علی علیہ السلام کے گھر آنے کے بعد کبھی نہ کسی چیز کا مطالبہ کیا اور نہ ہی کسی چیز کی خواہش ظاہر کی بلکہ سخت ترین ضرورت کے وقت بھی جب گھر میں کچھ نہ تھا تب بھی آپ نے اپنے شوہر سے نہ کہا کہ علی ع گھر میں کچھ نہیں ہے کچھ انتظام کردیں۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔
بقلم سید نجیب الحسن زیدی
بچپن سے علماء وذاکرین سے یہ حدیث سنی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بیٹی کاحد درجہ احترام کرتے [1]آپ نے اپنی بیٹی کے لئے فرمایا فاطمہ میرا پارہ جگر ہے اسکو اذیت دینے والا میری اذیت کا سبب ہے [2] اسکی مرضی خدا کی مرضی اور اس کے غضب سے خدا غضبناک ہوتا ہے[3]، تھوڑا فہم و شعور آیا تو ذہن سوچنے پر مجبور ہو گیا ایسے کیوں کر ممکن ہے کہ کوئی ذات محور رضائے پروردگار ہو اسکی رضا و ناراضگی پر خدا کی رضا و ناراضگی موقوف خدا کے نزدیک اتنا بڑا مقام کسی کو یوںہی تو حاصل نہیں ہو سکتا کیا وجہ ہے کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات محور رضائے الہی قرار پائی؟ اسی سوال کی جستجو نے کسی زنجیر کے حلقوں کی صورت میرے سامنے ایسے شواہد کے انبار لگا دئے جن پر غور میرے سوال کے جواب اور میری تشفی و تسلی کا سبب بنا ممکن ہے کسی اور زاویے سے آپکے بھی کسی اور سوال کا جواب مل جائے بہت گا اس لئے اپنی جستجو کا حاصل آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں بس گزارش ہے کہ آخر تک میرے ساتھ رہیں ۔۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک دن ایک کنیز کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے کنیز کا ہاتھ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا: بیٹی یہ کنیز آج سے تمہاری خدمت کرے گی یہ نماز کی پابند ہے تمہارے لئے بہتر ہوگی اس کے بعد کنیز کے حقوق کے سلسلہ سے کچھ نصیحتیں فرمائیں بی بی نے اپنے بابا کو دیکھا اور کہا بابا آج سے گھر کے کاموں کو تقسیم کر لیا ایک دن کا کام آپکی بیٹی کرے گی اور ایک دن کا کام یہ کنیز [4]پیغمبر ص کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی ’’اللہ (ہی) بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں رکھے‘‘[5]
فضہ گھر کی کنیز تھی بی بی کی معرفت بھی تھی شان و منزلت اہلبیت ع سے بھی واقف تھی لیکن بی بی نے گھر کا کام بانٹا ہوا تھا ایک دن فضہ کام کرتی ایک دن بی بی دو عالم سلمان فارسی کہتے ہیں ایک دن میں نے دیکھا کہ بی بی دوعالم بچوں کو سنبھالے چکی پیس رہی ہیں جبکہ ہاتھ زخمی ہے اور اس سے خون جاری ہے میں نے کہا بی بی آپکے پاس فضہ ہیں پھر آپ ان سے کام کیوں نہیں لیتیں جواب دیا فضہ کی باری کل تھی جو گزر گئی آج میری باری ہے [6]
عبادت کے لئے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا اہتمام یہ تھا کہ عبادت کی جگہ معین تھی مصلی معین تھا پوری تیاری و انہماک کے ساتھ عبادت کرتیں مستحبات پر خاص توجہ ہوتی اپنی زندگی کے آخری لمحات میں فرمایا: اسماء مجھے وہ عطر لا دو جو میں ہمیشہ لگاتی ہوں اور وہ لباس لا دو جس میں نماز پڑھتی ہوں اور میرے سرہانے بیٹھ جاو اگر مجھ پر غنودگی طاری ہو تو مجھے اٹھا دینا اور اگر تمہارے اٹھانے سے نہ اٹھ سکوں تو علی ع کو خبر کر دینا [7]
