ارباب حل و عقد کے انتخاب سے وجود میں آنے والی امامت کے بارے میں علماء کئی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان اختلاف ہے۔ ارباب حل و عقد کی تعداد کتنی ہونی چاہیے؟ ایک گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ امامت ہر علاقے کے اہل حل و عقد کی اکثریت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی تاکہ لوگوں کی حمایت کا دائرہ عام ہو اور امام کی اطاعت اجماعی ہو۔ یہ نظریہ ابوبکرکی بیعت کے پیش نظر ناقابل قبول ہے۔ کیونکہ ان کو سقیفہ بنی ساعدہ میں موجود لوگوں نے منتخب کیا تھا اور اس بیعت سے پہلے غائبین کی آمد کا انتظار نہیں کیا گیا تھا۔
دوسرے گروہ کا خیال میں منصب امامت کے پختہ ہونے کے لئے کم از کم پانچ افراد کی ضرورت ہے جو سب مل کر منتخب کریں یا ایک شخص کے انتخاب کو دوسروں کی رضامندی حاصل ہو۔ اس نظریے کی دو دلیلیں ہیں:
پہلی دلیل: ایک تو بیعت ابوبکرسے جو پانچ افراد کے اتفاق سے عمل میں آئی اور اس کے بعد لوگوں نے ان کی متابعت کی۔ یہ پانچ افراد عمربن خطاب، ابوعبیدہ بن جراح، اسیدبن حضیر، بشیربن سعد اور ابو حذیفہکے غلام سالم تھے۔
امامت کے بارے میں مکتب خلفاء کے نظریات مکتب خلفاء کا نظریہ اور استدلال
حضرت ابو بکر نے کہا:
یہ امارت قریش کے اس قبیلے کے علاوہ کسی کے لئے تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ وہ نسب اور خاندان کے لحاظ سے سارے عربوں میں ممتاز ہیں۔ میں تمہارے لئے ان دونوں مردوں یعنی حضرت عمراور ابو عبید ہمیں سے ایک کو پسند کرتا ہوں۔ پس ان دونوں میں سے جس کی چاہو بیعت کر لو۔
حضرت عمرنے کہا :
کوئی شخص یہ سمجھ کر مغالطہ نہ ڈالے کہ ابوبکرکی بیعت اتفاقاً اور بغیر سوچے سمجھے ہو گئی تھی اور انجام کو پہنچی تھی۔ بیشک معاملہ یونہی تھا لیکن اللہ نے اس کے برے عواقب سے بچایا۔ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو عظمت و فضلیت میں ابو بکرکی برابری کر سکے۔ جو شخص مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کرے تو نہ اس کی بیعت کی جائے گی اور نہ اس کی جس کی اس نے بیعت کی ہو۔ کہیں یہ دونوں (مسلمانوں کو) دھوکہ دینے کے جرم میں قتل نہ کئے جائیں۔
مکتب خلفاء کے پیروکاروں کے نظریات
قاضیوں میں سے بہترین قاضی ماوردی بغدادی(متوفی ۴۵۰ھ) اپنی کتاب ”الاحکام السلطانیہ“ میں کہتے ہیں نیز علّامہٴ زماں امام قاضی ابو یعلی (متوفی ۴۵۸ھ) نے بھی اپنی کتاب الاحکام السلطانیہ میں کہا ہے کہ امامت دو طریقوں سے منعقد ہو تی ہے۔ ایک تو ارباب حل و عقد کے انتخاب کے ذریعے اور ثانیاً پہلے امام کی وصیت کے ذریعے۔
ارباب حل و عقد کے انتخاب سے وجود میں آنے والی امامت کے بارے میں علماء کئی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان اختلاف ہے۔ ارباب حل و عقد کی تعداد کتنی ہونی چاہیے؟ ایک گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ امامت ہر علاقے کے اہل حل و عقد کی اکثریت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی تاکہ لوگوں کی حمایت کا دائرہ عام ہو اور امام کی اطاعت اجماعی ہو۔ یہ نظریہ ابوبکرکی بیعت کے پیش نظر ناقابل قبول ہے۔ کیونکہ ان کو سقیفہ بنی ساعدہ میں موجود لوگوں نے منتخب کیا تھا اور اس بیعت سے پہلے غائبین کی آمد کا انتظار نہیں کیا گیا تھا۔
دوسرے گروہ کا خیال میں منصب امامت کے پختہ ہونے کے لئے کم از کم پانچ افراد کی ضرورت ہے جو سب مل کر منتخب کریں یا ایک شخص کے انتخاب کو دوسروں کی رضامندی حاصل ہو۔ اس نظریے کی دو دلیلیں ہیں:
پہلی دلیل: ایک تو بیعت ابوبکرسے جو پانچ افراد کے اتفاق سے عمل میں آئی اور اس کے بعد لوگوں نے ان کی متابعت کی۔یہ پانچ افراد عمربن خطاب، ابوعبیدہبن جراح، اسیدبن حضیر، بشیربن سعد اور ابو حذیفہکے غلام سالم تھے۔
