اردو
Sunday 24th of November 2024
0
نفر 0

علمائے مكہ اور علمائے نجد میں مناظرہ

علمائے مكہ اور علمائے نجد میں مناظرہ

دوسرے روز مكہ كے علماء جن میں سب سے اھم شخصیت شیخ عبد القادر شیبی كلید دار خانہ كعبہتھے ابن سعود كے دیدار كے لئے آئے، ابن سعود نے علماء كو مخاطب كرتے هوئے ایك تقریر كی، جس میںمحمد بن عبد الوھاب كی دعوت كی طرف یاددھانی كرائی، اور كھا كہ ھمارے دینی احكام احمد بن حنبل كے اجتھاد كے مطابق ھیں، اور اگر آپ لوگ بھی اس بات كو مانتے ھیں تو آئےے آپس میں بیعت كریں كہ كتاب خدا اور سنت خلفائے راشدین پر عمل كریں۔

تمام لوگوں نے اس بیعت كی موافقت كی، اس كے بعد مكی علماء میں سے ایك عالم دین نے ابن سعود سے درخواست كی كہ كوئی ایسا جلسہ ترتیب دیں جس میں علمائے مكہ اور علمائے نجد اصول اور فروع كے بارے میں مباحثہ اور مناظرہ كریں، اس نے بھی اس پیش كش كو قبول كرلیا، اور 11 جمادی الاول كو پندرہ علمائے مكہ اور سات علمائے نجد ایك جگہ جمع هوئے اور كافی دیر تك بحث وگفتگو هوتی رھی اور آخر میں علمائے مكہ كی طرف سے ایك بیانیہ نشر كیا گیا جس میں یہ لكھا گیا تھا كہ اصول كے بارے میں ھم میں اور نجدی علماء میں كوئی فرق نھیں ھے منجملہ یہ كہ جو شخص اپنے او رخدا كے درمیان كسی كو واسطہ قرار دے كافر ھے، اور اس كو تین دفعہ توبہ كے لئے كھا جائے اگر توبہ نھیں كرتا تو اس كو قتل كردیا جائے، اسی طرح قبروں كے اوپر عمارت بنانا، وھاں چراغ جلانا قبور كے پاس نماز پڑھنا حرام ھے، اسی طرح اگر كوئی كسی غیر خدا كو اس كی جاہ ومنزلت كے ذریعہ پكارتا ھے تو وہ گویا بدعت كا مرتكب هوا ھے، اور شریعت اسلام میں بدعت حرام ھے۔

جدّہ پر قبضہ

تقریباً ایك سال تك یعنی ماہ جمادی الاول 1344ھ تك ابن سعود اور ملك علی كے درمیان جدّہ میں جنگیں هوتی رھیں، لیكن ماہ جمادی الاول كے آخر میں ملك علی نے جدّہ چھوڑنے اور اس كو ابن سعود كو دینے كا فیصلہ كرلیا، اور اس كام كے بدلے جدّہ میں انگلینڈ كے سفیر ”گُورْدون“ كے ذریعہ ابن سعود كو كچھ پیش كش كی گئی، چنانچہ پھلی جمادی الثانی كو ابن سعود اور انگلینڈ كے سفیر میں ملاقات هوئی اور سفیر نے ملك علی كی سترہ شرائط پر مشتمل پیش كش كو ابن سعود كے حوالہ كیا، اور ابن سعود نے ان شرائط كو قبول كرلیا، اس كے بعد چھارم جمادی الثانی كو سفیر نے ابن سعود كو خبر دی كہ ملك علی انگلینڈ كی ”كورن فِلاوِر“ نامی كشتی پر سوار هوكر عَدَن كے لئے روانہ هورھے ھیں اور وھاں سے عراق جانے كا قصد كرلیا،

6 جمادی الثانی كو ملك علی مذكورہ كشتی پر سوار هوكر عدن كے لئے روانہ هوگئے اور ساتویں دن كی صبح كو ابن سعود جدّہ پهونچ گئے، اور جب شھر كے قریب پهونچے تو ”كَندرہ“ نامی محلہ میں بھت زبر دست استقبال هوا۔

