اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

شیر خدا اور شیر رسول جناب حمزہ علیہ السلام

شیر خدا اور شیر رسول جناب حمزہ علیہ السلام

۱۵ شوال سن ۳ ہجری قمری یوم شہادت حضرت حمزہ بن عبد المطلب ہے وہ حمزہ جن کے بارے میں رسول اسلام (ص) نے فرمایا تھا: مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے کہ سات آسمانوں پر لکھا ہوا ہے کہ حمزہ اللہ اور اس کے رسول کے شیر ہیں( انه اسد الله و اسد رسوله)۔

اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی ۔ابنا۔ جناب حمزہ بن عبد المطلب(ع) پیغمبر اسلام (ص) کے چچا تھے آپ عرب کے شجاع ترین شخص اور صدر اسلام کے بہادر اور رشید مرد تھے آپ نے اپنے بھتیجے کے شانہ بشانہ اسلام کی نصرت کی اور سخت ترین مراحل میں پیغمبر اکرم (ص) اور دین اسلام کا دفاع کیا۔ قریش کے سردار اور عرب کے بڑے بڑے سورما آپ کی شجاعت اور ابہت کے سامنے خوف کھاتے تھے۔

آپ نے اپنی پوری طاقت و توانائی کے ساتھ مکہ کے نازک ترین ماحول میں پیغمبر اکرم (ص) کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا۔ ایک مرتبہ جب ابوجہل نے شان رسالت میں گستاخی کی تو آپ ابو جہل سے پیغمبر اسلام(ص) کا انتقام لینے کی غرض سے اس کا سر پھوڑ دیا تھا جبکہ کوئی اس کے سامنے آنے کی جرئت نہ کر سکا۔

جناب حمزہ جنگ بدر میں قریش کے سب سے بڑے پہلوان '' شیبہ‘‘ کے مقابلہ کے لیے گئے اور اسے زمین بھوس کر دیا اور اس کے بعد کئی ساروں کو واصل جہنم اور زخمی کیا۔
جناب حمزہ کا خاندان

جناب حمزہ بن عبد المطلب بن ہاشم کی والدہ سلمی عمرو بن زید بن لبید کی بیٹی تھیں۔ آپ کے بھائیوں میں سے عبد اللہ، ابو طالب، ابولہب، وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ آپ کی بہنیں بھی عاتکہ، امیمہ، صفیہ، اور برّہ تھیں۔
پیغمبر کے رضاعی بھائی

ابو لہب کی کنیز ثوبیہ جس نے جناب حمزہ کو دودھ پلایا تھا اس نے کچھ دن رسول خدا (ص) کو بھی دودھ پلایا۔( امتاع الاسماع، ص6) اس وجہ سے جناب حمزہ(ع)، پیغمبر اسلام(ص) کے رضاعی بھائی بھی ہیں۔

دوسری طرف سے جناب حمزہ نے قبیلہ بنی سعد کی رہنے والی سعدیہ نامی خاتون کا دودھ بھی پیا تھا اور بعد میں وہ خاتون بھی رسول خدا(ص) کی دایہ بھی رہی ہیں یعنی رسول خدا(ص) کو بھی انہوں نے دودھ پلایا۔ لہذا جناب حمزہ دو اعتبار سے رسول خدا(ص) کے رضاعی بھائی ہوئے، ثوبیہ کی طرف سے بھی اور سعدیہ کی طرف سے بھی (سدالغابة، ج1، ص15)
پیغمبر کے لیے منگنی

جناب خدیجہ جو اس وقت کی سب سے بڑی تاجرہ تھی انہوں نے رسول خدا (ص) کو اپنے غلام میسرہ کے ساتھ تجارت کے لیے شام کی طرف بھیجا۔ میسرہ نے اس سفر میں رسول خدا (ص) سے کچھ کرامات کو مشاہدہ کیا جو اس نے واپس آ کر جناب خدیجہ کے لیے بیان کیا۔

