واقعہٴ سقیفہ میں تین قسم کے مخالف سامنے آئے:
۱-انصار: جنھوں نے سقیفہ میں خلیفہ اور ان کے دونوں ھمنواوٴں کی جم کر مخالفت کی یھاں تک کہ ان کے درمیان زبانی تکرار کے ساتھ لڑائی کی نوبت تک آگئی اور بالآخر عربوں کی دینی وراثت والی ذھنیت اور انصار کے دو دھڑوں میں تقسیم ھوجانے اور ان کے پرانے جھگڑوں کے سر ابھارنے کی وجہ سے اس کا خاتمہ قریش کی کامیاہی پر ھوا-
در اصل آپنے دفاع کےلئے ان کا سارا زور اسی نکتہ پر تھا جو ان کے خیال میں ان کا حق تھا اور بہت سے لوگوں کی نظر میں عزت و شرف کا ذریعہ بھی تھا کیونکہ قریش رسول اللہ کے خاندان والے اور ان کے اقرباء تھے لہٰذا وہ دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں آپ کی خلافت و حکومت کے زیادہ حقدار تھے اسی وجہ سے ابوبکر اور ان کی تائید کرنے والوں نے سقیفہ میں انصار کے اجتماع سے دوھرا فائدہ اٹھایا:
پہلے یہ کہ: انصار نے ایسا راستہ(طریقہٴ کار)آپنایا تھا جو انہیں حضرت علی(علیہ السلام) کی صف میں کھڑے ہونے اور آپ کی لیاقت و حکومت اور استحقاق کو آپنے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا-
دوسرے یہ کہ:ابوبکر کا ان حالات نے اس طرح ساتھ دیا کہ انہیں انصار کے مجمع میں مھاجرین کے حقوق کا تنھا مدافع بنا ڈالا اور انہیں آپنی مصلحتوں کےلئے سقیفہ سے بہتر پلیٹ فارم نہیں مل سکتا تھا کیونکہ اس وقت اس پلیٹ فارم پر ایسے بڑے بڑے مھاجرین موجود نہیں تھے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی وھاں موجود ھوتا تو پھر اس دن سقیفہ کا قصہ تمام نہیں ھوسکتا تھا-
جب ابوبکر سقیفہ سے باھر نکلے تو ان کی ہیعت صرف ان بعض مسلمانوں نے کی تھی جنہیں اس میں کچھ حصہ مل چکا تھا یا پھروہ اس پر کسی طرح بھی سعد بن عبادہ کا قبضہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے-
۲- بنی امیہ: جن کا ارادہ یہ تھا کہ انہیں بھی حکومت میں کچھ حصہ مل جائے تاکہ وہ آپنی کہوئی ہوئی اس سیاسی طاقت کی تلافی کرسکیں جواسلام آنے کے بعد ان کے ہاتھ سے نکل چکی تھی- ان میں سب سے آگے آگے ابو سفیان تھا اور حاکم جماعت(یعنی ابوبکر اور ان کے ساتھی) کوبنی امیہ کی مخالفت خاص طور سے ابوسفیان کی دھمکیوں اور اس کو پیغمبر اکرم نے اموال جمع کرنے کےلئے جس سفر پر بھیجا تھا اس سے وآپسی پر اس نے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی جو دھمکی دی تھی انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی، کیونکہ وہ بنی امیہ کی فطری دولت پرستی سے بخوہی واقف تھے اور اس طرح بنی امیہ کو حکومت کی طرف جھکانا بہت آسان تھا جیسا کہ ابوبکر نے یہی کیا تھا کہ انھوں نے آپنے بلکہ(ایک نقل کے مطابق) عمر نے ان کےلئے یہ جائز کردیا تھا کہ مسلمانوں کے جو اموال اور زکات ابوسفیان کے پاس ھےں انہیں اسی کے حوالہ کردیا جائے اور اس کے علاوہ بھی بنی امیہ کےلئے حکومت کے کئی اھم دروازوں سے کچھ حصے مخصوص کردئے گئے-
۳-بنی ہاشم اور ان کے قریہی چاھنے والے: جیسے جناب سلمان، ابوذر، مقداد رضوان اللہ تعالیٰ علیھم جو یہ سمجھتے تھے کہ فطری اور سیاسی اعتبار سے ہاشمی گھرانہ ہی پیغمبر اکرم کا اصل وارث ھے-
