ایک روایت میں رسول خدا سے منقول ھے:
”اھل جنت میں افضل ترین اور برترین عورتیں چارھیں۔ خویلد کی بیٹی خدیجہ(ع)،محمد کی بیٹی فاطمہ(ع) اور عمران کی بیٹی مریم(ع) اور مزاحم کی بیٹی آسیہ(ع) جو فرعون کی بیوی تھی“۔
قابل توجہ بات یہ ھے کہ فرعون کی بیوی اپنی اس بات سے فرعون کے عظیم قصر کی تحقیر کررھی ھے،اور اسے خدا کے جوار رحمت میں گھر،کے مقابلہ میں کوئی اھمیت نھیں دیتی۔اس گفتگو کے ذریعہ ان لوگوں کے جو اسے یہ نصیحت کرتے تھے کہ ان تمام نمایاں وسائل و امکانات کو جو ملکہٴ مصر ہونے کی وجہ سے تیرے قبضہ و اختیار میں ھیں، موسیٰ علیہ السلام جیسے چرواھے پر ایمان لاکر ھاتھ سے نہ دے۔ جواب دیتی ھے:
اور”نجیٰ من فرعون و عملہ“ کے جملہ کے ساتھ خود فرعون سے اور اس کے مظالم اور جرائم سے بیزاری کا اعلان کرتی ھے۔
اور ”نجیٰ من القوم الظالمین“کے جملہ سے اس آلودہ ماحول سے اپنی علیٰحدگی،اور ان کے جرائم سے اپنی بیگانگی کا اظھار کرتی ھے۔
مسلمہ طور پر فرعون کے دربار سے بڑھ کرز رق برق اور جلال و جبروت موجود نھیں تھا۔اسی طرح فرعون جیسے جابر و ظالم کے شکنجوںسے بڑھ کر فشار اور شکنجے موجود نھیں تھے۔ لیکن نہ تو وہ زرق برق اور نہ ھی وہ فشار اور شکنجے اس مومنہ عورت کے گھٹنے جھکا سکے۔ اس نے رضائے خدا میں اپنا سفر اسی طرح سے جاری رکھا۔یھاں تک کہ اپنی عزیز جان اپنے حقیقی محبوب کی راہ میں فدا کردی۔
قابل توجہ بات یہ ھے کہ وہ یہ استدعا کرتی ھے کہ اے خدا جنت میں اوراپنے جوار میں اس کے لئے ایک گھر بنادے جس کا جنت میں ہونا تو جنبہٴ جسمانی ھے اور خدا کے جوار رحمت میں ہونا جنبہٴ روحانی ھے۔ اس نے ان دونوں کو ایک مختصر سی عبارت میں جمع کردیا ھے۔
جناب موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا حکم
ایک طرف موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کے درمیان باھمی نزاع، اور دوسری طرف فرعون اور اس کے ھم نواؤں کے ساتھ لڑائی جھگڑا کافی حد تک بڑھ گیا اوراس دوران میں بہت سے واقعات رونما ہوچکے،جنھیں قرآن نے اس مقام پر ذکر نھیں کیا بلکہ ایک خاص مقصد کو جسے ھم بعد میں بیان کریں گے پیش نظر رکھ کر ایک نکتہ بیان کیا گیا ھے کہ حالات بہت خراب ہوگئے تو فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلا م کی انقلابی تحریک کو دبانے بلکہ ختم کرنے کے لئے ان کے قتل کی ٹھان لی لیکن ایسا معلوم ہوتا ھے کہ گویا اس کے مشیروں اور درباریوں نے اس کے اس فیصلے کی مخالفت کی ۔چنانچہ قرآن کہتا ھے:
”فرعون نے کھا مجھے چھوڑدوتاکہ میں موسیٰ کو قتل کر ڈالوں اور وہ اپنے پروردگار کو بلائے تاکہ وہ اسے اس سے نجات دے“۔[1]
اس سے یہ بات سمجھنے میں مدد ملتی ھے کہ اس کے اکثر یا کم از کم کچھ مشیر موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے مخالف تھے وہ یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ چونکہ موسیٰ کے کام معجزانہ اور غیر معمولی ھیں لہٰذا ہوسکتا ھے کہ وہ ھمارے لئے بددعا کردے تو اس کا خدا ھم پر عذاب نازل کردے لیکن کبر و غرور کے نشے میں مست فرعون کہنے لگا:میں تواسے ضرور قتل کروں گا جو ہوگا دیکھا جائے گا۔
یہ بات تو معلوم نھیں ھے کہ فرعون کے حاشیہ نشینوں اور مشیروں نے کس بناء پر اسے موسیٰ علیہ السلام کے قتل سے باز رکھا البتہ یھاں پر چند ایک احتمال ضرور ھیں اور ہوسکتا ھے وہ سب کے سب صحیح ہوں ۔
ایک احتمال تو یہ ھے کہ ممکن ھے خدا کی طرف سے عذاب نازل ہوجائے۔
دوسرا احتمال ان کی نظر میں یہ ہوسکتا ھے کہ موسیٰ علیہ السلام کے مارے جانے کے بعد حالات یکسردگر گوں ہوجائیں گے کیونکہ وہ ایک شھید کا مقام پالیں گے اور انھیں ھیروکا درجہ مل جائے گا اس طرح سے ان کا دین بہت سے موٴمن،ھمنوا،طرفدار اور ھمدرد پیدا کرلے گا ۔
خلاصہ کلام انھیں اس بات کا یقین ہوگیاکہ بذات خود موسیٰ ان کے لئے ایک عظیم خطرہ ھیں لیکن اگر ان حالات میں انھیں قتل کردیا جائے تو یہ حادثہ ایک تحریک میں بدل جائے گا جس پر کنٹرول کرنا بھی مشکل ہوجائے گااور اس سے جان چھڑانی مشکل تر ہوجائے گی۔
فرعون کے کچھ درباری ایسے بھی تھے جو قلبی طور پر فرعون سے راضی نھیں تھے۔وہ چاہتے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام زندہ رھیں اورفرعون کی کی تمام تر توجہ انھی کی طرف مبذول رھے، اس طرح سے وہ چار دن آرام کے ساتھ بسر کرلیں اور فرعون کی آنکھوں سے اوجھل رہ کر ناجائز مفاد اٹھاتے رھیں کیونکہ یہ ایک پرانا طریقہٴ کار ھے کہ بادشاہوں کے درباری اس بات کی فکر میں رہتے ھیں کہ ھمیشہ ان کی توجہ دوسرے امور کی طرف مبذول رھے تا کہ وہ آسودہ خاطر ہوکر اپنے ناجائز مفادات کی تکمیل میں لگے رھیں۔اسی لئے تو بعض اوقات وہ بیرونی دشمن کو بھی بھڑکاتے ھیں تاکہ بادشاہ کی فارغ البالی کے شر سے محفوظ رھیں۔
کھیں موسیٰ تمھارا مذھب نہ بدل دے
بھر حال فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کے منصوبے کی توجیہہ کرتے ہوئے اپنے درباریوں کے سامنے اس کی دودلیلیں بیان کیں۔ایک کا تعلق دینی اور روحانی پھلو سے تھا اور دوسری کا دنیاوی اور مادی سے ،وہ کہنے لگا:مجھے اس بات کا خوف ھے کہ وہ تمھارے دین کو تبدیل کردے گا اور تمھارے باپ دادا کے دین کو دگر گوں کردے گا،یا یہ کہ زمین میں فساد اور خرابی برباد کردے گا۔[2]
اگر میں خاموشی اختیار کرلوں تو موسیٰ بہت جلد مصر والوں میں اتر جائے گا اور بت پرستی کا”مقدس دین“جو تمھاری قومیت اور مفادات کا محافظ ھے ختم ہوجائے گااور اس کی جگہ توحید پرستی کا دین لے لے گا جو یقینا تمھارے سوفیصد خلاف ہوگا۔
اگر میں آج خاموشی ہوجاؤں اور کچھ عرصہ بعد موسیٰ سے مقابلہ کرنے کے لئے اقدام کروں تو اس دوران میں وہ اپنے بہت سے دوست اور ھمدرد پیدا کرلے گا جس کی وجہ سے زبردست لڑائی چھڑجائے گی جو ملکی سطح پر خونریزی، گڑ بڑاور بے چینی کا سبب بن جائے گی اسی لئے مصلحت اسی میں ھے کہ جتنا جلدی ہوسکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔
اب دیکھنا یہ ھے کہ اس گفتگو سے موسی علیہ السلام نے کس رد عمل کا اظھار کیا جو اس مجلس میں تشریف فرمابھی تھے، قرآن کہتا ھے :موسی نے کھا : ”میں اپنے پروردگار اور تمھارے پروردگار کی ھر اس متکبر سے پناہ مانگتا ہوں جو روز حساب پر ایمان نھیں لاتا “۔[3]
موسیٰ علیہ السلام نے یہ باتیں بڑے سکون قلب اور اطمینان خاطر سے کیں جوان کے قوی ایمان اور ذات کردگار پر کامل بھروسے کی دلیل ھیں اور اس طرح سے ثابت کردیا کہ اس کی اس دھمکی سے وہ ذرہ بھر بھی نھیں گھبرائے ۔
حضرت موسی علیہ السلام کی اس گفتگو سے ثابت ہوتا ھے کہ جن لوگوں میں مندرجہ ذیل دوصفات پائی جائیں وہ نھایت ھی خطر ناک افراد ھیں ایک ” تکبر“ اور دوسرے ” قیامت پر ایمان نہ رکھنا“ اور اس قسم کے افراد سے خدا کی پناہ مانگنی چاہئے ۔
آیا کسی کو خدا کی طرف بلانے پر بھی قتل کرتے ھیں ؟
یھاں سے موسی علیہ السلام اور فرعون کی تاریخ کا ایک اور اھم کردار شروع ہوتا ھے اور وہ ھے ”مئومن آل فرعون “ جو فرعون کے رشتہ داروں میں سے تھا حضرت موسی علیہ السلام کی دعوت توحید قبول کرچکا تھا،لیکن اپنے اس ایمان کو ظاھر نھیں کرتا تھا کیونکہ وہ اپنے آپ کو خاص طریقے سے موسی علیہ السلام کی حمایت کا پابند سمجھتا تھا جب اس نے دیکھا کہ فرعون کے غیظ وغضب سے موسی علیہ السلام کی جان کو خطرہ پیدا ہوگیا ھے تو مردانہ وار آگے بڑھا اور اپنی دل نشین اور موثر گفتگو سے قتل کی اس سازش کو ناکام بنادیا ۔
قرآن میں فرمایا گیا ھے :” آل فرعون میں سے ایک شخص نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا کھا:
”کیاکسی شخص کو صرف اس بناء پر قتل کرتے ہوکہ وہ کہتا ھے کہ میرا رب اللہ ھے ؟“[4]
”حالانکہ وہ تمھارے ربّ کی طرف سے معجزات اور واضح دلائل اپنے ساتھ لایا ھے ۔“[5]
آیا تم اس کے عصا اور یدبیضاء جیسے معجزات کا انکار کرسکتے ہو ؟ کیا تم نے اپنی آنکھوں سے اس کے جادو گروں پر غالب آجانے کا مشاہدہ نھیں کیا ؟ یھاں تک کہ جادوگروں نے اس کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دئیے اور ھماری پرواہ تک نہ کی اور نہ ھی ھماری دھمکیوں کو خاطر میں لائے اور موسی کے خدا پر ایمان لاکر اپنا سراس کے آگے جھکادیا، ذرا سچ بتاؤ ایسے شخص کو جادوگر کھا جاسکتا ھے،؟ خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو، جلد بازی سے کام نہ لو اور اپنے اس کام کے انجام کو بھی اچھی طرح سوچ لوتاکہ بعد میں پشیمان نہ ہونا پڑے ۔
ان سب سے قطع نظر یہ دوحال سے خالی نھیں ” اگر وہ جھوٹا ھے تو جھوٹ اس کا خود ھی دامن گیر ہوگا اور اگر سچا ھے تو کم ازکم جس عذاب سے تمھیں ڈرایا گیا ھے وہ کچھ نہ کچھ تو تمھارے پاس پہنچ ھی جائےگا“۔[6]
یعنی اگر وہ جھوٹا ھے جھوٹ کے پاؤں نھیں ہوتے ، آخرکار ایک نہ ایک دن اس کا پول کھل جائے گا اور وہ اپنے جھوٹ کی سزا پالے گا لیکن یہ امکان بھی تو ھے کہ شاید وہ سچا ہو اور خدا کی جانب سے بھیجا گیا ہو تو پھر ایسی صورت میں اس کے کئے ہوئے وعدے کسی نہ کسی صورت میں وقوع پذیر ہوکررھیں گے لہٰذا اس کا قتل کرنا عقل وخرد سے کو سوں دورھے ۔
اس سے یہ نتیجہ نکلا، ”االلہ تعالیٰ مسرف اور جھوٹے کی ہدا یت نھیں فرماتا“۔ [7]
اگر حضرت موسیٰ تجاوزو اسراف ودروغ کو اختیار کرتے تو یقینااللہ تعالیٰ کی ہدایت حاصل نہ کرتے اور اگر تم بھی ایسے ھی ہوگئے تو اس کی ہدایت سے محروم ہوجاؤگے ۔
