حال ہی میں ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان میں ایک تاریخ اسلام سے ناواقف شخص نے «فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کا افسانہ شہادت» کے عنوان کے تحت ایک مضمون لکھا ہے۔ اس نے اپنے مضمون میں سیدہ سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب بیان کرنے کے بعد آپ سلام اللہ علیہا کی شہادت کا انکار کرکے آپ کی بے حرمتی کو چھپانے کی کوشش کی ہے.
چونکہ اس نے تاریخ اسلام کے ایک حصے کو جھٹلانے اور اس میں تحریف کرنے کی کوشش کی ہے لہذا ہم نے ان تحریفات کے بعض حصوں کی طرف اشارہ کرنے اور متعلقہ تاریخی حقائق بیان کرنے کا ارادہ کیا تا کہ ثابت کیا جائے کہ سیدہ عالمین کی شہادت ایک ناقابل انکار حقیقت ہے اور اگر مذکورہ شخص اس بحث کا آغاز نہ کرتا تو ہم بھی ان حالات میں اس بحث میں داخل نہ ہوتے.
اس مقالے میں درج ذیل امور پر روشنی ڈالی گئی ہے:
1ـ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی عصمت؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظر میں
2ـ قرآن و سنت میں سیدہ سلام اللہ علیہا کے گھر کا احترام.
3ـ والد ماجد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد آپ سلام اللہ علیہا کے گھر کی بے حرمتی.
ہمیں امید ہے کہ ان تین نکات کی تشریح پڑھ کر مذکورہ مضمون نویس اپنی تحریر سے نادم ہوجائے؛ سر تسلیم خم کرے اور اپنے کئے کی تلافی کرنے کا اہتمام کرے.
یہ نکتہ نہایت اہم ہے کہ اس مقالے کے تمام مطالب اہل سنت کے معروف منابع و مآخذ سے نقل ہوئے ہیں.
اول) حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا کی عصمت؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظر میں
دختر پیمبر (صلى اللہ عليہ وآلہ) نہایت اونچے مرتبے پر فائز تھیں اور آپ سلام اللہ علیہا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادات آپ سلام اللہ علیہا کی عصمت اور گناہ و پلیدی سے پاکیزگی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں.
فرماتے ہیں: «فاطمة بضعة منّي فمن أغضبها أغضبني».(1)
فاطمہ میرے جسم و جان کا تکرا ہے جس نے انہیں غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا ہے».
بغیر کہے سنے بھی ظاہر ہے کہ رسول خدا(صلى اللہ عليہ وآلہ) کا غضب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے اذیت و رنج کا سبب ہے اور ایسے شخص کی سزا قرآن مجید میں یوں بیان ہوئی ہے:
وَ الّذين يُؤْذُونَ رَسُول اللّه لَهُم عَذابٌ أَليم (التوبه/61 )
وہ لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اذیت پہنچائیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے».
آپ سلام اللہ علیہا کی عصمت کے لئے اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ حدیث شریف میں آپ کی رضا رسول خدا کی رضا کا باعث اور آپ کی ناراضگی خدا کی ناراضگی بتائی گئی ہے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: « فاطمةُ انّ اللّه يغضبُ لِغضبك و يَرضى لرضاك»(2)
بیٹی فاطمہ! خدا آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے اور آپ کی خوشنودی پر خوشنود ہوتا ہے.
اسی عالی مرتبے کی بدولت آپ سلام اللہ علیہا عالمین کی خواتین کی سردار ہیں؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ سلام اللہ علیہا کے حق میں ارشاد فرمایا ہے: «يا فاطمة! ألا ترضين أن تكونَ سيدةَ نساء العالمين، و سيدةَ نساءِ هذه الأُمّة و سيدة نساء المؤمنين.(3)
بیٹی فاطمہ! کیا آپ راضی نہ ہونگی کہ خدا نے اتنی بڑی کرامت و عظمت آپ کو عطا فرمائے کہ آپ دنیا کی خواتین کی سردار اور اس امت کی خواتین کی سردار اور با ایمان خواتین کی سردار ہوں.
دوئم) قرآن و سنت میں آنحضرت سلام اللہ علیہا کے گھر کا احترام
محدثین کہتے ہیں کہ جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئی کہ :
فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ
نورخدا ان گھروں میں ہے کہ خدا نے اجازت دی ہے کہ ان کی قدر و منزلت بلند و رفیع ہو اور اس (خدا) کا نام ان گھروں میں یاد کیا جائے اور (وہ) ان گھروں میں شب و روز خدا کی عبادت کرتے ہیں( (4
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد میں اس آيت کی تلاوت فرمائے. ایک شخص اٹھا اور عرض کرنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! ان نہایت اہم گھروں سے مقصود کیا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:انبیاء کے گھر!