مدینہ پر قبضہ

جس وقت ابن سعود مكہ سے جدہ كے راستہ میں ”بَحرہ“ نامی مقام پر پهونچا تو امیر مدینہ ”شریف شحات“ كی طرف سے ایك مخصوص قاصد آیا اور ایك خط ابن سعود كو دیا جس میں امیر مدینہ نے اس كی اطاعت پر مبنی پیغام بھیجا تھا اور اس خط میں ابن سعود كو لكھا تھا كہ اپنی طرف سے كسی كو مدینہ كا والی اور امیر بناكر روانہ كردے، چنانچہ ابن سعود یہ خط دیكھ كر مكہ واپس پلٹ آیا اور اپنے تیسرے بیٹے امیر محمد كو مدینہ كا امیر بناكر روانہ كیا، اور 23 ربیع الثانی كو امیر محمد اپنے كچھ سپاھیوں كے ساتھ مدینہ میں وارد هوا، اور اھالی مدینہ كو اپنے آنے كا ہدف سنایا۔

لیكن ملك علی كی طرف سے معین كردہ سردارِ لشكر نے قبول نہ كیا لیكن غذا اور وسائل كی قلت ملك علی بھی اس كی مدد كرنے سے قاصر تھا دو مھینہ كی پائیداری كے بعدشھر مدینہ امیر محمد كے حوالہ كردیا، چنانچہ امیر محمد نے 19 جمادی الاول 1344ھ كی صبح كو مدینہ شھر پر قبضہ كرلیا۔

قبروں اور روضوں كی ویرانی

ھم نے اس بات كی طرف پھلے بھی اشارہ كیا ھے كہ وھابیوں كے قدم جھاں بھی جاتے تھے وھاں پر موجود تمام روضوں اور مقبروں كو مسمار كردیا كرتے تھے، اور جب بھی حجاز كے شھروں پر قبضہ كیا ھے انھوں نے یہ كام انجام دیا ھے۔

مكہ كے بعض روضوں اور مقابر كو پھلی ھی دفعہ میں قبضہ هونے كے بعد مسمار كرچكے تھے، جیساكہ ھم نے پھلے عرض كیا ھے، اور اس وقت مكہ اور قرب وجوار میں باقی بچے تمام روضوں اور مقبروںكو مسمار كردیا، یھاں تك كہ حجاز كے جس علاقہ میں بھی مقبرے تھے سب كو گراكر خاك كردیا، سب سے پھلے طائف میں موجود عبد اللہ بن عباس كی گنبد كو گرادیا، اور اس كے بعد مكہ میں موجود حضرت عبد المطلب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے دادا، جناب ابوطالب پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے چچا، جناب خدیجہ پیغمبر اكرم كی زوجہ كے روضوں كو مسمار كیا، اسی طرح پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور جناب فاطمہ زھرا (س) كی جائے ولادت پر بنی عمارتوں كو بھی مسمار كردیا۔

اسی طرح جدّہ میں جناب حوّا (یا جناب حوّا سے منسوب) كی قبر كو مسمار كردیا، خلاصہ یہ كہ مكہ اور جدہ كے علاقے میں موجود تمام مزاروں كو گرادیا، اسی طرح جب مدینہ پر ان كا قبضہ تھا جناب حمزہ كی مسجد اور ان كے مزار كو اور اسی طرح شھر سے باھر شہداء احد كے مقبروں كو بھی مسمار كردیا۔

قبرستان بقیع كی تخریب

جس وقت مدینہ منورہ وھابیوں كے قبضہ میں چلا گیا، مكہ معظمہ كا شیخ ”عبد اللّٰہ بِن بُلْیَہِدْ“ وھابیوں كا قاضی القضاة ماہ رمضان میں مدینہ منورہ آیا اور اھل مدینہ سے وھاں موجود قبروں كو منہدم كرنے كے بارے میں سوال كیا كہ تمھارا اس سلسلہ میں كیا نظریہ ھے؟ كچھ لوگوں نے تو ڈر كی وجہ سے كوئی جواب نہ دیا، لیكن بعض لوگوں نے ان كے گرانے كو ضروری كھا۔

اس سلسلہ میں مرحوم علامہ سید محسن امین كھتے ھیں كہ شیخ عبد اللہ كا سوال كرنے كا مقصد حقیقت میں سوال كرنا نھیں تھا كیونكہ وھابیوں كی نظر میں تمام روضوں كو یھاں تك پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے روضہ مبارك كو مسمار كرنے میں كوئی شك وتردید نھیں تھی اور یہ كام تو ان كے مذھب كی اصل بنیاد تھی، اس كا سوال اھل مدینہ كی تسكین كے لئے تھا۔