عبادت کے سلسلہ سے خاص اہتمام کے باوجود اپنے بابا کا اتنا خیال رہتا کہ ایک دن نماز مستحبی میں مشغول تھیں جیسے ہی بابا کی آواز سنی نماز کو چھوڑ دیا دوڑی ہوئی بابا کے پاس آئیں سلام کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب ِ سلام دیا اور سر پر ہاتھ پھیرا اور یوں اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر اپنی بیٹی کے لئے دعاء کی بارالھا اس بچی پر اپنی رحمت و غفران نازل فرما [8]
ایک دن جناب سلمان فارسی سے حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا سلمان: یہ اعرابی ابھی نیا مسلمان ہوا ہے بھوکا ہے ،اسکے لئے کھانے کا انتظام کرو، جناب سلمان فارسی نے سیدھا در علی ع کا رخ کیا شاید جانتے تھے کہ کہیں ملے نہ ملے لیکن در علی ع سے خالی ہاتھ واپس نہیں پلٹوں گا ،دروازہ پر پہنچے دق الباب کیا اپنا مدعا بیان کیا علی ع گھر پر نہیں تھے چنانچہ فاطمہ زہرا س نے آنے کا سبب دریافت کیا سلمان نے جواب میں بتایا : آپکے بابا نے کسی اعرابی کے کھانے کا انتظام کرنے کو مجھ سے کہا تھا اس لئے حاضر ہوا ہوں۔ جواب ملا سلمان خدا کی قسم گھر میں کچھ بھی نہیں ہے ،حسن و حسین کو میں نے ابھی ہی بڑی مشکل سے بھوکا سلایا ہے ،لیکن سلمان گھر میں آئے سبب خیر کے لئے کیونکر رکاوٹ بنوں جبکہ خیر و نیکی خود چل کر میرے گھر آئی ہو ؟ پھر فرمایا: سلمان یہ میرا لباس ہے اسے شمعون{ مدینہ میں رہنے والا ایک یہودی جو بعد میں مسلمان ہو گیا } کے پاس لے جاو اور اسکے بدلے خرما اور جو لے آو ۔سلمان لباس لیکر شمعون کے پاس پہنچے ، ماجرا بیان کیا جب شمعون کو پتہ چلا لباس دختر رسول ص کا ہے اور گھر میں کھانے پینے تک کو کچھ نہیں ہےتو بے ساختہ اس کے منھ سے یہ جملے نکلے:اسے کہتے ہیں زہد یہ تو وہی کیفیت ہے جس کے بارے میں توراۃ میں کہا گیا ہے اسکا مطلب فاطمہ ع جس خدا کو مانتی ہیں وہی برحق ہے اور فورا کہا سلمان ''اشھد ان لا الہ الاللہ وان محمد رسول اللہ ''،یہ کہکر خرما اور جو جناب سلمان کے حوالے کر دیا سلمان خوشی خوشی لیکر آئے جناب فاطمہ ع کو دیا بی بی نے نو مسلم اعرابی کے لئے اپنے ہاتھوں سے جو کو پیسا اسکا آٹا بنایا اور پھر خمیر تیار کر کے روٹیاں تیار کیں اور سلمان کے حوالے کر دیں جناب سلمان نے چلتے چلتے کہابی بی آپ بھی ان میں کچھ روٹیاں اپنے لئے رکھ لیں ،حسنین بھی تو بھوکے ہیں بی بی سلام اللہ علیہا نے جواب دیا : جو چیز ہم راہ خدا میں دے دیتے ہیں اس میں تصرف نہیں کرتے [9]
سلمان ہی سے نقل ہے کسی کام سے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر گیا تو محسوس کیا کہ فاطمہ ع چکی پیس رہی ہیں ساتھ ہی تلاوت قرآن بھی کرتی جا رہی ہیں
اکثر ایسا ہوتا کہ بچے رات کی تاریکی میں آپکو گریہ کرتے پاتے دیکھتے کہ ماں عبادت میں مشغول ہے اکثر ایسا بھی ہوتا کہ رات کا ایک تہائی حصہ گزر جانے کے بعد ماں بچوں کو نیند سے اٹھاتی کہ اب وقت عبادت ہے [10]
امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں : ایک شبِ جمعہ میں نے اپنی مادر گرامی کو تا صبح محراب عبادت میں اپنے معبود سے راز و نیاز کرتے پایا میں طلوع آفتاب تک اپنی مادر گرامی کو کبھی رکوع میں دیکھا تو کبھی سجود میں میں نے دیکھا مادر گرامی نے خدا سے رازو نیاز کے ساتھ سب کے لئے دعاء کر رہی ہیں تو سوال کیا مادر گرامی اپنے لئے کیوں نہیں دعاء کی جواب ملا بیٹے پہلے پڑوسی پھر ہم [11]
ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں اسقدر میری ماں عبادت کرتیں کہ پیروں پر ورم آجاتا [12]