اس موقع پر ابوبکر اٹھے اور علی و فاطمہ (سلام اللہ علیہما) کے گھر کی طرف اشارہ کرکے پوچھا: کیا یہ گھر بھی ان ہی گھروں میں سے ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہاں اور یہ ان گھروں میں "اہم ترین" ہے.(5)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسلسل 9 مہینوں تک اپنی بیٹی کے گھر کے دروازے پر آتے رہے اور آپ سلام اللہ علیہا اور آپ کے خاوند (ع) کو سلام کرتے رہے اور اور دروازے ہی پر اس آیت کی تلاوت کرتے رہے:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (احزاب33) (6)
خدا نے فقط ارادہ فرمایا کہ رجس و آلودگی کو تم خاندان (اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے دور کردے اور تمہیں پاک و مطہر کردے جیسا کہ پاک ہونے کا حق ہے.
وہ گھر جو نور خدا کا مرکزہ ہے اور خدا نے حکم دیا ہے کہ اس گھر کی تعظیم و تکریم کی جائے یقینا نہایت اعلی درجے پر فائز ہے اور اس کا احترام بھی نہایت اعلی پائے کا ہے.
بے شک جس گھر میں اصحاب کساء ہوں گے اور خداوند متعال عظمت و جلالت کے ساتھ اس کا نام لے تمام مسلمانوں کے لئے محترم ہونا چاہئے.
اب دیکھنا یہ ہے کہ رسول اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد اس گھر کے احترام کا کس حد تک لحاظ رکھا گیا؟ کس طرح بعض لوگوں نے اس گھر کا احترام توڑ کر رکھ دیا؟ اور پھر کس طرح انہوں نے صراحت کے ساتھ اس کا اعتراف بھی کیا؟ یہ حرمت شکن کون تھے اور ان کا مقصد کیا تھا؟
سوئم) آپ سلام اللہ علیہا کے گھر کی بے حرمتی
افسوس کا مقام ہے کہ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتنی ساری سفارشات کے باوجود بعض لوگوں نے اس گھر کی حرمت کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ اس کی توہین و بے حرمتی کا ارتکاب بھی کیا اور یہ مسئلہ بہت ہالکل عیاں و آشکار اور ناقابل انکار ہے.
ہم اس سلسلے میں اہل سنت کے منابع و مصادر سے بعض نصوص نقل کرنا چاہیں گے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سیدہ (س﴾ کے گھر کی بے حرمتی اور بعد کے واقعات «افسانہ نہیں بلکہ مسلمہ تاریخی حقائق ہیں»!! اور اگرچہ خلفاء کے دور میں خاندان رسالت کے فضائل و مناقب پر شدید سینسر لاگو تھا لیکن چونکہ «ہر شیۓ کی حقیقت وصداقت اس کی نگہبان ہے» لہذا یہ تاریخی حقیقت زندہ صورت میں تاریخ و حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہوگئی ہے اور ہم منابع و مآخذ نقل کرتے ہوئے معاصر مصنفین و مؤلفین تک ، ان کی تاریخی ترتیب کو اسلام کی پہلی صدی سے مد نظر رکھیں گے:
1. ابن ابى شيبہ اور ان کی کتاب «المصنَّف»
ابوبكر ابن ابى شيبہ (159-235) المصنَّف کی مؤلف ہیں. وہ صحیح سند کی توسط سی نقل کرتی ہیں کہ:
انّه حين بويع لأبي بكر بعد رسول اللّه (صلى الله عليه وآله) كان علي و الزبير يدخلان على فاطمة بنت رسول اللّه، فيشاورونها و يرتجعون في أمرهم.
فلما بلغ ذلك عمر بن الخطاب خرج حتى دخل على فاطمة، فقال: يا بنت رسول اللّه (صلى الله عليه وآله) و اللّه ما أحد أحبَّ إلينا من أبيك و ما من أحد أحب إلينا بعد أبيك منك، و أيم اللّه ما ذاك بمانعي إن اجتمع هؤلاء النفر عندك أن امرتهم أن يحرق عليهم البيت.
قال: فلما خرج عمر جاؤوها، فقالت: تعلمون انّ عمر قد جاءَني، و قد حلف باللّه لئن عدتم ليُحرقنّ عليكم البيت، و أيم اللّه لَيمضين لما حلف عليه. (6)
ترجمہ: جب لوگوں نے ابوبکر کے ساتھ بیعت کی، علی اور زبیر حضرت سیدہ کے گھر میں مشورے کیا کرتے تھے۔ اس بات کی اطلاع عمر کو ہوئی تو وہ سیدہ کے گھر آئے اور کہا: اے دختر رسول خدا! ہمارے لئے محبوبترین فرد آپ کے والد ہیں اور آپ کے والد کے بعد آپ ہیں لیکن خدا کی قسم یہ محبت اس بات کے لئے رکاوٹ نہیں بن سکتی کہ اگر یہ افراد آپ کے گھر میں اکٹھے ہوجائیں تو میں حکم دوں کہ گھر کو ان کے ساتھ جلا ڈالیں.