مومن آل فرعون نے اس پر ھی اکتفاء نھیں کی بلکہ اپنی گفتگو کو جاری رکھا، دوستی اور خیر خواھی کے انداز میں ان سے یوں گویا ہوا : اے میری قوم ! آج مصر کی طویل وعریض سرزمین پر تمھاری حکومت ھے اور تم ھر لحاظ سے غالب اور کامیاب ہو، اس قدر بے انداز نعمتوں کا کفران نہ کرو، اگر خدائی عذاب ھم تک پہنچ گیا تو پھر ھماری کون مدد کرے گا “۔[8]
ظاھر اً اس کی یہ باتیں ” فرعون کے ساتھیوں “ کے لئے غیر موثر ثابت نھیں ہوئیں انھیں نرم بھی بنا دیا اور ان کے غصے کو بھی ٹھنڈا کردیا ۔
لیکن یھاں پر فرغون نے خاموشی مناسب نہ سمجھی اس کی بات کاٹتے ہوئے کھا: بات وھی ھے جو میں نے کہہ دی ھے۔”جس چیز کا میں معتقد ہوں اسی کا تمھیں بھی حکم دیتا ہوں میں اس بات کا معتقد ہوں کہ ھر حالت میں موسیٰ کو قتل کردینا چاہئے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نھیں ھے اور میں تو صرف تمھیں صحیح راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہوں“۔ [9]
میں تمھیں خبردار کرتا ہوں
اس دور میں مصر کے لوگ ایک حدتک متمدن اور پڑھے لکھے تھے انہوں نے قوم نوح، عاد اور ثمود جیسی گزشتہ اقوام کے بارے میں موٴرخین کی باتیں بھی سن رکھی تھیں اتفاق سے ان اقوام کے علاقوں کا اس علاقے سے زیادہ فاصلہ بھی نھیں تھا یہ لوگ ان کے دردناک انجام سے بھی کم وبیش واقفیت رکھتے تھے ۔
لہٰذا موٴمن آل فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے منصوبے کی مخالفت کی اس نے دیکھا کہ فرعون کو زبردست اصرار ھے کہ وہ موسی کے قتل سے باز نھیں آئے گا، اس مرد موٴمن نے پھر بھی ھمت نہ ھاری اور نہ ھی ھارنی چاہئے تھی لہٰذا اب کہ اس نے یہ تدبیر سوچی کہ اس سرکش قوم کو گزشتہ اقوام کی تاریخ اور انجام کی طرف متوجہ کرے شاید اس طرح سے یہ لوگ بیدارہوں اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں قرآن کے مطابق اس نے اپنی بات یوں شروع کی اس باایمان شخص نے کھا:” اے میری قوم ، مجھے تمھارے بارے میں گزشتہ اقوام کے عذاب کے دن کی طرح کا خوف ھے ۔“[10]
پھر اس بات کی تشریح کرتے ہوئے کھا :”میں قوم نوح(ع)، عاد، ثمود اور ان کے بعد آنے والوں کی سی بری عادت سے ڈرتا ہوں“۔ [11]
ان قوموں کی عادت شرک،کفر اور طغیان وسرکشی تھی اور ھم دیکھ چکے ھیں کہ ان کا کیا انجام ہوا ؟ کچھ تو تباہ کن طوفانوں کی نذر ہوگئیں، کچھ وحشت ناک جھگڑوں کی وجہ سے برباد ہوئیں، کچھ کو آسمانی بجلی نے جلاکر راکھ کردیا اور کچھ زلزلوں کی بھینٹ چڑھ کر صفحہٴ ہستی سے مٹ گئیں ۔کیا تم یہ نھیں سمجھتے کہ کفراور طغیان پر اصرارکی وجہ سے تم بھی مذکورہ عظیم بلاؤں میں سے کسی ایک کا شکار ہوسکتے ہو؟ لہٰذا مجھے کہنے دو کہ مجھے تمھارے بارے میں بھی اس قسم کے خطرناک مستقبل کا اندیشہ ھے ۔
آیا تمھارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت ھے کہ تمھارے کردار اور افعال ان سے مختلف ھیں ؟ آخران لوگوں کا کیا قصور تھا کہ وہ اس طرح کے بھیانک مستقبل سے دوچار ہوئے کیا اس کے سوا کچھ اور تھا کہ انھوں نے خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر وں کی دعوت کے خلاف قیام کیا، ان کی تکذیب کی بلکہ انھیں قتل کرڈالا۔
لیکن یادرکھو جو مصیبت بھی تم پر نازل ہوگی خود تمھارے کئے کی سزا ہوگی کیونکہ ” خدا اپنے بندوں پر ظلم نھیں کرنا چاہتا۔“ [12] پھر کہتا ھے : اے میری قوم! میں تمھاریے لئے اس دن سے ڈرتا ہوں جس دن لوگ ایک دوسرے کو پکاریں گے لیکن کوئی مدد نھیں کرے گا“۔[13]
ان بیانات کے ذریعے مومن آل فرعون نے جو کچھ کرنا تھا کردکھایا اس نے فرعون کو جناب موسی کے قتل کی تجویز بلکہ فیصلے کے بارے میں ڈانواڈول کردیا یا کم از کم اسے ملتوی کروادیا اسی التواء سے قتل کا خطرہ ٹل گیا اور یہ تھا اس ہوشیار، زیرک اور شجاع مرد خدا کا فریضہ جو اس نے کماحقہ ادا کردیا جیسا کہ بعد کی گفتگوسے معلوم ہوگا کہ اس سے اس کی جان کے بھی خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہوگیا تھا ۔
آخری بات
پانچویں اور آخری مرحلے پر مومن آل فرعون نے تمام حجاب الٹ دیئے اور اس سے زیادہ اپنے ایمان کو نہ چھپاسکا ،وہ جو کچھ کہنا چاہتا تھا کہہ چکا اور فرعون والوںنے بھی ،جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا، اس کے بارے میں بڑا خطرناک فیصلہ کیا ۔ خداوند عالم نے بھی اپنے اس مومن اور مجاہد بندے کو تنھا نھیں چھوڑا جیسا کہ قرآن نے بیان کیاھے : ”خدا نے بھی اسے ان کی ناپاک چالوں اور سازشوں سے بچالیا ”۔[14]
اس کی تعبیر سے واضح ہوتا ھے کہ فرعونیوں نے اس کے بارے میں مختلف سازشیں اور منصوبے تیار کررکھے تھے ۔
لیکن وہ منصوبے کیا تھے ؟ قرآن نے اس کی تفصیل بیان نھیں کی، ظاھر ھے کہ مختلف قسم کی سزائیں اذیتیں اور آخرکار قتل اور سزائے موت ہوسکتی ھے لیکن خداوندعالم کے لطف وکرم نے ان سب کو ناکام بنادیا ۔
چنانچہ بعض تفسیروں میں ھے کہ وہ ایک مناسب موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام تک پہنچ گیا اور اس نے بنی اسرائیل کے ھمرا ہ دریائے نیل کو عبور کیا، نیز یہ بھی کھا گیا ھے کہ جب اس کے قتل کا منصوبہ بن چکا تو اس نے اپنے آپ کو ایک پھاڑ میں چھپالیا اور نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ۔
یہ دونوں روایات آپس میں مختلف نھیں ھیں کیونکہ ممکن ھے کہ پھلے وہ شھر سے مخفی ہوگیا ہو اور پھر بنی اسرائیل سے جا ملاہو ۔
موسیٰ کے خدا کی خبرلاتا ہوں
اگرچہ مومن آل فرعون کی باتوں نے فرعون کے دل پر اس قدر اثر کیا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کے قتل سے تو باز آگیا لیکن پھر بھی غرور کی چوٹی سے نیچے نہ اترا اور اپنی شیطنت سے بھی بازنہ آیا اور نہ ھی حق بات قبول کرنے پر آمادہ ہوا کیونکہ فرعون کے پاس اس بات کی نہ توصلاحیت تھی اور نہ ھی لیاقت لہٰذا اپنے شیطنت آمیز اعمال کو جاری رکھتے ہوئے اس نے ایک نئے کام کی تجویز پیش کی اور وہ ھے آسمانوں پر چڑھنے کے لئے ایک بلندو بالابرج کی تعمیر تاکہ اس پر چڑھ کر موسیٰ کے خدا کی خبر لے آئے ۔
فرعون نے کھا: اے ھامان : میرے لئے ایک بلند عمارت تیار کروتاکہ میں اسباب وذرائع تک پہنچ سکوں ایسے اسباب وذرائع جو مجھے آسمانوں تک لے جاسکیں تاکہ میں موسیٰ کے خدا سے باخبر ہوسکوں ھر چند کہ میں گمان کرتاہوں کہ وہ جھوٹاھے ۔
جی ھاں اس قسم کے برے اعمال فرعون کی نظر میں مزین کردیئے گئے تھے اور انھوں نے اسے راہ حق سے روک دیا تھا ،لیکن فرعون کی سازش اور چالوں کا انجام نقصان اور تباھی کے سوا کچھ نھیں “۔[15]
سب سے پھلی چیز جو یھاں پر نظر آتی ھے وہ یہ ھے کہ آخر اس کام سے فرعون کا مقصد کیا تھا؟ آیاوہ واقعاً اس حدتک احمق تھا کہ گمان کرنے لگا کہ موسی کا خدا آسمان میں ھے ؟ بالفرض اگر آسمان میں ہو بھی تو آسمان سے باتیں کرنے والے پھاڑوں کے ہوتے ہوئے اس عمارت کے بنانے کی کیا ضرورت تھی جو پھاڑوں کی اونچائی کے سامنے بالکل ناچیز تھی؟ اور کیا اس طرح سے وہ آسمان تک پہنچ بھی سکتا تھا؟
یہ بات تو بہت ھی بعید معلوم ہوتی ھے کیونکہ فرعون مغرور اور متکبر ہونے کے باوجود سمجھ دار اور سیاستداں شخص تو ضرورتھا جس کی وجہ سے اس نے ایک عظیم ملت کو اپنی زنجیروں میں جکڑا تھا اور بڑے زور دار طریقے سے اس پر حکومت کرتارھا لہٰذا اس قسم کے افراد کی ھر ھر بات اور ھر ھر حرکت شیطانی حرکات وسکنات کی آئینہ دار ہوتی ھیں لہٰذا سب سے پھلے اس کے اس شیطانی منصوبے کا تجزیہ وتحلیل کرنا چاہئے کہ آخر ایسی عمارت کی تعمیر کا مقصد کیا تھا؟
بظاھر یہ معلوم ہوتا ھے کہ فرعون نے ان چند مقاصد کے پیش نظر ایسا اقدام کیا :
۱۔وہ چاہتا تھا کہ لوگوں کی فکر کو مصروف رکھے موسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور بنی اسرائیل کے قیام کے مسئلہ سے ان کی توجہ ہٹانے کے لئے اس نے یہ منصوبہ تیار کیا، بعض مفسرین کے بقول یہ عمارت ایک نھایت ھی وسیع وعریض زمین میں کھڑی کی گئی جس پر پچاس ہزار مزدور کام کرنے لگے اس تعمیری منصوبے نے دوسرے تمام مسائل کو بھلادیا جوں جوں عمارت بلند ہوتی جاتی تھی توں توں لوگوں کی توجہ اس کی طرف زیادہ مبذول ہوتی تھی ھر جگہ اور ھر محفل میں نئی خبر کے عنوان سے اس کے چرچے تھے اس نے وقتی طور پر جادو گروں پر موسی علیہ السلام کی کامیابی کو جو کہ فرعون اور فرعونیوں کے پیکر پر ایک کاری ضرب تھی لوگوں کے ذہنوں سے فراموش کردیا ۔
۲۔ وہ چاہتا تھا کہ اس طرح سے زحمت کش اور مزوور طبقے کی جزوی مادی اور اقتصادی امداد کرے اور عارضی طور پر ھی سھی بیکار لوگوں کے لئے کام مھیا کرے تاکہ تھوڑاسا اس کے مظالم کو فراموش کردیں اور اس کے خزانے کی لوگوں کو زیادہ سے زیادہ احتیاج محسوس ہو ۔
۳۔پروگرام یہ تھا کہ جب عمارت پایہٴ تکمیل کو پہنچ جائے، تو وہ اس پر چڑھ کر آسمان کی طرف نگاہ کرے اور شاید چلہ کمان میں رکھ کر تیر چلائے اور وہ واپس لوٹ آئے تو لوگوں کو احمق بنانے کے لئے کھے کہ موسی کا خدا جو کچھ بھی تھا آج اس کا خاتمہ ہو گیا ھے اب ھر شخص بالکل مطمئن ہوکر اپنے اپنے کام میں مصروف ہوجائے ۔
