سنت کے معروف امام'' مالک ''اپنی کتاب'' موطا ''میں مدینہ کا تذکرہ نہ کرتے ہوئے جناب ابن عباس سے روایت کرتے ہیں: '' صلی رسول اللہ ۖ الظهر والعصر جمیعا و المغر ب والعشاء جمیعا فی غیر خوف و لاسفر'' آنحضرت ۖ نمازظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو بغیر کسی خوف اور بارش کے ایک ساتھ ادا کیا کرتے تھے ۔ ۱۰
٨۔ کتاب ''مصنف عبد الرزاق '' میں مذکور ہے کہ عبد اللہ ابن عمر نے کہا: '' جمع لنا رسول الله ۖ مقیما غیر مسافر بین الظهر والعصر والمغرب فقال رجل لابن عمر : لم تری النبی ۖ فعل ذلک ؟ لان لا یحرج امته ان جمع رجل ''؛ پیغمبر اکرم ۖ نے اس حال میں نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشا ء کو جمع کیا کہ آپ مسافر نہیں تھے ، کسی نے ابن عمر سے سوال کیا: پیغمبر ۖ کے اس عمل کی علت کیا ہوسکتی ہے ؟ کہا: اگر کسی شخص نے ان نمازوں کو جمع کیا تو ان کی امت کا کوئی فرد زحمت میں نہ پڑے( اور اس پر اشکال نہ کیا جائے ) ۱۱
٩۔جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں : ''جمع رسول الله ۖ بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء فی المدینة للرخص من غیر خوف ولاعلة ''؛ رسول اللہ ۖ نے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو جمع کیا تاکہ امت کے پاس بغیر کسی خوف و علت کے ان نمازوں کو جمع کرنے کا جواز رہے ۔ ۱۲
١٠۔ ابوہریرہ کا بیان ہے : '' جمع رسول الله ۖ بین الصلوتین فی المدینة من غیر خوف ''؛ آنحضرت ۖ مدینہ میںدونمازوں کو کسی خوف کے بغیر جمع کیا کرتے تھے ۔ ۱۳
١١۔ عبد اللہ بن مسعود نقل کرتے ہیں : '' جمع رسول الله ۖ بین الاولیٰ والعصر والمغرب والعشاء فقیل له فقال : صنعته لئلا تکون امتی فی حرج '':
آنحضرت ۖ نے مدینہ میں نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو جمع کیا ، جب کسی نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا: میں نے یہ کام اس لئے کیا ہے تاکہ میری امت زحمت میں نہ پڑے ۔ ۱۴
یہاں پر دو سوال کیا جاتا ہے
١۔ مذکورہ احادیث کا نتیجہ

وہ تمام حدیثیں جنہیں ہم نے ذکر کیا ہے اہل سنت کی تمام مشہور کتابوں میں موجود ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی سند معروف صحابہ تک پہنچتی ہے ، یہ سب کی سب دو نکتہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں:
١۔ آنحضرت ۖ نے دونمازوں کو کسی خوف یا بارش یا سفر کے بغیر پڑھا ہے ۔
٢۔ آنحضرتۖ کا مقصد امت کی آسائش اور ان سے زحمت کو دور کرنا تھا ۔
ان تمام روایات کے ہوتے ہوئے کیاپھر بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونمازوں کو جمع کرنا اضطراری صورت میںجائز ہے ؟ کیوں ہم اپنی آنکھوں کو حقیقت سے چھپالیں اور آنحضرت ۖ کی سنت کے ہوتے ہوئے اپنے نظریات کو برتر سمجھیں؟!
خدا اور اس کے رسولۖ نے بخش دیا ہے لیکن اس امت کے متعصب حضرات بخشنے کے لئے تیار نہیں ہیں ، آخر کیوں ؟! کیوں وہ نہیں چاہتے کہ ایک مسلمان جوان ہر جگہ اور ہر حال میں ، اسلامی اور غیر
اسلامی ممالک ، آفس اور کارخانوں میں اسلام کا سب سے اہم فریضہ نماز کو آسانی سے ادا کرے؟
ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام تا قیام قیامت ہرزمان ومکان کے لئے ہے اور یہ چیز حتمی ہے کہ آنحضرت ۖ آنے والے مسلمانوں اور زمانوں سے باخبر تھے لہذا اگر مسلمانوں کو پانچ وقتوں میں نماز ادا کرنے کے لئے مقید کردیتے تو پھر نماز ترک کرنے والوں کی تعداد بڑھ جاتی ( جیسا کہ آج واضح ہے ) اسی وجہ سے آنحضرت ۖ نے اپنی امت پر کرم کیا تاکہ ان کی امت کے لوگ نماز کو جہاں چاہیں آسانی سے ادا کرسکیں ۔
قرآن مجید فرماتا ہے :( وما جعل علیکم فی الدین من حرج) ۱۵؛ ترجمہ : تمہارے لئے دین میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے۔
٢۔ قرآن اور نماز کے اوقات