یہ کہہ کر باہر چلے گئے، جب على(علیہ السلام﴾ اور زبیر گھر لوٹ آئے تو دختر رسول (ص﴾ نے على(عليہ السلام) اور زبیر سے کہا: عمر میرے پاس آئے اور قسم کھائی کہ اگر آپ لوگوں کا یہ اجتماع دہرایا گیا تو گھر کو تمہارے ساتھ نذر آتش کردیں گے؛ خدا کی قسم اس نے جو قسم کھائی ہے اس پر عمل کریں گے!
ہم نے پہلے ہی اشارہ کیا کہ یہ روایت المصنف میں صحیح سند کے ذریعے سے نقل ہوئی ہے.
2. بلاذرى اور كتاب «انساب الاشراف»
مشہور و معروف مؤلف اور عظیم تاریخ کے مالک احمد بن يحيى جابر بغدادى بلاذرى (متوفى 270) نے یہ تاریخی واقعہ اپنی کتاب انساب الاشراف میں یوں نقل کیا ہے.
انّ أبابكر أرسل إلى علىّ يريد البيعة فلم يبايع، فجاء عمر و معه فتيلة! فتلقته فاطمة على الباب.فقالت فاطمة: يابن الخطاب، أتراك محرقاً علىّ بابي؟ قال: نعم، و ذلك أقوى فيما جاء به أبوك...(7).
ابوبكر نے علی (علیہ السلام﴾ کو بیعت کے لئے بلایا تو علی (علیہ السلام) نے بیعت سے انکار کیا. اس کے بعد عمر فتيلہ Tinder اٹھا کر آیا اور گھر کے سامنے ہی سیدہ (س﴾ کے روبرو ہوئے. سیدہ نے فرمایا: یابن الخطاب! میں دیکھ رہی ہوں کہ تم میرا گھر جلانے کے لئے آئے ہو؟! عمر نے کہا: ہاں! میرا یہ عمل اسی چیز کی مدد کے لئے ہے جس کے لئے آپ کے والد مبعوث ہوئے تھے!!
3. ابن قتيبہ اور كتاب «الإمامة و السياسة»
مشہور مورّخ عبداللّہ بن مسلم بن قتيبہ دينوري (212-276) بزرگ ادیب اور تاریخ اسلامی کے محنت کش اہل قلم ہیں. «تأويل مختلف الحديث»، «ادب الكاتب» وغیرہ ان کی تالیفات ہیں... (8). وہ اپنی کتاب «الإمامة و السياسة» میں لکھتے ہیں:
انّ أبابكر رضي اللّه عنه تفقد قوماً تخلّقوا عن بيعته عند علي كرم اللّه وجهه فبعث إليهم عمر فجاء فناداهم و هم في دار علي، فأبوا أن يخرجوا فدعا بالحطب و قال: والّذي نفس عمر بيده لتخرجن أو لاحرقنها على من فيها، فقيل له: يا أبا حفص انّ فيها فاطمة فقال، و إن!!(9)
ابوبکر نے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا جنہوں نے بیعت سے انکار کیا تھا اور عمر کو ان کے پاس بھیجا. عمر علی علیہ السلام کے گھر کے پاس آیا اور سب کو آواز دی اور کہا: سب باہر آجاؤ اور انہوں نے علی و فاطمہ (علیہما السلام﴾ کے گھر سے نکلنے سے اجتناب کیا اس موقع پر عمر نے لکڑیاں منگوائیں اور کہا: اس خدا کی قسم جس کے ہاتھوں میں عمر کی جان ہے کہ باہر آجاؤ ورنہ میں اس گھر کو آگ لگاؤں گا. ایک آدمی نے عمر سے کہا: اى اباحفص! اس گھر میں فاطمہ ہے؛ عمر نے کہا چاہے فاطمہ بھی ہو میں گھر کو آگ لگادوں گا!!