اپنے والد کےساتھ اسقدر مہربان کے حضور ص تعظیم کو کھڑے ہو جاتے جب سورہ نور کی ۶۳ ویں آیہ کریمہ نازل ہوئی[13] تو فاطمہ علیہا السلام کو شرم محسوس ہوئی کہ اس آیت کے نزول کے بعد اپنے بابا کو بابا کہہ کر پکاریں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آواز دے کر اپنی بیٹی کو بلایا اور کہا بیٹا تم نے اپنے بابا کو بابا کہنا کیوں چھوڑ دیا ہے یہ جو آیت نازل ہوئی ہے تمہارے لئے نہیں ہے مجھے پسند ہے کہ تم مجھے بابا کہہ کر پکارو تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں تم بابا کہو کہ تمہارا مجھے اس طرح پکارنا میرے دل کو زندہ کرتا ہے اور خدا کی خوشنودگی کا سبب ہے [14]
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت دلہن کا مخصوص لباس ہدیہ کیا ،ایک دن کوئی سائل آیا جسکے پاس لباس نہیں تھا آپ نے شادی والا لباس سائل کو دے دیا جب پیغمبر ص آپ کے گھر آئے تو دیکھا بیٹی کو دیا ہوا لباس تن پر نہیں اور فاطمہ ع پرانا لباس پہنے ہیں کہا بیٹا تمہارا لباس کہاں گیا جو بابا نے تمہیں لا کر دیا تھا جواب دیا بابا ایک بار ایک سائل آپ کے پاس آیا تھا تو آپ کے پاس ایک ہی لباس تھا آپ نے سائل کو دے دیا اور خود حصیر اوڑھ کر گزارا کیا میں نے چاہا کہ آپ کے عمل کی تاسسی کرتے ہوئے ایسا کچھ کروں کہ آپ سے مشابہہ ہو جاوں بعض نے لکھا کہ بی بی نے کہا بابا میں نے چاہا کہ اس آیت پرعمل کروں جس میں بیان کیا گیا کہ تم اس وقت نیکی تک پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک وہ چیز اللہ کی راہ میں نہ دو جو تمہیں محبوب ہے [15]
شادی کے دوسرے دن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام علی علیہ السلام سے پوچھا علی تم نے فاطمہ ع کو کیسا پایا ؟ جواب دیا : اطاعت الہی میں اپنا بہترین معاون و مدد گار [16]
علی کہتے ہیں : فاطمہ ع جتنے دن میرے گھر رہیں کوئی ایسا لمحہ نہ آیا کہ میری رنج کا سبب بنتا ، کسی کام پر مجھے بی بی نے مجبور نہیں کیا کبھی کسی بات پر مجھے پریشان نہ کیامیری مرضی کے خلاف کبھی قدم نہیں اٹھایا جب بھی فاطمہ ع کو دیکھتا میرے سارے غم ختم ہو جاتے [17]
علی علیہ السلام کے گھر آنے کے بعد کبھی نہ کسی چیز کا مطالبہ کیا اور نہ ہی کسی چیز کی خواہش ظاہر کی بلکہ سخت ترین ضرورت کے وقت بھی جب گھر میں کچھ نہ تھا تب بھی آپ نے اپنے شوہر سے نہ کہا کہ علی ع گھر میں کچھ نہیں ہے کچھ انتظام کردیں بلکہ جب امام علی علیہ السلام نے یہ دیکھا کہ گھر میں کچھ نہیں ہے تو خود ہے سوال کیا بی بی آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ گھر میں کچھ نہیں ہے تو اسکے جواب میں بی بی دو عالم فرمایا: مجھے شرم آتی ہے کہ میں کسی ایسے کام کو کہہ دوں جسے آپ انجام نہ دے سکیں [18]۔
بچوں کو ایسا ماحول فراہم کیا کہ ہر وقت گھر سے تلاوت قرآن و تسبیح کی آوازیں بلند رہتیں اسکے باوجود بچوں سے تاکید کرتیں کہ مسجد میں جاکرسنا کرو کہ نانا نے کیا کہا اور جب بچے واپس پلٹتے تو سوال کرتیں تم نے کیا سنا اپنی ماں کو بتاو ،کبھی اپنے بچوں کو بابا کی طرح بننے کی تلقین یوں کرتیں بیٹا اپنے بابا کی طرح حق کے گردن میں پڑی ریسمان ظلم کو کاٹ دینا کبھی ظالموں کےساتھ نہ رہنا [19]