سوال كا جواب ملنے پر مدینہ اور قرب وجوار كے تمام روضوں، مزارات اور ضریحوں كو ویران كردیاگیا یھاں تك كہ بقیع میں دفن ائمہ علیهم السلامكی گنبد كو بھی ویران كردیاگیا جس میں جناب عباس عموئے پیغمبر اكرم بھی دفن تھے اور دیوار اور قبروں پر بنی ضریحوں كو بھی گرادیاگیا، اسی طرح پیغمبر اكرم كے پدر بزرگوار جناب عبد اللہ (ع) اور مادر گرامی جناب آمنہ كی گنبدوں كو بھی توڑ ڈالا، اسی طرح پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی ازواج كے گنبد، اور عثمان بن عفان اور اسماعیل بن جعفر الصادق ں كی گنبدوں، نیز امام مالك كی گنبد كو بھی منہدم اور مسمار كردیاگیا، خلاصہ یہ كہ مدینہ اور اس كے قرب وجوار اور ”ینبع“ میں كوئی بھی قبر باقی نھیں چھوڑی گئی۔

قبروں كی ویرانی پر ایران اور دیگر اسلامی ملكوں كا ردّ عمل

جس وقت روضوں كی ویرانی بالخصوص ائمہ بقیع كی قبروں كے انہدام كی خبر دوسرے اسلامی ملكوں میں پهونچی، تو سب مسلمانوں كی نظر میں یہ ایك عظیم حادثہ تھا، چنانچہ ایران عراق اور دیگر ممالك سے ٹیلیگرام كے ذریعہ اعتراض هوئے، درس كے جلسے اور نماز جماعت تعطیل هوگئی، اور اس سلسلہ میں اعتراض كے طور پر عزاداری هونے لگی، ان میں سب سے اھم اور غمناك خبر یہ تھی كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی گنبد پر بھی گولیاں چلائی گئیں (یھاں تك كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی قبر اقدس بھی مسمار كردی گئی) لیكن بعد میں معلوم هوا كہ آخری بات صحیح نھیں ھے جس كا انكار خود وھابیوں نے بھی كیا (یعنی پیغمبر اكرم كی قبر مسمار نھیں كی گئی)۔

ایران كی حكومت نے اس سلسلہ میں بھت زیادہ اھتمام كیااور علماء كی موافقت سے یہ بات طے هوئی كہ ایران سے كچھ نمائندے باقاعدہ طور پر حجاز جائیں اور وھاں جاكر نزدیك سے حقیقت كا پتہ لگائیں اور یہ نمائندے حجاز میں وھابیوں كے اس كارنامہ كی تفصیلی رپورٹ پیش كریں۔

مرحوم علامہ عاملی مذكورہ مطلب كی شرح میں اس طرح فرماتے ھیں كہ ایران كے علماء نے ایك اجتماع كیا اور انہدام بقیع كو ایك عظیم حادثہ شمار كیامیں اس وقت دمشق میں تھا لہٰذا خراسان كے ایك عالی قدر عالم نے مجھے ٹیلیگرام كے ذریعہ اس حقیقت سے باخبر كیا۔

بقیع، انہدام سے پھلے

ھم نے اپنے حج كے سفر نامے میں قبور ائمہعلیهم السلامكو منہدم هونے سے پھلے كی وضعیت كو تفصیل كے ساتھ ذكر كیا ھے، اور منہدم هونے سے پھلے اوربعد كی فوٹو بھی پیش كی ھے، یھاں پر موضوع كی مناسبت سے اس بارے میں كچھ تفصیل بیان كرتے ھیں:

1344ھ سے پھلے بقیع میں دفن ائمہعلیهم السلام اور دیگر قبور پر گنبد تھے جن میں فرش، پرد ے چراغ، شمعدان اور قندیلیں بھی تھیں، جو حضرات اس تاریخ سے پھلے وھاں گئے ھیں انھوں نے وھاں پر موجود تمام روضوں كی تفصیلات اپنے سفر ناموں میں بیان كی ھے، اور اس سلسلہ میں بعض حضرات نے وھاں كی گنبدوں اور قبور سے متعلق فوٹو بھی دئے ھیں۔

ان موٴلفین میں میرزا حسین فراھانی بھی ھیں جو 1302ھ میں سفر حج كے لئے گئے، موصوف قبور بقیع كے بارے میں اس طرح رقمطراز ھیں:

بقیع كا قبرستان ایك وسیع قبرستان ھے، جو مدینہ كی مشرقی دیوار سے متصل ھے اور اس كے چاروں طرف پتھرسے تین گز اونچی دیواربنی هوئی ھے، جس كے چار دروازے ھیں اس كے دو دروازے مغرب كی طرف ھیں اور ایك دروازہ جنوب كی طرف اور چوتھا دروازہ مشرق كی طرف ھے جو شھر كے باھر باغ كی گلی میں ھے، اور اس قبرستان میں اتنے لوگوں كو دفن كیا گیا ھے كہ یہ قبرستان زمین سے ایك گز اونچا هوگیا ھے، اور جس وقت حجاج آتے ھیں اس زمانہ میں قبرستان كے دروازے مغرب كے وقت تك كھلے رھتے ھیں جو بھی جانا چاھے جاسكتا ھے، لیكن حج كے دنوں كے علاوہ پنجشنبہ كی ظھر كے وقت كھلتا ھے اور جمعہ كے دن غروب تك كھلا رھتا ھے، اور اس كے علاوہ بند رھتا ھے، مگر یہ كہ كوئی مرجائے اور اس كو وھاں دفن كرنا هو۔

اس قبرستان میں شیعہ اثنا عشر ی كے چار ائمہعلیهم السلامكی قبریں ھیں جو 8 گوشوں كی ایك بڑی گنبد كے نیچے دفن ھیں، اور یہ گنبد اندرسے سفیدھے، معلوم نھیں كہ یہ گنبد كب سے بنی هوئی ھے لیكن محمد علی پاشا مصری نے 1334ھ میںعثمانی سلطان محمود خان كے حكم سے ان كی مرمت كرائی تھی، اور اس كے بعد سے ھر سال عثمانی سلاطین كی طرف سے بقیع میں موجود تمام بقعوں كی مرمت هوتی ھے۔

اس بقعہ كے بیچ میں ایك بڑی ضریح ھے جو بھترین لكڑی سے بنی ھے اور اس بڑی ضریح كی وسط میں لكڑی كی دو دوسر ی ضریح بھی ھیں ان دونوں ضریحوںمیں پانچ حضرات دفن ھیں :

1۔ حضرت امام حسن مجتبیٰں، 2۔ حضرت امام سجادں، 3۔ حضرت امام محمد باقر ں 4۔ حضرت امام جعفر صادق ں، 5۔ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے چچا جناب عباس ں، (بنی عباس انھیں كی اولادھیں) اس بقعہ مبارك كے وسط میں دیوار كی طرف ایك اور قبر ھے جس كے بارے میں كھا جاتا ھے كہ یہ جناب فاطمہ زھرا = كی قبر ھے۔

جناب فاطمہ زھرا = كی قبر تین مقامات پر مشهور ھے:

1۔ بقیع كے اس حجرے میں جس كو بیت الاحزان كھا جاتا ھے، اور اسی وجہ سے بیت الاحزان میں جناب فاطمہ زھرا = كی زیارت پڑھی جاتی ھے۔

2۔ دوسرے یھی بقعہ كہ جھاں پر شیعہ سنی زیارت پڑھتے ھیں، اسی قبر كے سامنے ایك گنبد پر زرگری سے تیار كردہ پردہ لگا هوا جس پر لكھا ھے سلطان احمد بن سلطان محمد بن سلطان ابراھیم ،1131ھ ۔

اس روضہ میں او ركوئی زینت نھیں ھے مگر یہ كہ دو عدد چھوٹے ”چھل چراغ“، چند دھات كی شمعدان، اور وھاں كا فرش چٹائی كا ھے اور چار پانچ افراد متولی اور خدام ھیں ،جو موروثی پوسٹ پر قابض ھیں اور كوئی خاص كام نھیں كرتے بلكہ ان كا كام حجاج سے پیسے لینا ھے۔