ابن قتيبہ نے اس داستان کو پرسوز و گداز انداز میں جاری رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ:
ثمّ قام عمر فمشى معه جماعة حتى أتوا فاطمة فدقّوا الباب فلمّا سمعت أصواتهم نادت بأعلى صوتها يا أبتاه رسول اللّه ماذا لقينا بعدك من ابن الخطاب، و ابن أبي قحافة فلما سمع القوم صوتها و بكائها انصرفوا. و بقي عمر و معه قوم فأخرجوا علياً فمضوا به إلى أبي بكر فقالوا له بايع، فقال: إن أنا لم أفعل فمه؟ فقالوا: إذاً و اللّه الّذى لا إله إلاّ هو نضرب عنقك...!(10)
عمر ایک گروہ کے ہمراہ سیدہ (س﴾ کے گھر پہنچا. ان لوگوں نے دستک دی جب سیدہ (س﴾ نے دستک کی صدا سنی تو بآواز بلند فرمایا: یا رسول اللہ (ص﴾ آپ کے بعد خطاب اور ابی قحافہ کی بیٹوں کی جانب سے ہم پر کیا مصیبتیں آپڑیں! عمر کے ہمراہ آنے والوں نے جب سیدہ کی گریہ وبکاء کی آواز سنی تو اکثر افراد لوٹ کر چلے گئے مگر عمر چند افرا کے ہمراہ کھڑا رہا اور علی علیہ السلام کو گھر سے باہر لے آئے اور ابوبکر کے پاس لے گئے اور کہا: بیعت کرو! علی علیہ السلام نے فرمایا: اگر بیعت نہ کروں تو کیا کروگے؟ عمر نے کہااس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی خدا نہیں؛تمہارا سر قلم کریں گے!...
مسلّماً تاریخ کا یہ حصہ شیخین سے محبت کرنے والے افراد کے لئے بہت ہی بھاری ہے لہذا ان میں سے کئی افراد نے مفروضوں کی بنیاد پر دعوی کیا ہے کہ گویا یہ کتاب ابن قتیبہ کی نہیں ہے جبکہ فن تاریخ کے استاد ابن ابی الحدید کو یقین ہے کہ مذکورہ کتاب ابن قتیبہ کی ہے اور ابن ابی الحدید نے اس کتاب سے متعدد بار اقتباسات لئے ہیں اور اس کے مضامین سے استناد کیا ہے. افسوس کا مقام ہے کہ یہ کتاب نئی طباعتوں میں تحریف کا شکار ہوئی ہے اور اس کے بعض مطالب و مضامین کو حذف کیا گیا ہے جبکہ وہی مضامین ابن ابی الحدید کی کتابوں میں الامامہ و السیاسہ کے حوالے سے نقل ہوئے ہیں اور موجود ہیں.
«زركلى» اپنی کتاب الاعلام میں اس کتاب کو ابن قتیبہ کی کاوش سمجھتے ہیں اور لکھتے ہیں: بعض علماء اس کتاب کو ابن قتیبہ سے نسبت دینے کے حوالے سے مختلف آراء کی قائل ہیں۔ بالفاظ دیگر زرکلی کا کہنا ہے کہ: مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب ابن قتیبہ کی ہے مگر دوسرے لوگ اس سلسلے میں شک و تردد کا شکار ہیں. جیسا کہ «الياس سركيس»(11) اس کتاب کو ابن قتیبہ کی تالیف سمجھتے ہیں.
4. طبرى اور اس کی تاریخ:
محمّد بن جرير طبرى (متوفى 310) اپنی تاریخ میں بیت وحی کی بے حرمتی کی روایت یوں بیان کرتے ہیں:
أتى عمر بن الخطاب منزل علي و فيه طلحة و الزبير و رجال من المهاجرين، فقال و اللّه لاحرقن عليكم أو لتخرجنّ إلى البيعة، فخرج عليه الزّبير مصلتاً بالسيف فعثر فسقط السيف من يده، فوثبوا عليه فأخذوه.(12)
عمر بن خطاب على کے گھر پر آئے جہاں مہاجرین کا ایک گروہ موجود تھا. عمر نے ان کی طرف رخ کرکے کہا: خدا کی قسم گھر کو آگ لگادوں گا مگر یہ کہ بیعت کے لئے باہر آجاؤ. زبیر تلوار سونت کر باہر آئے مگر اچانک ان کا پاؤں پھسلا اور گر پڑے تو دوسروں نے انہیں پکڑلیا اور تلوار ان کے ہاتھ سے چھین لی...
تاریخ کے اس حصے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیعت اخذ کرنے کا سلسلہ دہونس دھمکی اور زبردستی پر استوار تھا اب قارئین کرام خود فیصلہ کریں کہ اس طرح کی بیعت کی کیا قدر و قیمت ہوسکتی ہے؟
5. ابن عبد ربہ اور «عقد الفريد»
کتاب «عقدالفرید» کے مؤلف شہاب الدين احمد المعروف «ابن عبد ربہ اندلسى» متوفى (463 ھـ) نے اپنی کتاب میں تاریخ سقیفہ کے سلسلے میں مفصل بحث کی ہے اور «وہ لوگ جنہوں نے ابوبکر کی بیعت سے اجتناب کیا» کے عنوان کے تحت تحریر کیا ہے کہ:
فأمّا علي و العباس و الزبير فقعدوا في بيت فاطمة حتى بعثت إليهم أبوبكر، عمر بن الخطاب ليُخرجهم من بيت فاطمة و قال له: إن أبوا فقاتِلهم، فاقبل بقبس من نار أن يُضرم عليهم الدار، فلقيته فاطمة فقال: يا ابن الخطاب أجئت لتحرق دارنا؟! قال: نعم، أو تدخلوا فيما دخلت فيه الأُمّة!:(13)
على، عباس اور زبیر فاطمہ کے گھر میں بیٹھے تھے کہ ابوبکر نے عمر کو بھیجا اور کہا کہ انہیں وہاں سے نکال باہر کرو اور اگر باہر نہ آئیں تو ان کے ساتھ لڑو! اسی وقت عمر آگ لے کر سیدہ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے تا کہ گھر کو نذر آتش کریں، اسی وقت سیدہ (س﴾ سامنے آئیں. دختر رسول (ص﴾ نے فرمایا: اے فرزند خطاب کیا تم ہمارا گھر جلانے کے لئے آئے ہو؟ کہنے لگے: ہاں! مگر یہ کہ جس چیز میں امت وارد ہوئی ہے تم بھی وارد ہوجاؤ!
