مشہور قول کے مطابق آپ امام حسین علیہ السلام کے بڑے بیٹے ہیں جو کربلا میں شہید ہو گئے۔ آپ کی والدہ گرامی لیلی بنت ابی مرّہ بن عروۃ بن مسعود ثقفی ہیں۔ بعض نے آپ کی والدہ کا نام آمنہ بتلایا ہے۔
آپ کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے۔ ابو الفرج کا کہنا ہے کہ آپ خلافت عثمان کے زمانے میں پیدا ہوئے لیکن سال ولادت ذکر نہیں کیا۔ صاحب اعیان الشیعہ نے آپ کا سن ولادت ۳۵ یا ۴۱ ہجری بیان کیا ہے اور علامہ مقرم نے آپ کی ولادت ۱۱ شعبان سن ۳۳ ہجری بیان کی ہے۔
تاریخ ولادت میں اختلاف ہونے کی وجہ سے شہادت کے وقت آپ کی عمر کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
ابن شہر آشوب لکھتے ہیں کہ آپ شہادت کے وقت اٹھارہ سال کے تھے اس کے بعد نقل کرتے ہیں کہ ۲۵ سال بھی آپ کی عمر بتائی گئی ہے۔ شیخ مفید علیہ الرحمہ نے اپ کی عمر مبارک انیس سال بیان کی ہے اور علامہ مقرم لکھتے ہیں کہ آپ کربلا میں شہادت کے وقت ۲۷ سال کے تھے۔
لیکن مشہور یہ ہے کہ جناب علی اکبر علیہ السلام امام سجاد علیہ السلام سے بڑے تھے بہت سارے مورخین نے آپ کا لقب الاکبر بیان کیا ہے۔ لیکن شیخ طوسی نے آپ کا لقب الاصغر بیان فرمایا ہے اور آپ کو امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں سے شمار کیا ہے۔
آپ کی کنیت ابو الحسن ہے اور محدث قمی کے بقول بعض روایات اور زیارت ناموں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ شادی شدہ تھے اور کچھ اولاد بھی رکھتے تھے۔
علی اکبر علیہ السلام شکل و صورت میں اور رفتار و کردار میں سب سے زیادہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مشابہ تھے آپ کے اخلاق اور چال چلن کو دیکھ کر لوگوں کو پیغمبر یاد آ جاتے تھے۔ اور جب بھی اہلبیت علیھم السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو جناب علی اکبر کا دیدار کرتے تھے۔
آپ عالم ، پرہیزکار، رشید اور شجاع جوان تھے اور انسانی کمالات اور اخلاقی صفات کے عظیم درجہ پر فائز تھے۔ آپ کے زیارت نامہ میں وارد ہوا ہے:
سلام ہو آپ پر اے صادق و پرہیزگار، اے پاک و پاکیزہ انسان، اے اللہ کے مقرب دوست، ۔۔۔کتنا عظیم ہے آپ کا مقام، اور کتنی عظمت سے آپ اس کی بارگاہ میں لوٹ آئے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا نے راہ حق میں آپ کی مجاہدت کی قدر دانی کی اور اجر و پاداش میں اضافہ کیا اور آپ کو بلند مقام عنایت فرمایا۔ اور بہشت کے اونچے درجات پر فائز فرمایا۔
جیسا کہ اس [خدا] نے پہلے سے آپ پر احسان کیا اور آپ کو اہلبیت میں سے قرار دیا کہ رجس اور پلیدی کو ان سے دور کرے اور انہیں ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک رکھے۔
علی اکبر علیہ السلام کربلا کی تحریک میں اپنے بابا کے قدم با قدم رہے۔ مقام قصر بنی مقاتل سے امام حسین علیہ السلام نے رات کے عالم میں حرکت کی۔ گھوڑے پر تھوڑی دیر کے لیے آپ کی آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر کے بعد آنکھ کھلی تو زبان پر کلمہ استرجاع [انا للہ و انا الیہ راجعون] جاری تھا۔
جناب علی اکبر علیہ السلام نے اس کا سبب پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی سوار یہ کہہ رہا تھا: یہ کاروان موت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ جناب علی اکبر نے پوچھا: بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں بیٹا۔ کہا:
جب ہم حق پر ہیں تو راہ خدا میں مرنے سے کوئی خوف نہیں ہے۔