جناب خدیجہ نے ایک شخص کو رسول خدا (ص) کی خدمت میں بھیجا اور آپ سے شادی کے لیے اپنی تمنا کا اظہار کیا۔ رسول خدا(ص) نے اپنے چچا سے مشورہ کیا۔ اس کے بعد جناب حمزہ، خویلد بن اسد بن عبد العزی کے پاس رشتہ کے لیے گئے اور رسول اسلام (ص) کے لیے جناب خدیجہ کی منگنی کی۔( سيرة النبي، ج 1، 205)
جناب حمزہ اور بیٹے کی کفالت

ایک سال قریش شدید قحط اور خشکسالی میں گرفتار ہوئے۔ جناب ابوطالب کا اہل و عیال کافی زیادہ تھا۔ اس وجہ سے رسول خدا(ص) نے اپنے چچا عباس جو اس زمانے میں بنی ہاشم میں سب سے زیادہ دولتمند تھے سے کہا: آئیے آپ کے بھائی ابوطالب کے پاس چلتے ہیں اور ان کی مدد کے لیے ان کی اولاد میں سے ایک کو کفالت کے لیے میں اپنے پاس لے جاتا ہوں اور ایک کو آپ لے جائیں۔

جناب عباس نے قبول کر لیا۔ جناب حمزہ کو خبر ملی تو آپ بھی اس کام کے لیے ان کے ساتھ ہو لئے۔ حضرت ابو طالب نے کہا: عقیل کو میرے پاس چھوڑ دو باقی والوں میں سے انتخاب کر لو۔ رسول خدا(ص) نے علی علیہ السلام کا انتخاب کر لیا۔ جناب عباس نے طالب، اور جناب حمزہ نے جعفر کا انتخاب کیا۔( سيرة النبي، ج 1، ۲۰۸)
جناب حمزہ کا اسلام لانا

پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت کے بعد جناب حمزہ بھی خدا کی وحدانیت اور پیغمبر(ص) کی رسالت پر ایمان لائے اور اپنے بھتیجے کے دین کو قبول کیا۔ جناب حمزہ کے اسلام لانے کے بعد قریش کی پیشنہادیں یکے بعد دیگرے شروع ہو گئیں۔ اس لیے کہ انہوں نے دیکھا کہ سب سے زیادہ شجاع شخص پیغمبر پر ایمان لے آیا ہے لہذا انہیں جناب حمزہ کی حمایت کی امید نہیں رہ گئی تھی۔ لیکن پیغمبر اکرم(ص) نے قریش کی کوئی فرمائش قبول نہیں کی۔

اس کے بعد ابوجہل نے قریش کو پیغمبر اسلام (ص) کے قتل پر اکسانہ شروع کر دیا۔

ایک دن ابو جھل نے رسول خدا (ص)کو صفا کے مقام پر دیکھا تو انہیں گالیاں دیں۔ پیغمبر(ص) نے اس کے بکواس پر کوئی توجہ نہیں کی۔ عبد اللہ بن جدعان کی کنیز اس ماجرا کو دیکھ رہی تھی اس نے فورا اس بات کی خبر جناب حمزہ کو دی۔

جناب حمزہ کو بہت برا لگا انہوں نے ابو جہل سے انتقام کا ارادہ کر لیا لہذا فورا اٹھے اور ابو جہل کی تلاش میں نکلے، دیکھا کہ ابوجہل قریش کے ایک گروہ کے درمیان بیٹھا ہوا ہے۔ جناب حمزہ بغیر اس کے کہ کسی سے کوئی بات کریں سیدھے ابوجھل کی طرف بڑھے اور اپنی کمان کو اس کے سر پر دے مارا۔

ابو جھل کا سر پھٹ گیا۔ اس کے بعد جناب حمزہ نے کہا: تو پیغمبر کو گالیاں دیتا ہے؟ میں ان پر ایمان لایا ہوں جس راستے پر وہ چلیں گے اس پر میں چلوں گا۔ اگر تیرے اندر جرئت ہے تو تو میرے ساتھ مقابلہ کر۔ ابو جہل نے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا: میں نے محمد کے حق میں برا کیا۔ حمزہ کو حق ہے کہ ناراض ہو۔ (فرازهايي از تاريخ پيامبر اسلام، ص 114)