یہاں تک بیت فاطمہ (س﴾ کے ہتک حرمت کے ارادے کا باب ختم ہوتا ہے اور اب دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں انہوں نے اس مذموم اور ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنایا!
یہ گمان ہرگز پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ ان لوگوں کا مقصد صرف خوف و ہراس اور دھونس دھمکی تک محدود تھا تا کہ على(عليہ السلام) اور آپ (ع﴾ کے معتقدین بیعت پر مجبور ہوجائیں، اور یہ کہ وہ اس منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنانا چاہتے تھے.
اس مقالے کے آئندہ سطور میں بیان ہوگا کہ انہوں نے اس عظیم جرم کا ارتکاب کر ہی لیا!
حملہ انجام پايا!
یہاں ان لوگوں کی باتوں کا سلسلہ مکمل ہوا جنہوں نے صرف خلیفہ اور اس کے اصحاب کی بدنیتی کی طرف اشارہ کیا تھا. یہ وہ مورخین و مؤلفین تھے جو اس سانحے کی روداد مکمل نہ کرسکے یا کسی وجہ سے اسے مکمل نہ کرنا چاہا، جبکہ بعض دوسروں نے اس سانحے – یعنی بیت فاطمہ (س﴾ پر حملے اور اس گھر کی بے حرمتی – کی روداد کی طرف اشارہ کیا ہے اور کسی حد تک حقیقت کے چہرے سے نقاب کھینچ ڈالی ہے. یہاں ہم گھر پر حملے اور اس گھر کی بے حرمتی کی رواداد کے مستندات کی طرف اشارہ کرتے ہیں: ( اس حصے میں بھی مستندات کو غالبا تاریخی ترتیب سے ذکر کیا گیا ہے).
6. ابو عبيد اور كتاب «الاموال»
ابو عبيد قاسم بن سلام (متوفى 224) اپنی کتاب «الأموال» میں جو اسلامی فقہاء کے ہاں مورد اعتماد و وثوق ہے، سے نقل کرتے ہیں:
عبدالرّحمن بن عوف کہتے ہیں: ابوبکر بیمار ہوئے تو میں عیادت کے لئے ان کے سرہانے پہنچا. ہمارے درمیان طویل گفتگو ہوئی اور آخر میں انہوں نے مجھ سے کہا: کاش وہ تین افعال جو میں نے سرانجام دئے مجھ سے سرزد نہ ہوتے، کاش میں تین چیزوں کے بارے میں نبی اکرم (ص﴾ سے سوال کرتا.
وہ تین چیزیں جو میں نے سرانجام دیں اور اب آرزو کرتا ہوں کہ کاش یہ چیزیں مجھ سے سرزد نہ ہوتیں؛ یہ ہیں:
1. «وددت انّي لم أكشف بيت فاطمة و تركته و ان اغلق على الحرب».(14) كاش میں نے فاطمہ کا گھر نہ کھلوایا ہوتا خواہ وہ جنگ کی نیت سے ہی بند کیا جا چکا ہوتا.
ابو عبید جب روایت کے اس حصے پر پہنچتے ہیں تو: لم أكشف بيت فاطمة و تركته = فاطمہ کا گھر نہ کھلواتا...کی بجائے لکھتا ہے: كذا و كذا. اور لکھتے ہیں: میں اس بات کو ذکر کرنے کا شوق ہرگز نہیں رکھتا!.
لیکن اگرچہ «ابو عبيد» نے تعصب یا کسی اور بنا پر حقیقت کو نقل کرنے سے گریز کیا ہے مگر کتاب الاموال پر تحقیق کرنے والے حضرات نے اس کے حاشیوں پر لکھا ہے کہ حذف شدہ جملے «میزان الاعتدال» میں اسی شکل میں بیان ہوئے ہیں جیسا کہ یہاں بیان ہوئے، اس کے علاوہ «طبرانى» اپنی کتاب «المعجم» میں، «ابن عبدربه»، «عقد الفريد» میں اور دیگر افراد نے حذف شدہ جملے بیان کئے ہیں.(غور فرمائیں).