اھل سنت حجاج بھت كم وھاں زیارت كے لئے جاتے ھیںلیكن ان كے لئے زیارت كرنے میں كوئی ممانعت نھیں ھے اور ان سے پیسہ بھی نھیں لیا جاتا، لیكن شیعہ حضرات سے پیسہ لے كر تب اندر جانے دیا جاتا ھے، شیعہ زائرین كو تقریباً ایك ”قران“ سے پانچ ”شاھی“ تك خادموں كو دینا پڑتا ھے، زائرین سے لئے گئے پیسہ میں سے نائب الحرم اور سید حسن پسر سید مصطفی كا بھی حصہ هوتا تھا، البتہ پیسہ دینے كے بعد زیارت اور نماز میںكوئی تقیہ نھیں هوتا تھا، زیارت كو كھلے عام پڑھا جاسكتا تھا، اور شیعہ زائرین كو پھر كسی كا كوئی خوف نھیں هوتا تھا، اس روضہ كے پیچھے ایك چھوٹا سا روضہ ھے جو حضرت فاطمہ زھرا=كا بیت الاحزان ھے۔

اس كے بعد مرحوم فراھانی بقیع كی دیگر قبروں كی توصیف كرتے ھیں جن پر عمارت بنی هوئی ھے۔

اسی طرح میر زا فرھاد جو1292ھ میں حج كے لئے سفر كرچكے ھیں اپنے سفر نامہ ”ہدایة السبیل“ میں كھتے ھیں:

”میں(پیغمبر كی زیارت كے بعد)باب جبرئیل سے باھر نكلا اور ائمہ بقیع علیهم السلامكی زیارت كے لئے مشرف هوا كہ ائمہ اربعہ كی ضریح بڑی ضریح كے درمیان ھے، اور جناب عباس پیغمبر اكرمكے چچا كی قبر اسی ضریح میں ھے، لیكن ائمہ كی ضریح دوسری ضریحوں سے جدا ھے۔

وھاں كے متولی نے روضہ كے دروازہ كو كھولا اور میں نے اس ضریح كا طواف كیا، پیروں كی طرف صندوق او رضریح كے درمیان بھت كم جگہ ھے جس كی وجہ سے انسان بمشكل وھاں سے نكل سكتا ھے۔

نائب الصدر شیرازی جو1305ھ میں حج سے مشرف هوئے ھیں، اپنے سفر نامہ ”تحفة الحرمین“ میں اس طرح كھتے ھیں :بقیع میں داھنی طرف ایك مسجد ھے جس كے اوپر یہ لكھا ھے:

”ہٰذٰا مَسْجِدُ اُبَیّ بِنْ كَعْبَ وَصَلیّٰ فِیْہِ النَّبِیّ غَیْرَ مَرَّةٍ“

(یہ مسجد ابی بن كعب ھے جس میں پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے متعدد بار نماز پڑھی ھے،)

بقیع میں چار ائمہ:امام حسن مجتبیٰ ں، امام زین العابدین ں، امام محمد باقر ں، امام جعفر صادق ں كی قبر ایك ھی ضریح میں ھے۔

كھا یہ جاتا ھے جناب عباس بن عبد المطلب بھی وھیں دفن ھیں، اسی طرح دیوار كی طرف ایك پردہ دار قبرھے جس كے بارے میں كھا جاتا ھے كہ یہ جناب فاطمہ زھرا (س) كی قبر ھے۔

ابراھیم رفعت پاشا جو1320ھ، 1321ھ اور 1325ھ میں مصر كے رئیس حجاج تھے انھوں نے اپنے سفر نامہ ”مرآة الحرمین“ میں بقیع میں دفن مشهور ومعروف حضرات مثلاً پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے صحابہ وغیرہ كی تفصیل بیان كی ھے، وہ كھتے ھیں كہ اھل بیت (بقیع میں مدفون ائمہ مراد ھیں) كا قبہ دوسرے قبوں سے بلند ھے۔

رفعت پاشا نے ان تمام روضوں كے فوٹو بھی دئے ھیں اور یہ بھی دكھایا ھے كہ ائمہ اھل بیت كا روضہ دوسرے روضوں سے بلند تر اور خوبصورت بنا هوا ھے۔