وگرنہ فرعون کے لئے تو صاف ظاھر تھا کہ اس کی عمارت جتنی بھی بلند ہو چند سو میڑسے زیادہ تو اونچی نھیں جاسکتی تھی جبکہ آسمان اس سے کئی گنا بلند اور اونچے تھے، پھریہ کہ اگر بلند ترین مقام پر بھی کھڑے ہوکر آسمان کی طرف دیکھا جائے تو اس کا منظر بغیر کسی کمی بیشی کے ویسے ھی نظر آتا ھے جیسے سطح زمین سے ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ھے کہ فرعون نے یہ بات کرکے درحقیقت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے سے ایک قسم کی پسپائی اختیار کی جبکہ اس نے کھا کہ میں موسی کے خدا کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتاہوں” فاطلع الی الہ موسی “ اور ساتھ ھی یہ بھی کہتا ھے کہ” ھر چند کہ میں اسے جھوٹا گمان کرتا ہوں “ اس طرح سے وہ یقین کی منزل سے ہٹ کر شک اور گمان کے مرحلے تک نیچے آجاتاھے ۔
اس مسئلے میں مفسرین کے ایک گروہ نے (مثلاً فخر رازی اور آلوسی نے ) یہ سوال بھی اٹھایا ھے کہ آیا : فرعون نے اپنا مجوزہ بلند مینار تعمیر کرایا تھا یانھیں؟
ان مفسرین کا ذہن اس طرف اس لئے منتقل ہوا کہ مینار کی تعمیر کا کام کسی طرح بھی عاقلانہ نہ تھا کیا اس عہد کے لوگ کبھی بلند پھاڑوں پر نھیں چڑھے تھے ؟ اور انھوں نے آسمان کے منظر کو ویسا ھی نھیں دیکھا تھا جیسا کہ وہ زمین سے نظرآتا ھے ؟کیا انسان کا بنایا ہوا مینار پھاڑسے زیادہ اونچا ہوسکتا ھے ؟ کیا کوئی احمق بھی یہ یقین کرسکتا ھے کہ ایسے مینار پر چڑھ کر آسمان کو چھوا جاسکتا ھے ؟
لیکن وہ مفسرین جنہوں نے یہ اشکا لات پیدا کئے ھیں ان کی توجہ ان نکات کی طرف نھیں گئی کہ اول تو ملک مصر کو ہستانی نھیں دوم یہ کہ انہوں نے اس عہد کے لوگوں کی سادہ لوحی کو فراموش کردیا کہ ان سیدھے سادھے لوگوںکو ایسے ھی مسائل سے غافل کیا جاسکتا تھا یھاں تک کہ خود ھمارے زمانے جسے عصر علم ودانش کھا جاتاھے، لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لئے کیسے کیسے مکرو فریب اور حیلہ سازیاں کی جاتی ھیں ۔
پچاس ہزار معمار برج بناتے ھیں
بھر کیف ۔بعض تواریخ کے بیان کے مطابق، ھامان نے حکم دیا کہ ایسا محل اور برج بنانے کے لئے زمین کا ایک وسیع قطعہ انتخاب کریں اور اس کی تعمیر کے لئے پچاس ہزار معمار اور مزدور روانہ کردے اور اس عمارت کے واسطے مٹیریل فراھم کرنے کے لئے ہزاروں آدمی مقرر کئے گئے اس نے خزانہ کا منہ کھول دیا اور اس مقصد کے لئے کثیر رقم خرچ کی یھاں تک کہ تمام ملک مصر میں اس عظیم برج کی تعمیر کی شھرت ہوگئی ۔
یہ عمارت جس قدر بھی بلند سے بلندتر، ہوتی جاتی تھی لوگ اتنے ھی زیادہ اسے دیکھنے آتے تھے اور منتظر تھے کہ دیکھئے فرعون یہ عمارت بنا کر کیا کرتا ھے ؟
یہ عمارت اتنی بلند ہوگئی کہ اس سے دوردور تک اطراف وجوانب کا میدان نظر آنے لگا بعض موٴرخین نے لکھا ھے کہ معماروں نے اس کی مارپیچ سیڑھیاں ایسی بنائی تھیں کہ آدمی گھوڑے پر سوار ہوکر اس پر چڑھ سکتا تھا ۔
میں نے موسیٰ علیہ السلام کے خدا کو مارا ڈالا
جب وہ عمارت پایہٴ تکمیل کو پہنچ گئی اور اسے مزید بلند کرنے کا کوئی امکان نہ رھا تو ایک روز فرعون پوری شان وشوکت سے وھاں آیا اور بذات خود برج پر چڑھ گیا جب وہ برج کی چوٹی پر پہنچا اور آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اسے آسمان ویسا ھی نظر آیا جیسا کہ وہ زمین سے دیکھا کرتا تھا اس منظر میں ذرا بھی تغیرو تبدیلی نہ تھی ۔
مشہور یہ ھے کہ اس نے مینار پر چڑھ کے کمان میں تیر جوڑا اور آسمان کی طرف پھنکا یا تووہ تیر کسی پرندے کے لگایا پھلے سے کوئی سازش کی گئی تھی کہ تیر خون آلود واپس آیا تب فرعون وھاں سے نیچے اترآیا اور لوگوں سے کھا :جاؤ، مطمئن رہو اور کسی قسم کی فکر نہ کرو میں نے موسی کے خدا کو مارڈالاھے ۔
یہ بات حتمی طور پر کھی جاسکتی ھے کہ سادہ لوحوں اور اندھی تقلید کرنے والوں کے ایک گروہ نے او ران لوگوں نے جن کی آنکھیں اور کان حکومت وقت کے پروپیگنڈے سے بند ہوگئے تھے، فرعون کے اس قول کا یقین کرلیا ہوگا اور ھر جگہ اس خبر کو عام کیا ہوگا اور مصر کی رعایا کو غافل رکھنے کا ایک اور سبب پیدا ہوگا ۔
مفسرین نے یہ بھی لکھا ھے کہ یہ عمارت دیر تک قائم نھیں رھی (اور اسے رہنا بھی نہ چاہئے تھا) تباہ ہوگئی بہت سے لوگ اس کے نیچے دب کے مرگئے اس سلسلے میں اھل قلم نے اور بھی طرح طرح کی داستانیں لکھی ھیں لیکن ان کی صحت کی تحقیق نہ ہوسکی اس لئے انھیں قلم زد کردیا گیا ھے ۔
بیدار کرنے والی سزائیں
ایک کلی قانون تمام پیغمبروں کے لئے یہ تھا کہ جب ان کو لوگوں کی مخالفت کا سامنا ہو اور وہ کسی طرح سے راہ راست پر نہ آئیں تو خدا ان کو بیدار کرنے کے لئے مشکلات ومصائب میں گرفتار کرتا تھا تاکہ وہ اپنے میں نیاز مندی اور محتاجی کا احساس کریں ، اور ان کی فطرت توحید جو آرام وآسائش کی وجہ سے غفلت کے پردوں میں چلی گئی ھے دوبارہ ابھر آئے اوران کو اپنی ضعف وناتوانی کا اندازہ ہو اور اس قادر وتوانا ہستی کی جانب متوجہ ہوں جو ھر نعمت و نقمت کا سر چشمہ ھے ۔
قرآن میں اس مطلب کی طرف اشارہ فرمایا گیا ھے : ھم نے آل فرعون کو قحط، خشک سالی اور ثمرات کی کمی میں مبتلا کیا کہ شاہد متوجہ اور بیدار ہوجائیں[16]
باوجود یکہ قحط سالی نے فرعونیوں کو گھیر لیا تھا لیکن مذکورہ بالابیان میں صرف فرعون کے مخصوصین کا ذکر کیا گیا ھے مقصد یہ ھے کہ اگر یہ بیدار ہوگئے تو سب لوگ بیدار ہوجائیں گے کیونکہ تمام لوگوں کی نبض انھی کے ھاتھوں میں ھے یہ چاھیں تو بقیہ افراد کو گمراہ کریں یا ہدایت کریں ۔
اس نکتہ کو بھی نظر انداز نھیں کرنا چاہئے کہ خشک سالی اھل مصر کے لئے ایک بلائے عظیم شمار ہوتی تھی کیونکہ مصر پورے طور سے ایک زرعی مملکت تھی اس بناء پر اگر زراعت نہ ہوتو اس کا اثر ملک کے تمام افراد پر پڑتا ھے لیکن مسلمہ طور پر فرعون اور اس کے افراد چونکہ ان زمینوں کے مالک اھلی تھے اس لئے فی الحقیقت وہ سب سے زیادہ اس سے متاثر ہوئے تھے ۔
ضمناً یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ خشک سالی کئی سال تک باقی رھی کیونکہ” سنین“ جمع کا صیغہ ھے ۔
لیکن آل فرعون، بجائے اس کے کہ ان الٰھی تنبیہوں سے نصیحت لیتے اور خواب خرگوش سے بیدار ہوتے انہوں نے اس سے سوء استفادہ کیا اور ان حوادث کی من مانی تفسیر کی، جب حالات ان کے منشا کے مطابق ہوتے تھے تو وہ راحت وآرام میں ہوتے تھے اور کہتے کہ یہ حالات ھماری نیکی ولیاقت کی وجہ سے ھیں: ”فی الحقیقت ھم اس کے اھل ولائق ھیں “۔
لیکن جس وقت وہ مشکل ومصیبت میں گرفتار ہوتے تھے تو اس کو فوراً موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے سرباندھ دیتے تھے“ اور کہتے تھے کہ یہ ان کی بد قدمی کی وجہ سے ہوا ھے ۔
لیکن قرآن کریم ان کے جواب میں کہتا ھے : ” ان کی بدبختیوں اور تکلیفوں کا سر چشمہ خدا کی طرف سے ھے خدا نے یہ چاھا ھے کہ اس طرح ان کو ان کے اعمال بد کی وجہ سے سزادے لیکن ان میں سے اکثر اس کو نھیں جانتے “۔[17]
مختلف اور پیھم بلاؤں کا نزول
قرآن میں ان بیدار کنندہ درسوں کا ایک اور مرحلہ بیان کیا گیا ھے جو خدا نے قوم فرعون کو دیئے جب مرحلہ اول یعنی قحط، خشک سالی اور مالی نقصانات نے ان کو بیدار نہ کیا تو دوسرے مرحلہ کی نوبت پہنچی جو پھلے مرحلہ سے شدید تر تھا اس مرتبہ خدا نے ان کو پے درپے ایسی بلاؤںمیں جکڑا جو ان کو اچھی طرح سے کچلنے والی تھیں مگر افسوس ان کی اب بھی آنکھیں نہ کھلیں ۔
پھلے ان بلاؤں کے نزول کے مقدمہ کے طور پر فرمایا گیا ھے : انہوں نے موسی کی دعوت کے مقابلے میں اپنے عناد کو بدستور باقی رکھا اور ”کھا کہ تم ھر چند ھمارے لئے نشانیاں لاؤ اوران کے ذریعے ھم پر اپنا جادو کرو ھم کسی طرح بھی تم پر ایمان نھیں لائیں گے“۔[18]
لفظ”آیت “ شاید انہوں نے ازراہ تمسخر استعمال کیا تھا ، کیونکہ حضرت موسی نے اپنے معجزات کو آیات الٰھی قرار دیا تھا لیکن انہوں نے سحر قرار دیا۔
آیات کا لہجہ اور دیگر قرائن اس بات کے مظھر ھیں کہ فرعون کے پروپیگنڈوں کا محکمہ جو اپنے زمانے کے لحاظ سے ھر طرح کے سازو سامان سے لیس تھا وہ حضرت موسیٰ کے خلاف ھر طرف سے حرکت میں آگیا تھا اس کے نتیجے میں تمام لوگوں کا ایک ھی نعرہ تھا اور وہ یہ کہ اے موسیٰ ! تم تو ایک زبردست جادو گر ہو ، کیونکہ موسیٰ کی بات کو رد کرنے کا ان کے پاس اس سے بہتر کوئی جواب نہ تھا جس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں وہ گھربنانا چاہتے تھے ۔
لیکن چونکہ خدا کسی قوم پر اس وقت تک اپنا آخری عذاب نازل نھیں کرتا جب تک کہ اس پر خوب اچھی طرح سے اتمام حجت نہ کرلے اس لئے بعد والی آیت میں فرمایا گیا ھے کہ ھم نے پھلے طرح طرح کی بلائیں ان پر نازل کیں کہ شاید ان کو ہوش آجائے ۔[19]
”پھلے ھم نے ان پر طوفان بھیجا“
اس کے بعد قرآن میں ارشاد ہوتا ھے:
”اس کے بعد ھم نے ان کی زراعتوں اور درختوں پر ٹڈیوں کو مسلط کردیا۔“
روایات میں وارد ہوا ھے کہ کہ اللہ نے ان پر ٹڈیاں اس کثرت سے بھیجیں کہ انھوں نے درختوں کے شاخ و برگ کا بالکل صفایا کردیا، حتی کہ ان کے بدنوں تک کو وہ اتنا آزار پہنچاتی تھیں کہ وہ تکلیف سے چیختے چلاتے تھے۔
جب بھی ان پر بلا نازل ہوتی تھی تو وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کرتے تھے کہ وہ خدا سے کہہ کر اس بلا کو ہٹوادیں طوفان اور ٹڈیوں کے موقع پر بھی انھوں نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے یھی خواہش کی ، جس کو موسیٰ علیہ السلام نے قبول کرلیا اور یہ دونوں بلائیں برطرف ہوگئیں، لیکن اس کے بعد پھر وہ اپنی ضد پر اتر آئے جس کے نتیجے میں تیسری بلا ”قمّل “ کی ان پر نازل ہوئی۔
”قمّل“ سے کیا مراد ھے؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیان گفتگو ہوئی ھے لیکن ظاھر یہ ھے کہ یہ ایک قسم کی نباتی آفت تھی جو زراعت کو کھاجاتی تھی۔