7. طبرانى اور معجم الكبير
ذہبی میزان الاعتدال میں ابوالقاسم سليمان بن احمد طبرانى (260-360) کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: وہ معتبر شخص ہیں (15). طبرانی «المعجم الكبير» میں ابوبکر اور ان کے خطبات اور وفات کے بارے میں لکھتے ہیں:
ابوبكر نے وفات کے وقت چند امور کی تمنا کی اور کہا: كاش میں تیں کام سرانجام نہ دیتا اور تین چیزوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کرتا.
ابوبکر ان تین افعال کے بارے میں – جو انہوں نے سرانجام دیئے اور تمنا کی کہ کاش انہیں انجام نہ دیتے – کہتے ہیں: أمّا الثلاث اللائي وددت أني لم أفعلهنّ، فوددت انّي لم أكن أكشف بيت فاطمة و تركته.(16) وہ تین چیزیں جو میری آرزو ہے کہ کاش مجھ سے سرزد نہ ہوتیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ کاش میں فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا!
ان عبارات و تعبیرات سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ عمر کی دھمکی عملی صورت اختیار کرگئی.
8. ابن عبد ربہ اور «عقد الفريد»
كتاب «العقد الفريد» کے مؤلّف ابن عبد ربہ الاندلسى (متوفى 463 هـ) نے عبدالرحمن بن عوف سے نقل کیا ہے کہ:
ابوبکر بیمار ہوئے تو میں ان پر وارد ہوا. انہوں نے کہا: کاش میں تین چیزوں کا ارتکاب نہ کرتا اور ان تین چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ: وودت انّي لم أكشف بيت فاطمة عن شي و إن كانوا اغلقوه على الحرب.(17) كاش میں فاطمہ کا گھر کا دروازہ نہ کھلواتا، خواه جنگ کی نوبت هی کیون نه آتی».
نیز وہ عبارات بھی نقل ہونگی اور ان شخصیات کے نام بھی ذکر ہونگے جنہوں نے خلیفہ کا یہ قول نقل کیا ہے.
9. نَظّام اور كتاب «الوافي بالوفيات»
نظم و نثر میں حسن کلام کی بنا پر نَظّام کے نام سے مشہور ہونے والے ابراہيم بن سيار معتزلى (160-231) اپنی متعدد کتابوں میں فاطمہ کے گھر پر حضرات کے حاضر ہونے کے بعد پیش آنے والا واقعہ نقل کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:
انّ عمر ضرب بطن فاطمة يوم البيعة حتى ألقت المحسن من بطنها.(18) عمر نی «بیعت لینے» کی نیت سے فاطمہ زہرا (س﴾ کی پیٹ پر ضرب لگائے اور فاطمہ کے بطن میں جو محسن نامی بچہ تھا وہ سقط ہوگیا!! (توجہ فرمائیں).
10. مبرد اور كتاب «الكامل»
معروف اديب و مؤلف اور اہم تألیفات کے مالک محمّد بن يزيد بن عبدالأكبر بغدادى (210-285) اپنی کتاب «الکامل» میں خلیفہ کی آخری تمنا کے بارے میں عبدالرحمن بن عوف سے نقل کرتے ہیں کہ ابوبکر نے کہا:
وددت انّي لم أكن كشفت عن بيت فاطمة و تركته ولو أغلق على الحرب.(19)
آرزو کرتا ہوں کہ کاش بيت فاطمہ کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کا دروازہ نہ کھلواتا چاہے وہ دروازہ جنگ کی نیت سے ہی بند کیوں نہ ہوتا».
11. مسعودى و «مروج الذہب»
مسعودى (متوفى 325) مروج الذہب میں لکھتے ہیں:
ابوبکر جب حالت احتضار (جان کنی کی حالت﴾ میں وارد ہوئے تو کہنے لگے: کاش میں تین اعمال کا ارتکاب نہ کرتا اور ان تین اعمال میں سے ایک یہ ہے:
فوددت انّي لم أكن فتشت بيت فاطمة و ذكر في ذلك كلاماً كثيراً!(20)
میری تمنا تھی کہ کاش خانہ زہرا کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس سلسلے میں انہوں نے بہت ساری باتیں بیان کیں»!!
گو کہ مسعودى اہل بیت (ع﴾ کی محبت کے حوالے سے نسبتا اچھی شہرت رکھتے ہیں مگر یہاں پہنچ کر وہ بھی مکمل بات بتانے سے گریز کرتے ہیں اور کنائے کے ساتھ گذرجاتے ہیں [اور وہ بات جو خلیفہ نے بیان کی ہے ادہوری رہ جاتی ہے] البتّہ خدا حقيقت سے واقف ہے اور بندگان خدا کو بھی اجمالی علم حاصل ہے!