دوسری دلیل: یہ ہے کہ حضرت عمرنے چھ افراد کی مشاورتی کمیٹی بنائی تاکہ پانچ افراد کی حمایت سے چھٹا آدمی خلیفہ بنے۔
یہ بصرہ کے اکثر فقہاء اور متکلمین کا نظریہ ہے۔ کوفہ کے بعض علماء کہتے ہیں کہ تین افراد کافی ہیں یعنی دو کی رضامندی سے تیسرا شخص امام بن سکتا ہے۔ بنا بریں ایک حاکم اور دو گواہ ہوئے۔ جیسا کہ صیغہ نکاح کے لئے ولی اور دو گواہ کافی ہیں۔ بعض کا یہ نظریہ بھی ہے کہ ایک شخص کے ذریعے بھی امامت حاصل ہو سکتی ہے کیونکہ حضرت عباس نے حضرت علی(ع) سے کہا تھا کہ اپنا ہاتھ دراز کریں تاکہ میں آپ کی بیعت کروں لوگ کہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد بھائی کی بیعت کر لی ہے۔ پھر آپ کے بارے میں دو افراد کے درمیان بھی اختلاف نہیں ہو گا۔ چونکہ یہ ایک حکم ہے اور ایک شخص کا حکم نافذالعمل ہے۔ 3 رہا پہلے امام کی وصیت کے ذریعے انعقاد امامت کا طریقہ تو اس کے جواز پر اجماع قائم ہے اور اس کی صحت اتفاقی مسئلہ ہے۔ اس کی دلیل دو باتیں ہیں جن پر مسلمانوں نے عمل کیا ہے اور ان کی مخالفت بھی نہیں کی۔
پہلی دلیل یہ ہے کہ ابو بکرنے وصیت کے ذریعے امامت حضرت عمرکو دی اور مسلمانوں نے بھی ان کو وصیت کے ذریعے حاصل شدہ امامت کی توثیق کی دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر نے وصیت کے ذریعے امامت کا مسئلہ مشاورتی کمیٹی کے حوالے کیا۔ آگے چل کر کہتے ہیں۔ کہ کیونکہ حضرت عمرکی بیعت صحابہ کی رضامندی پر موقوف نہ تھی اور اس لئے کہ امام اس امر کا زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔
امام کی معرفت کے لزوم پر بھی علماء کے درمیان اختلاف نقل ہوا ہے۔ ان میں سے
بعض کہتے ہیں کہ تمام لوگوں پر واجب ہے کہ وہ امام کی ذات اور امام کے نام کی معرفت حاصل کریں۔ جس طرح ان پر خدا اور رسول(ص) کی معرفت ضروری ہے۔ پھر کہتے ہیں۔ اکثر لوگوں کے عقیدے کی رو سے امام کی اجمالی معرفت سب پر لازم ہے۔ تفصیلی معرفت واجب نہیں ہے۔
قاضی القضاة ابویعلی (متوفی ۴۵۸ھ) نے الاحکام السلطانیہ میں مذکورہ اقوال پر کسی اور کے اس قول کا اضافہ کیا ہے۔ امامت طاقت اور قہر و غلبے کے ذریعے بھی حاصل ہو جاتی ہے اس کے لئے بیعت کی ضرورت نہیں ہے۔ جو شخص تلوار کے زور سے تسلط حاصل کرے پھر خلیفہ بن کر امیر المومنین کا لقب پائے تو اللہ اورآخرت پر ایمان رکھنے والے کسی فرد کے لئے یہ جائز نہیں ہے وہ اس کو امام جانے بغیر رات گزارے۔ خواہ وہ نیک ہو یا فاجر وہ ہر حال میں امیر المومنین ہے۔
ابو یعلی اس امام کے بارے میں جس کے مقابلے میں حکومت کا طالب کوئی شخص خروج کرے اور دونوں کے ہمراہ کچھ لوگ ہوں۔ کہتے ہیں ان میں سے جو غالب آجائے جمعہ کی نماز انہی کے ساتھ ہو گی۔ اس کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ ابن عمرنے واقعہ حرہ کے دوران اہل مدینہ کے ساتھ نماز پڑھی اور کہا ہم اسی کے ساتھ ہیں جس کا غلبہ ہو۔
امام الحرمین جوینی (متوفی ۴۷۸ھ) کتاب الارشاد میں خلیفہ کے انتخاب، اس کی کیفیت اور انتخاب کنندگان کی تعداد کے بارے میں کہتے ہیں۔ یہ بات ذہین نشین کر لیجئے کہ امامت کے لئے اجماع شرط نہیں ہے بلکہ امامت امت کے اجماع کے بغیر بھی قائم ہوجاتی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت ابوبکرکو امامت حاصل ہوئی تو انہوں نے مسلمانوں کے امور کو فوری طور پر نپٹانا شروع کیا اور اس بات کا انتظار نہیں کیا کہ دور دراز علاقوں میں موجود اصحاب تک اس کی خبر پہنچ جائے۔ اور کسی نے اس بات پر ان کی ملامت بھی نہیں کی اور نہ اسے کسی نے سستی و لاپرواہی پر محمول کیا ہے۔