جب یہ آفت بھی ختم ہوئی اور وہ پھر بھی ایمان نہ لائے،تو اللہ نے مینڈک کی نسل کو اس قدر فروغ دیا کہ مینڈک ایک نئی بلا کی صورت میں ان کی زندگی میں اخل ہوگئے۔
جدھر دیکھتے تھے ھر طرف چھوٹے بڑے مینڈک نظر آتے تھے یھاں تک کہ گھروں کے اندر، کمروں میں، بچھونوں میں، دسترخوان پر کھانے کے برتنوں میں مینڈک ھی مینڈک تھے، جس کی وجہ سے ان کی زندگی حرام ہوگئی تھی، لیکن پھر بھی انھوں نے حق کے سامنے اپنا سرنہ جھکایا اور ایمان نہ لائے۔
اس وقت اللہ نے ان پر خون مسلط کیا۔
بعض مفسرین نے کھا کہ خون سے مراد ”مرض نکسیر“ ھے جو ایک وبا کی صورت میں ان میں پھیل گیا، لیکن بہت سے مفسرین نے لکھا ھے کہ دریائے نیل لہو رنگ ہوگیا اتنا کہ اس کا پانی مصرف کے لائق نہ رھا۔
آخر میں قرآن فرماتا ھے: ” ان معجزوں اور کھلی نشانیوں کو جو موسیٰ کی حقانیت پر دلالت کرتی تھیں،ھم نے ان کو دکھلایا لیکن انھوں نے ان کے مقابلہ میں تکبر سے کام لیا اور حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور وہ ایک مجرم او رگناہگار قوم تھے۔“[20]
بعض روایات میں ھے کہ ان میں سے ھر ایک بلا ایک ایک سال کے لئے آتی تھی یعنی ایک سال طوفان و سیلاب، دوسرے سال ٹڈیوں کے دَل، تیسرے سال نباتاتی آفت، اسی طرح آخر تک، لیکن دیگر روایات میں ھے کہ ایک آفت سے دوسری آفت تک ایک مھینہ سے زیادہ فاصلہ نہ تھا، بھر کیف اس میںشک نھیں کہ ان آفتوں کے درمیان فاصلہ موجود تھا( جیسا کہ قرآن نے لفظ ”مفصلات“ سے تعبیر کیا ھے)تاکہ ان کو تفکر کے لئے کافی موقع مل جائے۔
قابل توجہ بات یہ ھے کہ یہ بلائیں صرف فرعون اور فرعون والوں کے دامن گیر ہوتی تھیں، بنی اسرائیل اس سے محفوظ تھے، بے شک یہ اعجاز ھی تھا ،لیکن اگر نکتہ ذیل پر نظر کی جائے تو ان میں سے بعض کی علمی توجیہہ بھی کی جاسکتی ھے۔
ھمیں معلوم ھے کہ مصر جیسی سرسبز و شاداب اور خوبصورت سلطنت جو دریائے نیل کے کناروں پر آباد تھی اس کے بہترین حصے وہ تھے جو دریاسے قریب تھے وھاں پانی بھی فراوان تھا اور زراعت بھی خوب ہوتی تھی ،تجارتی کشتیاں وغیرہ بھی دستیاب تھیں، یہ خطے فرعون والوں اور قبطیوں کے قبضے میں تھے جھاں انھوں نے اپنے قصر و باغات بنا رکھے تھے اس کے بر خلاف اسرائیلوں کو دور دراز کے خشک اور کم آب علاقے دئے گئے تھے جھاں وہ زندگی کے یہ سخت دن گذارتے تھے کیونکہ ان کی حیثیت غلاموں جیسی تھی۔
بنا بر این یہ ایک طبیعی امر ھے کہ جب سیلاب اور طوفان آیا تو اس کے نتیجے میں وہ آبادیاں زیادہ متاثر ہوئیں جو دریائے نیل کے دونوں کناروں پر آباد تھیں، اسی طرح مینڈھک بھی پانی سے پیدا ہوتے ھیں جو قبطیوں کے گھروں کے آس پاس بڑی مقدار میں موجود تھے، یھی حال خون کا ھے کیونکہ رود نیل کا پانی خون ہو گیا تھا، ٹڈیاں اور زرعی آفتیں بھی باغات، کھیتوں اور سر سبز علاقوں پر حملہ کرتی ھیں، لہٰذا ان عذابوں سے زیادہ تر نقصان قبطیوں ھی کا ہوتا تھا۔
جو کچھ قرآن میں ذکر ہوا ھے اس کا ذکر موجودہ توریت میں بھی ملتا ھے، لیکن کسی حد تک فرق کے ساتھ۔[21]
بار بار کی عہد شکنیاں
قرآن میں فرعونیوں کے اس رد عمل کا ذکر کیا گیا ھے جو انہوں نے پروردگار عالم کی عبرت انگیزاور بیدار کنندہ بلاؤں کے نزول کے بعد ظاھر کیا،ان تما م قرآنی گفتگو سے یہ ظاھر ہوتا ھے کہ جس وقت وہ بلا کے چنگل میں گرفتار ہو جاتے تھے،جیسا کہ عام طور سے تباہ کاروں کا دستور ھے،وقتی طور پر خواب غفلت سے بیدار ہوجاتے تھے اور فریاد وزاری کرنے لگتے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کرتے تھے کہ خدا سے ان کی نجات کے لئے دعا کریں۔ چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے لئے دعا کرتے تھے اور وہ بلا ان کے سروں سے ٹل جاتی تھی،مگر ان کی حالت یہ تھی کہ جونھی وہ بلا سر سے ٹلتی تھی تو وہ تمام چیزوں کو بھول جاتے تھے اور وہ اپنی پھلی نا فرمانی اور سرکشی کی حالت پر پلٹ جاتے تھے۔
جس وقت ان پر بلا مسلط ہوتی تھی تو کہتے تھے:” اے موسیٰ !ھمارے لئے اپنے خدا سے دعا کرو کہ جو عہد اس نے تم سے کیا ھے اسے پورا کرے اور تمھاری دعا ھمارے حق میں قبول کرے،اگر تم یہ بلا ھم سے دور کردو تو ھم یہ وعدہ کرتے ھیں کہ ھم خود بھی تم پر ضرور ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی یقینا تمھارے ھمرا ہ روانہ کردیں گے“۔[22]
اس کے بعد ان کی پیمان شکنی کا ذکر کیا گیا ھے،ارشاد ہوتا ھے:”جس وقت ھم ان پر سے بلاؤں کو تعین شدہ مدت کے بعد ہٹا دیتے تھے تو وہ اپنا وعدہ توڑ ڈالتے تھے[23]
نہ خود ھی ایمان لاتے تھے اور نہ ھی بنی اسرائیل کو اسیری سے آزاد کرتے تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کایک مدت معین کرتے تھے کہ فلا ں وقت یہ بلا بر طرف ہوجائے گی تاکہ ان پر اچھی طرح کھل جائے کہ یہ بلا کوئی اتفاقی حادثہ نہ تھا بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کی وجہ سے تھا۔
موسیٰ علیہ السلام کے پاس سونے کے کنگن کیوں نھیں؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی منطق ایک طرف ان کے مختلف معجزات دوسری طرف مصر کے لوگوں پر نازل ہونیوالی بلائیں جو موسیٰ علیہ السلا م کی دعا کی برکت سے ٹل جاتی تھیں تیسری طرف،ان سب اسباب نے مجموعی طور پر اس ماحول پر گھرے اثرات ڈالے اور فرعون کے بارے میںلوگوں کے افکار کو ڈانواںڈول
کردیا اور انھیں پورے مذھبی اور معاشرتی نظام کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا۔
اس موقع پر فرعون نے دھوکہ دھڑی کے ذریعہ موسیٰ علیہ السلام کا اثر مصری لوگوں کے ذہن سے ختم کرنے کی کوشش کی اور پست اقدار کا سھارا لیا جو اس ماحول پر حکم فرماتھا، انھیں اقدار کے ذریعہ اپنا اور موسیٰ علیہ السلام کا موازنہ شروع کردیا تا کہ اس طرح لوگوں پر اپنی برتری کو پایہٴ ثبوت تک پہنچائے، جیسا کہ قرآن پاک فرماتا ھے:
”اور فرعون نے اپنے لوگوں کو پکار کر کھا:اے میری قوم! آیا مصر کی وسیع و عریض سر زمین پر میری حکومت نھیں ھے اور کیا یہ عظیم دریا میرے حکم سے نھیں بہہ رھے ھیں اور میرے محلوں،کھیتوں اور باغوں سے نھیں گررھے ھیں؟کیا تم دیکھتے نھیں ہو؟“[24]
لیکن موسیٰ علیہ السلام کے پاس کیا ھے،کچھ بھی نھیں ، ایک لاٹھی اور ایک اونی لباس اور بس ،تو کیا اس کی شخصیت بڑی ہوگی یا میری؟ آیا وہ سچ بات کہتا ھے یا میں؟اپنی آنکھیں کھولوں اور بات اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس طرح فرعون نے مصنوعی اقدار کو لوگوں کے سامنے پیش کیا،بالکل ویسے ھی جیسے عصر جاھلیت کے بت پرستوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے مقابلے میں مال و مقام کو صحیح انسانی اقدار سمجھ رکھا تھا۔
لفظ”نادیٰ“(پکار کر کھا )سے معلوم ہوتا ھے کہ فرعون نے اپنی مملکت کے مشاھیر کی ایک عظیم محفل جمائی اور بلند آواز کے ساتھ ان سب کو مخاطب کرتے ہوئے یہ جملے ادا کیے،یا حکم دیا کہ اس کی اس آواز کو ایک سرکاری حکم نامے کے ذریعے پورے ملک میں بیان کیا جائے۔
قرآن آگے چل کر فرماتا ھے کہ فرعون نے کھا:”میں اس شخص سے برتر ہوں جو ایک پست خاندان اور طبقے سے تعلق رکھتا ھے۔اور صاف طور پر بات بھی نھیں کرسکتا“۔[25]
اس طرح سے اس نے اپنے لئے دو بڑے اعزازات(حکومت مصر اور نیل کی مملکت)اور موسیٰ علیہ السلام کے دوکمزور پھلو(فقر اور لکنت زبان) بیان کردیئے۔
حالانکہ اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں لکنت نہ تھی۔کیونکہ خدا نے ان کی دعا کو قبول فرمالیا تھا اور زبان کی لکنت کو دور کردیا تھا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام نے مبعوث ہوتے ھی خداسے یہ دعا مانگی تھی کہ۔ ”خدا وندا میری زبان کی گرھیں کھول دے“۔ [26]اور یقینا ان کی دعا قبول ہوئی اور قرآن بھی اس بات پر گواہ ھے۔ بے پناہ دولت،فاخرہ لباس اور چکاچوند کرتے محلات،مظلوم طبقے پر ظلم و ستم کے ذریعے حاصل ہوتے ھیں۔ ان کا مالک نہ ہونا صرف عیب کی بات ھی نھیں بلکہ باعث صدافتخار شرافت اور عزت کا سبب بھی ھے۔
”مھین“(پست)کی تعبیر سے ممکن ھے اس دور کے اجتماعی طبقات کی طرف اشارہ ہو، کیونکہ اس دور میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کا معاشرہ کے بلند طبقوں میں شمار ہوتا تھا او رمحنت کشوں اور کم آمدنی والے لوگوں کا پست طبقے میں ،یا پھر ممکن ھے موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرف اشارہ ہو کیونکہ ان کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا اور فرعون کی قبطی قوم اپنے آپ کو سردار اور آقا سمجھتی تھی۔ پھر فرعون دو اور بھانوں کا سھارا لیتے ہوئے کہتا ھے:”اسے سونے کے کنگن کیوں نھیں دیئے اور اس کے لئے مددگار کیوں نھیں مقرر کئے تاکہ وہ اس کی تصدیق کریں؟“ اگر خدا نے اسے رسول بنایا ھے تو دوسرے رسول کی طرح طلائی کنگن کیوں نھیں دئے گئے اور اس کے لئے مدد گار کیوں نھیں مقرر کئے گئے۔
کہتے ھیں کہ فرعونی قوم کا عقیدہ تھا کہ روساء اور سر براہوں کو ھمیشہ طلائی کنگنوں اور سونے کے ھاروں سے مزین ہونا چاہئیے اور چونکہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس اس قسم کے زیورات نھیں تھے بلکہ ان زیورات کے بجائے وہ چرواہوں والا موٹا سا اونی کرتا زیب تن کئے ہوئے تھے،لہٰذا ان لوگوں نے اس بات پر تعجب کا اظھار کیا اور یھی حال ان لوگوں کا ہوتا ھے جو انسانی شخصیت کے پرکھنے کا معیار سونا،چاندی اور دوسرے زیورات کو سمجھتے ھیں۔
جناب موسیٰ اورھارون علیھما السلام کے اونی لباس