12. ابن أبى دارم اور كتاب «ميزان الاعتدال»
محدث كوفى «احمد بن محمّد» المعروف «ابن ابى دارم»، (متوفى357)، - جن کے بارے میں محمّد بن أحمد بن حماد كوفى کا بیان ہے کہ: «كان مستقيم الأمر، عامة دهره»: وہ اپنی پوری عمر میں راہ راست پر چلنے والے تھے اور اپنے زمانے کی نامی گرامی شخصیت تھے.
وہ اس مقام و مرتبے کے مالک ہوتے ہوئے، نقل کرتے ہیں کہ یہ حدیث ان کے سامنے نقل کی گئی کہ:
انّ عمر رفس فاطمة حتى أسقطت بمحسن. (21)
عمر نے فاطمہ کو لات ماری اور جو محسن نامی فرزند ان کے بطن میں تھا وہ سقط ہوگیا»! (توجہ فرمائیں)
13. عبدالفتاح عبدالمقصود اور كتاب «الإمام علي»
عبدالمقصود «بیت الوحی» پر حملے کی روداد اپنی کتاب کی دو مقامات پر بیان کرتے ہیں لیکن ہم ایک ہی روایت نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
لکھتے ہیں کہ عمر نے گھر کے سامنے کھڑے ہوکر کہا:
«و الّذي نفس عمر بيده، ليَخرجنَّ أو لأحرقنّها على من فيها...»! قالت له طائفة خافت اللّه، و رعت الرسول في عقبه: «يا أبا حفص، إنّ فيها فاطمة...»! فصاح لايبالي: «و إن...»! و اقترب و قرع الباب، ثمّ ضربه و اقتحمه... و بدا له عليّ... و رنّ حينذاك صوت الزهراء عند مدخل الدار... فان هى الا طنين استغاثة...(22)
ترجمہ: اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے کہ گھر سے باہر آجاؤ ورنہ اس گھر کو اس کے ساکنین کے ساتھ ہی آگ لگادوں گا. کچھ لوگ جو خدا کا خوف رکھنے اور رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد آپ (ص﴾ کے خاندان کی رعایت حال کرنے والے تھے، نے کہا: «اباحفص، فاطمہ اس گھر میں ہیں ». لیکن وہ بے پروائی کے عالم میں چلّائے: "وَ اِن" تب بھی (یعنی حتیٰ اگرفاطمہ بھی گھر میں ہوں تب بھی گھر کو آگ لگا دوں گا) پس قریب تر گئے اور دروازے پر دستک دی اور پھر دروازے پر مکھوں اور لاتوں کی بوچھاڑ کردی اور گھر میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی[دوازہ ٹوت گیا تھا اور سیدہ دروازے کی پشت پر زخمی ہوگئی تھیں]... اس دوران علی (ع﴾ ظاہر ہوئے اسی اثناء میں سیدہ (س﴾ کی صدا گھر کے دروازے کے پاس سے سنائی دی اور وہ سیدہ کی فریاد اور استغاثی کے سوا کوئی اور صدا نہ تھی...!».
* * *
اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے «مقاتل ابن عطيّة» کی کتاب «الامامة و السياسة» کی ایک حدیث پیش کرتے ہیں (گو کہ ابھی ان کہی باتیں بہت ہیں!)
لکھتے ہیں:
ان ابابكر بعد ما اخذ البيعة لنفسه من الناس بالارهاب و السيف و القوّة ارسل عمر، و قنفذاً و جماعة الى دار علىّ و فاطمه(عليه السلام) و جمع عمر الحطب على دار فاطمه و احرق باب الدار!...(23)
ترجمہ: جب ابوبکر نے اپنے لئے خوف و ہراس پھیلا کر بزور شمشیر لوگوں سے اپنے لئے بیعت لی عمر نے قنفذ اور بعض دیگر افراد کو علی اور فاطمہ سلام اللہ علیہما کی گھر روانہ کیا اور خود لکڑیاں اکٹھی کرکے گھر کے دروازے کو آگ لگادی...
اس روایت کے ذیل میں بعض دیگر تعبیرات و عبارات ہیں جن کے ذکر سی قلم عاجز ہے.
* * *
نتيجہ:
یہاں ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ان ہی کی کتابوں سے منقولہ روشن روایات کو پڑھ اور سن کر کیا پھر بھی لکھنا چاہیں گے کہ:
« فاطمہ سلام اللہ علیہا کا افسانہ شہادت...!»؟
انصاف كہاں ہے؟!