ہم جب قرآن کا دقت سے مطالعہ کرتے ہیں تو ملاحظہ کرتے ہیں کہ خود قرآن مجید نے نماز کے لئے تین وقت بیان کئے ہیں لیکن پھر بھی بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ نماز پانچ وقتوں میں واجب ہے ۔
ہمیں پانچ وقتوں میں نماز ادا کرنے کی فضیلت کا انکار نہیں ہے بلکہ اگرہمیں بھی اتنی فرصت مل جائے کہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کریں تو کبھی بھی دریغ نہیں کریں گے لیکن کیا ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا واجب ہے ؟
قرآن کی پہلی آیت سورہ ہود میں ہے : ( واقم الصلوة طرفی النهار وزلفا من اللیل ) ۱۶ ؛اور پیغمبر آپ دن کے دونوں حصوں میں اور رات گئے نماز قائم کریں کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردینے والی ہیں۔
'' طرفی النہار'' کی تعبیر نماز صبح کی طرف اشارہ ہے کہ جسے اول صبح میں ادا کی جاتی ہے اور نماز ظہرین کا وقت مغرب تک باقی رہتا ہے یعنی نماز ظہرین کے وقت کا مغرب تک باقی رہنا اس آیت سے بخوبی واضح ہے ۔
لیکن '' زلفا من اللیل '' کی تعبیر میں '' زلف'' کا مطلب'' مختار الصحاح '' اور'' کتاب مفردات '' کے مطابق '' زلفة'' کی جمع ہے جو اول شب کے ایک حصہ کے معنی میں ہے یعنی نماز مغربین کی طرف اشارہ ہے ۔
لہذا اگر پیغمبر ۖ نے نماز کو پانچ وقتوں میں ادا کیا ہے تو حتما ًان اوقات کی فضیلت تھی کہ جس کے ہم بھی معتقد ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کی آیت کے ظہور سے صرف نظر کرلیں اور دیگر تاویلات کا سہارا لیں ؟! قرآن کی دوسری آیت سورہ بنی اسرائیل میں ہے : ( اقم الصلاة لدلوک الشمس الی غسق اللیل وقرآن الفجر ان قرآن الفجر کان مشهودا) ؛ ۱۷

'' دلوک'' مائل ہونے کے معنی میں ہے اور اس آیت میں سورج کا نصف النہار کی لائن سے مائل ہونے کے معنی میں ہے یعنی اس سے مراد زوال ظہر ہے ۔
'' غسق اللیل '' رات کے معنی میں ہے لیکن بعض لوگوں نے اوائل شب اور نصف شب کے معنی کئے ہیں اس لئے کہ '' مفردات '' کے مطابق '' غسق ' ' شدید تاریکی کو کہتے ہیں جس کا نصف شب پر اطلا ق ہوتا ہے ۔
لہذا '' دلوک الشمس'' نماز ظہرین کے وقت کی ابتدا اور '' غسق اللیل '' نماز مغربین کے وقت کے تمام ہونے کی طرف اشارہ ہے اور '' قرآن الفجر'' نماز صبح کی طرف اشارہ ہے ۔
ان دو آیتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نماز یومیہ کے لئے صرف تین وقت ہیں لہذاانتین اوقات میں نماز کا ادا کرنا جائز ہے ۔
فخر رازی نے اس آیت کی تفسیر میں قابل توجہ نکتہ بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ : '' ان فسرنا الغسق بظهور اول الظلمة ۔ وحکاہ عن ابن عباس عطا وانضر بن شمیل ۔ کان الغسق عبارة عن اول المغرب وعلی هذا التقدیر یکون المذکور فی الآیة ثلاث اوقات وقت الزوال ووقت اول المغرب ووقت الفجر وهذا یقتضی ان یکون الزوال وقتا للظهر والعصر فیکون ھذا الوقت مشترکا بین الصلوتین وان یکون اول المغرب وقتا للمغرب والعشاء فیکون هذا الوقت مشترکا ایضا بین ہاتین الصلوتین فهذایقتضی جواز الجمع بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء مطلقا '' ۱۸ ؛ جب بھی '' غسق'' کے معنی اول شب کی تاریکی کے لئے جائیں گے ۔ جیسا کہ ابن عباس ، عطا اور نضر بن شمیل اسی نظریہ کے قائل ہیں۔ تو اس کا معنی اول مغرب کے ہوں گے لہذا اس آیت میںصرف تین وقتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے : وقت زوال ، وقت اول مغرب اور وقت فجر۔
اس کے بعد اضافہ کرتے ہیں: پس اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ زوال سے مراد نماز ظہرین ہوگی جس میں یہ دونوں نمازیں مشترک ہیں اور اول مغرب سے مرادنماز مغربین ہوگی اور یہ بھی نماز ظہرین کی طرح اول مغرب میں مشترک ہو گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نماز ظہر و عصر کو اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ ادا کرنا جائز ہو۔
ابھی تک فخر رازی نے انصاف سے کام لیا اور بخوبی مذکورہ آیت کی تفسیر کی لیکن ادامہ دیتے ہوئے کہتے ہیں : چونکہ ہمارے پاس دلیل ہے کہ دونمازوں کو کسی عذر اور سفر کے بغیر جمع کرنا جائز نہیں ہے لہذا اس آیت کو عذر سے مختص قرار دیتے ہیں ۔
لیکن ہم فخر رازی سے یہ کہیں گے کہ اس مدعا کے لئے نہ تنہا کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ ایسی متعدد روایات ہیں جو اس مدعا کے خلاف ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ آنحضرت ۖ نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو کسی عذر کے بغیر ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے تاکہ مسلمانوں کے لئے نماز ادا کرنا آسان ہو اور کن اصول کی بنیاد پر مذکورہ آیت کو عذر سے مختص کیا جاسکتا ہے ؟حالانکہ علم اصول کے مطابق تخصیص اکثر جائز نہیں ہے ۔
بہرحال کسی بھی حال میں مذکورہ آیت کے ظہور سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔
نتیجہ بحث