اسلام کی دن دگنی رات چگنی ترقی سے قریش کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا گیا اور پیغمبر(ص) کو اذیت و آذار دینے کا سلسلہ مزید بڑھتا گیا۔ حتی کہ آپ (ص) کے چچا ابو لہب اور ان کی بیوی بھی آپ(ص) کو اذیت و آزار دینے سے باز نہیں آتے تھے خاص طور پر اس وجہ سے کہ وہ پیغمبر اکرم(ص) کے پڑوسی تھے اپنے گھر کا سارا کوڑا کرکٹ رسول خدا (ص) کے اوپر ڈالتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے بھیڑ کی اوجھڑی ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ البتہ جناب حمزہ نے ان سے بھی انتقام لے لیا۔
جناب حمزہ اسلام کی ابتدائی جنگوں میں

۱۲ ربیع الاول کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی، جناب حمزہ جس طرح سے مکہ میں رسول اسلام (ص) کے لیے ڈھال کے مانند تھے مدینہ میں بھی آپ نے رسول اسلام(ص) کی بھر پور حمایت کی۔ ہجرت کے دوسرے سال ۱۷ رمضان کو جب جنگ بدر وجود میں آئی تو جناب حمزہ نے نہایت بہادری کے ساتھ جنگ بدر میں شرکت کی اور دشمن کا مقابلہ کیا جنگ بدر میں آپ نے قریش کے پہلوان عتبہ کے مد مقابل جنگ کی اور اسے زمین بھوس کر دیا۔

جنگ بدر میں شکست خوردہ مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے بدلہ چکانے کے لیے جنگ احد بپا کی۔ جنگ احد میں ہندہ جگر خوارہ نے پہلے سے اپنے حبشی غلام کو جناب حمزہ کو قتل کرنے کے لیے تیار کر رکھا تھا تاکہ جنگ بدر میں جناب حمزہ کے ہاتھوں قتل ہوئے اپنے باپ عتبہ کا بدلہ لے۔ ھندہ کا حبشی غلام جنگ کے دوران مسلسل جناب حمزہ(ع) کی تاک میں رہا اور فرصت پاتے ہی اس نے جناب حمزہ(ع) کے سینے میں نیزہ کا وار کر دیا۔
جناب حمزہ کی شہادت

جیسا کہ اشارہ کیا جنگ احد میں ابو سفیان کی بیوی ھندہ نے اپنے حبشی غلام کو یہ لالچ دی تھی کہ اگر وہ جناب حمزہ کو شہید کر دے تو وہ اپنے زیورات اسے دے گی اور اسے آزاد کر دے گی۔ ہندہ کے غلام نے جنگ احد میں وہی کیا اور جناب حمزہ کو نیزہ مار کر شہید کر دیا اس کے بعد ہندہ نے جناب حمزہ کے کان و ناک کاٹ کر ان کا ہار بنا کر اپنے گلے میں ڈالا اور جناب حمزہ کا جگر نکال کر چبا دیا اسی وجہ سے اسے ہندہ جگر خوار کہا جاتا ہے۔
رسول خدا (ص) کو جناب حمزہ(ع) کی شہادت کا صدمہ

جب پیغمبر اکرم (ص) کو جناب حمزہ کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کو بھیجا تاکہ ان کے بارے میں خبر لائیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے جب جناب حمزہ کی لاش کو اس کیفیت میں دیکھا تو رسول خدا (ص) کے پاس واپس جانے کی ہمت نہ کر پائے۔

جب حضرت علی (ع) رسول اسلام(ص) کے پاس خبر لے کر واپس نہیں گئے تو رسول اسلام(ص) خود جناب حمزہ (ع) کی لاش پر تشریف لائے۔ جب آپ نے جناب حمزہ(ع) کو اس رقت بار حالت میں دیکھا تو فرمایا: مجھ پر ہرگز آپ سے زیادہ کسی کی مصیبت میں گراں نہیں گزرے گی، اس موقع سے زیادہ کوئی موقع میرے لیے سخت نہیں ہوگا۔ :"لن اصابَ بِمِثْلکَ ابَداً، ما وَقَفتُ مَوقِفاً قَطٌّ اَعنيَ...".[ تاريخ پيامبر اسلام، دکترآيتي، ص323)