یقینا جو شخص روشن اور واضح منابع و مأخذ پر مبنی اس مختصر بحث کا مطالعہ کرے گا بخوبی جان لے گا کہ رسول اللہ (ص﴾ کی رحلت کے بعد کیا آشوب بپا ہوا تھا اور خلافت و اقتدار کے حصول کے لئے لوگوں نے کیا کیا کارنامے سرانجام دیئے اور یہ تعصب سے دور آزاداندیش انسانوں پر اتمام حجت الہیہ ہے، کیوں کہ ہم نے یہاں اپنی جانب سے کچھ بھی (بعنوان تبصرہ و تجزیہ﴾ نہیں لکھا اور جو بھی لکھا ان منابع و مآخذ سے نقل کرکے لکھا جو ان کے نزدیک قابل قبول ہیں.
----------
1. فتح البارى فی شرح صحيح بخارى: 7/84 نيز بخارى نے یہ روایت باب علامات النبوة ، جلد 6، ص 491 میں، اور باب مغازى جلد 8، ص 110 کے آخر میں بھی درج کی ہے.
2. مستدرك الحاكم: 3/154; مجمع الزوائد: 9/203 یاد رہے کہ حاكم نیسابوری مستدرك الصحیحین میں ایسی حدیثیں نقل کرتے ہیں جو بخاری اور مسلم کے قواعد کے مطابق صحیح ہوں.
3. مستدرك حاكم: 3/156.
4. سورة النور کی آیت 35 میں ارشاد ہے کہ : اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونِةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُّورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ
خداوند متعال آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور نور خداوندی کی مثال اس چراغدان کی مثال ہے جس میں روشنی بخشنے والا چراغ ہو اور وہ چراغ ایک حباب کے اندر قرار پایا ہو ایک روشن اور شفاف حباب چمکتے ہوئے روشن ستارے کی مانند، یہ چراغ اس روغن سے روشن ہوتا ہے جو زیتون کے مبارک درخت سے حاصل ہوا ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ ہے غربی (یہ روغن اتنا خالص اور صاف ہے کہ﴾ کہ قریب ہے کہ آگ لگے بغیر شعلہ ور ہوجائے ایک نور ہے دوسرے نور کی بلندی کے اوپر اور خدا جسے چاہے نور کی جانب ہدایت دیتا ہے اور خدا انساوں کے لئے مثالیں لاتا ہے اور خداوند ہر چیز پر عالم و دانا ہے.
اب سوال یہ ہے کہ یہ نور ہے کہاں؟ چنانچہ خداوند متعال اسی سورت کی آیت 36 میں ارشاد فرماتا ہے:
ِفي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ
نورخدا ان گھروں میں ہے کہ خداوند متعال نے رخصت و اجازت دی ہے کہ ان کی قدر و منزلت بلند و رفیع ہو اور ان میں خدا کے کا نام لیا جائے اور اس کے مکین شب و روز خداوند قدوس کی تسبیح کرتے ہیں.
آیت 37 میں ان گھروں کے مکینوں کا تعارف کراتے ہوئے اللہ جل و علي ارشاد فرماتا ہے:
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاء الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ
(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گی.
5. در المنثور: 6/606.
6. المصنف ابن ابى شيبه: 8/572، كتاب المغازى.
7. انساب الأشراف: 1/586 مطبوعہ دار المعارف، قاہره.
8. الاعلام زركلى: 4/137.
9. الامامة و السياسة: 12، مطبوعہ مكتبة تجارية كبرى، مصر.
10. الامامة و السياسة، ص 13.
11. معجم المطبوعات العربية: 1/212.
12. تاريخ طبرى: 2/443، مطبوعہ بيروت.
13. عقد الفريد: 4/93، مطبوعہ مكتبة ہلال.
14. الأموال: پاورقى 4، مطبوعہ نشر كليات ازهرية، الأموال، 144، مطبوعہ بيروت، عقد الفريد ابن عبد ربه : 4/93.
15. ميزان الاعتدال: 2/195.
16. معجم كبير طبرانى: 1/62، حديث 34، تحقيق حمدي عبدالمجيد سلفي.
17. عقد الفريد: 4/93، مطبوعہ مكتبة الهلال.
18. الوافي بالوفيات: 6/17، شمارہ 2444; ملل و نحل الشهرستانى: 1/57، مطبوعہ دار المعرفة، بيروت. اور نظام کے حالات زندگی کے لئے کتاب «بحوث في الملل و النحل»: 3/248-255 کو رجوع کیا جائے.
19. شرح نہج البلاغہ: 2/46 و 47، مطبوعہ مصر.
20. مروج الذہب: 2/301، مطبوعہ دار اندلس، بيروت.
21. ميزان الاعتدال: 3/459.
22. عبدالفتاح عبدالمقصود، علي بن ابى طالب: 4/276-277.
23. كتاب الامامة و الخلافة، ص 160 و 161، تأليف مقاتل بن عطيّة جس پر قاہرہ کے جامعہ عین الشمس کے استاد داكتر حامد داؤد نے مقدمہ لکھا ہے، مطبوعہ بيروت، مؤسّسة البلاغ.