اس بارے میں ایک نھایت عمدہ بیان آیا ھے ،امام علی بن ابی طالب علیھما السلام فرماتے ھیں:موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی(ھارون) کے ساتھ فرعون کے دربار میں پہنچے دونوں کے بدن پراونی لباس اور ھاتھوں میں عصا تھا اس حالت میں انھوں نے شرط پیش کی کہ اگر فرمان الٰھی کے سامنے جھک جائے تو اس کی حکومت اور ملک باقی اور اقتدار قائم و برقرار رھے گا،لیکن فرعون نے حاضرین سے کھا:تمھیں ان کی باتوں پر تعجب نھیں ہوتا کہ میرے ساتھ شرط لگا رھے ھیں کہ میرے ملک کی بقا اور میری عزت کا دوام ان کی مرضی کے ساتھ وابستہ ھے جبکہ ان کا اپنا حال یہ ھے کہ فقر و تنگدستی ان کی حالت اور صورت سے ٹپک رھی ھے(اگر یہ سچ کہتے ھیں تو)خود انھیں طلائی کنگن کیوں نھیں دیئے گئے۔
دوسرا بھانہ وھی مشہور بھانہ ھے جو بہت سی گمراہ اور سرکش امتیں انبیاء کرام علیھم السلام کے سامنے پیش کیا کرتی تھیں،کبھی تو کہتی تھیں کہ”وہ انسان کیوں ھے اور فرشتہ کیوں نھیں؟اور کبھی کہتی تھی کہ اگر وہ انسان ھے تو پھر کم از کم اس کے ھمراہ کوئی فرشتہ کیوں نھیں آیا؟“
حالانکہ انسانوں کی طرف بھیجے ہوئے رسولوں کوروح انسانی کا حامل ہونا چاہئے تا کہ وہ ان کی ضرورتوں،مشکلوں اور مسائل کو محسوس کرسکیں اور انھیں ان کا جواب دے سکیں اور عملی لحاظ سے ان کے لئے نمونہ اور اسوہ قرار پاسکیں۔
چوتھا مرحلہ انقلاب کی تیاری
حضرت موسیٰ علیہ السلام میدان مقابلہ میں فرعون پر غالب آگئے اور سرخرو اور سرفراز ہوکر میدان سے باھر آئے اگر چہ فرعون اور اس کے تمام درباری ان پر ایمان نہ لائے لیکن اس کے چند اھم نتائج ضرور برآمد ہوئے،جن میں سے ھر ایک اھم کامیابی شمار ہوتا ھے۔
۱۔بنی اسرائیل کا اپنے رھبر اور پیشوا پر عقیدہ مزید پختہ ہوگیا اور انھیں مزید تقویت مل گئی چنانچہ ایک دل اور ایک جان ہو کر ان کے گرد جمع ہوگئے کیونکہ انھوں نے سالھا سال کی بدبختی اور دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد اب اپنے اندر کسی آسمانی پیغمبر کو دیکھا تھا جو کہ ان کی ہدایت کابھی ضامن تھا اور ان کے انقلاب،آزادی اور کامیابی کا بھی رھبر تھا۔
۲۔موسیٰ علیہ السلام نے مصریوں اور قبطیوں تک کے درمیان ایک اھم مقام حاصل کرلیا۔ کچھ لوگ ان کی طرف مائل ہوگئے اور جو مائل نھیں ہوئے تھے وہ کم ازکم کم ان کی مخالفت سے ضرور گھبراتے تھے اور جناب موسیٰ علیہ السلام کی صدائے دعوت تمام مصر میں گونجنے لگی۔
۳۔سب سے بڑھ کر یہ کہ فرعون عوامی افکار اور اپنی جان کو لاحق خطرے سے بچاؤ کے لئے اپنے اندر ایسے شخص کے ساتھ مقابلے کی طاقت کھوچکا تھا جس کے ھاتھ میں اس قسم کا عصا اور منہ میں اس طرح کی گویا زبان تھی۔
مجموعی طور پر یہ امور موسیٰ علیہ السلام کے لئے اس حد تک زمین ھموار کرنے میں معاون ثابت ہوئے کہ مصریوں کے اندر ان کے پاؤں جم گئے اور انھوں نے کھل کر اپنا تبلیغی فریضہ انجام دیا اور اتمام حجت کی۔
قرآن میںفرعونیوں کے خلاف بنی اسرائیل کے قیام اور انقلاب کا ایک اور مرحلہ بیان کیا گیا ھے۔پھلی بات یہ ھے کہ خدا فرماتا ھے:”ھم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی کی کہ سرزمین مصر میں اپنی قوم کے لئے گھروں کا انتخاب کرو“۔[27]
”اور خصوصیت کے ساتھ ان گھروں کو ایک دوسرے کے قریب اور آمنے سامنے بناؤ[28]
پھر روحانی طور پر اپنی خود سازی اور اصلاح کرو”اور نماز قائم کرو۔“اس طرح سے اپنے نفس کو پاک اور قوی کرو۔[29]
اور اس لئے کہ خوف اور وحشت کے آثار ان کے دل سے نکل جائیں اور وہ روحانی و انقلابی قوت پالیں”مومنین کوبشارت دو“کامیابی اور خدا کے لطف و رحمت کی بشارت۔[30]
زیر بحث آیات کے مجموعی مطالعے سے معلوم ہوتا ھے کہ اس زمانے میں بنی اسرائیل منتشر،شکست خوردہ،وابستہ،طفیلی،آلودہ اور خوف زدہ گروہ کی شکل میں تھے،نہ ان کے پاس گھر تھے نہ کوئی مرکز تھا،نہ ان کے پاس معنوی اصلاح کا کوئی پروگرام تھا اور نہ ھی ان میں اس قدر شجاعت،عزم اور حوصلہ تھا جو شکست دینے والے انقلاب کے لئے ضروری ہوتا ھے۔لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی حضرت ھارون علیہ السلام کو حکم ملاکہ وہ بنی اسرائیل کی مرکزیت کے لئے خصوصاً روحانی حوالے سے چند امور پر مشتمل پروگرام شروع کریں۔
۱۔مکان تعمیر کریں اور اپنے مکانات فرعونیوں سے الگ بنائیں۔ اس میں متعدد فائدے تھے۔
ایک یہ کہ سرزمین مصر میں ان کے مکانات ہوں گے تو وہ اس کا دفاع زیادہ لگاؤ سے کریں گے۔
دوسرا یہ کہ قبطیوں کے گھروں میں طفیلی زندگی گزارنے کے بجائے وہ اپنی ایک مستقل زندگی شروع کرسکیں گے۔
تیسرا یہ کہ انکے معاملات اور تدابیر کے راز دشمنوں کے ھاتھ نھیں لگیں گے۔
۲۔اپنے گھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے اور قریب قریب بنائیں،بنی اسرائیل کی مرکزیت کے لئے یہ ایک موثر کام تھا اس طرح سے وہ اجتماعی مسائل پر مل کر غور فکر کرسکتے تھے اور مذھبیمراسم کے حوالے سے جمع ہوکر اپنی آزادی کے لئے ضروری پروگرام بنا سکتے تھے۔
۳۔عبادت کی طرف متوجہ ہوں،خصوصاً نماز کی طرف کہ جو انسان کو بندوں کی بندگی سے جدا کرتی ھے اور اس کا تعلق تمام قدرتوں کے خالق سے قائم کردیتی ھے۔ اس کے دل اور روح کو گناہ کی آلودگی سے
پاک کرتی ھے اپنے آپ پر بھروسہ کرنے کا احساس زندہ کرتی ھے اورقدرت پروردگار کا سھارا لے کر انسانی جسم میں ایک تازہ روح پھونک دیتی ھے۔
۴۔ایک رھبر کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا گیا ھے کہ وہ بنی اسرائیل کی روحوں میں موجود طویل غلامی اور ذلت کے دور کا خوف ووحشت نکال باھر پھینکیں اور حتمی فتح ونصرت،کامیابی اور پروردگار کے لطف وکرم کی بشارت دے کر مومنین کے ارادے کو مضبوط کریں اور ان میں شھامت و شجاعت کی پرورش کریں۔
اس روش کو کئی سال گزر گئے اور اس دوران میں موسیٰ علیہ السلام نے اپنے منطقی دلائل کے ساتھ ساتھ انھیں کئی معجزے بھی دکھائے ۔
ھم نے انھیں باھر نکال دیا
جب موسیٰ علیہ السلام ان لوگوں پر اتمام حجت کرچکے اور مومنین ومنکرین کی صفیں ایک دوسرے سے جدا ہوگئیں تو موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے کوچ کرنے کا حکم دے دیا گیا، چنانچہ قرآن نے اس کی اسطرح منظر کشی کی۔
سب سے پھلے فرمایا گیاھے:”ھم نے موسیٰ پر وحی کی کہ راتوںرات میرے بندوں کو(مصر سے باھر)نکال کرلے جاؤ،کیونکہ وہ تمھارا پیچھا کرنے والے ھیں“۔[31]
موسیٰ علیہ السلام نے اس حکم کی تعمیل کی اور دشمن کی نگاہوں سے بچ کر بنی اسرائیل کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے بعد کوچ کا حکم دیا اور حکم خدا کے مطابق رات کو خصوصی طور پر منتخب کیا تاکہ یہ منصوبہ صحیح صورت میں تکمیل کو پہنچے۔
لیکن ظاھر ھے کہ اتنی بڑی تعداد کی روانگی ایسی چیز نھیں تھی جو زیادہ دیر تک چھپی رہ جاتی۔ جاسوسوں نے جلد ھی اس کی رپورٹ فرعون کو دے دی اور جیسا کہ قرآن کہتا ھے:” فرعون نے اپنے کارندے مختلف شھروں میں روانہ کردیئے تا کہ فوج جمع کریں“۔[32]
البتہ اس زمانے کے حالات کے مطابق فرعون کا پیغام تمام شھروں میں پہنچانے کے لئے کافی وقت کی ضرورت تھی لیکن نزدیک کے شھروں میں یہ اطلاع بہت جلد پہنچ گئی اور پھلے سے تیار شدہ لشکر فوراً حرکت میں آگئے اور مقدمة الجیش اور حملہ آور لشکر کی تشکیل کی گئی اور دوسرے لشکر بھی آہستہ آہستہ ان سے آملتے رھے۔
ساتھ ھی لوگوں کے حوصلے بلند رکھنے اور نفسیاتی اثر قائم رکھنے کے لئے اس نے حکم دیا کہ اس بات کا اعلان کردیا جائے کہ”وہ تو ایک چھوٹا سا گروہ ھے“۔ [33] (تعداد کے لحاظ سے بھی کم اور طاقت کے لحاظ سے بھی کم)۔
لہٰذا اس چھوٹے سے کمزور گروہ کے مقابلے میں ھم کامیاب ہوجائیں گے گھبرانے کی کوئی بات نھیں۔کیونکہ طاقت اور قوت ھمارے پاس زیادہ ھے لہٰذا فتح بھی ھماری ھی ہوگی۔
فرعون نے یہ بھی کھا:” آخر ھم کس حد تک برداشت کریں اور کب تک ان سرکش غلاموں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرتے رھیں؟انھوں نے تو ھمیں غصہ دلایا ھے“۔[34]
آخر کل مصر کے کھیتوں کی کون آبپاشی کرے گا؟ھمارے گھر کون بنائے گا؟اس وسیع و عریض مملکت کا کون لوگ بوجھ اٹھائیں گے؟اور ھماری نوکری کون کرے گا؟
اس کے علاوہ” ھمیں ان لوگوں کی سازشو ںسے خطرہ ھے(خواہ وہ یھاں رھیں یا کھیں اور چلے جائیں)اور ھم ان سے مقابلہ کے لئے مکمل طور پر آمادہ اور اچھی طرح ہوشیار ھیں“۔[35]
پھر قرآن پاک فرعونیوں کے انجام کا ذکر کرتا ھے اور اجمالی طور پر ان کی حکومت کے زوال اور بنی اسرائیل کے اقتدار کو بیان کرتے ہوئے کہتا ھے:”ھم نے انھیں سر سبز باغات اور پانی سے لبریز چشموں سے باھر نکال دیا“۔[36]خزانوں،خوبصورت محلات اور آرام و آسائش کے مقامات سے بھی نکال دیا۔
ھاں ھاں!!ھم نے ایسا ھی کیا اور بنی اسرائیل کو بغیر کسی مشقت کے یہ سب کچھ دےدیا اور انھیں فرعون والوں کا وارث بنادیا۔[37]
فرعونیوں کا درناک انجام
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی داستان کا آخری حصہ پیش کیا گیا ھے کہ فرعون اور فرعون والے کیونکر غرق ہوئے اور بنی اسرائیل نے کس طرح نجات پائی؟ جیسا کہ ھم گزشتہ میں پڑھ چکے ھیں کہ فرعون نے اپنے کارندوں کو مصر کے مختلف شھروں میں بھیج دیا تاکہ وہ بڑی تعداد میں لشکر اور افرادی قوت جمع کرسکیں چنانچہ انھوں نے ایسا ھی کیا اور مفسرین کی تصریح کے مطابق فرعون نے چھ لاکھ کا لشکر مقدمہ الجیش کی صورت میں بھیج دیا اور خود دس لاکھ کے لشکر کے ساتھ ان کے پیچھے پیچھے چل دیا ۔!!