مشہور ہے کہ بنی ہاشم میں سے پہلے میدان کارزار میں جانے والے جناب علی اکبر ہیں۔ جناب علی اکبر کا میدان میں جانا امام حسین علیہ السلام اور اہل حرم کے لیے بہت سخت تھا لیکن آپ کے جذبہ ایثار اور راہ اسلام میں فداکاری کا مظاہرہ میدان میں جائے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ جب جناب علی اکبر میدان کارزار کی طرف جا رہے تھے تو امام علیہ السلام مایوسی کی نگاہ سے آپ کو دیکھ رہے تھے اور آپ کے رخسار مبارک پر آنسوں کا سیلاب جاری تھا۔ اور فرمایا: بارالہا ! تو گواہ رہنا کہ میں نے ان لوگوں کی طرف اس جوان کو بھیجا ہے جو صورت میں، سیرت میں، رفتار میں، گفتار میں تیرے رسول کا شبیہ ہے ہم جب بھی تیرے پیغمبر کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو اس کے چہرے کا دیدار کرتے تھے۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام نے اس قوم کو بددعا کی اور فرمایا: پروردگارا زمین کی برکات ان سے چھین لے اور ان کی چند روزہ زندگی میں ان کے درمیان تفرقہ پیدا کر دے اور ان میں سے ہر ایک کو دوسرے کی جان پر ڈال دے۔ اور ان حکمرانوں کو ان سے راضی نہ کر۔ اس لیے کہ اس گروہ نے ہمیں دعوت دی کہ ہماری نصرت کریں لیکن ہمارے مقابلہ میں جنگ کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے عمر سعد کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے ابن سعد خدا تمہاری رشتہ داری کو ختم کر دے۔ اور تمہارے کام میں کامیابی نہ ہو اور ایسے کو تمہارے اوپر مسلط کرے جو بستر پر تمہارا سر کاٹ دے۔ جس طریقے سے تم نے ہمارے ساتھ رشتہ کو کاٹا ہے۔ اور ہمارے رسول خدا [ص] کے ساتھ رشتہ کی رعایت نہیں کی۔ اس کے بعد خوبصورت آواز میں اس آیت کی تلاوت فرمائی:
إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحاً وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ* ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
"بیشک اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم، اور آل عمران کو تمام عالمین پر منتخب کیا ہے۔ اس حال میں کہ یہ ایسی ذریت ہے جو بعض کی نسل میں سے بعض ہیں۔ اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔"
جناب علی اکبر علیہ السلام نے اپنے بابا سے اجازت طلب کی کہ اہل حرم کو الوداع کریں اور میدان کی طرف روانہ ہو جائیں [ مولا نے اجازت دی اہل حرم سے الوداع ہوئے تاریخ خاموش ہے کہ جناب علی اکبر بیبیوں سے کیسے رخصت ہوئے مگر میرا تصور یہ کہتا ہے کہ ایک کڑیل جوان کو مقتل میں جانے کے لیے ماوں بہنوں نے کیسے رخصت کیا ہو گا؟ جناب زینب نے اٹھارہ سال جسے اپنی آغوش میں پالا اسے کیسے رخصت کیا ہو گا۔ جناب لیلی نے بیٹے کی رخصتی کے وقت کیسے اسے باہوں میں لیا ہو گا اور کیسے بین کئے ہوں گے بہن سکینہ نے بھائی کو قتلگاہ بھیجتے ہوئے کیسے الوداع کیا ہوگا؟ یہ ایسا منظر ہے جسے الفاظ کے قالب میں بند نہیں کیا جا سکتا ہر باپ ماں اور بہن اس کا بخوبی تصور کر سکتے ہیں اور اپنے احساسات کے دائرے میں اس کی منظر کشی کر سکتے ہیں۔]
آخر کار جناب علی اکبر علیہ السلام خیموں سے رخصت ہوئے اور میدان کارزار میں روانہ ہوئے اس حال میں کہ یہ رجز پڑھ رہے تھے:
انَا عَلىُ بْنُ الحُسَيْنِ بْنِ عَلى نَحْنُ وَبِيْتُ اللَّهِ اوْلى بالنَّبِى
اطْعَنُكُمْ بالرُّمْحِ حَتَّى يَنْثَنى اضْرِبُكُمْ بالسَّيْفِ احْمى عَنْ ابى
ضَرْبَ غُلامٍ هاشِمِىٍّ عَرَبى وَاللَّهِ لا يَحْكُمُ فينَا ابْنُ الدَّعى
میں علی، حسین بن علی کا بیٹا ہوں خدا کی قسم ہم پیغمبر اسلام کے سب سے زیادہ نزدیک ہیں۔
اس قدر نیزہ سے تمہارے اوپر وار کروں گا کہ ٹیرا ہو جائے اور اس قدر تلوار سے تمہاری گردنیں ماروں گا کہ کند ہو جائے تاکہ اپنے بابا کا دفاع کر سکوں۔
ایسی تلوار چلاوں گا جیسی بنی ہاشم اور عرب کا جوان چلاتا ہے۔ خدا کی قسم اے ناپاک کے بیٹے تم ہمارے درمیان حکم نہیں کر سکتے۔
