اس مقدس مسجد میں چند محرابیں موجود ہیں ان میں سے ایک پیامبراکرم ۖ کی روز وشب کی عبادت کے لئے مخصوص تھی اور یہ محراب ''محراب تہجد'' کے نام سے مشہور ہے، یہ محراب حضرت زہرا٭ کی جنوبی دیوار اور باب جبرئیل سے ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
اس مسجد اور تمام دوسری مساجد کی ایک مشترکہ صفت ہے اور وہ یہ کہ سب کا قبلہ رُخ ایک ہے، ان کی محرابیں جغرافیائی اعتبار سے ایک قبلہ یعنی (مسجد الحرام) کی سمت بنی ہوئی ہیں۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے شہر مدینہ کے شمال مغرب میں ایک ایسی مسجد بھی پائی جاتی ہے جس میں دو محرابیں ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی مخالف سمت میںبنی ہوئی ہیں یعنی دونوں محرابوں میں تقریباً ١٨٠ درجہ مخالفت پائی جاتی ہے۔
١٨٠ درجہ کا اختلاف؟ جی ہاں تعجب نہ کریں ، لیکن کیا مسجد الحرام کے علاوہ کسی اور سمت میں نماز ادا کی جاسکتی ہے؟ آپ کی سوچ صحیح ہے اب بھی کعبہ کے علاوہ کسی اور سمت میں نماز پڑھنا ہرگز درست نہیں لیکن اس مسجد میں ایک اہم واقع پیش آیا جس کی بنا پر آغاز اسلام سے ہی یہ مسجد ''ذوالقبلتین'' یعنی دو قبلوں والی مسجد کے نام سے مشہور ہے اور آج بھی اسے اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
تمام اسلامی ممالک سے مسلمان جب مکہ اور مدینہ کی زیارت کے لئے آتے ہیں اور آئمہ بقیع اور دوسرے اہم مقامات کی زیارت کرتے ہیں تو اس مسجد کی بھی زیارت کرتے ہیں اور نماز تحیّت ادا کرتے ہیں۔
وہ کون سا واقع تھا؟ اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں ١٥، رجب ٢ ھ کے تاریخی دن میں واپس پلٹنا پڑے گا، پیغمبر اسلام ۖ اپنے کچھ اصحاب کے ہمراہ ایک مسلمان خاتون ''ام بشیر'' کے پاس اس کے بیٹے کی وفات کے سلسلے میں تعزیت کے لئے قبیلہ بنی سلمہ کی طرف جارہے ہیں، یہ قبیلہ مدینہ منورہ کے شمال مغرب میں آباد تھا، امّ بشیر نے رسول اکرم ۖ کے استقبال کے لئے ایک گوسفند ذبح کیا اور ان کے طعام کا انتظام کیا، ظہر کا وقت ہوگیا، پیغمبر اسلام ۖ اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز کی ادائیگی کے لئے کھڑے ہوگئے…
کیا آپ کو معلوم ہے پیامبر اسلام ۖ ١٥ سال تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے ہیں، اور مدینہ کے اطراف کے یہودیوں کے طعنے بھی سنتے رہے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ تمہارا دین کامل نہیں کیونکہ تمہارا اور ہمارا قبلہ ایک ہی ہے ، پیغمبر اسلام ۖ ان طعنوں کو سن کر غمزدہ ہوجاتے لیکن اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں ہیں تاکہ ان طعنوں سے نجات حاصل کرسکے اور اسلام کو جو ابدی دین ہے ان باتوں سے نجات حاصل ہوسکے۔
جی ہاں! آج وہی دن ہے ، انتظار کے لمحات تمام ہوئے ، پیغمبر اسلام ۖ اپنے اصحاب کے ہمراہ ام بشیر کے گھر نماز ظہر میں مشغول ہیں کہ جبرئیل امین قبلہ کی تبدیلی کی خبر لے کر آتے ہیں: ( قد نری تقلب وجھک فی السماء فلنولینک قبلة ترضٰھا فول وجھک شطر المسجد الحرام وحیث ما کنتم فولوا وجوھکم شطرہ و ان الذین اوتوا الکتٰب لیعلمون انہ الحق من ربھم وما اللّٰہ بغافل عما یعملون) ]بقرہ۔ ١٤٤[
ترجمہ: اے رسول! ہم آپ کی توجہ کو آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں تو ہم عنقریب آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑ دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں لہٰذا آپ اپنا رُخ مسجد الحرام کی جہت میں موڑ دیجئے اور جہاں رہیے اسی طرف رُخ کیجئے اہل کتاب خوب جانتے ہیں کہ خدا کی طرف سے یہی برحق ہے اور اللہ ان لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں ہے۔
پیغمبر اکرم ۖ نے فورا ً جنوب کی طرف رُخ کرلیا اصحاب نے بھی ان کی پیروی کی اور آخری رکعت کو نئے قبلے کی سمت رُخ کرکے ادا کیا گیا، اس اہم واقعہ کی خبر مدینہ اور اس کے اطراف میں پھیل گئی اور مسلمان اس واقعہ کے بعد سے نئے قبلے کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے لگے۔
قبیلہ ''بنی سلمہ'' کے افراد نے ام بشیر سے درخواست کی کہ ہم اس عظیم واقعہ کی یاد میں یہاں مسجد کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں اگر وہ چاہیں تو اس مکان کا ہدیہ ان کی خدمت میں تقدیم کردیا جائے، لیکن ام بشیر نے رقم لینے سے انکار کردیا اور اپنے گھر کو مسجد کے لئے ہدیہ کردیا ، یہی وہ مکان ہے جہاں آج بھی مسجد ''ذوالقبلتین'' موجود ہے اور صدیاں گزر جانے کے باوجود دوگنبد اور دو محرابوں والی یہ خوبصورت مسجد مسلمانوں کی زیارت کا مرکز ہے اور لوگوں کو اس عظیم واقعہ کی یاد دلاتی ہے