ساری رات بڑی تیزی کے ساتھ چلتے رھے اورطلوع آفتاب کے ساتھ ھی انھوں نے موسیٰ علیہ السلام کے لشکر کو پالیا، چنانچہ اس سلسلے کی پھلی آیت میں فرمایا گیا ھے : فرعونیووں نے ان کا تعاقب کیا اور طلوع آفتاب کے وقت انھیں پالیا۔
”جب دونوں گروہوں کا آمناسامنا ہوا تو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کہنے لگے اب تو ھم فرعون والوں کے نرغے میں آگئے ھیں اور بچ نکلنے کی کوئی راہ نظر نھیں آتی “۔ [38]
ھمارے سامنے دریا اور اس کی ٹھاٹھیں مارتی موجیں ھیں، ھمارے پیچھے خونخوارمسلح لشکر کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ھے لشکر بھی ایسے لوگوں کا ھے جو ھم سے سخت ناراض اور غصے سے بھرے ہوئے ھیں، جنھوں نے اپنی خونخواری کا ثبوت ایک طویل عرصے تک ھمارے معصوم بچوں کو قتل کرکے دیا ھے اور خود فرعون بھی بہت بڑا مغرور،ظالم اور خونخوار شخص ھے لہٰذا وہ فوراً ھمارا محاصرہ کرکے ھمیں موت کے گھاٹ اتاردیں گے یاقیدی بنا کر تشدد کے ذریعے ھمیں واپس لے جائیں گے قرائن سے بھی ایسا ھی معلوم ہورھا تھا ۔
اپنے عصا کو دریا پر ماردو
اس مقام پر بنی اسرائیل پر کرب و بے چینی کی حالت طاری ہوگئی اور ان کا ایک ایک لمحہ کرب واضطراب میں گزر نے لگا یہ لمحات ان کے لئے زبردست تلخ تھے شاید بہت سے لوگوں کا ایما ن بھی متزلزل ہوچکا تھا اور بڑی حدتک ان کے حوصلے پست ہوچکے تھے ۔
لیکن جناب موسیٰ علیہ السلام حسب سابق نھایت ھی مطمئن اور پر سکون تھے انھیں یقین تھا کہ بنی اسرائیل کی نجات اورسرکش فرعونیوں کی تباھی کے بارے میں خدا کا فیصلہ اٹل ھے اور وعدہ یقینی ھے ۔
لہٰذا انھوں نے مکمل اطمینان اور بھرپور اعتمادکے ساتھ بنی اسرائیل کی وحشت زدہ قوم کی طرف منہ کرکے کھا: ”ایسی کوئی بات نھیں وہ ھم پر کبھی غالب نھیں آسکیں گے کیونکہ میرا خدا میرے ساتھ ھے اور وہ بہت جلدی مجھے ہدایت کرے گا “۔[39]
اسی موقع پر شاید بعض لوگوں نے موسیٰ کی باتو ں کو سن تو لیا لیکن انھیں پھر بھی یقین نھیں آرھا تھا اور وہ اسی طرح زندگی کے آخری لمحات کے انتظار میں تھے کہ خدا کا آخری حکم صادر ہوا، قرآن کہتا ھے :” ھم نے فوراً موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ اپنے عصا کودریا پرمارو“۔[40]
وھی عصاجو ایک دن تو ڈرانے کی علامت تھا اور آج رحمت اور نجات کی نشانی ۔
موسیٰ علیہ السلام نے تعمیل حکم کی اور عصا فوراًدریاپر دے مارا تو اچانک ایک عجیب وغریب منظر دیکھنے میں آیا جس سے بنی اسرائیل کی آنکھیں چمک اٹھیں اور ان کے دلو ں میں مسرت کی ایک لھردوڑگئی، ناگھانی طور پر دریا پھٹ گیا، پانی کے کئی ٹکڑے بن گئے اور ھر ٹکڑا ایک عظیم پھاڑ کی مانند بن گیا اور ان کے درمیان میں راستے بن گئے۔ [41]
بھرحال جس کا فرمان ھر چیز پر جاری اور نافذ ھے اگر پانی میں طغیانی آتی ھے تو اس کے حکم سے اور اگر طوفانوں میں حرکت آتی ھے تو اس کے امر سے ، وہ خدا کہ :
نقش ہستی نقشی ازایوان اوست
آب وبادوخاک سرگردان اوست
اسی نے دریا کی موجوں کو حکم دیا امواج دریا نے اس حکم کو فورا ًقبول کیاایک دوسرے پر جمع پرہوگئیں اور ان کے درمیان کئی راستے بن گئے اور بنی اسرائیل کے ھر گروہ نے ایک ایک راستہ اختیار کرلیا ۔
فرعون اور اس کے ساتھی یہ منظر دیکھ کر حیران وششد ررہ گئے،اس قدر واضح اور آشکار معجزہ دیکھنے کے باوجود تکبر اور غرور کی سواری سے نھیں اترے، انھوں نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا تعاقب جاری رکھا اور اپنے آخری انجام کی طرف آگے بڑھتے رھے جیسا کہ قرآن فرماتاھے :”اور وھاںپر دوسرے لوگوں کو بھی ھم نے نزدیک کردیا“۔
اس طرح فرعونی لشکر دریائی راستوں پر چل پڑے اور وہ لوگ اپنے ان پرانے غلاموں کے پیچھے دوڑتے رھے جنھوں نے اب اس غلامی کی زنجیریں توڑدی تھیں لیکن انھیں یہ معلوم نھیں تھا کہ یہ ان کی زندگی کے آخری لمحات ھیں اور ابھی عذاب کا حکم جاری ہونے والا ھے ۔
قرآن کہتا ھے :”ھم نے موسیٰ اور ان تمام لوگوں کو نجات دی جوان کے ساتھ تھے ۔“[42]
ٹھیک اس وقت جبکہ بنی اسرائیل کا آخری فرددریا سے نکل رھا تھا اور فرعونی لشکر کا آخری فرد اس میں داخل ہورھاتھا ھم نے پانی کو حکم دیا کہ اپنی پھلی حالت پر لوٹ آ،اچانک موجیں ٹھاٹھیں مارنے لگیں اور فرغون اور اس کے لشکر کو گھاس پھونس اور تنکوں کی طرح بھاکرلے گئیں اور صفحہ ہستی سے ان کانام ونشان تک مٹادیا ۔
قرآن نے ایک مختصرسی عبارت کے ساتھ یہ ماجرایوں بیان کیا ھے : پھر ھم نے دوسروں کو غرق کردیا۔“[43]
اے فرعون تیرا بدن لوگوں کے لئے عبرتناک ہوگا
بھر کیف یہ معاملہ چل رھا تھا ” یھاں تک کہ فرعون غرقآب ہونے لگا اور وہ عظیم دریائے نیل کی موجوں میں تنکے کی طرح غوطے کھانے لگا تو اس وقت غرور وتکبر اور جھالت وبے خبری کے پردے اس کی آنکھوں سے ہٹ گئے اور فطری نور توحید چمکنے لگا وہ پکاراٹھا :” میں ایمان لے آیا کہ اس کے سوا کوئی معبود نھیں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ھیں “۔[44]
کہنے لگا کہ نہ صرف میں اپنے دل سے ایمان لایا ہوں” بلکہ عملی طور پر بھی ایسے توانا پروردگار کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہوں“۔ [45]
درحقیقت جب حضرت موسیٰ کی پیشین گوئیاں یکے بعد دیگرے وقوع پذیر ہوئیں اور فرعون اس عظیم پیغمبر کی گفتگو کی صداقت سے آگاہ ہوا اور اس کی قدر ت نمائی کامشاہدہ کیا تو اس نے مجبوراً اظھار ایمان کیا، اسے امید تھی کہ جیسے ”بنی اسرائیل کے خدا“ نے انھیں کوہ پیکر موجوں سے سے نجات بخشی ھے اسے بھی نجات دے گا، لہٰذا وہ کہنے لگامیں اسی بنی اسرائیل کے خدا پر ایمان لایا ہوں، لیکن ظاھر ھے کہ ایسا ایمان جو نزول بلا اور موت کے چنگل میں گرفتار ہونے کے وقت ظاھر کیا جائے، در حقیقت ایک قسم کا اضطراری ایمان ھے، جس کا اظھار سب مجرم اور گناہگار کرتے ھیں، ایسے ایمان کی کوئی قدر و قیمت نھیں ہوتی، اور نہ یہ حسن نیت اور صدق ِگفتار کی دلیل ہوسکتا ھے۔
اسی بنا پر خدا وندعالم نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:” تو اب ایمان لایا ھے حالانکہ اس سے پھلے تو نافرمانی اورطغیان کرنے والوں ، مفسدین فی الارض اور تباہ کاروں کی صف میں تھا“۔ [46]
”لیکن آج ھم تیرے بدن کو موجوں سے بچالیں گے تاکہ تو آنے والوں کے لئے درس عبرت ہو، برسراقتدار مستکبرین کے لئے، تمام ظالموں اور مفسدوں کےلئے اور مستضعف گروہوں کے لئے بھی “
یہ کہ”بدن سے مراد یھاں کیا ھے ،اس سلسلے میں مفسرین میںاختلاف ھے ان میں سے اکثر کا نظریہ ھے کہ اس سے مراد فرعون کا بے جان جسم ھے کیونکہ اس ماحول کے لوگوں کے ذہن میں فرعون کی اس قدر عظمت تھی کہ اگر اس کے بدن کو پانی سے باھرنہ اچھالاجاتاتو بہت سے لوگ یقین ھی نہ کرتے کہ اس کا غرق ہونا بھی ممکن ھے اور ہوسکتا تھا کہ اس ماجرے کے بعد فرعون کی زندگی کے بارے میں افسانے تراش لئے جاتے ۔
یہ امر جاذب توجہ ھے کہ لغت میں لفظ ” بدن“ جیسا کہ راغب نے مفردات میں کھا ھے ” جسد عظیم“ کے معنی میں ھے اس سے معلوم ہوتاھے کہ بہت سے خوشحال لوگوں کی طرح کہ جنکی بڑی زرق برق افسانوی زندگی تھی وہ بڑا سخت اور چاک وچوبند تھا مگر بعض دوسرے افراد نے کھاھے کہ”بدن“ کا ایک معنی” زرہ“ بھی ھے یہ اس طرف اشارہ ھے کہ خدا نے فرعون کو اس زریں زرہ سمیت پانی سے باھر نکالاکہ جو اس کے بدن پر تھی تاکہ اس کے ذریعے پہچاناجائے اور کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہ رھے ۔
اب بھی مصر اور برطانیہ کے عجائب گھروں میں فرعونیوں کے مومیائی بد ن موجود ھیں کیا ان میںحضرت موسیٰ علیہ السلام کے ھم عصر فرعون کا بدن بھی ھے کہ جسے بعد میں حفاظت کے لئے مومیالیا گیا ہویا نھیں؟ اس سلسلے میں کوئی صحیح دلیل ھمارے پاس نھیں ھے ۔
بنی اسرائیل کی گذرگاہ
قرآن مجید میں بارھا اس بات کو دھرایا گیا ھے کہ موسیٰ علیہ السلام نے خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کو” بحر“ عبور کروایا اورچند مقامات پر”یم“ کا لفظ بھی آیا ھے ۔
اب سوال یہ ھے کہ یھاںپر ”یم“” بحر“ اور ” یم“ سے کیا مراد ھے آیایہ نیل (NILE RIYER) جیسے وسیع وعریض دریا کی طرف اشارہ ھے کہ سرزمین مصر کی تمام آبادی جس سے سیراب ہوتی تھی یا بحیرہ احمریعنی بحر قلزم (RID SEA)کی طرف اشارہ ھے ۔