آپ نے اپنے شجاعانہ حملوں کے ساتھ دشمن کی صفوں کو چیر دیا اور ان کی چیخوں کو بلند کر دیا۔ نقل ہوا ہے کہ جناب علی اکبر نے سب سے پہلے حملہ میں ایک سو بیس دشمنوں کو ڈھیر کر دیا۔ اس کے بعد اس حال میں کہ زخموں سے چھننی تھے اپنے بابا کے پاس واپس آئے اور کہا: اے بابا پیاس ہلاک کئے جا رہی ہے اور اسلحہ کی سنگینی مجھے زحمت میں ڈالے ہے کیا پانی کی کوئی سبیل ہو سکتی ہے؟ تاکہ دشمن کے ساتھ مقابلہ کے لیے کچھ طاقت حاصل ہو جائے۔
امام علیہ السلام نے گریہ کیا اور فرمایا: بیٹا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، علی علیہ السلام اور تمہارے بابا پر بہت سخت ہے کہ آپ پکاریں اور ہم جواب نہ دے سکیں۔ آپ مدد چاہیں اور ہم مدد نہ کر سکیں۔ بیٹا اپنی زبان کو میری زبان میں دے دو [ کہا: بابا اس میں مجھ سے زیادہ کانٹے پڑے ہوئے ہیں] فرمایا: یہ انگوٹھی لے لو اور اسے اپنے منہ میں رکھ لو اور دشمن کی طرف واپس چلے جاو ۔ انشاء اللہ جلدی ہی آپ کے جد امجد جام کوثر سے سیراب کریں گے کہ جس کے بعد کبھی پیاسے نہیں ہو گے۔
جناب علی اکبر میدان کی طرف پلٹ گئے اور پھر رجز پڑھی جس کا مفہوم یہ ہے: جنگ کے حقائق آشکارا ہو گئے اس کے بعد سچے شاہد اور گواہ ظاہر ہوئے اس خدا کی قسم جو عرش کا پیدا کرنے والا ہے میں تمہارے لشکر سے دور نہیں ہوں گا جب تک کہ تلواریں غلاف میں نہ چلی جائیں۔
آپ نے سخت اور لاجواب جنگ کی اور اسّی لوگوں کو مزید ہلاک کر دیا اور آخر کار منقذ بن مرّہ عبدی کی کڑی ضربت کار آمد ثابت ہوئی دشمنوں نے اطراف میں حلقہ ڈال دیا اور تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
بعض روایات میں ہے کہ ضربت کھانے کے بعد آپ نے گھوڑے کی گردن میں ہاتھ ڈالا اور گھوڑا وحشت کا مارا ہوا آپ کو دشمن کے لشکر کی طرف لے گیا اور انہوں نے اپنی تلواروں سے آپ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
جناب علی اکبر علیہ السلام نے آخری لمحوں میں اپنے بابا کو آواز دیتے ہوا کہا: بابا جان یہ جد امجد رسول خدا [ص] ہیں جو جام کوثر لئے کھڑے ہیں کہ اس کے بعد اب مجھے پیاس نہیں لگے گی۔ اور کہا: بابا جان آپ بھی جلدی سے آئیے آپ کا جام بھی آپ کی انتظار میں ہے۔
آواز سنتے ہی امام علیہ السلام میدان کی طرف دوڑ پڑے اور جناب علی اکبر کے بدن کے کنارے بیٹھ گئے اپنا چہرہ آپ کے چہرے پر رکھا اور کہا: خدا نابود کرے اس قوم کو جس نے آپ کو قتل کیا۔ کس چیز نے حریم خدا اور پیغمبر کو توڑنے کی جرات دی ؟ اے بیٹا اب آپ کے بعد اف ہو اس دنیا پر۔
روایت میں نقل ہوا ہے کہ جناب زینب سلام اللہ علیھا گریہ و فغاں کے عالم میں یہ کہتی ہوئی آئیں: "اے میرے دل کے چین، اے میرے بھتیجے" اور اس ٹکڑے ٹکڑے بدن پر اپنے آپ کو گرا دیا لیکن امام حسین علیہ السلام نے اپنی بہن کو واپس خیموں میں لوٹا دیا۔
امام حسین علیہ السلام نے بنی ہاشم کے جوانوں کو بلایا اور فرمایا: علی اکبر کے بدن کو خیموں کی طرف لے چلو۔
اس سلسلے میں کہ جناب علی اکبر کی ماں جناب لیلی کربلا میں موجود تھیں یا نہیں تاریخ کی مشہور کتابوں میں اسکا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ صرف صاحب " ذخیرۃ الدارین" نے لکھا ہے کہ علی اکبر علیہ السلام کی ماں روز عاشور کو ان کے لیے دعا کر رہی تھیں۔
کتاب روضۃ الشھداء کی عبارتوں میں بھی یہ ملتا ہے کہ آپ کی والدہ کربلا میں موجود تھیں۔
امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت کے مطابق جناب علی اکبر علیہ السلام کی قبر امام حسین علیہ السلام کی قبر کے پائینتی طرف ہے۔
زیارت ناحیہ میں جناب علی اکبر علیہ السلام کی زیارت کا ایک فراز یہ ہیں:
«السَّلامُ عَلَيْكَ يا اوَّلَ قَتيلٍ مِنْ نَسْلِ خَيْرِ سَليلٍ مِنْ سُلالَةِ ابْراهيمِ الْخَليلِ عليه السلام»
سلام ہو آپ پر اے شہید اول، اولاد ابراہیم کی بہترین ذریت میں سے