جب منصب امامت کے پختہ ہونے کے لئے اجماع کی ضرورت نہیں ہے تو ایک خاص تعداد اور معین مقدار کی شرط پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ لہذا درست بات یہی ہے کہ ارباب حل و عقد میں سے صرف ایک شخص کے ذریعے بھی امامت کا انعقاد ہو سکتا ہے۔ امام ابن عربی (متوفی ۵۴۳ھ) کہتے ہیں۔ امام کی بیعت کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ سارے لوگ بیعت کریں بلکہ اس کے انعقاد کے لئے ایک یا دو آدمی بھی کافی ہیں۔
نیز شیخ الفقیہ امام علامہ مفسرو محدث قرطبی(متوفی ۶۷۱ھ) سورة بقرہ کی آیت: انی جاعل فی الارض خلیفة کی تفسیر کے آٹھویں مسئلے میں کہتے ہیں۔
کہ اگر ایک شخص بھی جس کا تعلق رباب حل و عقد سے ہو بیعت کر لے تو خلافت ثابت ہو جاتی ہے اور دوسروں کے لئے بھی بیعت لازم ہو جاتی ہے۔ اس قول کے برخلاف کچھ حضرات کہتے ہیں کہ امامت ارباب حل و عقد کی ایک جماعت کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ جب حضرت عمر نے ابو بکرکی بیعت کی اور کسی صحابی نے ان کی مخالفت نہیں کی۔ بنابریں دیگر عقود کی طرح ایک خاص تعداد کی ضرورت نہیں ہے۔
امام ابو المعالی کہتے ہیں کہ جو شخص ایک فرد کی بیعت کے ذریعے امام بن جائے تو پھر اس کی امامت پکی ہو جاتی ہے۔ وہ پھر کسی خاص وجہ یا تبدیلی کے بغیر معزول نہیں کیا جا سکتا۔ بعد ازاں کہتے ہیں کہ اس مسئلے پر اجماع قائم ہے۔ مفسر قرطبی مذکورہ آیت کی تفسیر کے پندرھویں مسئلے میں کہتے ہیں کہ جب ارباب حل و عقد کے متفقہ فیصلے سے یا ایک شخص کی بیعت سے (جیسا کہ ذکر ہو چکا) کوئی شخص امام بن جائے تو پھر اس کی بیعت تمام لوگوں پر واجب ہو جائے گی۔
قاضی القضاة عضد الدین الایجی (متوفی ۷۵۶ھ) اپنی کتاب ”المواقف“ میں لکھتے ہیں۔ تیسرا مسئلہ اس بات کے بیان میں کہ امامت کس طرح ثابت ہوتی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امامت صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان یا سابقہ امام کی تصریح سے ثابت ہوتی ہے اور یہ بات اجماعی ہے۔ اس کے علاوہ ارباب حل و عقد کی بیعت سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن مکتب شیعہ اس نظریے کے خلاف ہے۔ ہماری دلیل بیعت کے ذریعے ابوبکرکی امامت کا ثابت ہونا ہے۔
پھر لکھتے ہیں کہ جب امامت کا انتخاب اور بیعت کے ذریعے وجود میں آنا ثابت ہو جائے تو جان لو کہ اس کے لئے اجماع کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اس بات پر عقل اور نقل کی روشنی میں کوئی دلیل قائم نہیں ہے۔ بلکہ اس امر کے لئے ارباب حل و عقد میں سے ایک دو افراد کا اقدام کافی ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ صحابہنے دین میں اپنی پختگی کے باوجود اسی پر اکتفاء کیا تھا۔ جیسا کہ حضرت عمرنے ابوبکرکی بیعت کی تھی۔ اور عبدالرحمان بن عوف نے حضرت عثمانکی بیعت کی تھی۔ انہوں نے اس بات کی شرط نہیں رکھی کہ مدینہ میں موجود افراد اتفاق کر لیں چہ جائیکہ پوری امت کے اجماع کو شرط قرار دیتے۔
اس کے علاوہ کسی نے ان کی سرزنش بھی نہیں کی اور آج تک ہر دور میں یہی سلسلہ جاری ہے۔
قاضی عبدالرحمن بن احمد الایجی کی کتاب ”المواقف“ کے شارحین مثلاً سید الشریف جرجانی(متوفی ۸۱۶ھ) وغیرہ نے بھی قاضی صاحب کی تائید کی ہے۔
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کے باوجود امام کی اطاعت کا وجوب
حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میرے بعد ایسے امام آئیں گے جو مجھ سے ہدایت نہیں حاصل کریں گے نہ میری سنت پر عمل پیرا ہوں گے۔ ان میں جلد ہی ایسے اشخاص اٹھیں گے جن کے دل شیطانی ہوں گے لیکن بدن انسانی۔ حضرت حذیفہکہتے ہیں کہ میں نے پوچھا:
اے اللہ کے رسول(ص) اگر میں اس وقت موجود ہوا تو کیا کروں؟
فرمایا:
تم امیر کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو اگرچہ وہ تمہاری پشت پر مارے اور تمہارے مال کو چھین لے۔ پس اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے امام سے ایسے امر کا مشاہدہ کرے جو ناپسندیدہ ہو تو وہ صبر کرے۔ کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت الگ ہو جائے وہ جاہلیت (کفر) کی موت مرے گا۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ جب یزید بن معاویہ کے دور میں واقعہ حرہ میں جو ہونا تھا ہو چکا تو عبد اللہ بن عمرنے کہا:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا۔ جو کسی (حاکم کی) اطاعت سے خارج ہو جائے تو قیامت کے دن خدا کے آگے اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہو گی۔ جو شخص اس حالت میں مر جائے کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت کا طوق نہ ہو تو وہ جاہلیت (کفر) کی موت مرے گا۔
امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں ”لزوم طاعة الامراء فی غیر معصیة“ نامی باب میں کہا ہے کہ اہل سنت کے فقہا محدثین اور متکلمین کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ فسق، ظلم اور حقوق کی پامالی کے باعث امام اپنے منصب سے خودبخود معزول نہیں ہوتا نہ اسےبرطرف کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے خلاف خروج کی اجازت ہے۔ بلکہ لوگوں پر واجب ہے کہ اس بارے میں موجود احادیث کے ذریعے اسے وعظ و نصیحت کریں اور ڈرائیں۔ اس سے قبل فرماتے ہیں کہ ان کے خلاف خروج اور جنگ اجماع کی رو سے حرام ہے اگرچہ وہ فاسق اور ظالم ہی ہوں اور اس بارے میں متعدد احادیث ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔ اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ حکمران ارتکاب گناہ کے باعث معزول نہیں ہوتا۔
قاضی ابو بکر محمد بن طیب باقلانی (متوفی ۴۰۳ھ) نے ”التمہید“ میں امام کی معزولی اور وجوب اطاعت امام کے سقوط کے اسباب سے متعلق جو کچھ کہا ہے اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ اہل اثبات اور اصحاب حدیث کی اکثریت کہتی ہے کہ امام فسق، ظلم، غصب اموال، ناحق کسی کی جان لینے، حقوق کی پامالی اور احکام خدا کی خلاف ورزی کے باعث اپنے عہدے سے الگ نہیں ہوتا۔ اس کے خلاف خروج بھی ضروری نہیں ہے بلکہ اسے وعظ و نصیحت کرنی چاہیے اور خدا کا خوف دلانا چاہیے۔ اس کے کسی بھی امر کی حکم عدولی حرام ہے۔ اس بات کے اثبات کے لئے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ سے مروی احادیث سے استدلال کیا ہے۔ ان احادیث میں حکمرانوں کی اطاعت کو واجب قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ وہ ظلم کریں اور اموال کی تقسیم میں امتیازی سلوک روا رکھیں۔ نیز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا۔ ”سنو اور اطاعت کرو اگرچہ (حکم کرنے والا) کٹی ہوئی ناک والا ایک غلام یا ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، نماز پڑھو ہر نیک اور فاجر کے پیچھے۔“ علاوہ بریں یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی اطاعت کرو اگرچہ وہ تمہارا مال کھائیں اور تمہاری پشت پر ضربت لگائیں۔“
آخری صدیوں میں مکتبخلفاء کے پیروکاروں کا استدلال
ماضی میں خلفاء کی حکومت کے قیام کی صحت پر آخری صدیوں میں مکتب خلفاء کے پیروکاروں کا استدلال یہ ہے کہ خلفاء کی حکومت مسلمانوں کے باہمی مشورے کی بنیادوں پر قائم تھی۔ ان کے بعض حضرات اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ آج بھی اسلامی حکومت بیعت کی بنیاد پر قائم ہونی چاہیے۔ لہذا مسلمان جس شخص کی بیعت کر لیں وہ اسلامی حکمران ہو گا اور مسلمانوں پر اس کی اطاعت واجب ہو جائے گی۔