گھر میں کھانا بہت کم تھا اور رات میں مہمان نے دق الباب کیا بی بی نے علی ع سے فرمایا کھانا تو بس اتنا ہے کہ بچے کھا سکتے ہیں لیکن میں انہیں سلا دیتی ہوں کہ مہمان ہم پر مقدم ہے ، کھانا لگ گیا اور مہمان نے سیر ہو کر کھایا ،رات یوں گزری کہ گھر میں رہنے والا مہمان سیر ہو کر سو رہا تھا باقی گھر والے بھوکے تھے[20] فاطمہ ع کے اس عمل پر آیت نازل ہوئی (یہ مال فیٔ) ان غریب مہاجرین کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں اور اموال سے بے دخل کر دیے گئے جو اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں نیز اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ، یہی لوگ سچے ہیں [21]،
بچے شدید مریض ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عیادت کے لئے تشریف لائے امام علی علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : علی نذر مان لو کہ جب بچے اچھے ہو جائیں گے تو تین دن روزہ رکھو گے پورے گھر نے نذر مان لی بچوں کو شفا ملی گھر میں کچھ نہ تھا علی کہیں سے مختصر سی جو لے کر آئے کہ افطاری ہو سکے جو کو پیسا گیا اور جب اسے خمیر کر کے پکایا گیا تو کل پانچ روٹیاں بن سکیں ایک گھر کی کنیز فضہ کے لئے دو بچوں کی اور ایک ایک علی ع و فاطمہ کی وقت افطار نزدیک آیا دسترخوان پر سادہ پانی اور جو کی روٹیاں ہیں ابھی افطار کرنے کا ارادہ ہی تھا کہ سائل کی آواز آئی : آئے اہلبیت پیغمبر ص مسکین ہوں کچھ کھانامل سکتا ہے ؟
سب نے اپنےاپنے حصے کی روٹیاں دے دیں مسکین خوش ہو کر چلا گیا افطار پانی سے ہو گیا اور دوسرے دن پھر سب روزے سے تھے علی ع نے پھر جو کا انتظام کیا پھر پانچ روٹیاں وقت افطار دسترخوان پر سجی تھیں افطار کرنے سب بیٹھے کے پھر سائل کی آواز یتیم ہوں کچھ کھانے کو نہیں ہے سب نے اپنا اپنا حصہ بشمول کنیز فضہ پھر یتیم کو دے دیا اور پانی سے افطار ہو گیا تیسرے دن پھر یہی ماجرا پھر دسترخوان پر پانچ روٹیاں اور نزدیک افطار کسی سائل کی آواز لیکن اب کی بار نہ تو مسکین نہ ہی یتیم بلکہ کوئی اسیر جو بھوکا تھا سب نے پھر اپنا اپنا حصہ دے دیا اور پانی سے افطار کیا جب صبح ہوئی تو حسن و حسین علیہما السلام کا ہاتھ پکڑ کر علی پیغمبر ص کے پاس آئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بچوں کو دیکھا چہروں کا رنگ زرد اور بھوک کی شدت سے لرز رہے تھے علی ع سے کہافورا گھر چلو گھر آئے دیکھا بی بی دو عالم محراب عباد ت میں مشغول عبادت ہیں جبکہ آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے ہیں پیغمبر یہ حالت دیکھ کر بہت مغموم ہوئے اسی وقت جبرئیل امین نازل ہوئے : ائے میرے حبیب ایسے اہلبیت کے حامل ہونے پر خدا مبارکباد پیش کرتا ہے[22] اور اس کے بعد یہ آیت تلاوت کی [23]
یہ تو چند ایک نمونے تھے تاریخ کے جو میں پڑھ رہا تھا اور میرے سامنے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا سراپا تھا کہیں ، بچوں کو سنھبالے ،کہیں چکی پیستی ، کہیں علی کے غموں کو سنتی کہیں کسی کی مدد کرتی ، کہیں کسی کو کھانا کھلاتی فاطمہ کی صورت جو مجھ سے کہہ رہا تھا کہ میں یوں ہی فاطمہ نہیں ہوں میرے درجہ کی بلند ی و رفعت کے پیچھے ، بھوک ہے پیاس ہے ، عزم پیہم ہے ،سعی مسلسل ہے ، ضبط غم ہے تحمل ہے ، صبر ہے ،مسلسل عبادتوں کی بنا پر پیروں پر ورم ہیں ، انسانیت کا در د ہے ، راہ ولایت میں شکستہ پہلو ہے ، بازوپر نیل کے نشاں ہیں ، ٹولی پسلیاں ہیں مجھے یہ راز سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ ذات حق میں جتنا خود کو فنا کر دوگے اتنا ہی بلندی حاصل کر لوگے ،لیکن کچھ بلندیاں ایسی ہوتی ہیں جن سے ہم آگے بڑھنے کا حوصلہ تو حاصل کر سکتے ہیں خود ان کو چھونا ہمارے بس کی بات نہیں کہ ہم خاکی ہیں اور یہ بلندیاں ان لوگوں کے لئے ہیں جو نورانی تھے لیکن پیکر خاکی میں ہماری رہنمائی کر رہے تھے ، البتہ اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم تھک ہار کر بیٹھ جائیں اور یہ سوچیں کہ ہمارے بس کی بات ہی نہیں اسکے برعکس فارسی کہاوت شاید بہتر طور پر ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ ، آب دریا را اگر نتوان کشید. هم به قدر تشنگی باید چشید.پتہ نہیں آپکو جواب ملا یا نہیں لیکن مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا کہ فاطمہ کیوں فاطمہ ع تھیں ، فاطمہ ع اپنے خلوص ، اپنے ایمان ، راہ حق میں جذبہ قربانی ،راہ ولایت میں اپنا سب کچھ لٹا دینے کی بنیاد پر فاطمہ تھیں ، فاطمہ اس لئے فاطمہ تھیں کہ اپنی نیت و اپنے عمل میں یکتائے روز گار تھیں ایک انتخاب پروردگار تھیں فاطمہ ع اسی لئے فاطمہ ع تھیں کہ انکے نفس نفس پر مرضی معبود کی چھاپ تھی ہاں فاطمہ اسی لئے فاطمہ ع تھیں ۔۔۔
حوالہ جات
[1] عن عائشة ام المومنین قالت و کانت اذا دخلت علی النبی قام الیہا فقبلھا و اجلسھا فی مجلسہ ،صحیح ترمذی ٢ ص ٣١٩؛:ذخائر العقبیٰ ص ۴۰
[2]فاطمۃ بضعۃ منی من اذاھا فقد اذانی و من اذانی فقد اذی اللہ۔
مناقب ابن شهر آشوب،ج 3،ص 332 ؛ بحار الانوار،ج 43،ص 80؛ صحيح مسلم،ج 16،ص 2؛مستدرك حاكم،ج 3،ص 173؛حلية الاولياء،ج 2،ص 40؛
[3] ۔فاطمۃ بضعۃ منی فمن اغبضھا اغبضنی ۔۔۔ ا بن ابى الحديد، شرح نهج البلاغه، ج 4، ص 64- از چاپ 20 جلدى، صحیح بخاری ،جلد ۳ کتاب الفضائل باب مناقب فاطمہ ص ۱۳۴۴
[4]۔ احقاق الحق، جلد ۱۰ ، ص ۲۷۷
[5]اَللہُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ۰ۭسورہ انعام ۱۲۴
[6] ۔ یبابیع المودۃ ، ص ۲۰۰، احقاق الحق، جلد ۱۰ ، ص ۲۷۶۔ دلائل الامامہ ص ۴۸، بحارالانوار ، جلد ۴۳ ص ۷۶
[7]کشف الغمہ ، جلد ۲ ص ۶۲
[8] ۔ بحارالانوار جلد ۴۳، ص ۴۰
[9] ۔ ریاحین الشریعہ ، جلد ۱ ص ۱۳۰
[10] ۔ بحار الانوار جلد ۴ ص ۱۱۵
[11] ۔ علل الشرایع جلد ۱ ص ۱۷۳، کشف الغمہ جلد ۲ ص ۱۹۳، مستدرک الوسائل، جلد ۵ ص ۲۴۴، وسائل الشیعہ ، جلد ۴ ص ۱۵۵
[12]بحارالانوار جلد ۸۵، ص ۲۵۸
[13] ۔ لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا۔ تمہارے درمیان رسول کے پکارنے کو اس طرح نہ سمجھو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو، نور ۶۳
[14] ۔ولقد کنت انظر الیھا فتنکشف عنی الحموم والاحزان ، ایضا جلد ۴۳ ص ۱۳۴ بحار الانوار ، جلد ۴۳، ص ۳۳، مناقب ابن شہر آشوب ، جلد ۳ ص ۳۲۰ ، سفینۃ البحار ، جلد ۲ ص ۳۷۴
[15] ۔لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۰ۥۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ
[16]بحار الانوار جلد ۴۳ ص ۱۱۷
[17] ۔ ایضا ، جلد ۱ ص ۳۶۳
[18] ۔ لاستحی من الہی ان اکلف نفسک ما لا تقدر علیہ ، بحار الانوار جلد ۴۳، ص ۵۹
[19]بانوی بی نشان ص ۷۲
[20]فاطمۃ بھجۃ قلب المصطفی ص ۳۵
[21]۔ لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُہٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۰ۭاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۸ۚ
[22]تفسیر کشاف، ۸ویں آیت کے ذیل میں
[23] ۔وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا
بشکریہ جاثیہ ویب سائٹ