بقیع میں ائمہ علیهم السلامكی قبروں كے انہدام كے سلسلہ میں یہ بات بیان كرنا بھت ضروری ھے كہ ان قبروں پر قدیم زمانہ (پھلی صدی) سے گنبد، بارگاہ اور سنگ قبر موجود تھے، ھم نے پھلے بھی قبور پر عمارتوں كے سلسلہ میں مسعودی صاحب مروج الذھب اور سمهودی صاحب وفاء الوفاء كی عبارتوں كو ذكر كیا كہ حضرت فاطمہ زھرا = اور بقیع میں دفن ائمہ علیهم السلامكی قبور پرتحریر موجود تھی، اور اس بات كی تائید كہ پھلی صدیوں میں ائمہ علیهم السلامكی قبروں پر گنبد تھے ابن اثیر كی وہ تفصیل ھے جو انھوں نے 495ھ كے واقعات میں ذكر كی ھے كہ اس سال قم سے ایك معمار مجد الملك بلاسانی (براوستانی صحیح ھے) نامی كو حضرت امام حسن مجتبیٰ ں اور عباس بن عبد المطلبۻ كے قبہ كی مرمت كے لئے بھیجا گیا، اور یہ شخص منظور بن عمارہ والی مدینہ كے ھاتھوں قتل هوا۔

اس بات سے معلوم هوتا ھے كہ پانچویں صدی سے ائمہ بقیع اور جناب عباس عموئے پیغمبر اكرمكی قبروں پر گنبد تھے، اور ان كی مرمّت كرانے كا مطلب یہ ھے كہ ایك طویل زمانہ سے یہ عمارتیں موجود تھیں اور خراب هونے كی وجہ سے ان كی مرمت كی ضرورت پیدا هوئی۔

سمهودی متوفی911ھ نے بھی بقیع كی قبور كے بارے میں پھلی صدی سے دسویں صدی تك كی تفصیل بیان كی ھے۔

وہ كھتے ھیں كہ جناب عباس پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حسن بن علی (ع) اور بقیع میں دیگر دفن شدہ حضرات كی قبروں پر بھت اونچی گنبد ھے۔

اسی طرح ابن نجار كھتے ھیں كہ اس گنبد (قبور ائمہعلیهم السلام) كی عمارت بھت قدیمی اور بلند ھے، اس عمارت كے دو دروازے ھیں كہ ان میں ایك دروازہ ھر روز كھلتا ھے، ابن نجار نے اس عمارت كے بانی كا نام ذكر نھیں كیا ھے لیكن ”مطری“ صاحب كھتے ھیں كہ اس عمارت كا بانی ”خلیفة الناصر احمد بن المستضی“ ھے۔

قارئین كرام! ”مطری“ صاحب كا یہ نظریہ صحیح نھیں دكھائی دیتا، كیونكہ ابن نجار اورخلیفہ ناصر دونوں ھمعصر تھے اور ابن نجار نے اس عمارت كو قدیمی بتایا ھے لیكن میں (سمهودی) نے اس بقعہ كی محراب میں لكھا دیكھا كہ یہ عمارت منصور مستنصر باللہ كے حكم سے بنائی گئی ھے، لیكن نہ تو اس كا نام اور نہ ھی عمارت كی تاریخ لكھی هوئی ھے۔

سمهودی صاحب اس كے بعد كھتے ھیں كہ قبر عباس اور حسن ں زمین سے اونچی ھے اور ان كا مقبرہ وسیع ھے اور اس كی دیواروں میں خوبصورت لوح اور تختی بھترین طریقہ سے لگائی گئی ھیں، اور آخر میںسمهودی صاحب نے بقیع میں موجود دوسری عمارتوں كا بھی ذكر كیا ھے۔

اسی طرح ابن جبَیر چھٹی صدی كے مشهور ومعروف سیاح نے بھی جناب عباس اور حضرت امام حسن ں كی قبراور ان پر موجود بلند گنبد اور اس كے اندر كی خوبصورتی كی توصیف كی ھے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقيدہ توحيد و عدل کا انساني معاشرہ پر اثر
حق الناس قبولیت اعمال میں رکاوٹ ہے
کیا علم خدا کی موجوده زمانه کے موسم شناسی اور ...
عبادت اور خدا کا ادراک
قیامت کی ضرورت کا نتیجہ بحث
خدا کی نعمتوں سے صحیح فائدہ اٹھانے کی ضرورت
اسلام کا قانون
دعا توحید کے دائرہ میں
باب تقلید
[دین اور سیاست] نظریہ ولا یت فقیہ

 
user comment