١۔ قرآن مجید نے پنجگانہ نماز کے لئے تین وقتوں کو بیان کیا ہے ۔

 

٢۔ فریقین کی مروی روایات کے مطابق آنحضرت ۖ نے دونما
زوں کو کسی بھی عذر کے بغیر پڑھا ہے تاکہ امت زحمت سے بچی رہے ۔


٣۔ اگرچہ نماز کو ان کے اوقات میں ادا کرنا فضیلت رکھتا ہے لیکن اس فضیلت پر اصرار اور جوازکے انکار سے بہت سے لوگ مخصوص جوانوں کا طبقہ نماز سے دور ہوجائے گا لہذا ذمہ دار حضرات پر واجب ہے کہ وہ جواز کے منکر نہ ہوں۔
کم ازکم اہل سنت کے علماء اس بات کو مان لیں کہ ان کے جوان اس مسئلہ میں اہل بیت کی فقہ پر عمل کریں جیسا کہ جامعہ ازہر کے عظیم الشان عالم دین، شیخ الازہر ، شیخ محمود شلتوت نے فقہ جعفری پر عمل کرنے کا فتویٰ دیا تھا ۔
ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا ہوگا کہ آج کے دور میں نماز کو پانچ وقتوں میں اداکرنا کاریگروں ، آفس میں کام کرنیوالوں ، اسٹوڈنٹ اور بہت سے لوگوں کے لئے دشواری کا باعث ہے کیا ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس مسئلہ میں آنحضرت کے جوازکی پیروی کریں تاکہ لوگوں کو نماز ترک کرنے کا بہانہ نہ ملے ؟!
کیا سنت پر اصرار سے فریضہ کا ترک ہونا صحیح ہے ؟!
حوالہ جات

 
١۔ مکارم الاخلاق ، ص ٤٦١
٢۔اگر چہ ہمیں اس روایت کی سند نہیں ملی لیکن اس کی شہرت اس حدتک ہے کہ علامہ مجلسی اپنے بیانات میں اس حدیث کے ذریعہ استدلال کیا کرتے تھے ، بحا ر، ٧٩،ص ٢٤٨و ٣٠٣
٣۔ کافی ج ٣ ص ٢٦٥، ح٢٦
۴۔ صحیح مسلم ج ٢ ص ١٥١
۵۔ صحیح مسلم ج ٢ ص ١٥٢
۶۔١۔ صحیح مسلم ج ٢ ص ١٥٢
۷۔صحیح بخاری ج ١ ص ١٤٠ باب وقت المغرب)
۸۔ سنن ترمذی ، ج ١ ص ١٢١ ، ح ١٨٧
۹۔مسند احمد ، ج ١ ص ٢٢٣ ۱
۰۔ موطا مالک ج ١ ص ١٤٤
۱۱۔مصف عبد الرزاق ، ج ٢ ص ٥٥٦
۱۲۔معانی الآثار ، ج ١ ص ١٦١
۱۳۔مسند البزازج ١ ص ٢٨٣
۱۴۔المعجم الکبیر طبرانی ج ١٠ ص ٢١٩، ح ١٠٥٢٥
۱۵۔ حج ٧٨
۱۶۔ھود ١١٤
۱۷۔ اسراء ٧٨
۱۸۔ تفسیر فخر رازی ج ٢١ ص

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

آسمان اور ستاروں کا تھس نھس ھوجانا
طبیعا ت ( pHYSICS)
کیا خداوند متعال کو دیکھا جاسکتا ھے ؟ اور کیسے ؟
ولایت تکوینی اور ولایت تشریعی
آنحضرت (ص) کی آفتاب زندگی کی کرن
تصوف کیا ہے؟ کیا امام خمینی ﴿رہ﴾ ایک صوفی تھے ؟
قرآن کی علمی اور عملی تربیت
رضائے الٰہی
وجوب، امکان اور امتناع کی اصطلاحات کی ان کی اقسام ...
اللہ کو قرضِ حسنہ دیجے!

 
user comment