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حاکم طبقہ کو انصار اور بنی امیہ کے ساتھ رکھ رکھاوٴ اور ان سے امتیاز حاصل کرنے میں کسی طرح کامیاہی ملی- لیکن اسی کامیاہی نے اسے ایک واضح سیاسی ٹکراوٴ سے دوچار کردیا کیونکہ سقیفہ کے حالات کا تقاضا تو یہی تھا کہ حاکم طبقہ رسول اللہ کی قرابت کو مسئلہ خلافت کی اھم گوٹ قرار دے دے اور دینی قیادت کےلئے وراثت کے راستہ کو پختہ کردے لیکن سقیفہ کے بعد یہ صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی اور اس مسئلہ نے اس انداز سے دوسرا رنگ اختیار کرلیا کہ اگر رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرابت کی وجہ سے آپ کی خلافت کےلئے قریش تمام عربوں سے اولیٰ ہیں تو بنی ہاشم بقیہ قریش کے مقابلہ میں اس کے زیادہ سزاوار اور مستحق ہیں-
اس کا اعلان حضرت علی(علیہ السلام) نے ان الفاظ میں کیا تھا:جب ان کے اوپر مھاجرین نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرابت کو حجت بنا کر پیش کیا تھا تو یہی پہلو مھاجرین کے اوپر ھماری حجت ھے اور اگر ان کی دلیل ناقص ھو جائے تو بھی ھمارے پاس دلیل موجودھے نہ کہ ان کےلئے ورنہ انصار کا مطالبہ آپنی جگہ پر باقی ھے-
اسی بات کی وضاحت جناب عباس نے حضرت ابوبکر سے آپنی ایک گفتگو میں اس طرح فرمائی ھے: اور تمھارا یہ کھنا کہ ھم رسول اللہ کے شجرہ سے ہیں “ تو پھر ”تم تو اس شجرہ کے پڑوسی ھو اور ھم اس کی شاخیں ہیں “-
نیز حضرت علی(علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ حاکم طبقہ کے دلوں میں موجودہ دھشت کی بنیاد بنی ہاشم کی مخالفت ھے کیونکہ ان کے مخصوص حالات اور(وسائل)اس نو مولود حکومت کے خلاف دو مثبت پہلووٴں سے مددگار ثابت ھوں گے-
۱-حکومت کی دشمن پارٹیوں کو آپنے ساتھ ملا لیا جائے جیسے بنی امیہ اورمغیرہ بنی شعبہ وغیرہ جنھوں نے آپنی حمایت کی نیلامی کی بولی لگانا شروع کردی تھی اور وہ ھر رخ کو نظر میں رکھ کر اس کی بھاری سے بھاری قیمت وصول کرنا چاہتے تھے، جس کا پتہ ھمیں ابو سفیان کی اس بات سے لگتا ھے جو اس نے مدینہ پھنچتے ہی سقیفائی خلافت کے سامنے رکھی تھی، نیز اس نے حضرت علی(علیہ السلام) کو اکسانے کی کوشش کی اورجب خلیفہ نے اسے مسلمانوں کے وہ تمام اموال بخش دئے جنہیں وہ آپنے سفر کے دوران وصول کرکے لایا تھا تو پھر وہ خلیفہ کی طرف جھک گیا کیونکہ اس زمانہ میں عام طور سے لوگوں کی ایک جماعت کے اوپر زرپرستی کا غلبہ تھا-
اور یہ واضح ھے کہ رسول اللہ نے جو خمس، یا مدینہ کی اراضی کے غلات یا فدک جیسے سرمائے چھوڑے تھے اور ان کی ایک بڑی آمدنی تھی حضرت علی(علیہ السلام) ان کے ذریعہ ان تمام لوگوں کے منھ بند کرسکتے تھے-
دوسرے یہ کہ حضرت علی(علیہ السلام) کے پاس ان کے مقابلہ کےلئے آسان حربہ یہ تھا جس کی طرف آپ نے خود بھی یہ کہہ کر اشارہ فرمایا ھے: ”احتجوا بالشجرة و اضاعوا الثمرة “ انھوں نے شجرہ(پیڑ)کو تو حجت بنا لیا مگر اس کے پہل کو ضائع کر ڈالا- یعنی چونکہ اس وقت رائے عامہ اہل ہیت(علیہم السلام) کی تقدیس اور ان کے احترام کے بارے میں متفق تھی اور انہیں رسول اللہ کی قرابتداری کی بنا پر ایک خاص امتیاز حاصل تھا اور یہی ان کی مخالفت کے برحق ہونے کی ایک مضبوط سند تھی-