موجودہ تو ریت اور بعض مفسرین کے انداز گفتگو سے معلوم ہوتاھے کہ بحیرہ احمر کی طرف اشارہ ھے لیکن ایسے قرائن موجود ھیں جن سے معلوم ہوتا ھے کہ اس سے مراد نیل کا عظیم ووسیع دریا ھے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بت سازی کی فرمائش
قرآن میں بنی اسرائیل کی سرگزشت کے ایک اور اھم حصہ کی طرف اشارہ کیا گیا ھے یہ واقعہ فرعونیوں پر ان کی فتحیابی کے بعد ہوا، اس واقعہ سے بت پرستی کی جانب ان کی توجہ ظاھر ہوتی ھے ۔
واقعہ یہ ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے جھگڑے سے نکل چکے تو ایک اور داخلی مصیبت شروع ہوگئی جو بنی اسرائیل کے جاھل ، سرکش اور فرعون اور فرعونیوں کے ساتھ جنگ کرنے سے بدر جھا سخت اور سنگین تر تھی اور ھر داخلی کشمکش کا یھی حال ہواکرتا ھے ۔قرآن میںفرمایاگیا ھے:” ھم نے بنی اسرائیل کو دریا (نیل) کے اس پار لگا دیا :“
لیکن ” انہوں نے راستے میں ایک قوم کو دیکھا جو اپنے بتوں کے گرد خضوع اور انکساری کے ساتھ اکٹھا تھے“ ۔[47]امت موسیٰ علیہ السلام کے جاھل افراد یہ منظر دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ فوراً حضرت موسیٰ کے پاس آئے اور ” وہ کہنے لگے اے موسیٰ! ھمارے واسطے بھی بالکل ویسا ھی معبود بنادو جیسا معبود ان لوگوں کا ھے“۔[48]حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کی اس جاھلانہ اور احمقانہ فرمائش سے بہت ناراض ہوئے ، آپ نے ان لوگوں سے کھا: ”تم لوگ جاھل وبے خبر قوم ہو“۔[49]
بنی اسرائیل میں ناشکر گزار افراد کی کثرت تھی،باوجود یکہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اتنے معجزے دیکھے، قدرت کے اتنے انعامات ان پر ہوئے، ان کا دشمن فرعون نابود ہوا ابھی کچھ عرصہ بھی نھیں گذرا تھا، وہ غرق کردیا گیا اور وہ سلامتی کے ساتھ دریا کو عبور کرگئے لیکن انہوں نے ان تمام باتوں کو یکسر بھلادیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بت سازی کا سوال کربیٹھے۔
ایک یہودی کو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا جواب
نہج البلاغہ میں ھے کہ ایک مرتبہ ایک یہودی نے حضرت امیرالمو منین علیہ السلام کے سامنے مسلمانوں پر اعتراض کیا:
”ابھی تمھارے نبی دفن بھی نہ ہونے پائے تھے کہ تم لوگوں نے اختلاف کردیا “۔
حضرت علی علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا :
ھم نے ان فرامین واقوال کے بارے میں اختلاف کیا ھے جو پیغمبر سے ھم تک پہنچے ھیں، پیغمبریا ان کی نبوت سے متعلق ھم نے کوئی اختلاف نھیں کیا (چہ جائیکہ الوھیت کے متعلق ھم نے کوئی بات کھی ہو)لیکن تم (یہودی) ابھی تمھارے پیر دریا کے پانی سے خشک نھیں ہونے پائے تھے کہ تم نے اپنے نبی (حضرت موسیٰ علیہ السلام) سے یہ کہہ دیا کہ ھمارے لئے ایک ایسا ھی معبود بنادو جس طرح کہ ان کے متعدد معبود ھیں، اور اس نبی نے تمھارے جواب میں تم سے کھا تھا کہ تم ایک ایسا گروہ ہوجو جھل کے دریا میں غوطہ زن ھے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی بات کی تکمیل کے لئے بنی اسرائیل سے کھا: ”اس بت پرست گروہ کو جو تم دیکھ رھے ہو ان کا انجام ھلاکت ھے اور ان کاھر کام باطل وبے بنیادھے “۔[50]
اس کے بعد مزید تاکید کے لئے فرمایا گیا ھے : ”آیا خدائے برحق کے علاوہ تمھارے لئے کوئی دوسرا معبود بنالوں، وھی خدا جس نے اھل جھان (ھمعصر لوگوں)پر تم کو فضیلت دی “۔[51]
اس کے بعد خداوند کریم اپنی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت کا ذکر فرماتا ھے جو اس نے بنی اسرائیل کوعطا فرمائی تھی تاکہ اس عظیم نعمت کا تصور کرکے ان میں شکر گزاراری کا جذبہ بیدار ہواور انھیں یہ احساس ہوکہ پرستش اور سجدے کا مستحق صرف خدائے یکتا ویگانہ ھے، اور اس بت کی کوئی دلیل نھیں پائی جاتی کہ جو بت بے نفع اور بے ضرر ھیں ان کے سامنے سر تعظیم جھکایا جائے ۔
پھلے ارشاد ہوتا ھے :” یاد کرو اس وقت کو جب کہ ھم نے تمھیں فرعون کے گروہ کے شرسے نجات دیدی، وہ لوگ تم کو مسلسل عذاب دیتے چلے آرھے تھے“۔[52]
اس کے بعد اس عذاب وایزارسانی کی تفصیل یوں بیان فرماتاھے:وہ تمھارے بیٹوں کو تو قتل کردیتے تھے اور تمھاری عورتوں لڑکیوں کو(خدمت اور کنیزی کے لئے) زندہ چھوڑدیتے تھے“ ۔[53]
بنی اسرائیل سر زمین مقدس کی طرف
قرآن میں اس کے بعد سرزمین مقدس میں بنی اسرائیل کے ورود کے بارے میں یوں بیان کیا گیا ھے:” موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کھا کہ تم سرزمین مقدس میں جسے خدا نے تمھارے لئے مقرر کیا ھے۔داخل ہوجاؤ، اس سلسلے میں مشکلات سے نہ ڈرو، فدا کاری سے منہ نہ موڑو اور اگر تم نے اس حکم سے پیٹھ پھیری تو خسارے میں رہوگے “۔[54]
ارض مقدسہ سے کیا مراد ھے اس، اس سلسلے میں مفسرین نے بہت کچھ کھا ھے، بعض بیت المقدس کہتے ھیں کچھ اردن یا فلسطین کانام لیتے ھیں اور بعض سرزمین طور سمجھتے ھیں، لیکن بعید نھیں کہ اس سے مراد منطقہ شامات ہو، جس میں تمام مذکورہ علاقے شامل ھیں ۔
کیونکہ تاریخ شاہد ھے کہ یہ سارا علاقہ انبیاء الٰھی کا گہوراہ، عظیم ادیان کے ظہور کی زمین اور طول تاریخ میں توحید، خدا پرستی اور تعلیمات انبیاء کی نشرواشاعت کا مرکزرھاھے۔
لہٰذا اسے سرزمین مقدس کھاگیا ھے اگرچہ بعض اوقات خاص بیت المقدس کو بھی ارض مقدس کھاجاتاھے۔
بنی اسرائیل نے اس حکم پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وھی جواب دیا جو ایسے موقع پر کمزور، بزدل اور جاھل لوگ دیا کرتے ھیں ۔
ایسے لوگ چاہتے ھیں کہ تمام کامیابیاں انھیں اتفاقا ًاور معجزانہ طور پر ھی حاصل ہوجائیں یعنی لقمہ بھی کوئی اٹھاکران کے منہ میں ڈال دے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے :” آپ جانتے ھیں کہ اس علاقے میں ایک جابر اور جنگجو گروہ رہتاھے جب تک وہ اسے خالی کرکے باھر نہ چلاجائے ھم تو اس علاقے میں قدم تک نھیں رکھیں گے اسی صورت میں ھم آپ کی اطاعت کریں گے اور سرزمین مقدس میں داخل ہوں گے “۔[55]
بنی اسرائیل کا یہ جواب اچھی طرح نشاندھی کرتا ھے کہ طویل فرعونی استعمارنے ان کی نسلوں پر کیسا اثر چھوڑا تھا لفظ” لن “ جود ائمی پر دلالت کرتا ھے اس سے ظاھر ہوتا ھے کہ وہ لوگ سرزمین مقدس کی آزادی کے لئے مقابلے سے کس قدر خوف زدہ تھے ۔
چاہئے تو یہ تھا کہ بنی اسرائیل سعی وکوشش کرتے، جھادو قربانی کے جذبے سے کام اور سرزمین مقدس پر قبضہ کرلیتے اگر فرض کریں کہ سنت الٰھی کے برخلاف بغیر کسی اقدام کے ان کے تمام دشمن معجزانہ طور پر نابود ہوجاتے اور بغیر کوئی تکلیف اٹھائے وہ وسیع علاقے کے وارث بن جاتے تو اس کانظام چلانے اور اس کی حفاظت میں بھی ناکام رہتے بغیر زحمت سے حاصل کی ہوئی چیز کی حفاظت سے انھیں کیا سروکار ہوسکتا تھا نہ وہ اس کے لئے تیار ہوتے اور نہ اھل ۔
جیسا کہ تواریخ سے ظاھر ہوتا ھے آیت میں قوم جبار سے مراد قوم ”عمالقہ“ ھے یہ لوگ سخت جان اور بلند قامت تھے یھاں تک کہ ان کی بلند قامت کے بارے میں بہت مبالغے ہوئے اور افسانے تراشے گئے اس سلسلے میں مضحکہ خیز باتیں گھڑی گئیں جن کے لئے کوئی عملی دلیل نھیں ھے ۔[56]
اس کے بعد قرآن کہتا ھے :”اس وقت اھل ایمان میں سے دوافراد ایسے تھے جن کے دل میں خوف خدا تھا اور اس بنا پر انھیں عظیم نعمتیں میسر تھیں ان میں استقامت وشجاعت بھی تھی ، وہ دور اندیش بھی تھے اور اجتماعی اور فوجی نقطہ نظر سے بھی بصیرت رکھتے تھے انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دفاعی تجویز کی حمایت کی اور بنی اسرائیل سے کہنے لگے : تم شھر کے دروازے سے داخل ہوجاؤ اور اگر تم داخل ہوگئے تو کامیاب ہوجاؤ گے “۔
لیکن ھر صورت میں تمھیں روح ایمان سے مدد حاصل کرنا چاہئے اور خدا پر بھروسہ کروتاکہ اس مقصد کو پالو ۔“[57]
اس بارے میں کہ یہ دو آدمی کون تھے ؟اکثر مفسرین نے لکھا ھے کہ وہ” یوشع بن نون“ اور” کالب بن یوفنا“(”یفنہ “بھی لکھتے ھیں ) تھے جو بنی اسرائیل کے نقیبوں میں سے تھے ۔
جب کامیاب ہو جاوٴ تو ھمیں بھی خبرکرنا