اس کے بعد فرمایا: اگر خدا مجھے طاقت دے تو میں عمو حمزہ کے بدلے میں قریش کے ستر افراد کو قتل کر دوں اور ان کے بدن کے اعضاء کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں۔ اس ہنگام حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور یہ آیت تلاوت کیا: : وَ إِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصّابِرينَ[نحل/ 126) اگر آپ ان کو سزا دینا چاہتے ہیں تو اپنی سزا میں اعتدال سے کام لیں اور اگر صبر سے کام لیں گے تو صبر کرنے والوں کے لیے یہ بہتر ہے‘‘۔

رسول خدا(ص) نے پیغام الہی سننے کے بعد فرمایا: پس میں صبر کروں گا اور ان کا انتقام خدا پر چھوڑ دوں گا۔ اس کے بعد آپ نے اپنے شانوں سے برد یمانی اتار کر جناب حمزہ کے اوپر ڈال دی اور فرمایا: اگر عبد المطلب کی مستورات ناراحت نہ ہوتی تو میں انہیں اسی حال میں چھوڑ دیتا تاکہ صحرا کے درندے اور ہوا کے پرندے ان کے گوشت کو کھا جاتے اور قیامت کے دن حمزہ ان کے پیٹ سے محشور ہوتے ۔ اس لیے کہ مصیبت جتنی زیادہ ہو گی اتنا زیادہ اس کا ثواب ہو گا۔( کليات منتهي الامال، ص77)

پیغمبر اکرم (ص) تھوڑی دیر تک جناب حمزہ کی لاش کے پاس کھڑے رہے اس کے بعد فرمایا: جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ سات آسمانوں پر لکھا ہے کہ حمزہ بن عبد المطلب اللہ کے شیر اور اس کے رسول کے شیر ہیں( اسد الله و اسد رسوله)‘‘۔ (تاريخ پيامبر اسلام، دکتر آيتي، ص323)

رسول خدا(ص) سے روایت ہوئی ہے: جو شخص میری زیارت کرے اور میرے چچا حمزہ کی زیارت نہ کرے اس نے میرے حق میں جفا کی ہے‘‘۔ (کليات مفاتيح الجنان، زيارت نامه حضرت حمزه)۔

جب جنگ احد تمام ہو گئی تو مسلمانوں نے اپنے شہیدوں کو دفنانا شروع کیا۔ رسول خدا(ص) نے جناب حمزہ اور دیگر شہدا کو بغیر غسل کے دفنانے کا حکم دیا۔ اور فرمایا: انہیں اسی طرح خون میں لت پت دفنا دو میں ان پر گواہ ہوں‘‘۔

رسول خدا(ص) نے پہلے جناب حمزہ کے جنازے پر نماز جنازہ ادا کی اس کے بعد باقی شہدا کے جنازے بھی جناب حمزہ کے جنازہ کے پاس لا کر رکھے گئے رسول خدا(ص) نے ہر شہید پر نماز کے ساتھ جناب حمزہ پر بھی نماز پڑھی۔ چنانچہ ستر مرتبہ جناب حمزہ پر نماز جنازہ ادا کی گئی۔ (طبقات محمد بن سعد کاتب واقدي.)

رسول خدا(ص) کے حکم کے مطابق جناب حمزہ کو عبد اللہ بن جحش کی لاش کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفنا دیا۔( کليات منتهي الامال ، ص 77.)

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اھداف عزاداری امام حسین علیه السلام
قمر بنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام)
قوم لوط (ع) كا اخلاق
عید مسلمان کی خوشی مگر شیطان کے غم کا دن ہے
علامہ اقبال کا حضرت فاطمة الزہراء (س) کی بارگاہ ...
جرمنی کے ایک شخص نے شیراز میں اسلام قبول کر لیا
يہوديت و نصرانيت ميں حکم حجاب
عاشورائے حسینی کا فاتح کون؟
تقویٰ اور رزق کا تعلق
مومن کی بیداری اور ہوشیاری

 
user comment