بنی اسرائیل نے یہ تجویز قبول نہ کی اور ضعف وکمزوری جوان کی روح پر قبضہ کرچکی تھی، کے باعث انھوں نے صراحت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کھا:” جب تک وہ لوگ اس سرزمین میں ھیں ھم ھرگز داخل نھیں ہوں گے، تم اور تمھارا پروردگار جس نے تم سے کامیابی کا وعدہ کیا ھے،جاؤ اور عمالقہ سے جنگ کرو اور جب کامیاب ہوجاؤ تو ھمیں بتادینا ھم یھیں بیٹھے ھیں۔ [58]
بنی اسرائیل نے اپنے پیغمبر کے ساتھ جسارت کی انتھاکردی تھی، کیونکہ پھلے تو انھوں نے لفظ ”لن“ اور” ابداً“ استعمال کرکے اپنی صریح مخالفت کا اظھار کیا اورپھر یہ کھا کہ تم اور تمھارا پروردگار جاؤ اور جنگ کرو، ھم تو یھاں بیٹھے ھیں ،انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے وعدوں کی، تحقیر کی یھاں تک کہ خدا کے ان دوبندوں کی تجویز کی بھی پرواہ نھیں کی اور شاید انھیں تو کوئی مختصر سا جواب تک نھیں دیا۔
یہ امر قابل توجہ ھے کہ موجودہ توریت سفر اعداد باب ۱۴میں بھی اس داستان کے بعض اھم حصے موجود ھیں ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام ان لوگوں سے بالکل مایوس ہوگئے اور انھوں نے دعا کے لئے ھاتھ اٹھا دیئے اور ان سے علیحدگی کے لئے یوں تقاضا کیا : ”پروردگارمیرا تو صرف اپنے آپ پر اور اپنے بھائی پر بس چلتا ھے : خدایا !ھمارے اور اس فاسق وسرکش گروہ میں جدائی ڈال دے“۔ [59]
بنی اسرائیل بیابان میں سرگرداں
آخرکار حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اور بنی اسرائیل اپنے ان برے اعمال کے انجام سے دوچار ہوئے خدا کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی ہوئی :”یہ لوگ اس مقدس سرزمین سے چالیس سال تک محروم رھیں گے جو طرح طرح کی مادی اورر وحانی نعمات سے مالامال ھے“۔[60]
علاوہ ازیں ان چالیس سالوں میں انھیں اس بیابان میں سرگرداں رہنا ہوگا اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا گیا ھے : ”اس قوم کے سرپر جو کچھ بھی آئے وہ صحیح ھے، ان کے اس انجام پر کبھی غمگین نہ ہونا “۔[61]
آخری جملہ شاید اس لئے ہو کہ جب بنی اسرائیل کے لئے یہ فرمان صادر ہوا کہ وہ چالیس سال تک سزا کے طور پر بیابان میں سرگرداںرھیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں جذبٴہ مھربانی پیدا ہوا ہو اور شاید انھوں نے درگاہ خداوندی میں ان کے لئے عفوودر گذر کی درخواست بھی کی ہوجیسا کہ موجودہ توریت میں بھی ھے۔
لیکن انھیں فوراً جواب دیا گیا کہ وہ اس سزا کے مستحق ھیں نہ کہ عفوودرگذرکے، کیونکہ جیسا کہ قرآن میں ھے کہ وہ فاسق اور سرکش لوگ تھے اور جو ایسے ہوں ان کے لئے یہ انجام حتمی ھے ۔
توجہ رھے کہ ان کے لئے چالیس سال کی یہ محرومیت انتقامی جذبے سے نہ تھی (جیسا کہ خدا کی طرف سے کوئی سزا بھی ایسی نھیں ہوتی بلکہ وہ یا اصلاح کے لئے ہوتی ھے اور یا عمل کا نتیجہ)درحقیقت اس کا ایک فلسفہ تھا اور وہ یہ کہ بنی اسرائیل ایک طویل عرصے تک فرعونی استعمار کی ضربیں جھیل چکے تھے،اس عرصے میں حقارت آمیز رسومات،اپنے مقام کی عدم شناخت اور احساسات ذلت کا شکار ہو چکے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم رھبر کی سر پرستی میں اس تھوڑے سے عرصے میں اپنی روح کو ان خامیوں سے پاک نھیں کرسکے تھے اور وہ ایک ھی جست میں افتخار،قدرت اور سربلندی کی نئی زندگی کے لئے تیار نھیں ہو پائے تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انھیں مقدس سرزمین کے حصول کے لئے جھاد آزادی کا جو حکم دیا تھا اس پر عمل نہ کرنے کے لئے انھوں نے جو کچھ کھا وہ اس حقیقت کی واضح دلیل ھے لہٰذا ضروری تھا کہ وہ ایک طویل مدت وسیع بیابانو ںمیں سرگرداں رھیں اور اس طرح ان کی ناتواں اور غلامانہ ذہنیت کی حامل موجودہ کمزور نسل آہستہ آہستہ ختم ہوجائے اور نئی نسل حریت و آزادی کے ماحول میں اورخدائی تعلیمات کی آغوش میں پروان چڑھے تاکہ وہ اس قسم کے جھاد کے لئے اقدام کرسکے او راس طرح سے اس سرزمین پر حق کی حکمرانی قائم ہو سکے۔
-----------
[1] سورہٴ مومن آیت ۲۶۔
[2] سورہٴ مومن آیت ۲۶۔
[3] سورہ مومن آیت ۲۷۔
[4] سورہ مومن آیت۲۸۔
[5] سورہ مومن آیت ۲۸۔
[6] سورہ مومن ۲۸۔
[7] سورہ مومن آیت ۲۸۔
[8] سورہ مومن آیت۲۹۔
[9] سورہ مومن آیت۲۹ ۔
[10] سورہ مومن آیت ۳۱۔
[11] سورہ مومن آیت ۳۱۔
[12] سورہ مومن آیت۳۱۔
[13] سورہ مومن آیت۳۲۔
[14] سورہ مومن آیت۴۵ ۔
[15] سورہ مومن آیت۳۷۔
[16] سورہ اعراف ۱۳۰۔
[17] سورہ اعراف ۱۳۱ ۔
[18] سورہ اعراف آیت ۱۳۲۔
[19] سورہٴ اعراف کی آیت ۱۳۳ میں ان بلاوٴں کا نام لیا گیا ھے ۔
[20] سورہ اعراف آیت ۱۳۳۔
[21] ملاحظہ ہو سفر خروج فصل ہفتم تا دھم توریت۔
[22] اعراف آیت ۱۳۴۔
[23] سورہٴ اعراف آیت ۱۳۵۔
[24] سورہٴ زخرف آیت ۵۱۔
[25] سورہٴ زخرف آیت ۵۲۔
[26] سورہٴ طہٰ آیت ۲۷۔
[27] سورہٴ یونس آیت۸۷۔
[28] سورہٴ یونس آیت۸۷۔
[29] سورہٴ یونس آیت۸۷۔
[30] سورہٴ یونس آیت ۸۷۔
[31] سورہٴ شعراء آیت ۵۲۔
[32] سورہٴ شعراء آیت۵۳۔
[33] سورہٴ شعراء آیت ۵۴۔
[34] سورہٴ شعراء آیت۵۵۔
[35] سورہٴ شعراء آیت ۵۶۔
[36] سورہٴ شعراء آیت۵۷تا۵۹۔
[37] سورہ ٴشعراء آیت ۵۹۔
آیا بنی اسرائیل نے مصر میں حکومت کی ھے؟
خدا وند عالم قرآن مجید میں فرماتا ھے کہ ھم نے بنی اسرائیل کو فرعون والوں کا وارث بنایا۔ اسی تعبیر کی بناء پر بعض مفسرین کی یہ رائے ھے کہ بنی اسرائیل کے افراد مصر کی طرف واپس لوٹ آئے اور زمام حکومت و اقتدار اپنے قبضے میں لے کر مدتوں وھاں حکومت کرتے رھے۔
آیات بالا کا ظاھری مفہوم بھی اسی تفسیر سے مناسبت رکھتا ھے۔
جبکہ بعض مفسرین کی رائے یہ ھے کہ وہ لوگ فرعونیوں کی ھلاکت کے بعد مقدس سرزمینوں کی طرف چلے گئے البتہ کچھ عرصے کے بعد مصر واپس آگئے اور وھاں پر اپنی حکومت تشکیل دی۔
تفسیر کے اسی حصے کے ساتھ موجودہ توریت کی فصول بھی مطابقت رکھتی ھیں۔
بعض دوسرے مفسرین کا خیال ھے کہ بنی اسرائیل دوحصوں میں بٹ گئے۔ایک گروہ مصر میں رہ گیا اور وھیں پر حکومت کی اور ایک گروہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ سر زمین مقدس کی طرف روانہ ہو گیا۔
یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ھے کہ بنی اسرائیل کے وارث ہونے سے مراد یہ ھے کہ انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد اور جناب حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں مصر کی وسیع و عریض سر زمین پر حکومت کی۔
لیکن اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ انقلابی پیغمبر تھے لہٰذا یہ بات بالکل بعید نظر آتی ھے کہ وہ ایسی سر زمین کو کلی طور پر خیر باد کہہ کر چلے جائیں جس کی حکومت مکمل طور پر انھیں کے قبضہ اور اختیارمیں آچکی ہو اور وہ وھاں کے بارے میں کسی قسم کا فیصلہ کئے بغیر بیابانوں کی طرف چل دیں خصوصاً جب کہ لاکھوں بنی اسرائیلی عرصہ دراز سے وھاں پر مقیم بھی تھے اور وھاں کے ماحول سے اچھی طرح واقف بھی تھے۔
بنابریں یہ کیفیت دوحال سے خالی نھیں یا تو تمام بنی اسرائیلی مصر میں واپس لوٹ آئے اور حکومت تشکیل دی،یا کچھ لوگ جناب موسیٰ علیہ السلام کے حکم کے مطابق وھیں رہ گئے تھے اور حکومت چلاتے رھے اس کے علاوہ فرعون او رفرعون والوں کے باھر نکال دینے او ربنی اسرائیل کو ان کا وارث بنادینے کا اور کوئی واضح مفہوم نھیں ہوگا۔
[38] سورہ شعراء آیت۶۱۔
[39] سورہ شعراء آیت ۶۲۔
[40] سورہ شعراء آیت۶۳ ۔
[41] سورہ شعراء آیت ۶۳۔
[42] سورہ شعراء آیت۶۵۔
[43] سورہ شعراء آیت ۶۶
[44] سورہ یونس آیت ۹۰۔
[45] سورہ یونس آیت ۹۰۔
[46] سورہ یونس آیت ۹۰۔
[47] سورہ اعراف آیت ۱۳۸۔
[48] سورہ اعراف آیت ۱۳۸۔
[49] سورہ اعراف ۱۳۸۔
[50] سورہ اعراف آیت ۱۳۹
[51] سورہ اعراف۱۴۰۔
[52] سورہ اعراف آیت ۱۴۱ ۔
[53] سورہ اعراف آیت ۱۴۱۔
[54] سورہ مائدہ آیت۲۱۔
[55] سورہ مائدہ آیت ۲۲۔vv
[56] خصوصاً ” عوج“ کے بارے میں خرافات سے معمور ایسی کھانیاں تاریخوں میں ملتی ھیں ۔اس سے معلوم ہوتا ھے کہ ایسے افسانے جن میں سے بعض اسلامی کتب میں بھی آگئے ھیں، دراصل بنی اسرائیل کے گھڑے ہوئے ھیں انھیں عام طورپر ” اسرائیلیات“کھا جاتا ھے اس کی دلیل یہ ھے کہ خود موجودہ توریت کے متن میں ایسے افسانے دکھائی دیتے ھیں ۔
[57] سورہ مائدہ آیت ۲۳۔
[58] سورہ مائدہ آیت۲۴۔
[59] سورہ مائدہ آیت۲۵۔
[60] سورہ مائدہ آیت۲۶۔
[61] سورہ مائدہ آیت۔